Wednesday, 7 February 2018

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دینے والے

بعض روایات میں ہے کہ جس وقت موسیٰ علیہ السلام آگ کی تلاش میں کوہِ طور پر پہنچے اور وہاں آگ کی بجائے تجلیات الٰہی سامنے آئیں اور ان کو نبوت و رسالت عطا ہوکر فرعون اور اس کی قوم کی ہدایت کے لئے مصر جانے کا حکم ملا تو خیال آیا کہ میں اپنی زوجہ کو جنگل میں تنہا چھوڑکر آیا ہوں اس کا کون متکفل ہوگا..
اس خیال کی اصلاح کے لئے حق تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ سامنے پڑی ہوئی پتھر کی چٹان پر لکڑی ماریں.. انھوں نے تعمیل حکم کی تو یہ چٹان پھٹ کر اس کے اندر سے ایک دوسرا پتھر برآمد ہوا..
حکم ہوا اس پر بھی لکڑی ماریں.. ایسا کیا تو وہ پتھر پھٹا اور اندر سے تیسرا پتھر برآمد ہوا.. اس پر بھی لکڑی مارنے کا حکم ہوا تو یہ شق ہوا اور اندر سے ایک جانور برآمد ہوا جس کے منہ میں ہرا پتہ تھا..
حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا یقین تو موسیٰ علیہ السلام کو پہلے بھی تھا مگر مشاہدہ کا اثر کچھ اور ہی ہوتا ہے.. یہ دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام وہیں سے سیدھے مصر کو روانہ ہوگئے.. زوجہ محترمہ کو یہ بتلانے بھی نہ گئے کہ مجھے مصر جانے کا حکم ہوا ہے' وہاں جارہا ہوں..
_________________________!
معارف القرآن.. جلد 4.. صفحہ 591
...........
خلاف شرع امور کی سرکوبی کا حکم
راوی:عن أبي سعيد الخدري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من رأى منكم منكرا فليغيره بيده فإن لم يستطع فبلسانه فإن لم يستطع فبقلبه وذلك أضعف الإيمان . رواه مسلم
"حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔" تم میں سے جو شخص کسی خلاف شرع امر کو دیکھے (یعنی جس چیز کو شریعت کے خلاف جانے) تو اس کو چاہئے کہ اس چیز کو اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالے (یعنی طاقت کے ذریعہ اس چیز کو نیست و نابود کر دے مثلا باجوں گا جوں اور آلات لہو و لعب کو توڑ پھوڑ دے، نشہ آور مشروبات کو ضائع کر دے اور ہڑپ کی ہوئی چیز کو اس کے مالک کے سپرد کرا دے وغیرہ وغیرہ) اور اگر وہ خلاف شرع امر کے مرتکب کے زیادہ قوی ہونے کی وجہ سے ہاتھوں کے ذریعہ اس امر کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دے (یعنی خلاف شرع امور کے بارے میں وعید کی آیتیں اور احادیث کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دے (یعنی اس کو دل سے برا جانے قلبی کڑھن رکھے اور عزم و ارادہ پر قائم رہے کہ جب بھی ہاتھ یا زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دینے کی طاقت حاصل ہوگی تو اپنی ذمہ داری کو ضرور پورا کرے گا، نیز اس خلاف شرع امر کے مرتکب کو بھی برا جانے اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرے) اور یہ (آخری درجہ) ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔" (مسلم)

تشریح
برائیوں کے پھیلنے سے روکنے اور ان کا قلع قمع کرنے کی جو ذمہ داری اہل ایمان پر عائد ہوتی ہے اس سے عہدہ برآ، ہونے کے تین درجے بیان کئے گئے ہیں پہلا درجہ یہ ہے کہ ہر برائی کا سر طاقت کے ذریعہ کچل دیا جائے بشرطیکہ اس طرح کی طاقت میسر ہو اور اگر یہ طاقت حاصل نہ ہو تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس برائی کو روکنے کا فریضہ زبان کے ذریعہ ادا کیا جائے اور تیسرا درجہ یہ ہے کہ اگر زبان کے ذریعہ بھی کسی برائی کی مذمت کرنے اور اس کو ختم کرنے کی ہمت نہ ہو تو پھر دل سے اس فریضہ کو انجام دیا جائے۔ یعنی کسی خلاف شرع امر کو دیکھ کر اسے دل سے برا جانے اور اس کے مرتکب کے خلاف قلب میں عداوت و نفرت کے جذبات رکھے جائیں، اس درجہ کو ایمان کا سب سے کمزور درجہ قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب اہل ایمان اس درجہ کمزور ہو جائیں کہ وہ کسی برائی کو مٹانے کے لئے ہاتھ اور زبان کی طاقت سے محروم ہوں تو سمجھا جائے کہ یہ ایمان کے لئے سب سے کمزور زمانہ ہے کہ اگر اہل ایمان طاقتور ہوتے تو وہ کسی برائی کو اپنی قولی و فعلی طاقت کے ذریعہ مٹانے کی بجائے محض قلبی نفرت پر اکتفا نہ کرتے۔ یا ، وذالک اضعف الایمان، کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی برائی کو محض قلبی طور پر برا جاننے پر اکتفا کرتا ہے بلکہ ہاتھ اور زبان کے ذریعہ اس برائی کو مٹانے کی جدوجہد کرتا ہے ، اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ بہترین جہاد، ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے ، نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ آیت (ولا یخافون لومۃ لائم) اور ان کو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خوف نہیں ہوتا ۔
بعض علماء نے فرمایا ہے کہ حدیث میں پہلے حکم (یعنی برائی کو ہاتھ کے ذریعہ مٹانے) کا تعلق ان اہل ایمان سے ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے طاقت و اقتدار سے نوازا ہے یعنی بادشاہ و حاکم وغیرہ، چنانچہ طاقت و اقتدار رکھنے والے مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حلقہ اثر و اقتدار میں سختی و شدت کے ساتھ برائیوں کی سرکوبی کریں اور برائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو راہ راست پر لانے کی کوشش کریں دوسرے حکم (یعنی برائی کو زبانی مذمت اور تلقین و نصیحت کے ذریعہ ختم کرنے) تعلق علماء کی ذات سے ہے ۔ یعنی یہ اہل علم اور واعظین کا فریضہ ہے کہ وہ جن برائیوں کو دیکھیں اپنے وعظ و نصیحت کے ذریعہ ان کی مذمت کریں اور عوام کو تلقین و نصیحت کے ذریعہ ان برائیوں سے روکیں اور تیسرے حکم (یعنی برائیون اور ان کے مرتکبین کے خلاف دل میں نفرت کا جذبہ رکھنے کا تعلق عام مسلمانوں سے ہے ، چنانچہ عام مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ خلاف شرع امور کو دیکھ کر محض اعراض و بے اعتنائی کا رویہ اختیار نہ کریں بلکہ ان امور کو دل سے برا جانیں اور ان کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف قلبی نفرت رکھیں۔
بعض حضرات نے حدیث کے اس آخری جملہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ یہ چیز یعنی کسی برائی کو دیکھ کر محض دل میں اس کو برا سمجھنے پر اکتفا کر لینا ایمان کے مراتب میں سب سے کمزور مرتبہ ہے کیونکہ اگر کوئی مسلمان ایسی چیز کو دیکھے کہ جس کا دینی نقطہ نظر سے برا ہونا قطعی طور پر ثابت و ظاہر ہو اور وہ اس چیز کو برا بھی نہ سمجھے بلکہ اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کرتے اور اس کو اچھا جانے تو مسلمان نہیں رہے گا بلکہ کافر ہو جائے گا۔
