دینِ اسلام میں بعض چیزوں کو کرنے کا انسان کو مکلف بنایا گیا ہے؛ جسے فقہاء کرام کی اصطلاح میں "مامورات" کہا جاتا ہے اوربعض چیزیں ایسی ہیں جن کے کرنے سے روکا گیا ہے، انہیں "منہیات" کہا جاتا ہے، جومامورات کے قبیل سے ہیں ان کے مختلف درجات ہیں؛ اسی طرح "منہیات" کے بھی چند درجے ہیں، ذیل میں ان سب کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے:
فرضِ اعتقادی
فرض اعتقادی وہ ہے جو دلیل قطعی سے ثابت ہو، اس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو، اس کا حکم یہ ہے کہ اس کا جاننا ضروری ہے اورقلب سے تصدیق کرنا اور اس پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے، اس کا منکر کافر ہے اور بلاعذر ایک بار بھی ترک کرنے والا فاسق ہے:
"تثبت بدلیل لاشبہۃ فیہ، وحکمہ اللزوم علما وتصدیقاً بالقلب، وعملاً بالبدن، یکفر جاحدہ ویفسق تارکہ بلاعذر"۔
(نورالانوار:۱۷۰)
فرضِ عملی
فرض عملی وہ ہے جس کا ثبوت دلیلِ قطعی سے تو نہ ہو مگر مجتہد کے پاس کوئی ایسی دلیلِ ظنی ہو جواپنی قوت کے لحاظ سے دلیل قطعی کے قریب قریب ہو، ایسی دلیل سے ثابت ہونے والے عمل کو فقہاء کرام کی اصطلاح میں فرض عملی کہا جاتا ہے۔
"إن المجتھد قد یقوی عندہ الدلیل الظنی حتی یصیر قریباً عندہ من القطعی فما ثبت بہ فرضاً عملیاً لأنہ یعامل معاملۃ الفرض"۔
(ردالمختار:۱/۱۷۰)
واجب
واجب وہ مامور بہ ہے جو دلیلِ ظنی سے ثابت ہو؛ یہی وجہ ہے کہ اس سے یقینی علم حاصل نہیں ہوتا ہے اور نہ اس کا منکر کافر ہوتا ہے؛ لیکن اس پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے اور اس کا تارک شرعاً فاسق کہلاتا ہے؛ چنانچہ ملاجیونؒ فرماتے ہیں:
"الواجب وھوماثبت بدلیل فیہ شبہۃ، وحکمہ اللزوم عملاً لاعلماً علی الیقین حتی لایکفر جاحدۃ ویفسق تارکہ"۔
(نورالانوار:۱۷۰)
سنتِ مؤکدہ
سنتِ مؤکدہ وہ عمل ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو، یا آپﷺ نے اس کام کے کرنے کی تاکید فرمائی ہو؛ مگرجانب ترک بالکل مسدود نہ کی ہو، اس کا ترک اساءت ہے اور کرنا ثواب اور ترک کی عادت بنالینے پر عذاب ہوگا؛ چنانچہ مفتی عمیم الاحسان صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"ومن السنن سنۃ ہدی ھی ماواظب علیہا النبیﷺ مع الترک أحیاناً علی سبیل العبادۃ ویقال لہ السنۃ المؤکدۃ"۔
(قواعدالفقہ:۳۲۸)
سنتِ غیرمؤکدہ
سنتِ غیرمؤکدہ وہ عمل ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ عادت کیا ہو، اس کو سنتِ غیرمؤکدہ کہتے ہیں اور اسی کو اصولی حضرات سنن زوائد بھی کہتے ہیں؛ چنانچہ علامہ شامیؒ فرماتے ہیں:
"فمعنی کون سنۃ الزوائد عادۃ أن النبیﷺ واظب علیہا حتی صارت عادۃ لہ ولم یترکھا إلاأحیاناً..... ولمالم تکن من مکملات الدین وشعائرہ سمیت سنۃ الزوائد بخلاف سنۃ الھدی"۔
(ردالمحتار:۱/۷۶)
ترجمہ:سنت زوائدکو سنن عادی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ؐ نے اس عمل پر مداومت کی ہو، حتح کہ وہ عادت کہ درجے میں ہوگیاہواور اسے کبھی کبھار ہی چھوڑا ہو اور یہ سنن چونکہ سنت ھدی کی طرح دین کے مکملات اوران کے شعائر کے قبیل سے نہیں ہیں اس لیے ان کو سنن زوائد کہتے ہیں۔
مستحب
مستحب وہ فعل ہے جو شریعت میں پسند کیا گیا ہو؛ خواہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہو یاکیا ہو یاعلماء کرام نے پسند کیا ہو، اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہ ہو۔
"المستحب مارغب فیہ الشارع ولم یوجبہ"۔
(قواعدالفقہ:۴۸۳)
ترجمہ:مستحب وہ عمل ہے جس کی ترغیب شارع نے دی ہو لیکن اسے ضروری قرار نہیں دیا ہو
"إن المستحب مااحبہ العلماء وہذا مااعتاد بہ النبی ﷺ "۔
(نورالانوار:۱۷۱)
ترجمہ: مستحب وہ عمل ہے جسے علماء بہتر سمجھتے ہوں اور یہ عمل عموماً وہی ہوتا ہے جس پر آپ کا عمل رہا ہو۔
حرام قطعی
حرام قطعی یہ فرض کا مقابل ہے، یعنی جس کی ممانعت دلیلِ قطعی سے ثابت ہو، جیسا کہ شراب کی حرمت، یہ دلیل قطعی سے ثابت ہے، اس کا ارتکاب کرنا گناہِ کبیرہ ہے اور حرام سے بچنا فرض اورباعثِ ثواب ہے؛ چنانچہ مولانا عبدالحئ فرنگی محلیؒ لکھتے ہیں:
"إن الحرام کشرب الخمر داخل فی الفرض بحسب الترک فإن ترکہ فرض لأن دلیل الحرمۃ قطعی"۔
(حاشیہ نورالانوار:۱۶۹)
مکروہِ تحریمی
مکروہِ تحریمی یہ واجب کا مقابل ہے یعنی وہ کام جس کی ممانعت دلیل ظنی سے ثابت ہو اس کے کرنے سے عبادت ناقص ہوجاتی ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اور بار بار اس کا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔
"فالمکروہ تحریماً نسبتہ إلی الحرام کنسبۃ الواجب إلی الفرض فیثبت بمایثبت بہ الواجب یعنی بظنی الثبوت ویاثم بارتکابہ کمایأثم بترک الواجب"۔
(ردالمختار:۱/۳۳۷)
اساءت
اساءت جس کا کرنا باعثِ ملامت ہے اور اس کا کرنے والا شرعاً مستحق عتاب ہوگا۔
"الاساءۃ مایوجب التضلیل واللوم یستحق فاعلہ بارتکابھا العتاب"۔
(ردالمختار:۱/۳۵۔ قواعد الفقہ:۱۶۹)
مکروہِ تنزیہی
مکروہ تنزیہی جس کا کرنا شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے؛ مگر نہ اس حد تک کہ اس پر عذاب کی وعید فرمائی ہو، وہ فعل شرعاً ناجائز نہیں ہوتا؛ البتہ اس سے بچنا اچھا ہے:
"المکروہ ہوماراجح الترک وإن کان إلی الحل اقرب تکون تنزیہۃ ومعنی القرب إلی الحل إنہ لایستحق فاعلہ العتاب بل یستحق تارکہ ادنی الثواب"۔
(قواعد الفقہ:۵۰۳)
ترجمہ: مکروہ تنزیہی وہ عمل ہےجس کا نہ کرنا راجح ہو اور وہ حلال امور کے قریب قریب ہوتا ہے،مطلب یہ ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والاعتاب کا مستحق نہیں ہوتا ہے؛ البتہ نہ انجام دینے والا کچھ نہ کچھ ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔
خلافِ اولیٰ
وہ فعل ہے جس کا نہ کرنا بہتر ہو؛ لیکن اگر کسی نے کرلیا تو کچھ مضائقہ اوراس پر عتاب بھی نہیں ہے۔
(ردالمختار:۱/۹۱)
فرضِ اعتقادی
فرض اعتقادی وہ ہے جو دلیل قطعی سے ثابت ہو، اس میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو، اس کا حکم یہ ہے کہ اس کا جاننا ضروری ہے اورقلب سے تصدیق کرنا اور اس پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے، اس کا منکر کافر ہے اور بلاعذر ایک بار بھی ترک کرنے والا فاسق ہے:
"تثبت بدلیل لاشبہۃ فیہ، وحکمہ اللزوم علما وتصدیقاً بالقلب، وعملاً بالبدن، یکفر جاحدہ ویفسق تارکہ بلاعذر"۔
(نورالانوار:۱۷۰)
فرضِ عملی
فرض عملی وہ ہے جس کا ثبوت دلیلِ قطعی سے تو نہ ہو مگر مجتہد کے پاس کوئی ایسی دلیلِ ظنی ہو جواپنی قوت کے لحاظ سے دلیل قطعی کے قریب قریب ہو، ایسی دلیل سے ثابت ہونے والے عمل کو فقہاء کرام کی اصطلاح میں فرض عملی کہا جاتا ہے۔
"إن المجتھد قد یقوی عندہ الدلیل الظنی حتی یصیر قریباً عندہ من القطعی فما ثبت بہ فرضاً عملیاً لأنہ یعامل معاملۃ الفرض"۔
(ردالمختار:۱/۱۷۰)
واجب
واجب وہ مامور بہ ہے جو دلیلِ ظنی سے ثابت ہو؛ یہی وجہ ہے کہ اس سے یقینی علم حاصل نہیں ہوتا ہے اور نہ اس کا منکر کافر ہوتا ہے؛ لیکن اس پر عمل کرنا لازم ہوتا ہے اور اس کا تارک شرعاً فاسق کہلاتا ہے؛ چنانچہ ملاجیونؒ فرماتے ہیں:
"الواجب وھوماثبت بدلیل فیہ شبہۃ، وحکمہ اللزوم عملاً لاعلماً علی الیقین حتی لایکفر جاحدۃ ویفسق تارکہ"۔
(نورالانوار:۱۷۰)
سنتِ مؤکدہ
سنتِ مؤکدہ وہ عمل ہے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو، یا آپﷺ نے اس کام کے کرنے کی تاکید فرمائی ہو؛ مگرجانب ترک بالکل مسدود نہ کی ہو، اس کا ترک اساءت ہے اور کرنا ثواب اور ترک کی عادت بنالینے پر عذاب ہوگا؛ چنانچہ مفتی عمیم الاحسان صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"ومن السنن سنۃ ہدی ھی ماواظب علیہا النبیﷺ مع الترک أحیاناً علی سبیل العبادۃ ویقال لہ السنۃ المؤکدۃ"۔
(قواعدالفقہ:۳۲۸)
سنتِ غیرمؤکدہ
سنتِ غیرمؤکدہ وہ عمل ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ عادت کیا ہو، اس کو سنتِ غیرمؤکدہ کہتے ہیں اور اسی کو اصولی حضرات سنن زوائد بھی کہتے ہیں؛ چنانچہ علامہ شامیؒ فرماتے ہیں:
"فمعنی کون سنۃ الزوائد عادۃ أن النبیﷺ واظب علیہا حتی صارت عادۃ لہ ولم یترکھا إلاأحیاناً..... ولمالم تکن من مکملات الدین وشعائرہ سمیت سنۃ الزوائد بخلاف سنۃ الھدی"۔
(ردالمحتار:۱/۷۶)
ترجمہ:سنت زوائدکو سنن عادی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نبی کریم ؐ نے اس عمل پر مداومت کی ہو، حتح کہ وہ عادت کہ درجے میں ہوگیاہواور اسے کبھی کبھار ہی چھوڑا ہو اور یہ سنن چونکہ سنت ھدی کی طرح دین کے مکملات اوران کے شعائر کے قبیل سے نہیں ہیں اس لیے ان کو سنن زوائد کہتے ہیں۔
مستحب
مستحب وہ فعل ہے جو شریعت میں پسند کیا گیا ہو؛ خواہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دی ہو یاکیا ہو یاعلماء کرام نے پسند کیا ہو، اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر کوئی گناہ نہ ہو۔
"المستحب مارغب فیہ الشارع ولم یوجبہ"۔
(قواعدالفقہ:۴۸۳)
ترجمہ:مستحب وہ عمل ہے جس کی ترغیب شارع نے دی ہو لیکن اسے ضروری قرار نہیں دیا ہو
"إن المستحب مااحبہ العلماء وہذا مااعتاد بہ النبی ﷺ "۔
(نورالانوار:۱۷۱)
ترجمہ: مستحب وہ عمل ہے جسے علماء بہتر سمجھتے ہوں اور یہ عمل عموماً وہی ہوتا ہے جس پر آپ کا عمل رہا ہو۔
حرام قطعی
حرام قطعی یہ فرض کا مقابل ہے، یعنی جس کی ممانعت دلیلِ قطعی سے ثابت ہو، جیسا کہ شراب کی حرمت، یہ دلیل قطعی سے ثابت ہے، اس کا ارتکاب کرنا گناہِ کبیرہ ہے اور حرام سے بچنا فرض اورباعثِ ثواب ہے؛ چنانچہ مولانا عبدالحئ فرنگی محلیؒ لکھتے ہیں:
"إن الحرام کشرب الخمر داخل فی الفرض بحسب الترک فإن ترکہ فرض لأن دلیل الحرمۃ قطعی"۔
(حاشیہ نورالانوار:۱۶۹)
مکروہِ تحریمی
مکروہِ تحریمی یہ واجب کا مقابل ہے یعنی وہ کام جس کی ممانعت دلیل ظنی سے ثابت ہو اس کے کرنے سے عبادت ناقص ہوجاتی ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اور بار بار اس کا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔
"فالمکروہ تحریماً نسبتہ إلی الحرام کنسبۃ الواجب إلی الفرض فیثبت بمایثبت بہ الواجب یعنی بظنی الثبوت ویاثم بارتکابہ کمایأثم بترک الواجب"۔
(ردالمختار:۱/۳۳۷)
اساءت
اساءت جس کا کرنا باعثِ ملامت ہے اور اس کا کرنے والا شرعاً مستحق عتاب ہوگا۔
"الاساءۃ مایوجب التضلیل واللوم یستحق فاعلہ بارتکابھا العتاب"۔
(ردالمختار:۱/۳۵۔ قواعد الفقہ:۱۶۹)
مکروہِ تنزیہی
مکروہ تنزیہی جس کا کرنا شریعت میں پسندیدہ نہیں ہے؛ مگر نہ اس حد تک کہ اس پر عذاب کی وعید فرمائی ہو، وہ فعل شرعاً ناجائز نہیں ہوتا؛ البتہ اس سے بچنا اچھا ہے:
"المکروہ ہوماراجح الترک وإن کان إلی الحل اقرب تکون تنزیہۃ ومعنی القرب إلی الحل إنہ لایستحق فاعلہ العتاب بل یستحق تارکہ ادنی الثواب"۔
(قواعد الفقہ:۵۰۳)
ترجمہ: مکروہ تنزیہی وہ عمل ہےجس کا نہ کرنا راجح ہو اور وہ حلال امور کے قریب قریب ہوتا ہے،مطلب یہ ہے کہ اس کا ارتکاب کرنے والاعتاب کا مستحق نہیں ہوتا ہے؛ البتہ نہ انجام دینے والا کچھ نہ کچھ ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔
خلافِ اولیٰ
وہ فعل ہے جس کا نہ کرنا بہتر ہو؛ لیکن اگر کسی نے کرلیا تو کچھ مضائقہ اوراس پر عتاب بھی نہیں ہے۔
(ردالمختار:۱/۹۱)
.....
