Wednesday, 7 February 2018

جسم فروشی؛ گاہکوں پر شکنجہ کی روشن مثال First State to Penalise Sex Buyers

ایس اے ساگر

دنیا میں پیدا ہوتے ہی بنی نوع انسان میں بے شمارضروریات ساتھ ہولیتی ہیں جو آخری دم تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔انسان کو پیٹ بھرنے کے لئے روٹی، تن ڈھکنے لئے کپڑا ، سر چھپانے کے لئے مکان ، سفر کے لئے سواری اوربالغ ہونے پر نکاح کی ضرورت پڑتی ہے۔ مسئلہ اس وقت سنگین نوعیت اختیار کرلیتا ہے جب یہ ضرویات حد سے تجاوز کرتے ہوئے بے لگام خواہشات بن جاتی ہیں۔ حاجات کی کثر ت اور وسائل کی قلت کے باعث ہی دنیا کی بیشتر آبادی جن مسائل سے دوچار ہے اس میں جسم فروشی بھی شامل ہے۔معاشیات کا اصول ہے کہ اگر کسی چیز کی طلب بڑھ جائے اور رسد کم ہو تو اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اور ااس طلب کو پورا کرنے کے لیے نہ صرف متبادل چیزیں مارکیٹ میں آجاتی ہیں بلکہ ناقص مال بھی فروخت ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں، جن میں صنف نازک بھی شامل ہے۔اگر اس کی رسد پر شکنجہ کس دیا جاجائے تو طلب خود ہی ختم ہوجائے گی۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ تقسیم وطن سے قبل انگریزی سرکارکے ہاتھوںکلکتہ کے سونا گاچھی سے شروع ہونے والے جسم فروشی کے دھندے نے برصغیر کی کسی ریاست کو نہ بخشا۔ آندھرا پردیش کے اکثر سیلن زدہ اور نیم تاریک قحبہ خانوں میں عورتوں کے ساتھ سیکس با آسانی خریدا جا سکتا ہے۔ ریاست میں یہ سلسلہ کئی طویل برسوں سے جاری ہے تاہم اب آندھرا پردیش ایسے افراد کو مجرم قرار دینے والی پہلی ریاست بن گئی ہے۔معروف انگریزی روزنامہ ’ر ٹائمز آف انڈیا‘ شاہد ہے کہ آندھرا پردیش حکومت کے بچوں اور خواتین کی بہبود کے محکمے کے جاری کئے گئے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’سیکس خریدار‘ سب سے بنیادی مسئلہ ہیں جو کسی بھی کارروائی کی صورت میں زیادہ تر معاملات میں بچ نکلتے ہیں۔اس حکم نامہ کے مطابق جو سیکس ورکر خواتین پکڑی جائیں گی انہیں بحالی کے مراکز میں بھیج دیا جائے گا۔ جنسی کاروبار کے اڈے چلانے والوں کے خلاف ایمورل ٹریفک پری وینشن ایکٹ 1956 کے تحت مقدمہ درج کیا جائے گا۔یوں تو پہلی بار جرم کرنے پر ایک سال قید بامشقت اور دو ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔لیکن دوسری بار کے قصوروار کو دو سے پانچ سال قید اور دو ہزار جرمانے کی سزا بھگتنا ہو گی۔
خواتین اور بچوں کو جنسی غلامی سے نجات دلانے کے لیے گزشتہ ہفتے آندھرا پردیش کی حکومت نے قانونی ماہرین اور انسانی تجارت کے خلاف مہم چلانے والوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے مجرموں کو انسداد انسانی تجارت کے قوانین کے دائرے میں لانے کے لیے اپنی تجاویز پیش کیں۔ یہ کمیٹی ہر تین مہینے بعد اجلاس میں ٹریفکنگ کی صورتحال اور اس کی روک تھام کے لئے کئے گئے اقدامات کے نفاذ کا جائزہ لے گی۔
سات ارکان پر مشتمل ایڈوائزری گروپ کی رکن اور ٹریفکنگ کے خلاف مہم چلانے والی سوشل ورکر سنیتا کرشنن کے بقول: آندھرا پردیش ٹریفکنگ اور سیکس کے خریداروں کے خلاف کارروائی کرنے والی پہلی ریاست بن گئی ہے۔ ان کے مطابق خواتین اور بچوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے یہ ایک دلیرانہ فیصلہ ہے۔تھامس رائٹرز فاونڈیشن سے بات کرتے ہوئے سنیتا کرشنن کا کہنا تھا کہ امید ہے اب صرف جنسی کاروبار کرنے والے ہی نہیں بلکہ وہ جو اس عمل میں ملوث ہوں، ان پر نئے ضوابط کا نفاذ کیا جا سکے گا۔
کرشنن کے مطابق جب تک جنسی خریداروں کو مجرم خیال نہیں کیا جائے گا، تب تک لڑکیوں کی خرید و فروخت کو روکا نہیں جا سکے گا۔بھارت میں خواتین اور بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والی وفاقی کمشنر، ایچ ارون کمار کے مطابق جنسی خریدار اب تک بغیر کسی سزا کے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ٹریفکنگ کے خلاف مہم چلانے والے افراد کا کہنا ہے ٹریفکنگ کے خلاف کوششیں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک پولیس ان لوگوں کو نہیں پکڑتی جو قحبہ خانوں کا رخ کرتے ہیں اور ان قحبہ خانوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتی جہاں جنسی غلامی ہوتی ہے۔یاد رہے کہ ایک غیر سرکاری تنظیم کے 2013 میں جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں دو کروڑ سے زائد سیکس ورکرز موجود ہیں۔ ان میں سے ایک کروڑ 60 لاکھ خواتین اور لڑکیاں ہیں جو انسانی اسمگلنگ کا شکار ہوئیں۔