اس موقع پر اس بات کو بھی جان لینا چاہئے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا حکم بھلائیوں یا برائیوں کی حیثیت کے تابع ہوتا ہے یعنی اگر کوئی چیز اس درجہ کی ہے کہ اس کو اختیار کرنا واجب ہے تو اس کو اختیار کرنے کا حکم دینا (یعنی امر بالمعروف) بھی واجب ہوگا اور اگر وہ چیز مستحب ہوگی تو امر بالمعروف بھی مستحب ہوگا، اسی طرح اگر کوئی خلاف شرع چیز حرام کا درجہ رکھتی ہو اس سے روکنا یعنی نہی عن المنکر واجب ہوگا اور اگر وہ چیز مکروہ ہو تو اس صورت میں نہی عن المنکر بھی مستحب ہوگا۔ اسی کے ساتھ یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ امر بالمعروف ونہی وعن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی اس بات کے ساتھ مشروط ہے کہ ان کی وجہ سے کسی فتنہ و فساد کے پیدا ہو جانے کا خوف نہ ہو مثلاً اگر یہ ظاہر ہو کہ فلاں شخص کو کسی نیک کام کی تلقین کرنے کی وجہ سے فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا یا جو شخص کسی برے کام کا مرتکب ہے اگر اس کو اس برائی سے روکا گیا تو اس کے نتائج اور زیادہ فتنہ و فساد کی صورت میں نکلیں گے تو اس صورت میں اس فریضہ کی ادائیگی قطعا ضروری نہیں ہوگی۔ اسی طرح ایک شرط یہ بھی ہے کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو قبول کئے جانے کا گمان بھی ہو، لہٰذا اگر یہ گمان ہو کہ جس شخص کو نیک کام کرنے کی تلقین کی جائے گی یا اس کو کسی برے کام سے روکا جائے گا تو وہ اس بات کو قبول نہیں کرے گا تو اس کو اس نیک کام کا حکم کرنا یا برے کام سے روکنا واجب نہیں ہوگا البتہ مستحسن ضرور رہے گا تاکہ شعار اسلام کا اظہار ہو جائے ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس کے خلاف نقل کیا ہے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
حدیث کے الفاظ من رای منکم منکرا میں لفظ من کے ذریعہ مذکورہ حکم کا مخاطب جن لوگوں کو قرار دیا گیا ہے ان میں ملت کا ہر فرد شامل ہے ، یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہر مسلمان کو ادا کرنا چاہئے خواہ وہ مرد ہو یا عورت اور خواہ آزاد ہو یا غلام یہاں تک کہ فاسق بھی اس امر کا ذمہ دار ہے ۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ امر بالمعروف کے لئے شرط نہیں ہے کہ جو شخص کسی نیکی کا حکم کرنے والا ہو وہ پہلے خود بھی اس نیکی پر عامل ہو اور بغیر اپنے عمل کے امر بالمعروف کا فریضۃ انجام دینا اس کے لئے درست نہ ہو کیونکہ جس طرح خود اپنے نفس کو کسی نیکی پر عمل کرنے کی تلقین کرنا ایک واجب چیز ہے اسی طرح ایک واجب امر یہ ہے کہ دوسروں کو نیکی کی تلقین کی جائے، لہٰذا اگر ان میں سے کوئی ایک واجب ترک ہوتا تو اس کی وجہ سے دوسرے واجب کو ترک کرنا قطعاً جائز نہیں ہوگا، یہ الگ بات ہے کہ جس واجب کا ترک ہوگا اس کا گناہ بہر صورت لازم آئے گا۔ لہٰذا قرآن کریم میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ۔ آیت (لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ) 61۔ الصف : 2)۔ (یعنی تم اس چیز کو کیوں کہتے ہو جس پر خود عمل نہیں کرتے) تو اس آیت کریمہ کا محمول امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو تسلیم کرنے کی صورت میں یہ کہا جائے گا کہ اس آیت کی مراد ترک عمل سے روکنا اور اس پر زجر و تنبیہ ہے نہ کہ دوسروں کو بھلائی کی تلقین کرنے سے منع کرنا مراد ہے ، اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھئے کہ جو شخص بھلائیوں کی تلقین کرتا ہے اور دوسروں سے نیک عمل اختیار کرنے کو کہتا ہے لیکن وہ خود اس بھلائی اور نیک عمل کو اختیار نہیں کرتا تو یہ آیت کریمہ ایسے شخص کو متنبہ کرتی ہے کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ تم دوسروں کو بھلائی اور نیک عمل کرنے کی تلقین کرتے ہو لیکن یہ نہایت غیر موزوں بات ہے کہ تم خود اس بھلائی اور نیک عمل کو اختیار نہیں کرتے۔ لہٰذا آیت یہ بات قطعا ثابت نہیں کرتی کہ جو شخص خود نیک عمل اختیار نہ کرے وہ دوسروں کو بھی نیک عمل اختیار کرنے کی تلقین نہیں کر سکتا، تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نیکی کی تلقین کرنے والا اگر خود بھی نیکی کو اختیار کرے تو اس سے اچھی کوئی بات نہیں ہو سکتی، کیونکہ جو شخص خود عمل نہیں کرتا، اس کی تلقین و نصیحت دوسروں پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حدیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کی جو ترتیب ذکر کی گئی ہے وہ قرآن و سنت اور اجماع امت کے ذریعہ واجب ہے اس بارہ میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہے البتہ کچھ روافض کا اس سے اختلاف ہے جن کا کوئی اعتبار نہیں ہے، لہٰذا جس شخص نے مذکورہ ترتیب کے مطابق اس فریضہ کو انجام دیا اور مخاطب نے اس کو قبول کر لیا تو سبحان اللہ اور اگر قبول نہ کیا تو وہ شخص اپنی ذمہ داری سے بہرحال سبکدوش ہو جائے گا، اس کے بعد اب اس پر کوئی اور چیز واجب نہیں ہوگی۔ نیز علماء نے کہا ہے کہ اس امر (یعنی بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے) کی فرضیت بطریق کفایہ ہے اور جو شخص اس فریضہ کی ادائیگی کی طاقت و قوت رکھنے کے باوجود اس ذمہ داری کو بلا کسی عذر کے پورا نہ کرے تو وہ گناہ گار ہوتا ہے لیکن بعض صورتوں میں یہ امر فرض عین بھی ہو جاتا ہے۔ مثلا کوئی برائی کسی ایسی جگہ رونما ہو رہی ہو کہ ایک شخص کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا یا اس کے اذالہ کی قدرت اس کے علاوہ کوئی اور نہیں رکھتا جیسے اپنی بیوی یا بیٹی کسی برائی کا ارتکاب کرے تو اس برائی کو ختم کرنے کی ذمہ داری خاص طور سے اسی شخص پر عائد ہوگی۔