( 1 ) فرض
وہ حکم جو ﷲ تعالٰی نے بندوں پر ضروری فرمایا ہو ؛ اور اس کا ثبوت ایسی مضبوط دلیل سے ہو کہ جس کی پختگی میں کسی قسم کا کوئی شک نہ ہو ؛ فرض کا انکار کرنے والا کافر اور چھوڑنے والا عذاب کا مستحق ہوتا ھے
============
============
فرض کی دو قسمیں ہیں
**********
(1) فرض عین:
**********
(1) فرض عین:
بندوں کے لئے ﷲ کا وہ حکم جس کا ادا کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ھے ؛ چند لوگوں کا ادا کرنا کافی نہ ہوگا جیسے پانچ وقت کی نمازیں
**************
( 4 ) فرض کفایہ :
**************
( 4 ) فرض کفایہ :
ﷲ کا وہ حکم جس کا ادا کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ھے ؛ لیکن چند لوگوں کا ادا کرنا بھی کافی ہو جائے گا ؛ جیسے نمازٍ جنازہ
************
************
( 2 ) واجب :
ﷲ کا وہ ضروری حکم
جو ایسی دلیل سے ثابت ہو جس کی پختگی میں شبہ ہو اس کے کرنے پر ثواب اور بلا عذر چھوڑنے پر گناہ ہوتا ھے ؛ لیکن اس کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا .
جو ایسی دلیل سے ثابت ہو جس کی پختگی میں شبہ ہو اس کے کرنے پر ثواب اور بلا عذر چھوڑنے پر گناہ ہوتا ھے ؛ لیکن اس کا انکار کرنے والا کافر نہیں ہوتا .
**************
( 3 ) سنت :
دین کا وہ حکم جو نبئی کریم صلیﷲعلیہ وسلم کی بات ۔ کام ۔ یا تائید سے ثابت ہو
**************
سنت کی دو قسمیں ہیں
( 1 ) سنت مؤکدہ:
**************
سنت کی دو قسمیں ہیں
( 1 ) سنت مؤکدہ:
حضور صلیﷲ علیہ وسلم کا وہ طریقہ جس کو آپ نے عبادت کے طریقہ پر ہمیشہ کیا ہو اور کبھی کبھی چھوڑ بھی دیا ہو
************
( 4 ) سنت غیر مؤکدہ:
************
( 4 ) سنت غیر مؤکدہ:
حضور صلیﷲعلیہ وسلم کا وہ کام جس کو آپ نے عبادت کے طریقہ پر نہ کیا ہو بلکہ عادت کے طریقہ پر کیا ہو اور چھوڑا بھی ہو
**********
(٤) مستحب:
**********
(٤) مستحب:
وہ کام جس کے کرنے کی حضور صلیﷲعلیہ وسلم نے ترغیب فرمائی ہو ؛ لیکن ضروری قرار نہ دیا ہو
**************
**************
( 5 ) مباح:
وہ کام جس کے کرنے پر کوئی ثواب نہ ہو اور چھوڑنے پر کوئی گناہ نہ ہو
***********
***********
( 6 ) حلال:
وہ کام جس کے کرنے کی قرآن وحدیث کی طرف سے اجازت ہو
**************
**************
( 7 ) حرام:
وہ کام جس کا کرنا شریعت میں جائز نہ ہو
**************
**************
( 8 ) مکروہ :
وہ کام جس کا نہ کرنا بہتر ہو
*************
مکروہ کی دو قسمیں ہیں:
(1) مکروہ تحریمی :
وہ کام جس کا کرنا تقریباً حرام ہو
*****
*****
(2) مکروہ تنزیہی:
وہ کام جس کا کرنا تقریباً حلال ہو
***********
***********
فقہ اسلامی کے بنیادی مآخذ کا تحقیقی جائزہ
(۱/۲)
از: مولانا محمد انس حسان
گورنمنٹ ڈگری کالج جہانیاں، پاکستان
”مآخذ“ سے وہ ذرائع مراد ہیں جن سے قانون اخذ کیاجاتا ہے، یا وہ مقامات ہیں جہاں سے قانون دلائل کے ساتھ حاصل کیے جاتے ہیں۔ قانون کی کتابوں میں ماخذ کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں:
$ماخذ صوری: قانون کا وہ ماخذ ہے جس کے ذریعے وہ اپنا جواز اور اثر حاصل کرتا ہے۔
$ماخذ مادی : قانون کا وہ ماخذ ہے جس سے قانون اپنا مواد حاصل کرتا ہے۔ (۱)
اصول فقہ کی کتب میں عمومی طور پر فقہ اسلامی کے مآخذ چار بیان کیے جاتے ہیں:
$ قرآن مجید $ سنت $ اجماع$ قیاس
صاحب نورالانوار کے نزدیک فقہ اسلامی کے بنیادی ماخذ تین ہیں:
الکتاب والسنة واجماع الامة (۲)
”کتاب(یعنی قرآن حکیم)، سنت اور امت کا اجماع(فقہ کے بنیادی ماخذ ہیں)“
نیز وہ قیاس کو ماخذ تو سمجھتے ہیں لیکن اس کو الگ ذکر کرتے ہیں اورفقہ کے بنیادی مآخذمیں اس کا شمار نہیں کرتے؛ اس لیے کہ ”قیاس“ ذریعہ اورآلہ کی حیثیت رکھتاہے۔
مولانا محمد تقی امینی (۱۹۲۷ء۔۱۹۹۱ء)کے نزدیک فقہ اسلامی کے مادی مآخذ عمومی حیثیت سے بارہ ہیں:
$قرآن حکیم $سنت $اجماع $قیاس $استحسان $استدلال $استصلاح$مسلَّمہ شخصیتوں کی آراء$تعامل$عرف وعادت $ماقبل کی شریعت $ملکی قانون
مولانا امینی کے نزدیک اصولِ فقہ کی کتابوں میں صراحتاً صرف پہلے چار کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ماخذ کو بعض میں داخل سمجھا گیا ہے۔ اور اختصار کے طور پر صرف چار کا ذکر کرکے ان کی تعبیر و توجیہ اس طرح کی گئی ہے کہ ان کے عموم میں بقیہ داخل ہوجاتے ہیں، مثلاً قیاس کے عموم میں استحسان ، استصلاح وغیرہ داخل ہیں۔ اجماع میں تعامل اور عرف وعادت داخل ہیں۔ ماقبل کی شریعت قرآن یا حدیث کے عموم میں آتی ہے۔ ملکی قانون تعامل میں شمار ہوسکتا ہے۔ رائیں اگر قیاس پر مبنی ہیں تو ان کا شمار قیاس میں ہوگا ورنہ وہ سماع پر محمول حدیث کے ذیل میں آجائیں گی۔ استدلال بھی قیاس کے قریب ہے۔ (۳) ذیل میں فقہ اسلامی کے بنیادی مآخذکا تعارف پیش کیاجاتا ہے۔
قرآن مجید
(فقہ اسلامی کا پہلا ماخذ)
قرآن مجید فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی؛چونکہ یہ سلسلہٴ ہدایت کا آخری ایڈیشن ہے؛ اس لیے اس کی جملہ تعلیمات و تفہیمات کا ہر زمانہ میں یکسانیت کے ساتھ پایاجانا لازمی تھا۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے حدود اربعہ بناکر اس کے خطوط متعین کردیے جائیں۔ قرآن مجید مختصر ہونے کے باوجود جامع مانع ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق واضح احکام موجود ہیں؛ لیکن ان احکامات کی حیثیت اصول کی ہے۔ قرآن نے ایسا نہیں کیا کہ ابتداء ہی سے احکامات سے متعلق تمام جزئیات بیان کردی ہوں؛ بلکہ اس میں تدریج کا طریقہ بروئے کار لایاگیا۔ اگر بالفرض ابتداء ہی میں ساری جزئیات بیان کردی جاتیں اور عملی شکل کے سارے خاکے تیار کردیے جاتے تو ایک تو اس کی دستوری پوزیشن باقی نہ رہتی، دوسری بڑی بات یہ ہوتی کہ اس کی دوامی اور عالمگیر حیثیت ختم ہوکر ساری تعلیم خاص زمانہ تک محدود ہوجاتی اور پھر اس میں جمود و تعطل پیدا ہوکر ارتقاء پذیر معاشرے کو سمونے اور اقتضاء و مصالح کو جذب کرنے کی ساری صلاحیت ختم ہوجاتیں(۴)
مثال کے طور پر قرآن مجید نے اس بات کی تو وضاحت کی ہے کہ حکومت اللہ کی نیابت و امانت ہوگی اور ہر مسلمان کے لیے شورائی بنیاد پر عدل و انصاف کے نظام کے قیام کو ممکن بنانا لازم ہوگا؛ لیکن یہ تفصیل نہیں بتائی کہ یہ نظام کس نوعیت کا ہوگا اور اس کی ہیئت ترکیبی کیا ہوگی؟ اسی طرح قرآن مجید نے ہر حرام اور حلال چیز کا فرداً فرداً ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حیات انسانی سے متعلق ہرجزوی معاملہ کو موضوعِ بحث بنایا؛ بلکہ اصول متعین کردیے۔ اب ان متعین اصولوں سے مطلوبہ نتائج اخذ کرنا اور ان کی علت تلاش کرکے حالات و زمانہ کے مطابق ان کی عملی تطبیق پیش کرنا اہل علم پر چھوڑ دیا۔ مولانا امینی اس حوالے سے اپنی ذاتی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”اس بارے میں فقہاء و صلحائے امت نے جزئیات کی تفاصیل بتاکر کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ سب اپنے اپنے زمانہ کے حالات کی مناسبت سے تھے اور آج بھی ہمیں حق ہے کہ ان جزئیات کی روشنی میں مقصد اور اصول کے پیش نظر اپنے زمانہ کے حالات و تقاضا کے مناسب طریقہٴ کار کی جزئیات مرتب کریں۔ اس مرتب شدہ جزئیات کی حیثیت بھی پہلی جزئیات کی طرح قطعی او ر دوامی نہ ہوگی؛ بلکہ معاشرہ کی حالت پر موقوف ہوگی اور اسی وقت تک باقی رہے گی؛ جب تک معاشرہ اجازت دے گا۔“ (۵)
فقہائے متاخرین میں سے علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے اور اس میں حالات و زمانہ کے مطابق فقہی جزئیات میں تبدیلی اور اس کی ضرورت پر بڑی جامع بحث فرمائی ہے۔ ذیل میں مولانا شامی رحمة اللہ علیہ کی اسی کتاب سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے:
”جاننا چاہیے کہ مسائلِ فقہ یا صریح نص سے ثابت ہوں گے (ان مسائل کو ہم نے پہلی فصل میں بیان کیا ہے) یا اجتہاد اور رائے سے ثابت ہوں گے۔ ان میں سے اکثر مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کو مجتہد نے اپنے زمانہ کے رواج کے موافق قائم کیاتھا۔ اس طرح کہ اگر وہ (دینی مجتہد) آج کے زمانہ میں موجود ہوتا تو اپنے ہی قول کے خلاف کہتا۔ اسی بنا پر اجتہاد کے شرائط میں لوگوں نے اس کو بھی شامل کیا ہے کہ مجتہد لوگوں کے رسم و رواج سے واقفیت رکھتا ہو؛ کیونکہ اکثر احکام زمانہ کے اختلاف سے بدل جاتے ہیں۔ بوجہ اس کے کہ رواج بدل گیا۔ یا کوئی نئی ضرورت پیدا ہوگئی یا زمانہ کے لوگ بدروش ہوگئے۔ اس صورت میں اگر وہ پہلا حکم باقی رہے تو اس سے لوگوں کو تکلیف اور ضرر پہنچے اور شریعت کے ان قواعد کی مخالفت زمانہ کے حالات کے موافق تھی؛ کیونکہ مشائخ کو یہ معلوم تھا کہ اگر آج خود مجتہد موجود ہوتا تو وہی کہتا جو انھوں کہا۔“(۶)
بہرحال ان فقہی احکامات کی جزئیات مرتب کرنے اور جدید مسائل کی عصری تطبیق کے حوالے سے فقہ اسلامی کے پہلے ماخذ یعنی قرآنِ کریم نے سات چیزوں کو اپنافقہی اصول قرار دیا ہے جن سے رہنمائی حاصل کرکے قرآنی منشاء کے مطابق ہر دور کے شرعی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ سات اصول درج ذیل ہیں:
$عدم حرج$قلت تکلیف $تدریج $نسخ $شانِ نزول
$حکمت و علت $عرب کی معاشرتی حالت
اگر عمومی طور پر قرآن ِ کریم کا جائزہ لیاجائے تو اس میں امت اسلامیہ کی نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت اور لحاظ کرتے ہوئے درج ذیل احکامات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
(۱) اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی ایسا حکم نہ دیاجائے جس میں ناقابلِ برداشت مشقت ہو۔
(۲)لوگوں کی رغبت اور میلان کے پیش نظر بعض ایسے احکام مقرر ہوئے جنہیں قومی عید کے طور پر منایا جائے اور ان میں جائز اور مباح حد تک خوشی منانے اور زیب و زینت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
(۳)طاعات کی ادائیگی میں طبعی رغبت اور میلان کو ملحوظ رکھا گیا اور ان تمام محرکات و دواعی کی اجازت دی گئی جو اس میں مددگار ثابت ہوں؛ بشرطیکہ ان میں کوئی قباحت نہ ہو۔
(۴)طبعی طور پر جن چیزوں سے قباحت ہوتی ہے یا طبعیت بار محسوس کرتی ہے اس کو ناپسند کیاگیا۔
(۵)حق و استقامت پر قائم رہنے کے لیے تعلیم و تعلم، امربالمعروف و نہی عن المنکر کو دوامی شکل دی گئی کہ طبیعت کو اسلامی مزاج کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملتی ہے۔
(۶)بعض احکام کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت کے دو درجے مقرر کیے گئے؛ تاکہ انسان اپنی سہولت کے پیشِ نظر جس کو چاہے اختیار کرے۔
(۷)بعض احکام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مختلف قسم کے عمل مذکور ہوئے اور حالات کے پیش نظر دونوں پر عمل کی گنجائش رکھی گئی۔
(۸)بعض برائیوں میں مادی نفع سے محروم کرنے کا حکم دیاگیا۔
احکام کے نفاذ میں تدریجی ارتقاء کو ملحوظ رکھاگیا، یعنی نہ ایک ہی وقت میں سارے احکام مسلط کیے گئے اور نہ ہی ساری برائیوں سے روکا گیا۔
(۹)تعمیری اصلاحات میں قومی کردار کی پختگی اور خامی کی رعایت کی گئی۔
(۱۰)نیکی کے بہت سے کاموں کی پوری تفصیل بیان کی گئی۔ اس کو انسانوں کی سمجھ پر نہیں چھوڑا گیا، ورنہ بڑی دشواری پیش آتی ۔
(۱۱)بعض احکام کے نفاذ میں حالات و مصالح کی رعایت کی گئی اور بعض میں اشخاص و مزاج کی۔ (۷)
چنانچہ قرآنِ کریم جو کہ فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے، اس سے ہمیں مندرجہ بالا اصولوں سے کافی رہنمائی ملتی ہے۔
سنت
(فقہ اسلامی کا دوسرا ماخذ)
فقہ اسلامی کا دوسرا ماخذ سنت ہے۔ سنت کے لغوی معنی راستہ اور طریقہٴ عمل کے ہیں۔ اصطلاح میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ صحابہٴ کرام کے اقوال و افعال بھی سنت میں داخل ہیں، جیسا کہ اصول کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے۔
اَلسُّنَّةُ تُطْلَقُ عَلٰی قَولِ الرَّسُولِ وَ فِعْلِہ وَسُکُوْتِہ وَعَلٰی أقْوَالِ الصَّحَابَةِ وَأفْعَالِہِمْ․(۸)
”سنت کا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور سکوت پر نیز صحابہٴ کرام کے اقوال و افعال پر ہوتا ہے۔“
صاحب کشف الاسرار لکھتے ہیں:
”سنت کا لفظ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال نیزطریقِ رسول و صحابہ کو شامل ہے۔“ (۹)
ڈاکٹر محمود احمدغازی کے مطابق:
”ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے نسبت رکھتی ہے، وہ حدیث ہے اور علم حدیث میں شامل ہے۔“ (۱۰)
فقہ اسلامی کو سمجھنے اور مسائل ِ حاضرہ کے استخراج کے حوالے سے سنت کوبنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ علماء و فقہاء نے تدوینِ فقہ کے حوالے سے سنت کی درج ذیل معلومات کا ہونا ضروری قرار دیا ہے:
$ناسخ و منسوخ $مجمل و مفسر$خاص و عام$محکم و متشابہہ
$احکامات کے درجے اور مراتب $ قرآن سے استدلال
$درایت و روایتِ حدیث کا علم
مولانا محمد تقی امینی رحمة اللہ علیہ سنت کے اس حصے کے بارے میں لکھتے ہیں، جس کا تعلق عام واقعات و مواعظ سے ہے:
”عام فقہاء کے خیال میں(کذا)قانون سازی کے لیے اس سے واقفیت ضروری نہیں ہے؛ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اجتماعی زندگی کو سمجھنے اور اس حیثیت سے قانون کا مقام متعین کرنے، نیز قانون کو موٴثر بنانے میں اس سے بڑی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اگر اس کو نظر انداز کرکے قانون کی تدوین عمل میں لائی جائے تو اس میں خشکی اور کرختگی ہوگی اور جذب و محبت کا عنصر کم ہوجائے گا جو اسلامی قانون کی جان ہے۔“ (۱۱)
اسی طرح سنت کی تشریحی و توضیحی حیثیت کی مختلف صورتوں کے حوالے سے مولانا امینی کا حاصلِ مطالعہ درج ذیل ہے:
(۱) قرآن حکیم میں جو آیتیں مجمل تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح فرمائی۔
(۲)جو مطلق تھیں ، موقع اور عمل کے لحاظ سے انھیں مقید فرمایا۔
(۳)جو مشکل تھیں، ان کی تفسیر بیان فرمائی۔
(۴)جو قرآنی احکام مجمل تھے یعنی جن کے عمل کی کیفیت ، اسباب و شرائط اور لوازم وغیرہ کی تفصیل نہ تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تفصیل بیان فرمائی؛ چنانچہ نماز اور زکوٰة وغیرہ کی جو تفصیلات ”سنت“ میں مذکور ہیں، وہ سب قرآنِ حکیم کی شرح اور وضاحت ہیں۔
(۵)قرآنی توضیحات کی روشنی میں بہت سے پیش آمدہ واقعات کا حکم بیان فرمایا،مثلاً حلت و حرمت کے باب میں جو احکام مذکور تھے، ان پر مشتبہ اور مشکوک چیزوں کو قیاس کیا جن کی تصریح قرآن حکیم میں نہ تھی۔
(۶)قرآنی اصول و مقاصد کے پیش نظر وقت اور محل کی مناسبت سے وسائل و ذرائع کا حکم بیان فرمایا۔
(۷)قرآنی تصریحات سے ایسے اصول مستنبط فرمائے جن سے نئے حالات و مسائل کو قیاس کرنے کی راہیں کھلیں۔
(۸)قرآنی احکام کے وجوہ و اسباب اور حکمت و مصلحت بیان فرمائی جس سے بہت سے اصول و کلیات مستنبط ہوئے۔
(۹)قرآنی ہدایات سے الٰہی حکمت اخذ کی، اس کے مقاصد دریافت فرمائے، پھر اسی روشنی میں شریعت کو انسان کی عملی زندگی سے ہم آہنگ بنایا۔
(۱۰)بحیثیت مجموعی زندگی ایسی گذاری کہ قرآنی زندگی کے لیے وہ مکمل تفسیر بنی۔“ (۱۲)
ایک فقیہ کسی بھی شرعی مسئلہ کے استخراج کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے اور قرآن کی آیاتِ احکام پر جو کہ کم و بیش 500کے قریب ہیں نظر دوڑاتا ہے، اگر اس مسئلہ کا حل قرآنِ مجید کی کسی آیت سے معلوم نہیں ہوتا تو پھر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے تلاش کرتا ہے؛ تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے۔سنت میں فقہی مسائل کے استخراج کی کئی مثالیں موجود ہیں:
(۱) قرآنِ کریم نے نماز، روزہ، زکوٰة، صدقات، حج اور اسی نوع کی دیگر عبادات کا حکم دیا ہے؛ لیکن چونکہ قرآنِ کریم کی مثال Text کی ہے اور اس کی شرح سنت سے معلوم ہوسکتی ہے تو اسی لیے ہمیں نماز کی ادائیگی، رکعت، وقت اور اسی طرح دیگر عبادات کی کافی حد تک تشریح سنت سے معلوم ہوگی؛ چنانچہ ان عبادات کی جزئیات تک رسائی سنت کا سہارا لیے بغیر ممکن نہیں۔
(۲)قرآن کریم میں ارشاد ہے: ﴿وَیَحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتُ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْحَبَائِثَ﴾(۱۳) یعنی پاک چیزیں تمہارے لیے حلال ہیں اور ناپاک چیزیں تمہارے لیے حرام ہیں۔ اب پاک و ناپاک چیزوں کی وضاحت کیسے معلوم ہوگی تو اس کے لیے سنت سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جانور کا گوشت حرام قرار دیا جو شکار کرکے کھاتا ہے تو اس سے حرام جانور کا تعین ہوگیا۔ اس کے علاوہ جو پرندہ کسی جانور کا شکار کرکے کھائے اسے بھی حرام قرار دیا اور اسی طرح پاک چیزوں کی تعیین بھی کردی۔
(۳)سنت اگر موجود نہ ہوتو قرآنِ کریم کی بہت سی آیات کا معنی لغت یا کسی دوسرے ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم میں اعتکاف کا تذکرہ آیا ہے؛ لیکن اعتکاف سے کیا مراد ہے؟ عاکف کس کو کہتے ہیں؟ قرآنِ کریم میں اس طرح کے سیکڑوں احکامات موجود ہیں، جن کی تعبیر و تشریح کے لیے سنت کی تعبیر و تشریح سامنے ہونا ازحد ضروری ہے۔
(۴)قرآن کریم میں تیمم کا ذکر آیا ہے؛ لیکن اس کی تفصیلات اور د یگر احکام کی فقہی تعبیر کے لیے سنت کا مطالعہ ضروری ہے۔
(۵)قرآن کریم کا اصول ہے: ﴿لاَ تَأکُلُو أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ الاَّ أنْ تَکُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ﴾ (۱۴)
یعنی ایک دوسرے کا مال غلط طریقہ سے مت کھاؤ ماسوائے اس صورت میں کہ آپس کی باہمی رضامندی سے تجارت اور لین دین ہو؛ چنانچہ اگر باہم رضامندی سے تجارت یا لین دین ہوتو وہ جائز ہے؛ لیکن اگر یہی عمل باطل طریقوں سے کیاجائے تو اس کی ممانعت کی گئی۔ اب یہ قرآن کا عام اصول ہے؛ لیکن اس کا انطباق کیسے ہوگا اور کن کن صورتوں میں ہوگا؟ اس حوالے سے بے شمار حدیثوں میں تشریحی نکات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر حدیث میں اس بیع سے منع کیاگیا ہے، جس میں کوئی ”مال“ بیچنے والے کے قبضے میں نہ ہو؛ تاکہ فساد سے بچا جاسکے۔(۱۵) چنانچہ اگر کوئی شخص درخت پر لگے کچے پھل کی بیع کرتا ہے یا پانی میں موجود مچھلیوں کی بیع کرتا ہے تو چونکہ اس میں یہ ممکن ہے کہ جتنے میں بیع ہوئی مال اس سے زیادہ یا کم نکلے تو اس صورت میں جھگڑے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا اسلام نے ایسی بیع کی اجازت نہیں دی؛ حالانکہ ظاہراً یہ بھی ایک تجارت ہے۔
(۶)قرآن حکیم میں ارشاد ہے: ﴿وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الأُخْتَیْنِ﴾(۱۶) یعنی دو بہنوں سے ایک وقت میں نکاح جائز نہیں ہے؛ لیکن حدیث نے اس کی مزید وضاحت کردی کہ پھوپھی اور بھتیجی سے بھی ایک وقت میں نکاح جائز نہیں؛ اسی طرح بھانجی اور خالہ سے بھی بیک وقت نکاح نہیں ہوسکتا۔
ان تمام مثالوں سے یہ سمجھنا کہ سنت کا کام محض یہی ہے کہ وہ قرآنی احکامات کی تشریح کردے تو یہ درست نہیں؛ بلکہ سنت کا کام براہِ راست احکام دینا بھی ہے اور اس پر عمل کرنا امت پر واجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جائز و ناجائز کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو ہمیں براہِ راست سنت سے معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر خیارِ شرط کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ یعنی ایک شخص اگر کوئی چیز خریدتا ہے اور بیچنے والے سے یہ شرط رکھتا ہے کہ اگر مجھے یہ چیز پسند نہ آئی تو تین دن تک میں اس بیع سے رجوع کرسکتا ہوں۔ اب یہ حکم براہِ راست قرآن کریم میں موجود نہیں؛ لیکن یہ اسلامی اصولِ بیع کا حصہ ہے اورفقہ حنفی کے مطابق اس پر عمل لازم ہے۔اسی طرح دیگر بہت سی مثالیں موجود ہیں جن سے سنت کا براہِ راست ماخذِ شریعت ہونا معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ اس سے کئی پیچیدگیوں سے چھٹکارا ملتا ہے اور کئی مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔
حوالہ جات
(۱) امینی ،محمد تقی ، فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۵۷۔ (۲) سکروڈوی ،جمیل احمد ، قوت الاخیار شرح نورالانوار، ج ۱، ص ۴۳۔ (۳) امینی ،محمد تقی ،فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۵۸۔ (۴) ایضاً، ص ۶۱۔ (۵) ایضاً، ص ۶۲۔ (۶) شامی ،علامہ، نثر العرف فی بناء بعض الاحکام العرف، ص ۱۸۔ (۷) امینی ،محمد تقی ،فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، ص ۹۳۔۹۲۔ (۸) ملا جیون، احمد بن سعید ، نور الانوار بحوالہ فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۹۴۔ (۹) حنفی ،عبدالعزیز، کشف الاسرار، ص ۳۵۹۔ (۱۰) غازی، محموداحمد، ڈاکٹر، محاضراتِ فقہ، ص ۲۰۔ (۱۱) امینی ،محمد تقی ،فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، ص ۱۰۸۔ (۱۲) ایضاً، ص ۱۰۰۔۹۹۔ (۱۳) الاعراف، آیت ۱۵۷۔ (۱۴) النساء، آیت ۲۹۔ (۱۵) چنانچہ اس حوالہ سے بخاری شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی آئی ہے کہ:”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی قسم کا غلہ خریدے تو جب تک اس پر پوری طرح قبضہ نہ کرلے اسے نہ بیچے۔“ (۱۶) النساء، آیت ۲۳۔
(۱/۲)
از: مولانا محمد انس حسان
گورنمنٹ ڈگری کالج جہانیاں، پاکستان
”مآخذ“ سے وہ ذرائع مراد ہیں جن سے قانون اخذ کیاجاتا ہے، یا وہ مقامات ہیں جہاں سے قانون دلائل کے ساتھ حاصل کیے جاتے ہیں۔ قانون کی کتابوں میں ماخذ کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں:
$ماخذ صوری: قانون کا وہ ماخذ ہے جس کے ذریعے وہ اپنا جواز اور اثر حاصل کرتا ہے۔
$ماخذ مادی : قانون کا وہ ماخذ ہے جس سے قانون اپنا مواد حاصل کرتا ہے۔ (۱)
اصول فقہ کی کتب میں عمومی طور پر فقہ اسلامی کے مآخذ چار بیان کیے جاتے ہیں:
$ قرآن مجید $ سنت $ اجماع$ قیاس
صاحب نورالانوار کے نزدیک فقہ اسلامی کے بنیادی ماخذ تین ہیں:
الکتاب والسنة واجماع الامة (۲)
”کتاب(یعنی قرآن حکیم)، سنت اور امت کا اجماع(فقہ کے بنیادی ماخذ ہیں)“
نیز وہ قیاس کو ماخذ تو سمجھتے ہیں لیکن اس کو الگ ذکر کرتے ہیں اورفقہ کے بنیادی مآخذمیں اس کا شمار نہیں کرتے؛ اس لیے کہ ”قیاس“ ذریعہ اورآلہ کی حیثیت رکھتاہے۔
مولانا محمد تقی امینی (۱۹۲۷ء۔۱۹۹۱ء)کے نزدیک فقہ اسلامی کے مادی مآخذ عمومی حیثیت سے بارہ ہیں:
$قرآن حکیم $سنت $اجماع $قیاس $استحسان $استدلال $استصلاح$مسلَّمہ شخصیتوں کی آراء$تعامل$عرف وعادت $ماقبل کی شریعت $ملکی قانون
مولانا امینی کے نزدیک اصولِ فقہ کی کتابوں میں صراحتاً صرف پہلے چار کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ماخذ کو بعض میں داخل سمجھا گیا ہے۔ اور اختصار کے طور پر صرف چار کا ذکر کرکے ان کی تعبیر و توجیہ اس طرح کی گئی ہے کہ ان کے عموم میں بقیہ داخل ہوجاتے ہیں، مثلاً قیاس کے عموم میں استحسان ، استصلاح وغیرہ داخل ہیں۔ اجماع میں تعامل اور عرف وعادت داخل ہیں۔ ماقبل کی شریعت قرآن یا حدیث کے عموم میں آتی ہے۔ ملکی قانون تعامل میں شمار ہوسکتا ہے۔ رائیں اگر قیاس پر مبنی ہیں تو ان کا شمار قیاس میں ہوگا ورنہ وہ سماع پر محمول حدیث کے ذیل میں آجائیں گی۔ استدلال بھی قیاس کے قریب ہے۔ (۳) ذیل میں فقہ اسلامی کے بنیادی مآخذکا تعارف پیش کیاجاتا ہے۔