امام نووی رحمہ اللہ نے یہ بھی لکھا ہے کہ عدم قبولیت کا گمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے وجوب کو ساقط نہیں کرتا، لہٰذا اگر کسی کو یہ گمان ہو کہ فلاں شخص کے سامنے بھلائی کی تلقین کرنا یا اس کو برے کام سے روکنا بے کار ہے کیونکہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قبول نہیں کرے گا تو اس صورت میں بھی اس پر واجب ہوگا کہ وہ اس شخص کو نیک کام کرنے کا حکم دے اور برائی کے راستہ سے روکے اور اس بات کی قطعا پرواہ نہ کرے کہ اس کی بات مانی جائے گی یا نہیں کیونکہ موعظت و نصیحت اول تو بذات خود بڑے فائدے رکھتی ہے اور کسی نہ کسی صورت میں اور کبھی نہ کبھی ضرور اثر کرتی ہے جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے ۔ آیت (فان الذکری تنفع المومنین)۔ دوسرے یہ کہ محض اس گمان کی بنا پر کہ مخاطب تلقین و نصیحت سے کوئی اثر نہیں لے گا اپنی ذمہ داری سے اعراض نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس حقیقت کو سامنے رکھ کر بھلائیوں کو پھیلانے اور برائیوں کو مٹانے کی جدوجہد میں مصروف رہنا چاہئے کہ لوگوں نے تو رسولوں تک کو جھٹلایا ہے اور پیغمبروں تک کی موعظت و نصیحت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے تو کیا ان رسولوں اور پیغمبروں نے حق بات پہچاننے کا فریضہ ترک کر دیا تھا۔ قرآن نے جو بات رسول و پیغمبر کے بارے میں فرمائی ہے وہ ہر شخص پر صادق آتی ہے جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے یعنی آیت (وما علی الرسول الا البلاغ المبین)(یعنی رسول کا کام بس یہ ہے کہ ) اللہ کے احکام) صاف صاف پہنچا دے (ان احکام کا ماننا یا نہ ماننا دوسروں کا کام ہے۔
واضح رہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضۃ صرف حاکم اور مقتدر مسلمانوں ہی پر عائد نہیں ہوتا اور نہ یہ ضروری ہے کہ اس امر کی انجام دہی کے لئے حاکم اپنی طرف سے احکام جاری کر دے، بلکہ اس کا حق عام لوگوں کو بھی پہنچتا ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے کام کو انجام دیں، بلکہ ایسے زمانہ میں جب کہ طاقت و اقتدار رکھنے والے مسلمان اس فریضہ سے بالکل لاپرواہی برتتے ہیں۔ خصوصیت سے عام مسلمانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس کام کو انجام دیں اور تمام مسلمانوں میں بھی زیادہ ذمہ داری علماء و مشائخ پر عائد ہوتی ہے، اسی طرح اس فریضہ کی ادائیگی میں اپنا مخاطب صرف عام مسلمانوں ہی کو نہیں ماننا چاہئے بلکہ خواص جیسے حاکموں وغیرہ کو بھی مناسب انداز میں بھلائیوں کی تلقین کرنی چاہئے اور وہ جن برائیوں میں مبتلا ہوں ان سے ان کو روکنا چاہئے، چنانچہ پچھلے زمانوں کے بزرگ صرف عوام الناس کو بھلائیوں کی تلقین نہیں کرتے تھے اور ان کو برائیوں سے روکنے پر اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ بادشاہوں حاکموں اور مقتدر مسلمانوں کے سامنے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ تاہم یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اسی شخص کو کرنا چاہئے جو یہ علم رکھتا ہو کہ وہ جس چیز کا حکم دے رہا ہے یا جس چیز سے روک رہا ہے شریعت کے اعتبار سے اس کی کیا حیثیت و اہمیت ہے، چنانچہ جہاں تک ان چیزوں کا تعلق ہے جن کا فرض و واجب ہونا یا جن کا حرام ہونا اس طرح ظاہر ہے کہ تمام مسلمان ان کو جانتے ہیں، جیسے نماز اور روزہ وغیرہ یا زنا اور شراب وغیرہ، تو ان چیزوں کے بارے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عام مسلمان بھی شوق سے کر سکتے ہیں لیکن جو چیزیں کہ خواہ وہ قولی ہوں یا فعلی، ایسی ہیں کہ ان کے بارے میں عام مسلمانوں کو کوئی علم نہیں ہوتا جو اجتہاد سے تعلق رکھتی ہیں تو عوام کو ان طرح کی چیزوں میں سے صرف اسی چیز کو اختیار کرنے سے منع کرنا چاہئے جن کی ممانعت متفق علیہ ہو مختلف فیہ امور میں منع نہیں کرنا چاہئے خصوصا ان حضرات کے مسلک کے مطابق کہ جو یہ کہتے ہیں کہ ہر مجتہد مصیب ہوتا ہے۔
آخر میں یہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ جو لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری انجام دیں ان کو چاہئے کہ وہ اس فریضہ کی ادائیگی میں خوش خلقی، نرمی اور تہذیب و متانت کا رویہ اختیار کریں اور وہ اس امر کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر انجام دیں نہ کہ کسی دنیاوی غرض و مقصد اور نفس کی خاطر، اس صورت میں مخاطب پر بات اثر بھی کرتی ہے، اور اللہ تعالیٰ ثواب بھی عطا فرماتا ہے اسی طرح جب کسی شخص کو کوئی نصیحت کرنی ہو تو لوگوں کی موجودگی میں نہ کی جائے بلکہ تنہائی میں اور پوشیدہ طور پر اس کو نصیحت کرنی چاہئے کیونکہ لوگوں کی موجودگی میں کسی کو نصیحت کرنا، نصیحت نہیں بلکہ فضیحت ہے۔
مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ توکل اور صبر کا بیان ۔ حدیث 1062
http://www.hadithurdu.com/09/9-4-1062/
..............................
کامیابی کے لئے‘ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضروری
امر کے معنی ہیں ’’حکم دینا‘‘ اور معروف کے معنی ہیں ’’نیکی یا اچھائی‘‘، نہی کے معنی ہیں ’’روکنا‘‘ اور منکر کے معنی ہیں ’’برائی‘‘۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مطلب ہے: ’’اچھائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا یعنی دعوت وتبلیغ کا کام کرنا‘‘۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ امت محمدیہ کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذات سے احکام شرعیہ پر عمل کرکے اپنی صلاحیت اور استطاعت کے بقدر دوسروں کو اچھائیوں کا حکم کرتا رہے اور اُن کو برائیوں سے روکتا رہے۔ 
کائنات کے آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خالق کائنات کا آخری پیغام انسانیت کے نام لے کر دنیا میں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب کی حیثیت سے آپ کی صلی اللہ علیہ وسلم امت کو اس پیغام کا حامل وداعی بنایا گیا، اور اس دعوتی ملت کے وجود وقیام وبقا کو اسلام کی دعوت اور جد وجہد کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ امت محمدیہ امت مبعوثہ ہے، جس کا مقصد دعوت الی الخیر ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے ، آیاتِ قرآنیہ واحادیثِ نبویہ اس حقیقت پر شاہد ہیں، چنانچہ فرمان الہٰی ہے: (مسلمانو!) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدہ کے لئے وجود میں لائی گئی ہے۔ تم اچھائیوں کا حکم کرتے ہو، برائیوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔۔۔ (سورۃ آل عمران ۱۱۰) مفسرین کا اتفاق ہے کہ اِس امت کا بہترین اور خیر امت ہونا اِس کے داعی ہونے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری انجام دینے کی وجہ سے ہے۔علامہ ابن کثیر ؒ اس آیت کی تفسیر میں امت مسلمہ کے خیر امت ہونے کے دلائل پر مشتمل متعدد روایات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ تمام احادیث (کُنْتُمْ خَيرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ) کی وضاحت کرتی ہیں اور یہ بتلاتی ہیں کہ جو شخص اِن صفات سے متصف ہوگا وہی اِس فضیلت کا مستحق ہوگا جیساکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص خیر امت ہونے کی فضیلت میں شامل ہونا چاہتا ہے اُس پر لازم ہے کہ اُن شرائط کو پورا کرے جو اِس آیت میں بیان کی گئی ہیں یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا بھی اہتمام کرے۔ (تفسیر ابن کثیر)
غرضیکہ اپنی ذات سے دین پر چل کر اِس امت کے ہر فرد پر مزید ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اِس بات کی کوشش وفکر کرے کہ گھر والے، محلہ والے، شہر والے، دوست واحباب اور متعلقین غرضیکہ انسانیت کا ہر ہر فرد اللہ تعالیٰ کو مان کر اور اللہ تعالیٰ کی مان کر زندگی گزارنے والابن جائے۔اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ امت مسلمہ کے لئے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری فرض عین ہے یا فرض کفایہ۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اِس ذمہ داری کو انجام دینے کے دو طریقہ ہیں: ایک انفرادی دعوت وتبلیغ اور دوسرے اجتماعی دعوت وتبلیغ۔ انفرادی دعوت وتبلیغ کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص اپنی آنکھوں سے دوسرے شخص کو دیکھ رہا ہے کہ وہ فلاں گناہ کے اندر مبتلا ہے یا وہ شخص فلاں فرض مثلاً نماز کی ادائیگی نہیں کرتا ہے۔ انفرادی طور پر اُس شخص کو اِس طرف متوجہ کرنا کہ وہ اِس گناہ کو چھوڑدے اور فرض ادا کرنے والا بن جائے ، انفرادی دعوت وتبلیغ ہے۔ اگر اجتماعی طوپر لوگوں کی ہدایت کے لئے محنت کی جائے مثلاً وعظ ونصیحت کے لئے علماء کا بیان یا لوگوں کی ہدایت کے لئے عمومی محنت تو وہ اجتماعی دعوت وتبلیغ ہے۔ اجتماعی دعوت وتبلیغ فرض عین نہیں ہے بلکہ فرض کفایہ ہے، لیکن انفرادی دعوت وتبلیغ فرض عین ہے۔ یعنی اگر کوئی شخص گناہ کبیرہ میں مبتلا ہے یا فرض مثلاً نماز کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے اور ہم اس کو اپنی بات پہنچا بھی سکتے ہیں تو استطاعت اور صلاحیت کے بقدر ہمارے اوپر فرض عین ہے کہ ہم اُس شخص کو سمجھائیں کہ وہ گناہ کبیرہ سے توبہ کرے اور فرض مثلاً نماز کی ادائیگی کرنے والا بن جائے۔ 
انفرادی دعوت وتبلیغ کے فرضِ عین ہونے کے دلائل:
اللہ تعالیٰ نیک بندوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے مدرگار ہیں۔ اچھی باتوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ (سورۃ التوبہ ۷۱) اِس آیت اور اِس سے قبل آیت میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا کہ سماج میں اچھی باتیں پھیلانا اور بری باتوں سے امت کو روکنا تقاضۂ ایمان ہے، اِس کے برخلاف بری باتوں کو پھیلانا اور اچھی باتوں سے لوگوں کو روکنا منافقین کا عمل ہے۔ اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی صفات میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو نماز وروزہ بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے بھی قبل ذکر کیا جس سے یقیناًاس کام کی اہمیت وتاکید معلوم ہوتی ہے۔ نیز قرآن کا اصول وضابطہ ہے کہ عمومی طور پر مردوں کے صیغہ سے خطاب کیا جاتا ہے، خواتین ضمناً حکم میں شامل ہوتی ہیں، لیکن اس آیت میں امت مسلمہ کے لئے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خصوصی تاکید واہمیت بتلانے کے لئے خواتین کا بھی وضاحت کے ساتھ ذکر کیا گیا تاکہ واضح طور پرمعلوم ہوجائے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری مردو عورت دونوں پر عائد ہے۔ 
قرآن کریم کی مختصر سی سورت (سورۃا لعصر) میں اللہ تعالیٰ زمانہ کی قسم کھاکر ارشاد فرماتا ہے: قسم ہے زمانے کی کہ ہر انسان بڑے خسارے میں ہے، مگر وہ لوگ جو ایمان لائے، اور انہوں نے اچھے کام کئے۔ اور آپس میں تاکید کرتے رہے سچے دین کی۔ اور آپس میں تاکید کرتے رہے صبر وتحمل کی۔۔۔ انسانوں کو پیدا کرنے والے اللہ جل جلالہ کے فرمان سے معلوم ہوا ہر انسان بڑے خسارے اور نقصان میں ہے، اور اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچ سکتے ہیں جن کے اندر چار صفات موجود ہوں۔ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان، اعمال صالحہ (یعنی نیک اعمال کرنا)، ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا اور صبر کی تلقین کرنا۔دنیا وآخرت کے خسارے سے بچنے اور نفع عظیم حاصل کرنے کا یہ قرآنی نسخہ چار اجزاء سے مرکب ہے۔ جن میں سے دو کا تعلق اپنی اصلاح سے جبکہ دو کا تعلق دیگر افراد کی اصلاح سے ہے۔ غرضیکہ ہم اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کے احکام نبی اکرم ﷺکی تعلیمات کے مطابق بجا لاکر ساتھ میں یہ کوشش اور فکر کریں کہ ہماری اولاد، ہمارے رشتے دار اور ہمارے پڑوسی سب اللہ کی مرضی کے مطابق اس دنیاوی فانی زندگی کو گزارنے والے بنیں تاکہ ہم سب بڑے خسارے سے بچ کر، ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی حاصل کرنے والے بن جائیں۔
اللہ تعالیٰ سورہ توبہ کی آیت نمبر ۱۱۲ میں مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وہ توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے ، رکوع اور سجدہ کرنے والے، نیک باتوں کا حکم کرنے والے اور برے کاموں سے روکنے والے اوراللہ تعالیٰ کی حدود کا خیال رکھنے والے ہیں۔ اور ایسے ہی مؤمنین کو آپ خوشخبری سنادیجئے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا لاتے ہیں۔ (سورہ التحریم ۶) اِس آیت میں عام مؤمنین سے خطاب کیا گیا کہ اپنے ساتھ اپنے گھر والوں کو بھی جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کرو۔
نیز فرمان الٰہی ہے: (اے پیغمبر!) کہہ دو کہ: یہ میرا راستہ ہے۔ میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی، اور اللہ (ہر قسم کے شرک سے) پاک ہے، اور میں اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ (سورہ یوسف ۱۰۸)
اسی طرح اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے مخاطب ہوکر ارشاد فرماتا ہے: اور نصیحت کرتے رہو کیونکہ نصیحت ایمان والوں کو فائدہ دیتی ہے۔ (سورہ الذاریات ۵۵)
اللہ تعالیٰ مؤمنین سے خطاب فرماکر ارشاد فرماتا ہے: نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہو ۔ (سورۃالمائدۃ۲) یعنی ایک دوسرے کو سمجھاتے رہو تاکہ سب کا دینِ اسلام پر چلنا آسان ہوجائے۔