قرآن مجید
(فقہ اسلامی کا پہلا ماخذ)
قرآن مجید فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی؛چونکہ یہ سلسلہٴ ہدایت کا آخری ایڈیشن ہے؛ اس لیے اس کی جملہ تعلیمات و تفہیمات کا ہر زمانہ میں یکسانیت کے ساتھ پایاجانا لازمی تھا۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے حدود اربعہ بناکر اس کے خطوط متعین کردیے جائیں۔ قرآن مجید مختصر ہونے کے باوجود جامع مانع ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق واضح احکام موجود ہیں؛ لیکن ان احکامات کی حیثیت اصول کی ہے۔ قرآن نے ایسا نہیں کیا کہ ابتداء ہی سے احکامات سے متعلق تمام جزئیات بیان کردی ہوں؛ بلکہ اس میں تدریج کا طریقہ بروئے کار لایاگیا۔ اگر بالفرض ابتداء ہی میں ساری جزئیات بیان کردی جاتیں اور عملی شکل کے سارے خاکے تیار کردیے جاتے تو ایک تو اس کی دستوری پوزیشن باقی نہ رہتی، دوسری بڑی بات یہ ہوتی کہ اس کی دوامی اور عالمگیر حیثیت ختم ہوکر ساری تعلیم خاص زمانہ تک محدود ہوجاتی اور پھر اس میں جمود و تعطل پیدا ہوکر ارتقاء پذیر معاشرے کو سمونے اور اقتضاء و مصالح کو جذب کرنے کی ساری صلاحیت ختم ہوجاتیں(۴)
مثال کے طور پر قرآن مجید نے اس بات کی تو وضاحت کی ہے کہ حکومت اللہ کی نیابت و امانت ہوگی اور ہر مسلمان کے لیے شورائی بنیاد پر عدل و انصاف کے نظام کے قیام کو ممکن بنانا لازم ہوگا؛ لیکن یہ تفصیل نہیں بتائی کہ یہ نظام کس نوعیت کا ہوگا اور اس کی ہیئت ترکیبی کیا ہوگی؟ اسی طرح قرآن مجید نے ہر حرام اور حلال چیز کا فرداً فرداً ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حیات انسانی سے متعلق ہرجزوی معاملہ کو موضوعِ بحث بنایا؛ بلکہ اصول متعین کردیے۔ اب ان متعین اصولوں سے مطلوبہ نتائج اخذ کرنا اور ان کی علت تلاش کرکے حالات و زمانہ کے مطابق ان کی عملی تطبیق پیش کرنا اہل علم پر چھوڑ دیا۔ مولانا امینی اس حوالے سے اپنی ذاتی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”اس بارے میں فقہاء و صلحائے امت نے جزئیات کی تفاصیل بتاکر کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ سب اپنے اپنے زمانہ کے حالات کی مناسبت سے تھے اور آج بھی ہمیں حق ہے کہ ان جزئیات کی روشنی میں مقصد اور اصول کے پیش نظر اپنے زمانہ کے حالات و تقاضا کے مناسب طریقہٴ کار کی جزئیات مرتب کریں۔ اس مرتب شدہ جزئیات کی حیثیت بھی پہلی جزئیات کی طرح قطعی او ر دوامی نہ ہوگی؛ بلکہ معاشرہ کی حالت پر موقوف ہوگی اور اسی وقت تک باقی رہے گی؛ جب تک معاشرہ اجازت دے گا۔“ (۵)
فقہائے متاخرین میں سے علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے اور اس میں حالات و زمانہ کے مطابق فقہی جزئیات میں تبدیلی اور اس کی ضرورت پر بڑی جامع بحث فرمائی ہے۔ ذیل میں مولانا شامی رحمة اللہ علیہ کی اسی کتاب سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے:
”جاننا چاہیے کہ مسائلِ فقہ یا صریح نص سے ثابت ہوں گے (ان مسائل کو ہم نے پہلی فصل میں بیان کیا ہے) یا اجتہاد اور رائے سے ثابت ہوں گے۔ ان میں سے اکثر مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کو مجتہد نے اپنے زمانہ کے رواج کے موافق قائم کیاتھا۔ اس طرح کہ اگر وہ (دینی مجتہد) آج کے زمانہ میں موجود ہوتا تو اپنے ہی قول کے خلاف کہتا۔ اسی بنا پر اجتہاد کے شرائط میں لوگوں نے اس کو بھی شامل کیا ہے کہ مجتہد لوگوں کے رسم و رواج سے واقفیت رکھتا ہو؛ کیونکہ اکثر احکام زمانہ کے اختلاف سے بدل جاتے ہیں۔ بوجہ اس کے کہ رواج بدل گیا۔ یا کوئی نئی ضرورت پیدا ہوگئی یا زمانہ کے لوگ بدروش ہوگئے۔ اس صورت میں اگر وہ پہلا حکم باقی رہے تو اس سے لوگوں کو تکلیف اور ضرر پہنچے اور شریعت کے ان قواعد کی مخالفت زمانہ کے حالات کے موافق تھی؛ کیونکہ مشائخ کو یہ معلوم تھا کہ اگر آج خود مجتہد موجود ہوتا تو وہی کہتا جو انھوں کہا۔“(۶)
بہرحال ان فقہی احکامات کی جزئیات مرتب کرنے اور جدید مسائل کی عصری تطبیق کے حوالے سے فقہ اسلامی کے پہلے ماخذ یعنی قرآنِ کریم نے سات چیزوں کو اپنافقہی اصول قرار دیا ہے جن سے رہنمائی حاصل کرکے قرآنی منشاء کے مطابق ہر دور کے شرعی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ سات اصول درج ذیل ہیں:
$عدم حرج$قلت تکلیف $تدریج $نسخ $شانِ نزول
$حکمت و علت $عرب کی معاشرتی حالت
اگر عمومی طور پر قرآن ِ کریم کا جائزہ لیاجائے تو اس میں امت اسلامیہ کی نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت اور لحاظ کرتے ہوئے درج ذیل احکامات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
(۱) اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی ایسا حکم نہ دیاجائے جس میں ناقابلِ برداشت مشقت ہو۔
(۲)لوگوں کی رغبت اور میلان کے پیش نظر بعض ایسے احکام مقرر ہوئے جنہیں قومی عید کے طور پر منایا جائے اور ان میں جائز اور مباح حد تک خوشی منانے اور زیب و زینت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔
(۳)طاعات کی ادائیگی میں طبعی رغبت اور میلان کو ملحوظ رکھا گیا اور ان تمام محرکات و دواعی کی اجازت دی گئی جو اس میں مددگار ثابت ہوں؛ بشرطیکہ ان میں کوئی قباحت نہ ہو۔
(۴)طبعی طور پر جن چیزوں سے قباحت ہوتی ہے یا طبعیت بار محسوس کرتی ہے اس کو ناپسند کیاگیا۔
(۵)حق و استقامت پر قائم رہنے کے لیے تعلیم و تعلم، امربالمعروف و نہی عن المنکر کو دوامی شکل دی گئی کہ طبیعت کو اسلامی مزاج کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملتی ہے۔
(۶)بعض احکام کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت کے دو درجے مقرر کیے گئے؛ تاکہ انسان اپنی سہولت کے پیشِ نظر جس کو چاہے اختیار کرے۔
(۷)بعض احکام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مختلف قسم کے عمل مذکور ہوئے اور حالات کے پیش نظر دونوں پر عمل کی گنجائش رکھی گئی۔
(۸)بعض برائیوں میں مادی نفع سے محروم کرنے کا حکم دیاگیا۔
احکام کے نفاذ میں تدریجی ارتقاء کو ملحوظ رکھاگیا، یعنی نہ ایک ہی وقت میں سارے احکام مسلط کیے گئے اور نہ ہی ساری برائیوں سے روکا گیا۔
(۹)تعمیری اصلاحات میں قومی کردار کی پختگی اور خامی کی رعایت کی گئی۔
(۱۰)نیکی کے بہت سے کاموں کی پوری تفصیل بیان کی گئی۔ اس کو انسانوں کی سمجھ پر نہیں چھوڑا گیا، ورنہ بڑی دشواری پیش آتی ۔
(۱۱)بعض احکام کے نفاذ میں حالات و مصالح کی رعایت کی گئی اور بعض میں اشخاص و مزاج کی۔ (۷)
چنانچہ قرآنِ کریم جو کہ فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے، اس سے ہمیں مندرجہ بالا اصولوں سے کافی رہنمائی ملتی ہے۔
سنت
(فقہ اسلامی کا دوسرا ماخذ)
فقہ اسلامی کا دوسرا ماخذ سنت ہے۔ سنت کے لغوی معنی راستہ اور طریقہٴ عمل کے ہیں۔ اصطلاح میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ صحابہٴ کرام کے اقوال و افعال بھی سنت میں داخل ہیں، جیسا کہ اصول کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے۔
اَلسُّنَّةُ تُطْلَقُ عَلٰی قَولِ الرَّسُولِ وَ فِعْلِہ وَسُکُوْتِہ وَعَلٰی أقْوَالِ الصَّحَابَةِ وَأفْعَالِہِمْ․(۸)
”سنت کا اطلاق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور سکوت پر نیز صحابہٴ کرام کے اقوال و افعال پر ہوتا ہے۔“
صاحب کشف الاسرار لکھتے ہیں:
”سنت کا لفظ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال نیزطریقِ رسول و صحابہ کو شامل ہے۔“ (۹)
ڈاکٹر محمود احمدغازی کے مطابق:
”ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے نسبت رکھتی ہے، وہ حدیث ہے اور علم حدیث میں شامل ہے۔“ (۱۰)
فقہ اسلامی کو سمجھنے اور مسائل ِ حاضرہ کے استخراج کے حوالے سے سنت کوبنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ علماء و فقہاء نے تدوینِ فقہ کے حوالے سے سنت کی درج ذیل معلومات کا ہونا ضروری قرار دیا ہے:
$ناسخ و منسوخ $مجمل و مفسر$خاص و عام$محکم و متشابہہ
$احکامات کے درجے اور مراتب $ قرآن سے استدلال
$درایت و روایتِ حدیث کا علم
مولانا محمد تقی امینی رحمة اللہ علیہ سنت کے اس حصے کے بارے میں لکھتے ہیں، جس کا تعلق عام واقعات و مواعظ سے ہے:
”عام فقہاء کے خیال میں(کذا)قانون سازی کے لیے اس سے واقفیت ضروری نہیں ہے؛ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اجتماعی زندگی کو سمجھنے اور اس حیثیت سے قانون کا مقام متعین کرنے، نیز قانون کو موٴثر بنانے میں اس سے بڑی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اگر اس کو نظر انداز کرکے قانون کی تدوین عمل میں لائی جائے تو اس میں خشکی اور کرختگی ہوگی اور جذب و محبت کا عنصر کم ہوجائے گا جو اسلامی قانون کی جان ہے۔“ (۱۱)
اسی طرح سنت کی تشریحی و توضیحی حیثیت کی مختلف صورتوں کے حوالے سے مولانا امینی کا حاصلِ مطالعہ درج ذیل ہے:
(۱) قرآن حکیم میں جو آیتیں مجمل تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح فرمائی۔
(۲)جو مطلق تھیں ، موقع اور عمل کے لحاظ سے انھیں مقید فرمایا۔
(۳)جو مشکل تھیں، ان کی تفسیر بیان فرمائی۔
(۴)جو قرآنی احکام مجمل تھے یعنی جن کے عمل کی کیفیت ، اسباب و شرائط اور لوازم وغیرہ کی تفصیل نہ تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تفصیل بیان فرمائی؛ چنانچہ نماز اور زکوٰة وغیرہ کی جو تفصیلات ”سنت“ میں مذکور ہیں، وہ سب قرآنِ حکیم کی شرح اور وضاحت ہیں۔
(۵)قرآنی توضیحات کی روشنی میں بہت سے پیش آمدہ واقعات کا حکم بیان فرمایا،مثلاً حلت و حرمت کے باب میں جو احکام مذکور تھے، ان پر مشتبہ اور مشکوک چیزوں کو قیاس کیا جن کی تصریح قرآن حکیم میں نہ تھی۔
(۶)قرآنی اصول و مقاصد کے پیش نظر وقت اور محل کی مناسبت سے وسائل و ذرائع کا حکم بیان فرمایا۔
(۷)قرآنی تصریحات سے ایسے اصول مستنبط فرمائے جن سے نئے حالات و مسائل کو قیاس کرنے کی راہیں کھلیں۔
(۸)قرآنی احکام کے وجوہ و اسباب اور حکمت و مصلحت بیان فرمائی جس سے بہت سے اصول و کلیات مستنبط ہوئے۔
(۹)قرآنی ہدایات سے الٰہی حکمت اخذ کی، اس کے مقاصد دریافت فرمائے، پھر اسی روشنی میں شریعت کو انسان کی عملی زندگی سے ہم آہنگ بنایا۔
(۱۰)بحیثیت مجموعی زندگی ایسی گذاری کہ قرآنی زندگی کے لیے وہ مکمل تفسیر بنی۔“ (۱۲)
ایک فقیہ کسی بھی شرعی مسئلہ کے استخراج کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے اور قرآن کی آیاتِ احکام پر جو کہ کم و بیش 500کے قریب ہیں نظر دوڑاتا ہے، اگر اس مسئلہ کا حل قرآنِ مجید کی کسی آیت سے معلوم نہیں ہوتا تو پھر سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے تلاش کرتا ہے؛ تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے۔سنت میں فقہی مسائل کے استخراج کی کئی مثالیں موجود ہیں:
(۱) قرآنِ کریم نے نماز، روزہ، زکوٰة، صدقات، حج اور اسی نوع کی دیگر عبادات کا حکم دیا ہے؛ لیکن چونکہ قرآنِ کریم کی مثال Text کی ہے اور اس کی شرح سنت سے معلوم ہوسکتی ہے تو اسی لیے ہمیں نماز کی ادائیگی، رکعت، وقت اور اسی طرح دیگر عبادات کی کافی حد تک تشریح سنت سے معلوم ہوگی؛ چنانچہ ان عبادات کی جزئیات تک رسائی سنت کا سہارا لیے بغیر ممکن نہیں۔