انفرادی دعوت وتبلیغ کے فرض عین ہونے کے متعلق حضور اکرم ﷺ نے اس طرح بیان فرمایا: تم میں سے ہر ایک ذمہ دار ہے اور اس کی ذمہ داری کے متعلق پوچھا جائے گا۔ امیر اپنی رعایا کا، مرد اپنے اہل وعیال کا، عورت اپنے شوہر کے گھر اور بچوں کی ذمہ دار ہے۔ (بخاری کتاب النکاح ۔ باب المرأۃ راعیہ فی بیت زوجہا) اسی طرح فرمان نبی ﷺہے: تم میں سے جو کوئی کسی منکر کو دیکھے تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کو اپنے ہاتھ (یا اثر ورسوخ) سے بدل (کر درست کر)دے، پس اگر وہ (کسی وجہ سے) ایسا نہ کرسکے تو زبان سے نکیر کردے، اور اگر ایسا بھی نہ کرسکے تو (کم از کم) اپنے دل سے اُس منکر کو برا سمجھے، اور یہ (آخری صورت) سب سے کمزور ایمان والی ہے۔ (مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب بیان کون النہی عن المنکر من۔۔۔) حضور اکرم ﷺنے نہی عن المنکر کے تین درجات بیان فرمائے۔ اپنے اثرورسوخ اور طاقت کے ذریعہ برائی کو روکنا، اُس کی قدرت نہ ہونے پر زبان سے برائی کو روکنا اور اس کی بھی قدرت نہ ہونے پر کم از کم درجہ یہ ہے کہ اپنے دل سے اُس منکر کو برا سمجھے۔ 
اجتماعی دعوت وتبلیغ کے فرض کفایہ ہونے کے دلائل:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں ، اچھائیوں کا حکم کریں اور برائیوں سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔ (سورۃ آل عمران ۱۰۴) اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کی دو رائیں ہیں، خلاصۂ کلام یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام مجموعی طور پر اگرچہ تمام مسلمانوں پر اپنی استطاعت اور صلاحیت کے بقدر واجب ہے ، مگر ایک جماعت کا دعوت وتبلیغ کے کام کے لئے مختص اور موجود ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ یہ جماعت معاشرہ کی اصلاح کے لئے ہر وقت کام کرتی رہے۔ 
ترمذی اور ابن ماجہ کی حدیث میں حضور اکرم ﷺ کا ارشاد مذکور ہے: تم لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو، ورنہ قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر اپنی جانب سے عذاب نازل فرمادیں گے، پھر اس کے بعد تمہاری دعائیں تک قبول نہ ہوں گی۔ اِن دنوں امت مسلمہ جن پریشانیوں سے دوچار ہے، اُن کے حل کے لئے متعدد اسباب اختیار کئے جارہے ہیں، نیک لوگوں کی دعائیں بھی برابر ہورہی ہیں مگر پھر بھی مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں، اِس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو چھوڑنا ہے، جس کی وجہ سے بڑے بڑے گناہ بھی مسلمانوں کی زندگی میں عام ہوگئے ہیں، مثلاً امت مسلمہ کا بڑا طبقہ ایمان کے بعد سب سے اہم فریضہ یعنی نماز کی پابندی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تقریباً ۷۰۰ مقامات پر نماز کا ذکر فرمایا ہے اور پوری انسانیت کے آخری نبی حضور اکرم ﷺ کی زندگی کا بڑا حصہ اِسی فریضہ کو ادا کرنے میں لگا جیسا کہ سورۃ المزمل کی ابتدائی اور آخری آیات شاہد ہیں۔ نیز اِن دنوں حصول مال کے لئے ایسی دوڑ شروع ہوگئی ہے کہ اکثر لوگ اس کا بھی اہتمام نہیں کرتے کہ مال حلال وسائل سے آرہا ہے یا حرام وسائل سے، بلکہ کچھ لوگوں نے تو اَب حرام وسائل کو مختلف نام دے کر اپنے لئے جائز سمجھنا شروع کردیا ہے ۔
حضور اکرم ﷺ نے قرآن کریم کی آیت (سورۃ المائدہ ۷۸) تلاوت کرنے کے بعد فرمایا: خبردار! تم لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اہتمام سے ادا کرتے رہو۔۔۔۔۔ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہارے قلوب ایک دوسرے کے ساتھ خلط ملط کردے گا،پھر تمہارے اوپر لعنت کی جائے گی جیسے بنی اسرائیل پر کی گئی تھی۔ (ابوداود ۔ باب الامر والنہی) 
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت وفضیلت:
سورۃ النحل آیت ۹۰ میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے بارے میں فرمایا: وہ اپنے بندوں کو اچھی باتوں کا حکم دیتا ہے اور بری باتوں سے منع کرتا ہے۔ 
سورۃ الاعراف آیت ۱۵۷ میں اللہ تعالیٰ نے نبی اکرم ﷺکے متعلق ارشاد فرمایا: حضور اکرم ﷺ کی امتیازی صفت بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ہے۔ یہ کتنی فضیلت اور اہمیت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول خود اِس اہم کام یعنی امر بالمعروف ونہی عن المنکر میں شامل ہیں۔ 
امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی اہمیت وفضیلت اور تاکید بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اُس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف لوگوں کو بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ (سورۃ فصلت ۳۳) غرضیکہ اللہ جلَّ جلالہ کے اعلان کے مطابق دنیا میں سب سے بہتر بات وہ ہے جس کے ذریعہ اللہ کے بندوں کو اللہ کی طرف بلایا جائے۔ 
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خیبر میں جھنڈا پیش کرتے ہوئے حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم! اگر تیری وجہ سے ایک شخص بھی ہدایت پاگیا تو تیرے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔ (صحیح بخاری ۔ باب مناقب علیؓ ) سرخ اونٹ اُس زمانہ میں سب سے قیمتی چیز تھی، یعنی ایک شخص کا ہدایت یافتہ ہونا دنیا وما فیہا سے بہتر ہے۔
دعوت وتبلیغ کے لئے علم کثیر کی ضرورت نہیں:
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے علم کثیر کی ضرورت نہیں بلکہ جو بھی انسان صحیح وسائل کے ذریعہ جانتا ہے اسے دوسروں کو پہنچانا چاہئے، جیسا کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ کے فرمان سے معلوم ہوتا ہے: تم میں جو حاضر ہیں غائب تک (میرا پیغام) پہنچادیں ۔۔۔ حضور اکرم ﷺ کا قول (فَلْےُبَلِّغِِ الشَّاہِدُ الغَاءِبَ) نقل کرکے اس کے متعلق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اللہ کی قسم یہ کلمات حضور اکرم ﷺ کی اپنی امت کو وصیت تھی۔ (صحیح بخاری ۔ باب خطبۃ ایام منی) نیز محسن انسانیت نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دوسروں تک میری بات پہنچاؤ خواہ مجھ سے ایک آیت ہی (تم تک) پہنچی ہو۔ (بخاری وترمذی)
یقیناً امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے لئے کوئی خاص ڈگری ضروری نہیں ہے، لیکن احکام شرعیہ سے واقفیت کے بغیر بڑے بڑے مجمعوں سے مخاطب ہوکر وعظ ونصیحت کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ یہ ذمہ داری ان علماء کرام کی ہے جنہوں نے زندگی کا قیمتی وقت لگاکر علوم قرآن وسنت سے واقفیت حاصل کی ہے۔ ہاں عوام الناس کو علماء کرام کی سرپرستی میں صرف انہی اعمال کی لوگوں کو دعوت دینی چاہئے جن کے متعلق انہیں معتبر ذرائع سے معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ اِن دنوں بعض حضرات نماز وروزہ کے مسائل سے واقفیت کے بغیر درس قرآن ودرس حدیث دینا شروع کردیتے ہیں اور مجمعوں سے مخاطب ہوکر وعظ ونصیحت کرتے ہیں اور اس کے لئے نئی ٹکنولوجی کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ لہذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ڈر کے ساتھ اپنے علم ومعرفت کے مطابق ہی دعوت وتبلیغ کی ذمہ داری کو انجام دے۔ درس قرآن یا درس حدیث کے نام سے اسی وقت دین اسلام کی خدمت کا سلسلہ شروع کریں جبکہ علماء کرام کی سرپرستی میں رہ کر علوم قرآن وسنت سے اچھی خاصی واقفیت حاصل کرلی ہو۔ لوگوں کو بھی چاہئے کہ ہر کسی شخص کے درس قرآن یا درس حدیث میں شریک نہ ہوں کیونکہ قرآن وحدیث کے احکام سے اچھی طرح واقفیت کے بغیر درس قرآن یا درس حدیث دینا فتنہ سے کم نہیں ہے جو آجکل آن لائن کی شکل میں بھی بہت نظر آرہے ہیں۔کہنے کا حاصل یہ ہے کہ جس شخص کے پاس کما حقہ علم نہ ہو اس کو اجتماعی دعوت وتبلیغ نہیں کرنی چاہئے، بلکہ ایسے شخص کو انفرادی تبلیغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ 