(۲)قرآن کریم میں ارشاد ہے: ﴿وَیَحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبَاتُ وَیُحَرِّمُ عَلَیْہِمُ الْحَبَائِثَ﴾(۱۳) یعنی پاک چیزیں تمہارے لیے حلال ہیں اور ناپاک چیزیں تمہارے لیے حرام ہیں۔ اب پاک و ناپاک چیزوں کی وضاحت کیسے معلوم ہوگی تو اس کے لیے سنت سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جانور کا گوشت حرام قرار دیا جو شکار کرکے کھاتا ہے تو اس سے حرام جانور کا تعین ہوگیا۔ اس کے علاوہ جو پرندہ کسی جانور کا شکار کرکے کھائے اسے بھی حرام قرار دیا اور اسی طرح پاک چیزوں کی تعیین بھی کردی۔
(۳)سنت اگر موجود نہ ہوتو قرآنِ کریم کی بہت سی آیات کا معنی لغت یا کسی دوسرے ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم میں اعتکاف کا تذکرہ آیا ہے؛ لیکن اعتکاف سے کیا مراد ہے؟ عاکف کس کو کہتے ہیں؟ قرآنِ کریم میں اس طرح کے سیکڑوں احکامات موجود ہیں، جن کی تعبیر و تشریح کے لیے سنت کی تعبیر و تشریح سامنے ہونا ازحد ضروری ہے۔
(۴)قرآن کریم میں تیمم کا ذکر آیا ہے؛ لیکن اس کی تفصیلات اور د یگر احکام کی فقہی تعبیر کے لیے سنت کا مطالعہ ضروری ہے۔
(۵)قرآن کریم کا اصول ہے: ﴿لاَ تَأکُلُو أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ الاَّ أنْ تَکُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ﴾ (۱۴)
یعنی ایک دوسرے کا مال غلط طریقہ سے مت کھاؤ ماسوائے اس صورت میں کہ آپس کی باہمی رضامندی سے تجارت اور لین دین ہو؛ چنانچہ اگر باہم رضامندی سے تجارت یا لین دین ہوتو وہ جائز ہے؛ لیکن اگر یہی عمل باطل طریقوں سے کیاجائے تو اس کی ممانعت کی گئی۔ اب یہ قرآن کا عام اصول ہے؛ لیکن اس کا انطباق کیسے ہوگا اور کن کن صورتوں میں ہوگا؟ اس حوالے سے بے شمار حدیثوں میں تشریحی نکات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر حدیث میں اس بیع سے منع کیاگیا ہے، جس میں کوئی ”مال“ بیچنے والے کے قبضے میں نہ ہو؛ تاکہ فساد سے بچا جاسکے۔(۱۵) چنانچہ اگر کوئی شخص درخت پر لگے کچے پھل کی بیع کرتا ہے یا پانی میں موجود مچھلیوں کی بیع کرتا ہے تو چونکہ اس میں یہ ممکن ہے کہ جتنے میں بیع ہوئی مال اس سے زیادہ یا کم نکلے تو اس صورت میں جھگڑے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا اسلام نے ایسی بیع کی اجازت نہیں دی؛ حالانکہ ظاہراً یہ بھی ایک تجارت ہے۔
(۶)قرآن حکیم میں ارشاد ہے: ﴿وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الأُخْتَیْنِ﴾(۱۶) یعنی دو بہنوں سے ایک وقت میں نکاح جائز نہیں ہے؛ لیکن حدیث نے اس کی مزید وضاحت کردی کہ پھوپھی اور بھتیجی سے بھی ایک وقت میں نکاح جائز نہیں؛ اسی طرح بھانجی اور خالہ سے بھی بیک وقت نکاح نہیں ہوسکتا۔
ان تمام مثالوں سے یہ سمجھنا کہ سنت کا کام محض یہی ہے کہ وہ قرآنی احکامات کی تشریح کردے تو یہ درست نہیں؛ بلکہ سنت کا کام براہِ راست احکام دینا بھی ہے اور اس پر عمل کرنا امت پر واجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جائز و ناجائز کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو ہمیں براہِ راست سنت سے معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر خیارِ شرط کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ یعنی ایک شخص اگر کوئی چیز خریدتا ہے اور بیچنے والے سے یہ شرط رکھتا ہے کہ اگر مجھے یہ چیز پسند نہ آئی تو تین دن تک میں اس بیع سے رجوع کرسکتا ہوں۔ اب یہ حکم براہِ راست قرآن کریم میں موجود نہیں؛ لیکن یہ اسلامی اصولِ بیع کا حصہ ہے اورفقہ حنفی کے مطابق اس پر عمل لازم ہے۔اسی طرح دیگر بہت سی مثالیں موجود ہیں جن سے سنت کا براہِ راست ماخذِ شریعت ہونا معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ اس سے کئی پیچیدگیوں سے چھٹکارا ملتا ہے اور کئی مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔
حوالہ جات
(۱) امینی ،محمد تقی ، فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۵۷۔ (۲) سکروڈوی ،جمیل احمد ، قوت الاخیار شرح نورالانوار، ج ۱، ص ۴۳۔ (۳) امینی ،محمد تقی ،فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۵۸۔ (۴) ایضاً، ص ۶۱۔ (۵) ایضاً، ص ۶۲۔ (۶) شامی ،علامہ، نثر العرف فی بناء بعض الاحکام العرف، ص ۱۸۔ (۷) امینی ،محمد تقی ،فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، ص ۹۳۔۹۲۔ (۸) ملا جیون، احمد بن سعید ، نور الانوار بحوالہ فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۹۴۔ (۹) حنفی ،عبدالعزیز، کشف الاسرار، ص ۳۵۹۔ (۱۰) غازی، محموداحمد، ڈاکٹر، محاضراتِ فقہ، ص ۲۰۔ (۱۱) امینی ،محمد تقی ،فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، ص ۱۰۸۔ (۱۲) ایضاً، ص ۱۰۰۔۹۹۔ (۱۳) الاعراف، آیت ۱۵۷۔ (۱۴) النساء، آیت ۲۹۔ (۱۵) چنانچہ اس حوالہ سے بخاری شریف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی آئی ہے کہ:”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی قسم کا غلہ خریدے تو جب تک اس پر پوری طرح قبضہ نہ کرلے اسے نہ بیچے۔“ (۱۶) النساء، آیت ۲۳۔
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/02-Fiqh%20Islami%20K%20Makhaz_MDU_11_Nov_15.htm
...........
فقہ اسلامی کے بنیادی مآخذ کا تحقیقی جائزہ
(۲/۲)
از: مولانا محمد انس حسان
گورنمنٹ ڈگری کالج جہانیاں، پاکستان
اجماع
(فقہ اسلامی کا تیسرا ماخذ)
فقہ اسلامی کا تیسرا ماخذ اجماع ہے۔ اجماع کا لغوی معنی ہے کسی بات پر متفق ہوجانا؛ چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاَجْمِعُوا أمْرَکُمْ شُرَکَاءَ کُمْ﴾ (۱۷)
”تم اپنی بات طے کرلو اور اپنے شریکوں کو اکٹھا کرلو۔“
فقہاء کی اصطلاح میں اجماع کسی معاملہ پر امت اسلامیہ کے اہل علم طبقہ کے اتفاق کرنے کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ اصول کی کتابوں میں ہے:
وَہُو اِتِّفَاقُ أہْلِ الْحِلِّ وَالْعَقْدِ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی أمْرٍ مِنَ الأُمُوْرِ․(۱۸)
”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اہلِ حل و عقد کے کسی معاملہ میں اتفاق کا نام اجماع ہے۔“
جمہور علماء نے اجماع کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
”اِتِّفَاقُ الْمُجْتَہِدِیْنَ مِنْ أمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاتِہ فِیْ عَصْرٍ مِنَ الْعُصُوْرِ عَلٰی حُکْمٍ شَرْعِیٍ․(۱۹)
”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی بھی زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مجتہدین کا کسی شرعی حکم پر اتفاقِ رائے کرلینے کو اجماع کہتے ہیں۔“
علامہ علی بن محمد الآمدی(متوفی ۶۳۱ھ) فرماتے ہیں:
اِتَّفَقَ أَکْثَرُ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی أنَّ الاجْمَاعَ حُجَّةٌ شَرْعِیَّةٌ یَجِبُ الْعَمَلُ بِہ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ خِلاَفًا لِلشِّیْعَةِ وَالْخَوَارِجِ وَالنِّظَامِ مِنَ الْمُعْتَزِلَةِ․(۲۰)
”اکثر مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اجماع حجت شرعیہ ہے اور تمام مسلمانوں کا اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ ماسوائے شیعہ، خوارج اور معتزلہ میں سے نظام کے کہ وہ اس کو نہیں مانتے۔“
امام شافعی رحمة اللہ علیہ اجماع کو حجتِ شرعیہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”حجتِ شرعیہ صرف اللہ کی کتاب، سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ کا اجماع ہے۔ علم کے تین درجات ہیں کتاب، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس مسئلہ میں ائمہ کا اجماع جس کے بارے میں کوئی نصِ شرعی موجود نہیں ہے۔“ (۲۱)
ڈاکٹر محمود احمد غازی (۱۹۵۰ء۔۲۰۱۰ء)نے اجماع کی جامع تعریف بیان کی ہے؛ چنانچہ فرماتے ہیں:
”اجماع سے مراد یہ ہے کہ کسی نئے پیش آنے والے فقہی اور شرعی نوعیت کے معاملے پر امت کے فقہاء اور مجتہدین تفصیل کے ساتھ آزادانہ یعنی کسی حکومتی، سرکاری یا بیرونی اثر و رسوخ کے بغیر محض دلائل کی روشنی میں غور و فکر کریں اور قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں اس کا حل تلاش کریں۔ پھر ان کے آپس کے تبادلہٴ خیال سے جب وہ متفقہ طور پر کسی ایک نتیجہ پر پہنچ جائیں تو وہ متفقہ نتیجہ اور فیصلہ اجماع کہلائے گا۔“ (۲۲)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہٴ حیات میں اجماع کا ثبوت نہیں ملتا؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ لوگوں میں موجود تھی اور کسی بھی مسئلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے ہی رجوع کیاجاتا تھا۔ جیسا کہ ڈاکٹر حمید اللہ( ۱۹۰۸ء۔۲۰۰۲ء)لکھتے ہیں:
”عہد نبوی میں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی؛ اس لیے کہ اگر کوئی سوال پیدا ہوتا تو لوگ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرمادیتے جو قطعی اور آخری ہوتا تھا۔ آپس میں مشورہ کرکے کسی پر متفق ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتاتھا۔“(۲۳)
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکت سے محروم ہوجانے کے بعد عہدِ صحابہ میں اجماع کی بنیاد پڑی۔ جس طرح تمام فقہاء کے نزدیک اجماع شریعت میں حجت ہے اور شریعت کا بنیادی ماخذ ہے، اسی طرح صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع پر بھی سب کا اتفاق ہے اور تمام اس پر عمل کو لازم قرار دیتے ہیں اور اگر صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال متعدد ہوں تو جس قول کو پسند کرتے اختیار کرلیتے ہیں؛ لیکن تابعین اور تبع تابعین کے اقوال میں اس اصول کے پابند نہیں تھے۔
صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سب سے پہلے اس ضرورت کو محسوس کیا؛ چنانچہ اس مقصد کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہٴ خلافت میں کبار صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم ا جمعین کو باہر جانے سے روک دیاگیاتھا؛ تاکہ پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے ان سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور جس پر یہ تمام متفق ہوجائیں اسے اجماعِ امت سمجھا جائے۔
چنانچہ عہدِ صحابہ میں اجماع کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے:
(۱) مثال کے طور پر صحابہ کرام نے فیصلہ کیا کہ اگر کوئی شخص زکوٰة کا منکر ہے تو اس کو اسی طرح سمجھا جائے گا، جیسے کوئی شخص نماز کا منکر ہو اور جو نماز کا منکر ہے وہ دائرہ اسلا م سے خارج ہے۔ لہٰذا زکوٰة کے منکر کو بھی دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔ صحابہٴ کرام نے سیدنا صدیق اکبر کی سربراہی میں ان لوگوں کے خلاف جہاد کیا جنہوں نے زکوٰة کا انکار کیاتھا۔ شروع میں بعض صحابہ کو یہ سمجھنے میں تامل ہوا کہ نماز اور زکوٰة کو ایک سطح پر کیسے رکھا جائے اور کسی ایک جزوی حکم کو نہ ماننے کو پوری شریعت کے انکار کے برابر کیسے مانا جائے؛ لیکن سیدنا صدیق اکبر نے قسم کھا کر فرمایا کہ قسم خدا کی میں نماز اور زکوٰة کے درمیان کوئی فرق نہیں کروں گا اور جس نے یہ فرق کیا میں اس کے ساتھ جنگ کروں گا، یہاں تک کہ میری جان چلی جائے۔ (۲۴)
(۲)اسی طرح حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام اور عراق کی مفتوحہ زمینوں کوفوج میں تقسیم کرنے کی بجائے وقف قرار دیا اور اس پر صحابہ کا اجماع ہوگیا (۲۵) اور اس کی سند یہ تھی کہ زمین ان کے اصل باشندوں کے پاس رکھی جائیں اور ان پر خراج عائد کردیاجائے؛ تاکہ مسلمانوں کو آمدنی ہو اور بیت المال مضبوط ہو جس کے نتیجے میں فوجیوں ، سرکاری ملازمین، ضرورتمندوں کے اخراجات کا بندوبست ہوسکے اور دیگر رفاہی کام بھی انجام دیے جاسکیں۔
(۳)واقعہ یمامہ میں قرّاء کی بڑی تعداد کی شہادت کے بعد اس اندیشہ کے پیشِ نظر کہ اگر قراء یونہی شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآن ضائع نہ ہوجائے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قرآن کو مصحف کی صورت میں جمع کرنے پر اصرار کیا اور تمام صحابہٴ کرام نے اس رائے سے اتفاق کیا اور اس طرح صحابہٴ کرام کے اس اجماع کی صورت میں قرآنِ کریم کی تدوین عمل میں آئی۔(۲۶)
(۴)تیسری مرتبہ چوری کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول پر تمام صحابہٴ کرام کا اجماع ہوا۔ (۲۷)
(۵)حضرت عمر نے ۲۰ /تراویح کے حوالے سے کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع اور باقاعدہ ان کی مشاورت سے اس کا حکم جاری فرمایا۔ (۲۸)یہ بھی صحابہٴ کرام کے اجماع کی ایک واضح مثال ہے۔
اجماع کا دین میں حجت ہونا تین امور پر مبنی ہے۔ گویا اجماع کی اساس ان تین امور پر قائم ہے۔
(۱) اجماع کی اساسِ اول یہ ہے کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام سیاسی امور میں صحابہٴ کرام کو جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کرتے تھے۔ جب تمام لوگ ایک بات پر متفق ہوجاتے تو اس کو قانون کا حصہ بناتے اور اگر اختلاف رونما ہوتا تو اکثریت کا ساتھ دیتے۔
(۲)اجماع کی دوسری اساس یہ ہے کہ دور اجتہاد میں ہر امام کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان سے کوئی ایسا شاذ قول صادر نہ ہو جو ان کے یہاں فقہاء کے خلاف ہو؛تاکہ اس کے طرزِ فکر کو اجنبی نہ سمجھا جائے؛ چنانچہ تمام ائمہ اپنے علاقہ کے اجماع کی بڑی سختی سے پابندی کرتے تھے۔
(۳)اجماع کی تیسری بنیاد وہ دلائل ہیں جن سے حجیت اجماع ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول : ”انَّ أُمَّتِيْ لاَ تَجْتَمِعُ عَلَی الضَّلاَلَةِ“ (۲۹) یعنی میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی۔
اسی طرح ایک اثر میں آتا ہے: ”مَا رَاہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ“(۳۰) ”جس بات کو مسلمان بہتر سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے۔“
اجماع کی حجیت کے حوالہ سے فقہاء نے اس کی درجہ بندی کی ہے کہ کونسا اجماع کس نوعیت کا ہوگا؛ چنانچہ اسے تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔
(۱) سب سے اعلیٰ درجہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع کا ہے۔ جو حدیثِ متواتر اور دلیل قطعی کا درجہ رکھتا ہے۔
(۲)دوسرے نمبر پر تابعین کا اجماع ہے جو کسی غیر اجتہادی مسئلہ میں منعقد ہو۔ یہ حدیث مشہور کا درجہ رکھتا ہے۔
(۳)تیسرے درجہ کا اجماع وہ ہے جو کسی اجتہادی مسئلہ میں منعقد ہوا ہو یہ خبرِ واحد کی طرح ظنی ہے۔
اجماع کے اختیارات کی وسعت اور باقاعدہ اجماع منعقد ہوجانے کے بعد معاشرتی حالات و واقعات کے مطابق اس میں ترمیم و تنسیخ کے حوالے سے مولانا محمد تقی امینی رحمة اللہ علیہ درج ذیل نکات بیان فرماتے ہیں:
(۱) حالات اور تقاضوں کی مناسبت سے نئے قوانین وضع کرنا۔
(۲)پرانے اجماعی فیصلے جو مصلحت کے تابع تھے، ان میں موجودہ حالات و مصلحت کے پیشِ نظر مناسب ترمیم کرنا۔
(۳)وہ احکام جو بتدریج نازل ہوئے ہیں، معاشرتی حالات کے لحاظ سے انھیں مقدم و موٴخر کرنا۔
(۴)وہ احکام جن میں عرب کے مقامی حالات، رسم و رواج، خصائل و عادات مخلوط ہیں، ان کی روح اور پالیسی برقرار رکھتے ہوئے جدید حالات کے پیشِ نظر ان کے لیے نئے قالب تیار کرنا۔
(۵)وہ احکام جو وقتی تقاضہ اور مصلحت کے تحت ہیں، موجودہ تقاضے اور مصلحت کے تحت ان میں مناسب ترمیم کرنا۔
(۶)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جن احکام میں مختلف الرائے ہیں، معقول دلیل کی بناء پر ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا۔
(۷)فقہاء کی مختلف رایوں میں معاملات و تقاضوں کی مناسبت سے ترجیحی صورت پیدا کرنا وغیرہ۔(۳۱)
جہاں تک اجماع کے شرعی حکم کا تعلق ہے تو یہ واضح ہے کہ اس کا فیصلہ نہایت مستند اور واجب العمل ہے، جیسا کہ صاحبِ توضیح کا یہ قول ہے کہ :
فَانِ اسْتَنْبَطَ الْمُجْتَہِدُوْنَ فِیْ عَصْرٍ حُکْمًا وَاتَّفَقُوْا عَلَیْہِ یَجِبُ عَلٰی أہْلِ ذٰلِکَ الْعَصْرِ قُبُوْلُہ فَاِتِّفَاقُہُمْ صَارَ بَیِّنَةً عَلٰی ذٰلِکَ الْحُکْمِ فَلاَ یَجُوْزُ بَعْدَ ذٰلِکَ مُخَالَفَتُہُمْ․(۳۲)
”جب مجتہدین نے کسی زمانہ میں کسی حکم کا استنباط اور اس پر اتفاق کیا تو اس زمانہ والوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہے، اس کی مخالفت جائز نہیں؛ کیونکہ یہ اتفاق اس حکم پر بطور دلیل کے ہے۔“
عصرِ حاضر میں اجماع کی واضح مثال مسئلہٴ ختم نبوت ہے۔ جس پر تمام علماء و فقہاء کا اجماع ہوچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علماء و فقہاء دورِ حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز پر بھی اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے امت کی درست سَمت پر رہنمائی کریں۔
(۲/۲)
از: مولانا محمد انس حسان
گورنمنٹ ڈگری کالج جہانیاں، پاکستان
اجماع
(فقہ اسلامی کا تیسرا ماخذ)
فقہ اسلامی کا تیسرا ماخذ اجماع ہے۔ اجماع کا لغوی معنی ہے کسی بات پر متفق ہوجانا؛ چنانچہ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَاَجْمِعُوا أمْرَکُمْ شُرَکَاءَ کُمْ﴾ (۱۷)
”تم اپنی بات طے کرلو اور اپنے شریکوں کو اکٹھا کرلو۔“
فقہاء کی اصطلاح میں اجماع کسی معاملہ پر امت اسلامیہ کے اہل علم طبقہ کے اتفاق کرنے کو کہتے ہیں۔ جیسا کہ اصول کی کتابوں میں ہے:
وَہُو اِتِّفَاقُ أہْلِ الْحِلِّ وَالْعَقْدِ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی أمْرٍ مِنَ الأُمُوْرِ․(۱۸)
”حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اہلِ حل و عقد کے کسی معاملہ میں اتفاق کا نام اجماع ہے۔“
جمہور علماء نے اجماع کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
”اِتِّفَاقُ الْمُجْتَہِدِیْنَ مِنْ أمَّةِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَعْدَ وَفَاتِہ فِیْ عَصْرٍ مِنَ الْعُصُوْرِ عَلٰی حُکْمٍ شَرْعِیٍ․(۱۹)
”رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی بھی زمانہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے مجتہدین کا کسی شرعی حکم پر اتفاقِ رائے کرلینے کو اجماع کہتے ہیں۔“
علامہ علی بن محمد الآمدی(متوفی ۶۳۱ھ) فرماتے ہیں:
اِتَّفَقَ أَکْثَرُ الْمُسْلِمِیْنَ عَلٰی أنَّ الاجْمَاعَ حُجَّةٌ شَرْعِیَّةٌ یَجِبُ الْعَمَلُ بِہ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ خِلاَفًا لِلشِّیْعَةِ وَالْخَوَارِجِ وَالنِّظَامِ مِنَ الْمُعْتَزِلَةِ․(۲۰)
”اکثر مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اجماع حجت شرعیہ ہے اور تمام مسلمانوں کا اس پر عمل کرنا واجب ہے۔ ماسوائے شیعہ، خوارج اور معتزلہ میں سے نظام کے کہ وہ اس کو نہیں مانتے۔“
امام شافعی رحمة اللہ علیہ اجماع کو حجتِ شرعیہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
”حجتِ شرعیہ صرف اللہ کی کتاب، سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ائمہ کا اجماع ہے۔ علم کے تین درجات ہیں کتاب، حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس مسئلہ میں ائمہ کا اجماع جس کے بارے میں کوئی نصِ شرعی موجود نہیں ہے۔“ (۲۱)
ڈاکٹر محمود احمد غازی (۱۹۵۰ء۔۲۰۱۰ء)نے اجماع کی جامع تعریف بیان کی ہے؛ چنانچہ فرماتے ہیں:
”اجماع سے مراد یہ ہے کہ کسی نئے پیش آنے والے فقہی اور شرعی نوعیت کے معاملے پر امت کے فقہاء اور مجتہدین تفصیل کے ساتھ آزادانہ یعنی کسی حکومتی، سرکاری یا بیرونی اثر و رسوخ کے بغیر محض دلائل کی روشنی میں غور و فکر کریں اور قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں اس کا حل تلاش کریں۔ پھر ان کے آپس کے تبادلہٴ خیال سے جب وہ متفقہ طور پر کسی ایک نتیجہ پر پہنچ جائیں تو وہ متفقہ نتیجہ اور فیصلہ اجماع کہلائے گا۔“ (۲۲)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہٴ حیات میں اجماع کا ثبوت نہیں ملتا؛ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ لوگوں میں موجود تھی اور کسی بھی مسئلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے ہی رجوع کیاجاتا تھا۔ جیسا کہ ڈاکٹر حمید اللہ( ۱۹۰۸ء۔۲۰۰۲ء)لکھتے ہیں:
”عہد نبوی میں اس کی ضرورت ہی نہیں تھی؛ اس لیے کہ اگر کوئی سوال پیدا ہوتا تو لوگ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رجوع کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرمادیتے جو قطعی اور آخری ہوتا تھا۔ آپس میں مشورہ کرکے کسی پر متفق ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتاتھا۔“(۲۳)
لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکت سے محروم ہوجانے کے بعد عہدِ صحابہ میں اجماع کی بنیاد پڑی۔ جس طرح تمام فقہاء کے نزدیک اجماع شریعت میں حجت ہے اور شریعت کا بنیادی ماخذ ہے، اسی طرح صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع پر بھی سب کا اتفاق ہے اور تمام اس پر عمل کو لازم قرار دیتے ہیں اور اگر صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اقوال متعدد ہوں تو جس قول کو پسند کرتے اختیار کرلیتے ہیں؛ لیکن تابعین اور تبع تابعین کے اقوال میں اس اصول کے پابند نہیں تھے۔
صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سب سے پہلے اس ضرورت کو محسوس کیا؛ چنانچہ اس مقصد کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہٴ خلافت میں کبار صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم ا جمعین کو باہر جانے سے روک دیاگیاتھا؛ تاکہ پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے ان سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور جس پر یہ تمام متفق ہوجائیں اسے اجماعِ امت سمجھا جائے۔
چنانچہ عہدِ صحابہ میں اجماع کی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے:
(۱) مثال کے طور پر صحابہ کرام نے فیصلہ کیا کہ اگر کوئی شخص زکوٰة کا منکر ہے تو اس کو اسی طرح سمجھا جائے گا، جیسے کوئی شخص نماز کا منکر ہو اور جو نماز کا منکر ہے وہ دائرہ اسلا م سے خارج ہے۔ لہٰذا زکوٰة کے منکر کو بھی دائرہ اسلام سے خارج سمجھا جائے گا۔ صحابہٴ کرام نے سیدنا صدیق اکبر کی سربراہی میں ان لوگوں کے خلاف جہاد کیا جنہوں نے زکوٰة کا انکار کیاتھا۔ شروع میں بعض صحابہ کو یہ سمجھنے میں تامل ہوا کہ نماز اور زکوٰة کو ایک سطح پر کیسے رکھا جائے اور کسی ایک جزوی حکم کو نہ ماننے کو پوری شریعت کے انکار کے برابر کیسے مانا جائے؛ لیکن سیدنا صدیق اکبر نے قسم کھا کر فرمایا کہ قسم خدا کی میں نماز اور زکوٰة کے درمیان کوئی فرق نہیں کروں گا اور جس نے یہ فرق کیا میں اس کے ساتھ جنگ کروں گا، یہاں تک کہ میری جان چلی جائے۔ (۲۴)