حکمت، بصیرت اور نرم لہجے سے دعوت وتبلیغ کا کام کرنا چاہئے:
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اپنے رب کے راستے کی طرف لوگوں کو حکمت کے ساتھ اور خوش اسلوبی سے نصیحت کرکے دعوت دو۔ اور (اگر بحث کی نوبت آئے تو) ان سے بحث بھی ایسے طریقہ سے کرو جو بہترین ہو۔(سورۃ النحل ۱۲۵)
فرمان الہٰی ہے: اور (مسلمانو!) اہل کتاب سے بحث نہ کرو، مگر ایسے طریقے سے جو بہترین ہو۔ البتہ جو اُن میں سے زیادتی کریں، اُن کی بات اور ہے۔۔۔ (سورۃ العکنبوت ۴۶) یوں تو ہر فرد کو شائستگی کے ساتھ ہی اسلام کی طرف بلایا جائے گا، مگر اہل کتاب کے ساتھ خصوصی تاکید کی گئی ہے کیونکہ وہ فی الجملہ آسمانی کتابوں پر ایمان کے ساتھ جنت اور دوزخ کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اگر اُن کی طرف سے بھی زیادتی ہو تو ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے گا۔ 
فرمان الہٰی ہے: (دونوں فرعون کے پاس جاؤ، وہ حد سے آگے نکل چکا ہے) اور دونوں اُس سے نرمی سے بات کرنا ، شاید وہ نصیحت قبول کرلے یا (اللہ سے) ڈر جائے۔۔۔ (سورۃ طہ ۴۴) حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی کو حکم دیا گیا کہ فرعون جیسے ظالم انسان کے پاس جاکر اسے نرم لہجے میں سمجھاؤ شاید وہ نصیحت قبول کرکے اللہ تعالیٰ سے ڈر جائے۔ 
ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ صحابۂ کرام کے ساتھ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے۔ اِتنے میں ایک دیہاتی شخص مسجد کے صحن میں پیشاب کرنے لگا۔ صحابۂ کرام نے جب یہ دیکھا کہ وہ مسجد کے صحن میں پیشاب کررہا ہے تو جلدی سے اس کی طرف دوڑے اور قریب تھا کہ اس پر ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے، اتنے میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اِس کا پیشاب بند مت کرو، جو کام کرنا تھا وہ اس نے کرلیا، اور پورا پیشاب کرنے دو، اس کو مت ڈانٹو‘‘، اور فرمایا : ’’لوگوں کے لئے میں خیرخواہی کرنے والا اور آسانی کرنے والا بناکر بھیجا گیا ہوں، دشواری کرنے والا بناکر نہیں بھیجا گیا، لہٰذا اب جاکر مسجد کو پانی کے ذریعہ صاف کردو۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے اُس شخص کو بلاکر سمجھایا: ’’یہ مسجد اللہ کا گھر ہے، اِس قسم کے کاموں کے لئے نہیں ہے۔ تمہارا یہ عمل صحیح نہیں ہے، آئندہ ایسا مت کرنا۔‘‘ (صحیح بخاری۔ کتاب الادب ۔ باب رحمۃ الناس والبہائم)اگر آج کوئی شخص ایسا کردیتا تو ہم اس شخص کی بوٹی بوٹی کردیتے ، لیکن حضور اکرم ﷺ نے پہچان لیا کہ اِس دیہاتی شخص نے ناواقفیت کی وجہ سے یہ غلطی کی ہے، لہٰذا آپ ﷺ نے ڈانٹنے کے بجائے اسے نرمی سے سمجھایا۔ انبیاء کرام نے بھی لوگوں کو سمجھانے کے لئے نرم لہجہ ہی اختیار کیا۔ا گر مخالف گالی دیتے تو انبیاء کرام اس کے جواب میں گالی نہیں دیتے تھے، بلکہ ان کو حکمت اور بصیرت کے ساتھ سمجھاتے تھے۔ 
دعوت وتبلیغ کا کام حکمت وبصیرت کے ساتھ کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ عین اُس وقت جب کوئی شخص گناہ کے اندر مبتلا ہو، روک ٹوک کرنا بعض اوقات نقصان دہ ہوتا ہے ، اس لئے اس وقت روک ٹوک نہ کریں، بلکہ بعد میں مناسب موقع پر حکمت وبصیرت کے ساتھ اُس کو سمجھائیں کہ جو تم عمل کررہے تھے وہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، اِس سے محفوظ رہو۔ اِسی طرح اگر کسی جگہ یہ اندیشہ ہو کہ سامنے والا میری بات سننے اور ماننے کے بجائے شریعت کے حکم کی توہین کرے گا، وہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کریں بلکہ خاموش رہیں۔ 
ہماری دعوت وتبلیغ میں تاثیر کیسے پیدا ہو:
یقیناًہم کسی ایک شخص کو بھی ہدایت نہیں دے سکتے، لیکن ہماری یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہم ذمہ داری کو صحیح طریقہ سے انجام دیں، جس کے لئے چند بنیادی شرطیں ہیں: ۱) حق بات کی دعوت دی جائے، یعنی قرآن وحدیث اور علماء امت کے اقوال کی روشنی میں نیک اعمال کی طرف لوگوں کو بلائیں اور برائیوں سے روکیں۔ ۲) ہماری نیت صحیح ہو یعنی صرف اور صرف رضائے الہٰی کا حصول اور اعلاء کلمۃ اللہ ہمارا مقصد ہو۔ ۳) دعوت وتبلیغ کے لئے صحیح طریقہ اختیار کیا جائے۔ ۴) اخلاق کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا جائے، انکساری اور تواضع کے ساتھ دوسروں کو دعوت دی جائے۔ غیر مسلموں کے درمیان دعوت وتبلیغ کرنے والے حضرات اس شرط کا خاص اہتمام کریں۔ ۵) کسی بھی عمل کی دعوت کے لئے خود بھی حتی الامکان اُس پر عمل پیرا ہوں۔ ۶) دعوت وتبلیغ کا کام کرنے میں جو بھی حالات آئیں اُن پر صبر کریں، کیونکہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک تاریخ شاہد ہے کہ دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والوں حتی کہ انبیاء کرام کو بھی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ۷) اللہ تعالیٰ سے اپنی اور لوگوں کی ہدایت کے لئے خوب دعائیں کرتے رہیں۔ ۸) سنتوں پر عمل کریں۔
کیا دوسروں کو وعظ ونصیحت کرنے کے لئے عمل ضروری ہے؟