(۲)اسی طرح حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام اور عراق کی مفتوحہ زمینوں کوفوج میں تقسیم کرنے کی بجائے وقف قرار دیا اور اس پر صحابہ کا اجماع ہوگیا (۲۵) اور اس کی سند یہ تھی کہ زمین ان کے اصل باشندوں کے پاس رکھی جائیں اور ان پر خراج عائد کردیاجائے؛ تاکہ مسلمانوں کو آمدنی ہو اور بیت المال مضبوط ہو جس کے نتیجے میں فوجیوں ، سرکاری ملازمین، ضرورتمندوں کے اخراجات کا بندوبست ہوسکے اور دیگر رفاہی کام بھی انجام دیے جاسکیں۔
(۳)واقعہ یمامہ میں قرّاء کی بڑی تعداد کی شہادت کے بعد اس اندیشہ کے پیشِ نظر کہ اگر قراء یونہی شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآن ضائع نہ ہوجائے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قرآن کو مصحف کی صورت میں جمع کرنے پر اصرار کیا اور تمام صحابہٴ کرام نے اس رائے سے اتفاق کیا اور اس طرح صحابہٴ کرام کے اس اجماع کی صورت میں قرآنِ کریم کی تدوین عمل میں آئی۔(۲۶)
(۴)تیسری مرتبہ چوری کرنے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول پر تمام صحابہٴ کرام کا اجماع ہوا۔ (۲۷)
(۵)حضرت عمر نے ۲۰ /تراویح کے حوالے سے کبار صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع اور باقاعدہ ان کی مشاورت سے اس کا حکم جاری فرمایا۔ (۲۸)یہ بھی صحابہٴ کرام کے اجماع کی ایک واضح مثال ہے۔
اجماع کا دین میں حجت ہونا تین امور پر مبنی ہے۔ گویا اجماع کی اساس ان تین امور پر قائم ہے۔
(۱) اجماع کی اساسِ اول یہ ہے کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پیش آمدہ مسائل میں اجتہاد کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عام سیاسی امور میں صحابہٴ کرام کو جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کرتے تھے۔ جب تمام لوگ ایک بات پر متفق ہوجاتے تو اس کو قانون کا حصہ بناتے اور اگر اختلاف رونما ہوتا تو اکثریت کا ساتھ دیتے۔
(۲)اجماع کی دوسری اساس یہ ہے کہ دور اجتہاد میں ہر امام کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان سے کوئی ایسا شاذ قول صادر نہ ہو جو ان کے یہاں فقہاء کے خلاف ہو؛تاکہ اس کے طرزِ فکر کو اجنبی نہ سمجھا جائے؛ چنانچہ تمام ائمہ اپنے علاقہ کے اجماع کی بڑی سختی سے پابندی کرتے تھے۔
(۳)اجماع کی تیسری بنیاد وہ دلائل ہیں جن سے حجیت اجماع ثابت ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول : ”انَّ أُمَّتِيْ لاَ تَجْتَمِعُ عَلَی الضَّلاَلَةِ“ (۲۹) یعنی میری امت گمراہی پر جمع نہ ہوگی۔
اسی طرح ایک اثر میں آتا ہے: ”مَا رَاہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ“(۳۰) ”جس بات کو مسلمان بہتر سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی بہتر ہے۔“
اجماع کی حجیت کے حوالہ سے فقہاء نے اس کی درجہ بندی کی ہے کہ کونسا اجماع کس نوعیت کا ہوگا؛ چنانچہ اسے تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔
(۱) سب سے اعلیٰ درجہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اجماع کا ہے۔ جو حدیثِ متواتر اور دلیل قطعی کا درجہ رکھتا ہے۔
(۲)دوسرے نمبر پر تابعین کا اجماع ہے جو کسی غیر اجتہادی مسئلہ میں منعقد ہو۔ یہ حدیث مشہور کا درجہ رکھتا ہے۔
(۳)تیسرے درجہ کا اجماع وہ ہے جو کسی اجتہادی مسئلہ میں منعقد ہوا ہو یہ خبرِ واحد کی طرح ظنی ہے۔
اجماع کے اختیارات کی وسعت اور باقاعدہ اجماع منعقد ہوجانے کے بعد معاشرتی حالات و واقعات کے مطابق اس میں ترمیم و تنسیخ کے حوالے سے مولانا محمد تقی امینی رحمة اللہ علیہ درج ذیل نکات بیان فرماتے ہیں:
(۱) حالات اور تقاضوں کی مناسبت سے نئے قوانین وضع کرنا۔
(۲)پرانے اجماعی فیصلے جو مصلحت کے تابع تھے، ان میں موجودہ حالات و مصلحت کے پیشِ نظر مناسب ترمیم کرنا۔
(۳)وہ احکام جو بتدریج نازل ہوئے ہیں، معاشرتی حالات کے لحاظ سے انھیں مقدم و موٴخر کرنا۔
(۴)وہ احکام جن میں عرب کے مقامی حالات، رسم و رواج، خصائل و عادات مخلوط ہیں، ان کی روح اور پالیسی برقرار رکھتے ہوئے جدید حالات کے پیشِ نظر ان کے لیے نئے قالب تیار کرنا۔
(۵)وہ احکام جو وقتی تقاضہ اور مصلحت کے تحت ہیں، موجودہ تقاضے اور مصلحت کے تحت ان میں مناسب ترمیم کرنا۔
(۶)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب جن احکام میں مختلف الرائے ہیں، معقول دلیل کی بناء پر ان میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا۔
(۷)فقہاء کی مختلف رایوں میں معاملات و تقاضوں کی مناسبت سے ترجیحی صورت پیدا کرنا وغیرہ۔(۳۱)
جہاں تک اجماع کے شرعی حکم کا تعلق ہے تو یہ واضح ہے کہ اس کا فیصلہ نہایت مستند اور واجب العمل ہے، جیسا کہ صاحبِ توضیح کا یہ قول ہے کہ :
فَانِ اسْتَنْبَطَ الْمُجْتَہِدُوْنَ فِیْ عَصْرٍ حُکْمًا وَاتَّفَقُوْا عَلَیْہِ یَجِبُ عَلٰی أہْلِ ذٰلِکَ الْعَصْرِ قُبُوْلُہ فَاِتِّفَاقُہُمْ صَارَ بَیِّنَةً عَلٰی ذٰلِکَ الْحُکْمِ فَلاَ یَجُوْزُ بَعْدَ ذٰلِکَ مُخَالَفَتُہُمْ․(۳۲)
”جب مجتہدین نے کسی زمانہ میں کسی حکم کا استنباط اور اس پر اتفاق کیا تو اس زمانہ والوں پر اس کا قبول کرنا واجب ہے، اس کی مخالفت جائز نہیں؛ کیونکہ یہ اتفاق اس حکم پر بطور دلیل کے ہے۔“
عصرِ حاضر میں اجماع کی واضح مثال مسئلہٴ ختم نبوت ہے۔ جس پر تمام علماء و فقہاء کا اجماع ہوچکا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علماء و فقہاء دورِ حاضر میں اسلام کو درپیش چیلنجز پر بھی اس اصول کا اطلاق کرتے ہوئے امت کی درست سَمت پر رہنمائی کریں۔
قیاس
(فقہ اسلامی کا چوتھا ماخذ)
فقہ اسلامی کا چوتھا ماخذ قیاس ہے۔ قیاس کے لغوی معنی اندازہ کرنا، پیمائش کرنا، مطابق اور مساوی کرنا ہیں، چنانچہ ”قَاسَ الثَّوْبَ بِالذِّرَاعِ“ کے معنی ”قَدَّرَ أجْزَائَہ بِہ “ (کپڑے کی ذراع سے پیمائش کی) اسی طرح ”یُقَاسُ فُلاَنٌ بِفُلاَنٍ فِي الْعِلْمِ وَالنَّسَبِ“ کے معنی ”یُسَاوِیْہِ فِی الْعَلْمِ وَالنَّسَبِ“ (علم اور نسب میں وہ اس کے برابر ہے) ۔(۳۳)
قیاس کا لفظ دو چیزوں میں مساوات و برابری نیز دو چیزوں کے مابین موازنے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ (۳۴)
اصطلاح ِ فقہ میں قیاس کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے:
الْحَاقُ أمْرٍ غَیْرِ مَنْصُوْصٍ عَلٰی حُکْمِہ الشَّرْعِیِّ بِأمْرٍ مَنْصُوْصٍ عَلٰی حُکْمِہ لِاِشْتِرَاکِہِمَا فِیْ عِلَّةِ الْحُکْمِ․(۳۵)
”حکم کی علت میں اشتراک کے سبب اس معاملہ کو جس کے شرعی حکم کے بارے میں نص وارد نہیں ہوئی، ایسے معاملہ کے ساتھ ملحق کرنا جس کے حکم کی بابت نص وارد ہوئی ہے (فقہ کہلاتی ہے)“۔
محمد بن صالح العثیمن کے مطابق:
تَسْوِیَةُ فَرْعٍ بِأصْلٍ فِیْ حُکْمٍ لِعَلَّةٍ جَامِعَةٍ بَیْنَہُمَا (۳۶)
”فرع اور اصل میں حکم کی علت کی بنیاد پر برابری کرنا جو ان دونوں میں یکساں ہیں“۔
مولانا محمد تقی امینی فرماتے ہیں کہ علامہ ابن تیمیہ رحمة اللہ علیہ نے قیاس کی اصطلاحی تعریف یوں بیان کی ہے:
فَالْقِیَاسُ الصَّحِیْحُ مِثْلُ أنْ تَکُوْنَ الْعِلَّةُ الَّتِيْ عُلِّقَ بِہَا الْحُکْمُ فِی الْأصْلِ مَوْجُوْدَةٌ فِی الْفَرْعِ مِنْ غَیْرِ مُعَارِضٍ فِی الْفَرْعِ یَمْنَعُ حُکْمَہَا․(۳۷)
”قیاسِ صحیح مثلاً یہ ہے کہ جس علت پر اصل میں حکم کا مدار ہے وہی علت فرع میں موجود ہو اور فرع میں کوئی رکاوٹ ایسی نہ ہو جو اس میں حکم جاری ہونے کو روک سکے“۔
ڈاکٹر محمود احمد غازی نے قیاس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
”شریعت اور فقہاء کی اصطلاح میں قیاس سے مراد یہ ہے کہ اصل حکم میں پائے جانے والی علت کو دوسرے نئے حکم پر منطبق کرنا (قیاس کہلاتا ہے) ۔(۳۸)
جمہور علماء و فقہاء اسے حجتِ شرعی تسلیم کرتے ہیں؛ بلکہ ڈاکٹر محمود احمد غازی تو اسے فقہی ترتیب میں تیسرے درجے پر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق چونکہ اس کی اجازت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دی تھی؛ اس لیے اس کا درجہ اجماع سے زیادہ ہونا چاہیے۔ (۳۹)
محمد بن صالح العثیمن کے مطابق قیاس تمام علماء کے نزدیک دلیلِ شرعی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
وَأمَّا جُمْہُوْرُ الأُمَّةِ فَقَالُوْا: انَّ الْقِیَاسَ دَلِیْلٌ شَرْعِيٌّ ثَابِتٌ فِی الْکِتَابِ وَفِی السُّنَّةِ وَ فِیْ أقْوَالِ الصَّحَابَةِ․(۴۰)
”جمہور امت کے بقول قیاس دلیلِ شرعی ہے، جو قرآنِ کریم، سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے اقوال سے ثابت ہے۔“
قیاس فقہ اسلامی کا انتہائی اہم ماخذ ہے۔ زمانہ چونکہ تغیر پذیر ہے اور ہر آنے والا دن نئے مسائل اور نئے چیلنجز کے ساتھ رونما ہورہا ہے تو اس صورت میں فقہ اسلامی کا دیگر تمام مذاہب میں یہ خصوصی امتیاز ہے کہ وہ ان جدید مسائل کے حوالے سے واضح رہنمائی کرتی نظر آتی ہے۔
اسلامی شریعت نے ایک ایسا خود کار نظام وضع کردیا کہ جس میں قانون اور نظام کے اساسی قواعد و اصول نیز دستور اور آئین کے اساسی تصورات سب کے لیے مشترک اور واجب التعمیل ہیں۔ تمام انسان یکساں طور پر ان اصولوں کے پابند ہیں۔ اس جامعیت اور تنوع کی وجہ اس کی دقَّتِ نظری اور آزادی رائے ہے جو ہر دور میں اس کی ترقی کے لیے ممدو معاون ثابت ہوتی آئی ہے۔
اگر ایک دور میں کسی مسئلہ پر قیاس سے کام لیتے ہوئے کوئی نتیجہ اخذ کیا گیاتھا اور آنے والے وقت نے اس کی کسی شق پر کوئی سُقم پایاتو اس دور کے فقہاء کو یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اپنے قیاس سے کام لیتے ہوئے اس مسئلہ کا کوئی اور حل تجویز کریں جو قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہو۔ اس کی بکثرت مثالیں ہمیں فقہ اسلامی کی کتب میں ملتی ہیں۔ اس آزادی رائے نے فقہ اسلامی کی اہمیت میں بہت اضافہ کردیا ہے۔ اور یہ سب قیاس سے استفادہ کی صورت ہی میں ممکن ہوسکا ہے۔قیاس کی اسی اہمیت و افادیت کے حوالے سے قرآنِ کریم، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہٴ کرام کے عمل سے بہت کچھ رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
قرآنِ کریم میں قیاس کی بنیاد کے حوالے سے درج ذیل آیاتِ مبارکہ سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(۱) ﴿لِیَتَفَقَّہُوا فِی الدِّیْنِ﴾(۴۱)
”تاکہ دین میں فہم و بصیرت حاصل کرتے۔“
(۲)﴿فَاعْتَبِرُوْا یَأُوْلِی الأَبْصَارِ ﴾(۴۲)
”پس اے دیکھنے والو! عبرت حاصل کرو۔“
یہاں”اِعْتَبَرَ“ کا مطلب ہے ”رَدَّ الشَّیْءَ الٰی نَظِیْرِہ “ کسی چیز کو اس کے مثل کی طرف لوٹانا۔
(۳)﴿وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ ﴾(۴۳)
”اوروہ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیں۔“
(۴)﴿وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ الَیْہِمْ وَلَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ ﴾(۴۴)
”ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن اتارا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے اس چیز کو بیان کردیں جو ان کی طرف بھیجی گئی ہے؛ تاکہ وہ خود غوروفکر کریں۔“
(۵)﴿وَلَوْ رَدُّوْہُ الیَ الرَّسُوْلِ وَالٰی أُوْلِی الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنْبِطُوْنَہ مِنْہُمْ﴾(۴۵)
”اگر اس کو اللہ کے رسول اور اہل علم تک پہنچادیتے تو ان میں سے جو استنباط کرنے والے ہیں وہ سمجھ جاتے۔“
یہ اور اسی طرح کی دیگر بہت سی آیات ہیں جن میں قیاس اور فکر و شعور کی بنیاد پر سوچنے سمجھنے کی دعوت دی گئی ہے۔
(۱) قیاس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی ملتی ہے؛چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا گورنر بناکر بھیج رہے تھے تو پوچھا:
کَیْفَ تَقْضِيْ؟ فَقَالَ أقْضِيْ بِمَا فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ قَالَ فَانْ لَمْ یَکُنْ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی قَالَ فَبِسُنَّةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَانْ لَمْ یَکُنْ فِیْ سُنَّةِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَجْتَہِدُ رَأْیِیْ قَالَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم․(۴۶)
”جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہوگا تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ جواب دیا جیسا کتاب اللہ میں ہے اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔ پھر سوال کیا کہ اگر کتاب اللہ میں صراحت کے ساتھ ذکر نہ ہوتو پھر کیسے فیصلہ کرو گے؟ جواب دیا پھر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کرو ں گا۔ پھر سوال کیا کہ اگر سنت میں بھی صراحت کے ساتھ ذکر نہ ہوتو پھر کیسے فیصلہ کروگے؟ جواب دیا ایسی حالت میں اپنی رائے سے اجتہاد کرکے فیصلہ کروں گا۔اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے فرستادہ رسول کے فرستادہ کو اس بات کی توفیق دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔“
(۲)ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابوموسیٰ اشعری دونوں کو یمن کے الگ الگ علاقوں کا قاضی و گورنر بناکر بھیجاگیاتھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استفسار پر دونوں نے جواب دیاتھا کہ :
اِذَا لَمْ نَجِدِ الْحُکْمَ فِی السُّنَّةِ نَقِیْسُ الأَمْرَ بِالأَمْرِ فَمَا أقْرَبَ الیَ الْحَقِّ عَمِلْنَا بِہ فَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلاَةُ وَالسَّلاَمُ اَصَبْتُمَا․(۴۷)
”جب ہم سنت میں حکم نہیں پائیں گے تو ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کریں گے اور جو فیصلہ حق سے زیادہ قریب ہوگا، اسی پر عمل کریں گے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا تم دونوں کی رائے درست ہے۔“
(۳)اسی طرح بلی کے جھوٹے کے بارے میں دریافت کیاگیا تو فرمایا کہ یہ حرام نہیں ہے اور اس کی علت یہ بیان فرمائی کہ لوگوں کے گھروں میں کثرت سے آتی جاتی ہے۔ (۴۸)
(۴)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں قربانی کے گوشت کو ذخیرہ کرنے سے منع فرمایاتھا؛ لیکن بعد میں اس کی اجازت دے دی۔ (۴۹)
(۵)حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی کے رشتے کے بارے میں پوچھاگیا تو فرمایا وہ میری رضاعی بھتیجی ہے اور میرے لیے درست نہیں۔ (۵۰)چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں سگی بھتیجی پر قیاس کیا یعنی حرمت کی علت بھی بتادی۔
(۶)قبیلہٴ خشعم کی ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اورکہا میرے والد نے اسلام قبول کرلیا ہے اور وہ بہت زیادہ بوڑھے ہیں۔سواری پر بیٹھ نہیں سکتے اور حج ان پر فرض ہوگیا ہے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کرسکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے اگر تمہارے والد پر قرض ہوتاتو وہ تم ادا کرتی یا نہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، ادا کرتی، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ان کی طرف سے حج ادا کرو۔ (۵۱)گویا بندے کے قرض پر اللہ کے قرض کو قیاس فرمایا۔
(۷)ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمکی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میری بیوی کے ہاں ایک کالے رنگ کا لڑکا پیدا ہوا ہے؛ لیکن مجھے اس میں شک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ان کے رنگ کیسے ہیں؟ اس نے کہا سرخ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا کہ ان میں گندمی رنگ کے بھی ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کہاں سے آگئے؟ اس نے جواب دیا کہ کوئی رگ ہوتی ہے، اس کا اثر آگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بچے کے ساتھ بھی یہی صورت ہوسکتی ہے۔ (۵۲)گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوانی وجود پر انسانی وجود کو قیاس کیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیاس صحیح کی اجازت دی تھی اور اس پر اجر کا اعلان فرمایاتھا؛ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے:
اذَا حَکَمَ الْحَاکِمُ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أصَابَ فَلَہ أجْرَانِ وَاذَا حَکَمَ فَاجْتَہَدَ ثُمَّ أخْطَأَ فَلَہ أجْرٌ․(۵۳)
”حاکم جب اجتہاد سے صحیح فیصلہ کرتا ہے تو اس کو دوہرا اجر ملتا ہے اور اگر غلط فیصلہ کرتا ہے تو ایک اجر ملتا ہے۔“
ایک اور جگہ یہ روایت الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ یوں وارد ہوئی ہے:
اذَا قَضَی الْقَاضِیْ فَاجْتَہَدَ فَأصَابَ فَلَہ عَشَرَةُ اُجُوْرٍ وَاذَا اجْتَہَدَ فَأخْطَأَ کَانَ لَہ أجْرٌ أوْ أجْرَانِ․(۵۴)
”قاضی جب اجتہاد سے صحیح فیصلہ کرتا ہے تو اس کو دس گنا اجر ملتا ہے اور اگر غلط فیصلہ کرتا ہے تو اس کے لیے دواجر ہیں۔“
صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی قیاس سے بھرپور فائدہ اٹھایا؛ چنانچہ نئے پیش آنے والے واقعات میں اجتہاد کرتے ہوئے ایک حکم کو دوسرے پر قیاس کرتے تھے۔ حضرت عمر نے قاضی شریح کو خط لکھاتھا کہ جو واقعہ تمہیں پیش آئے اور اس کا حکم قرآن و سنت میں نہ ہوتو اس پر خوب سوچو اور اس کو پوری طرح سمجھنے کی کوشش کرو۔ پھر ایک معاملہ کو دوسرے معاملہ پر قیاس کرو۔ معاملات کو مختلف انداز سے پہچانو۔ پھر جو تمہاری رائے میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسندیدہ ہو اور حق کے قریب ہوتو اس کااعتبار کرو۔ (۵۵)
حضرت ابوبکر صدیق سے ”کلالہ“ (جس کے نہ والدین ہوں نہ اولاد) کی وراثت کے متعلق پوچھاگیاتو فرمایا:
أقُوْلُ فِیْہَا بِرَأیِیْ فَانْ یَکُنْ صَوَابًا فَمِنَ اللّٰہِ وَانْ یَّکُنْ خَطَأً فَمِنِّي وَمِنَ الشَّیْطَانِ․(۵۶)
”میں اپنی رائے سے بات کہتا ہوں اگر وہ صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے سمجھو۔“
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عورت کے طلاق لینے کے اختیار کے متعلق فرمایا:
اَجْتَہِدُ فِیْہَا بِرَأیِیْ انْ اَصَبْتُ فَمِنَ اللّٰہِ وَانْ أخْطَأْتُ فمِنِّیْ وَمِنَ الشَّیْطَانِ․․․الخ(۵۷)
”میں اپنی رائے سے فتویٰ دیتا ہوں؛ اگر صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے، اللہ اور اس کا رسول اس سے بری ہیں۔“
قیاس میں صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بعض اوقات کسی ایک مسئلہ پر اختلاف بھی رہا ہے؛ چنانچہ اس حوالہ سے صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جو قیاس کیا اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:
(۱) دادا کی موجودگی میں حضرت ابوبکر صدیق بھائیوں کو وراثت نہیں دلواتے تھے؛ لیکن حضرت عمر نے دادا کی موجودگی میں بھی بھائیوں کو وراثت دلوائی۔ حضرت ابوبکر نے دادا کو باپ تسلیم کیا ہے اور باپ کی موجودگی میں بہ نصِ قرآن بھائیوں کو وراثت نہیں ملتی۔ حضرت عمر نے اس کو باپ تسلیم نہیں کیا اور حضرت زید بن ثابت بھی ان کے ساتھ متفق الرائے ہیں۔ (۵۸)
(۲)جس حاملہ عورت کا شوہر مرجائے اس کی عدت حضرت عمر بن خطاب نے وضع حمل مقرر کی ہے؛ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ وضعِ حمل اور چار مہینے دس دن کی مدت میں جو زمانہ زیادہ طویل ہوگا وہی اس کی عدت کا زمانہ ہوگا۔ (۵۹)
(۳)ایک مطلقہ عورت جس نے اپنی عدت ہی میں نکاح کرلیاتھا حضرت عمر نے اس کے موجودہ شوہر کو چند کوڑوں کی سزا دے کر دونوں میں علیحدگی کرادی اور فرمایا کہ جو عورت عدت گزرنے سے پہلے نکاح کرلے اور اسی حالت میں اس سے مقاربت کرلی جاے تو اس شوہر پر وہ ہمیشہ کے لیے حرام ہوجاتی ہے؛ لیکن حضرت علی کے نزدیک پہلے شوہر کی عدت گزرنے کے بعد یہ شخص اس سے نکاح کرسکتا ہے۔ حضرت عمر کا یہ فیصلہ مصلحتِ عامہ کی بناء پرتھا؛ جب کہ حضرت علی کا فیصلہ اصولِ عامہ کی بناء پر تھا، حالات کے لحاظ سے روحِ شریعت میں دونوں کی گنجائش ہے۔(۶۰)
$$$
حوالہ جات
(۱۷) یونس، آیت ۷۱۔ (۱۸) ا لبیضاوی ،ناصر الدین ابوالخیر عبداللہ بن عمر بن محمد، منہاج الاصول الی علم الاصول، ص ۲۴۔
(۱۹) ابن امیر الحاج،التقریر والتجسیر،ج ۳،ص۸۰۔ (۲۰) الآمدی ،علی بن محمد ، الاحکام فی اصول الاحکام، ص ۲۶۶۔
(۲۱) الجوزیہ، ابن قیم ،محمد بن ابی بکر ، اعلام الموقعین، ج ۱، ص ۳۰۔(۲۲) غازی، محموداحمد، ڈاکٹر، محاضراتِ فقہ، ص ۹۲۔
(۲۳) محمدحمیداللہ، ڈاکٹر،خطباتِ بہاولپور، ص ۷۵۔
(۲۴) سعیدالرحمن، ڈاکٹر،استحسان (بحیثیت ماخذ قانون) مقالہ پی ایچ ڈی، ص ۱۹۹۔
(۲۵) وہبة الزحیلی،ڈاکٹر،الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج۵،ص۵۳۵۔
(۲۶) القرطبی،ابو عبداللہ محمدبن احمد،الجامع لاحکام القرآن،ج۱،ص۵۰۔
(۲۷) وہبة الزحیلی،ڈاکٹر،الفقہ الاسلامی وادلتہ،ج۶،ص۹۷۔ (۲۸) ایضاً، ج ۲،ص۴۴۔
(۲۹) ابن ماجہ،محمد بن یزید ابو عبداللہ قزوینی،السنن لابن ماجہ،ج۳،۱۳۰۳۔
(۳۰) مالک بن انس،الموطاء،ج۳،ص۸۰۔ (۳۱) امینی ،محمد تقی ، فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، ص ۱۲۱۔۱۲۰۔
(۳۲) تاج الشریعہ ،عبیداللہ بن مسعود، التوضیح والتلویح مع الحاشیة التوشیح، ص ۳۴۔
(۳۳) امینی ،محمد تقی ،اجتہاد، ص ۱۴۱۔۱۴۰
(۳۴) سعید الرحمن، ڈاکٹر، استحسان ( بحیثیت ماخذ قانون) مقالہ پی۔ایچ ۔ڈی، ص ۲۰۷۔
(۳۵) ابن قدامہ، ابو عبداللہ ،شمس الدین ،روضة الناظر وجنة المناظر، ج ۲، ص ۲۲۷۔
(۳۶) العثیمٰن ،محمد بن صالح ، شرح الاصول من علم الاصول، ص ۵۰۹۔ (۳۷) امینی ،محمد تقی ،اجتہاد، ص ۱۴۱۔
(۳۸) غازی، محموداحمد، ڈاکٹر، محاضرات فقہ، ص ۹۶۔ (۳۹) ایضاً، ص ۵۹۔۶۹۔
(۴۰) العثیمٰن ،محمد بن صالح، شرح الاصول من علم الاصول، ص ۵۱۲۔ (۴۱) التوبہ، آیت ۳۶۔
(۴۲) الحشر، آیت ۲۔ (۴۳) الجمعة، آیت ۲۔ (۴۴) النحل، آیت ۴۴۔ (۴۵) النساء، آیت ۸۳۔
(۴۶) الترمذی،محمد بن عیسیٰ،السنن لترمذی،ج۳،ص۶۱۶۔
(۴۷) الرازی،محمد بن عمرالحسین،المحصول فی علم الاصول،ج۵،ص۵۲۔
(۴۸) سلیمان بن اشعث،السنن ابو داوَد،ج۱،ص۱۹۔
(۴۹) البخاری، محمد بن اسماعیل ، الجامع الصحیح للبخاری، ج ۵، ص ۲۱۱۶۔
(۵۰) القشیری ،مسلم بن حجاج بن مسلم ، الجامع الصحیح للمسلم، ج ۴، ص ۱۶۴۔
(۵۱) احمد بن حنبل،المسند لامام احمد بن حنبل، ج ۱، ص ۲۸۶۔
(۵۲) عبدالباقی ، محمدفواد، اللوٴلوٴ والمرجان، ج ۱، ص ۴۴۶۔
(۵۳) القشیری،مسلم بن حجاج بن مسلم، الجامع الصحیح للمسلم، ج ۵، ص ۱۳۳۔
(۵۴) البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح للبخاری، ج ۶، ص ۲۶۷۶۔
(۵۵) الہثیمی ،نورالدین علی بن ابی بکر،مجمع الزوائد، ج ۴، ص۳۶۲۔
(۵۶) الجوزیہ،ا بن قیم ،محمد بن ابی بکر ، اعلام الموقعین، ج ۱، ص۶۳۔
(۵۷) ملا جیون ،احمد بن سعید، نورالانوار، ص ۲۵۰۔ (۵۸) ندوی ،عبدالسلام ، تاریخ فقہ اسلامی، ص ۱۵۵۔
(۵۹) ایضاً، ص ۱۵۲۔ (۶۰) امینی ،محمد تقی ، اجتہاد، ص ۵۶۔
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/02-Fiqh%20Islami%20K%20Makhaz_MDU_11_Nov_15.htm
No comments:
Post a Comment