قرآن کریم کی آیت (اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہوجو تم کرتے نہیں ہو) سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کوئی عمل نہیں کرتا ہے تو وہ شخص اُس عمل کی دوسروں کو دعوت نہ دے، مثلاً ایک شخص شراب پیتا ہے تو وہ دوسروں کو شراب سے بچنے کی تلقین نہ کرے۔ لیکن آیت کا یہ مطلب لینا صحیح نہیں ہے، بلکہ اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو کام تم نہیں کرتے ہو اُس کے متعلق مت کہا کرو کہ میں نے کیا ہے، مثلاً اگر تم نمازِ فجر جماعت کے ساتھ نہیں پڑھتے ہو تو دوسروں سے مت کہو کہ میں نماز فجر جماعت کے ساتھ پڑھتا ہوں، یا اگر تم نے حج نہیں کیا ہے تو تم لوگوں سے نہ کہو کہ میں نے حج کرلیا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کی دوسری آیت (اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ) کا مطلب یہ ہے ’’کیا تم دوسروں کو تو تلقین کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو‘‘۔ لہٰذا جب تم دوسروں کو کسی عمل کی نصیحت کررہے ہو تو خود بھی عمل کیا کرو۔ اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ چونکہ اِس نیک کام پر تم عمل پیرا نہیں ہو،لہٰذا دوسروں کو اِس عمل کی نصیحت نہ کرو۔ مثلاً ایک شخص حافظ قرآن یا عالم دین نہیں ہے لیکن اپنے بیٹے کو حافظ قرآن یا عالم دین بنانا چاہتا ہے تو وہ اِن آیات کے ضمن میں نہیں آئے گا۔ غرضیکہ اگر ہم کسی نیک کام پر عمل پیرا نہیں ہیں تو بھی اُس کی دعوت دوسروں کو دے سکتے ہیں لیکن اُس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش اور فکر ضرور کرنی چاہئے۔ چنانچہ مشہور محدث امام نوویؒ صحیح مسلم کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنے والے کا خود عمل کرنا شرط نہیں ہے، بلکہ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اچھی بات کی دوسروں کو تلقین کرتا رہے خواہ اُس اچھی بات پر خود عمل کررہا ہو یا نہیں۔ اِسی طرح دوسروں کو گناہوں سے بچنے کی ترغیب دیتا رہے خواہ وہ اُس گناہ میں خود مبتلا ہو یا نہیں، کیونکہ عمل کرنا اور دوسروں کو دعوت دینا دونوں الگ الگ ذمہ داریاں ہیں۔ 
امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکے لئے خود بھی باعمل اور متقی ہونے کی شرط لازم نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی اصلاح کی فکر ضروری نہیں ہے۔ ہرگز نہیں۔ قرآن وحدیث کی تعلیمات بتلاتی ہیں کہ خود کی اصلاح اور اپنے آپ کو گناہوں سے محفوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے بالخصوص دعوت وتبلیغ اور وعظ ونصیحت کرنے والوں کو تو اس سلسلہ میں بہت زیادہ فکر کی ضرورت ہے۔ وعظ ونصیحت کرنے والے حضرات صحیح مسلم میں وارد اِس حدیث کو ضرور پڑھیں اور بار بار اس کو اپنے مطالعہ میں رکھیں کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ایک شخص کو لاکر جہنم میں ڈال دیا جائے گا، ڈالتے ہی اُس کی آنتیں پیٹ سے باہر نکل پڑیں گی اور وہ آنتوں کے اطراف ایسا گھومنا شروع کرے گاجیسے کہ گدھا آٹے کی چکی کے اطراف گھومتا ہے۔ یہ حالت دیکھ کر جہنمی اس کے اطراف جمع ہوجائیں گے اور اُس سے کہنے لگیں گے۔ اے شخص! تجھے کیا ہوگیا ہے؟ تو تو دنیا میں اچھی باتیں پھیلاتا تھا اور بری باتوں سے لوگوں کو روکا کرتا تھا۔ وہ شخص کہے گا، ہاں میں تم لوگوں کو اچھی باتوں کے لئے کہتا تھا مگر خود اُن پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اور بری باتوں سے تمہیں روکتا تھا اور خود انہیں میں مبتلا رہتا تھا۔ (مسلم ۔ کتاب الزہد والرقائق ۔ باب عقوبہ من یامر بالمعروف ولا یفعلہ۔۔۔) لہٰذا ہم سب کو چاہئے کہ ہم خود بھی احکام شرعیہ پر عمل کریں اور دوسروں کو بھی اللہ کی طرف بلائیں۔ 
دعوت وتبلیغ کی اہم ذمہ داری کو ادا کرنے کے طریقے:
ظاہر ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی دعوت وتبلیغ کی ذمہ داری مختلف طریقوں سے انجام دی جاسکتی ہے۔ صحابۂ کرام، تابعین اور تبع تابعین نے اپنے قول وعمل کے ذریعہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے قرآن وحدیث محفوظ فرماکر، مفسرین نے قرآن کریم کی تفاسیر لکھ کر، محدثین نے حضور اکرم ﷺ کی احادیث جمع کرکے، اہل سیر نے حضور اکرم ﷺ کی سیرت لکھ کر، مؤرخین نے اسلامی تاریخ تحریر کرکے، فقہاء نے قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل اخذ کرکے اور ان کو مرتب کرکے، مجاہدین نے اپنی جان کانذرانہ پیش کرکے، داعی حضرات نے اپنی جان ومال ووقت کی قربانی دے کر، علماء کرام نے کتابیں تحریر کرکے، حفاظ کرام نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کو اپنے دل میں محفوظ فرماکر، اساتذہ کرام نے طلبہ وطالبات کو قرآن وحدیث کی تعلیم دے کر، اہل خیر حضرات نے مساجد ومدارس اور دینی مراکز کے قیام کے لئے اپنا تعاون پیش کرکے، علماء حق نے اسلام مخالف طاقتوں سے مناظرہ کرکے، علماء امت نے بچے کی ولادت کے وقت کان میں اذان اور اقامت سے لے کر نماز جنازہ پڑھانے تک لوگوں کی دینی رہنمائی کرکے، خطیبوں نے اپنے وعظ ونصیحت کے ذریعہ، بزرگوں نے اپنی خانقاہوں کے ذریعہ اور صالحین نے لوگوں کے سامنے اخلاق کا اعلیٰ نمونہ پیش کرکے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام دیا۔ لیکن موجود ہ دور میں اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں مدارس نے جو کردار ادا کیا ہے وہ تاریخ کا ایک ناقابل فراموش حصہ ہے، اگر یہ کہا جائے کہ برصغیر میں مدارس اسلامیہ کے وجود کے بغیر علوم قرآن وحدیث کا فروغ ناممکن تھا تو بالکل مبالغہ نہ ہوگا۔ مدارس اسلامیہ نے مسلمانوں کو اسلامی تہذیب وتمدن پر قائم رہنے کی نہ صرف تلقین کی ہے بلکہ عمل کرکے اس کو محفوظ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے مختلف ناموں سے چلنے والی جماعتوں اور تنظیموں میں بھی مدارس وعلماء کا اہم رول ہے۔ انہی جماعتوں میں سے ایک جماعت تبلیغی جماعت کے نام سے موسوم ہے جو دراصل ایک تحریک ہے، جس کی بنیاد فاضل دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد الیاس ؒ نے امت مسلمہ کی اصلاح کے لئے مخلصانہ کوشش کرتے ہوئے دعوت وتبلیغ کی محنت کرنے کے لئے ڈالی، جس کی ایثار وقربانی کی بظاہر کوئی نظیر اس دور میں نہیں ملتی، اور یہ جماعت ایک مختصر عرصہ میں دنیا کے چپہ چپہ میں پھیل چکی ہے۔ ویسے تو ہمیں ہر وقت داعی بن کر زندگی گزارنی چاہئے، اور ہر جگہ ہمیں اپنے قول وعمل سے لوگوں کو دین اسلام کی طرف بلانا چاہئے، لیکن چونکہ عمومی طور پر اب ہماری زندگی دن بدن منظم ہوتی جارہی ہے، چنانچہ اسکول ، کالج اور یونیورسٹی حتی کہ مدارس اسلامیہ میں بھی داخلہ کا ایک معین وقت، داخلہ کے لئے ٹیسٹ اور انٹرویو ، کلاسوں کا نظم ونسق،پھر امتحانات اور ۳ یا ۵ یا ۸ سالہ کورس اور ہر سال کے لئے معین کتابیں پڑھنے پڑھانے کی تحدید کردی گئی ہے۔ اسی طرح اپنی اور بھائیوں کی اصلاح کے لئے کوئی وقت متعین نہیں ہونا چاہئے، لیکن تعلیم وملازمت وکاروبار غرضیکہ ہماری زندگیوں کے منظم شیڈیول کو سامنے رکھتے ہوئے اکابرین امت نے اس دعوت وتبلیغ کی محنت کے لئے بھی وقت کی ایک ترتیب دے دی ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حضرت مولانا محمد الیاس ؒ کی فکر سے وجود میں آنی والی اپنی اور بھائیوں کی اصلاح کی کوشش مجموعی طور پر بے شمار خوبیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔اللہ تعالیٰ اِس تحریک کی حفاظت فرما اور اس تحریک کے ذریعہ ہوئی لاکھوں لوگوں کی اصلاح کو قبول فرما۔ بعض حضرات کا امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ کو صحیح سمجھنا ، غلط ہے، بلکہ اِس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے جاسکتے ہیں، ہاں یہ بات مسلم ہے کہ انبیاء کرام نے اپنے اپنے زمانہ میں لوگوں کے پاس جاجاکر ہی انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف بلایا ہے۔ 
غیر مسلموں میں دعوت وتبلیغ کرنے کی ذمہ داری:
یقیناہمیں غیر مسلموں میں بھی حکمت وبصیرت کے ساتھ دعوت وتبلیغ کا کام کرنا چاہئے۔ لیکن اس سلسلہ میں پوری امت مسلمہ کی طرف سے کوتاہی ہو رہی ہے، خاص کر ہم ہندوستان میں رہ کر اسلام کے محاسن وخوبیاں غیر مسلموں کو بیان نہیں کرسکے۔ غیر مسلم حضرات ہمیں مسلمان تو سمجھتے ہیں لیکن مذہب اسلام کا تعارف تک ہم ان کے سامنے پیش نہیں کرسکے۔ وہ اذان تو سنتے ہیں، لیکن اذان کے کلمات کے معنی ہم ان کو نہیں بتا سکے۔ ہم ان کو رب العالمین کا پیغام تو درکنار صرف سورۃ الفاتحہ کا ترجمہ تک نہیں پہنچا سکے، رحمۃللعالمین کی زندگی کا اسوہ تو درکنار آپ ﷺکی زندگی کے مختصر احوال بھی ہم ان کو نہیں بتا سکے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہئے اور حکمت وبصیرت کے ساتھ اس سلسلہ میں کچھ نہ کچھ قدم ضرور بڑھانا چاہئے، مثلاً دین اسلام سے متعلق کتابیں اور پمفلیٹ ہندی اور انگریزی میں بھی ترتیب دئے جانے چاہئیں تاکہ غیر مسلم حضرات بھی استفادہ کرسکیں۔ اس کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال بھی انتہائی مفید ہوگا۔ وقتاً فوقتاً ایسے پروگرام منعقد کئے جائیں جن میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم حضرات کو بھی مدعو کیا جائے، اور جو حضرات غیر مسلموں میں دعوت وتبلیغ کا کام کررہے ہیں مثلاً جناب عمر گوتم صاحب اور مولانا کلیم صدیقی صاحب، ان کی جان ومال ووقت کے ذریعہ یا کم از کم اُن کی تایید کرکے ان کی نصرت کے لئے ہمیں کھڑا ہونا چاہئے۔ ہاں اِس حقیقت کا ہم انکار نہیں کرسکتے ہیں کہ امت مسلمہ کے افراد کی دین سے دوری بھی غیر مسلموں میں دعوت وتبلیغ کا کام کرنے میں رکاوٹ بنی ہے۔ غیر مسلموں کی اچھی خاصی تعداد نے ہمارے اسلاف کے قول وعمل اور ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر ہی دین اسلام کو قبول کیا تھا، جس کے لئے تاریخ شاہد ہے۔ آج بھی نو مسلم حضرات زیادہ تر ہمارے اخلاق سے ہی متاثر ہوکر اسلام قبول کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اصلاح کے ساتھ غیر مسلموں میں بھی دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والا بنائے۔ آمین۔ 
دعوت وتبلیغ کے لئے مختلف زبانوں اور نئی ٹکنولوجی کا استعمال:
ہر دورکے علماء کرام نے اپنے اپنے زمانہ کے جائز طریقہ کو دین اسلام کی خدمت کے لئے اختیارکیا ہے۔ لہٰذا دعوت وتبلیغ کے لئے انبیاء کرام کی محنت کے قدیم طریقہ کو باقی رکھتے ہوئے،عصر حاضر میں نئی ٹکنولوجی (مثلاً ویب سائٹ، ایمیل، فیس بک، یوٹیوب، واٹس اپ وغیرہ) کا بھی استعمال کیا جانا چاہئے، اور علماء کرام کو چاہئے کہ قرآن وحدیث کا پیغام دوسروں تک پہنچانے کے لئے دیگر زبانوں مثلاً انگریزی اور ہندی کا بھی استعمال کریں۔ 
دعوت وتبلیغ اور ہم:
آج ہم اپنی اولاد اور گھر والوں کو بھی برائیوں سے روکنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ دوسروں کو کیا سمجھائیں خود ہی متعدد گناہوں میں مبتلا ہیں۔ایمان کے بعد سب سے اہم فریضہ (نماز) کو اولاد پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ دین اسلام کی خدمت کے لئے کاروبار سے فرصت نہیں ملتی۔ معمولی معمولی بہانے سے گھر والے روزے چھوڑ دیتے ہیں۔ بچیاں بے پردہ اسکول اور کالج پڑھنے جاتی ہیں۔ ٹی وی اور انٹرنیٹ کے ذریعہ بے حیائی اور عریانیت کے پروگرام دیکھے جاتے ہیں۔ حالانکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ہم پر یہ فرض ہے کہ ہم اپنی استطاعت کے مطابق اپنے ماتحت لوگوں کی اصلاح کی کوشش اور فکر کریں۔ جس طرح ہم ان کی دنیاوی ضرورتوں کو پورا کرنے کی فکر کرتے ہیں، اس سے زیادہ ہمیں اپنے گھر والوں کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔ اسی طرح وہ حضرات جن کے ساتھ ہم دنیاوی زندگی کی تگ ودو میں لگے رہتے ہیں، ان کی آخرت کی فکر کرنا ہمارا دینی واخلاقی فریضہ ہے۔ یاد رکھیں کہ اگر ہم اپنی ذات سے تو دین پر چلے لیکن ہم نے اپنے گھر والوں، محلہ والوں، دوست واحباب ومتعلقین اور اسی طرح ان حضرات کی آخرت کی فکر نہیں کی جن کے ساتھ مل کر ہم دن رات اپنی دنیاوی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو ہماری اپنی ذاتی نیکیوں کے باوجود آخرت میں پکڑ ہوگی۔ لہٰذا صرف اپنے آپ کو سدھار لینا کافی نہیں ہے بلکہ دوسروں کی اصلاح کی بھی فکر کرنا اِس امت کے ہر ہر فرد کے ذمہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر شخص اپنی صلاحیت اور استطاعت کے بقدر ہی مکلف بنایا گیا ہے اور ہدایت دینا ہمارے اختیار میں نہیں ہے، اللہ جس کو چاہے گا ہدایت دے کر نیک اعمال کی توفیق دے گا، ہمیں تو اخلاص کے ساتھ اپنی اور بھائیوں کی اصلاح کی کوشش وفکر کرتے رہنا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب محمد ﷺ کو مخاطب کرکے ارشاد فرماتا ہے: (اے محمد!) اپنے گھر کے لوگوں پر نماز کی تاکید رکھ اور خود بھی اس پر جما رہ۔ (سورہ طہ۱۳۲) حکیم لقمان ؒ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایاجس کو اللہ رب العزت نے اپنے پاک کلام میں ذکر فرمایا ہے: بیٹا! نماز قائم کرو، اور اپنی ذات سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ معاشرہ کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا یعنی اس بات کی فکر کرنا کہ سارے انسان اللہ کو مان کر، اللہ کی مان کر زندگی گزارنے والے بن جائیں اور دین پر چلنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں جو مشکلات سامنے آئیں ان پر صبر کریں۔
اللہ تعالیٰ مجھے، آپ سب کو اور تمام مسلمانوں کو اپنی ذات سے احکام شرعیہ پر عمل کے ساتھ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داری کو بحسن خوبی انجام دینے والا بنائے اور ہم سب کو دونوں جہاں کی کامیابی وکامرانی عطا فرمائے، آمین، ثم آمین۔ 
محمد نجیب قاسمی سنبھلی
http://www.najeebqasmi.com/articles/urdu-articles/158-miscelleneous-masail/1717-insan-ki-kamiabi

No comments:

Post a Comment