Andhra Pradesh;
First State to Penalise Sex Buyers

To bring changes in the law to criminalise the 'end client' (sex buyer) in cases of sexual trafficking, the Andhra Pradesh government on Friday issued a GO spelling out its intent and formed an advisory group to make recommendations as part of the legal reforms.
"The sex buyer, who generates the demand and is at the core of the problem of sex trafficking, often escapes the law," a GO issued by the department of women and child welfare department said on Friday. According to reports, January 13, 2018, "AP becomes the first state to explore the option of criminalizing demand for flesh trade," said anti-trafficking activist Sunita Krishnan, who will be on the seven-member advisory group. She also appreciated Andhra Pradesh chief minister N Chandrababu Naidu for "thinking bold" and standing up for the safety of women and children.


As of now, women caught in prostitution are treated as victims and sent to rehabilitation homes. The organisers of the prostitution racket are booked under the Immoral Traffic (Prevention) Act, 1956, with rigorous imprisonment of one year and a Rs 2,000 fine for a first time offence. If convicted a second time, the punishment is two years extending up to five years with a fine of Rs 2,000.

Latest Comment
Consenting prostitution is a victimless crime . Government is trying to victimize them and to stop their proffession ,the only source of their daily bread. Government actually should protect those p... Read Morevinod

The AP government had formed a state-level coordination committee with the chief secretary as chairman to meet once every three months to review the situation on trafficking and implementation of measures for rescue, rehabilitation and mainstreaming of victims.


As the panel felt the need for a relook at the legislative provisions to punish the 'sex buyer' and that appropriate amendments to the law would be needed, the advisory group was formed. Apart from Krishnan, it will include a member-nominee of the chief justice, a Nalsar professor, a woman IPS officer to be designated by the home secretary, senior advocate M Bhaskara Lakshmi and special secretary of the women and child welfare department as convenor.
https://timesofindia.indiatimes.com/city/hyderabad/andhra-pradesh-government-to-criminalise-buying-of-sex-issues-go/articleshow/62482297.cms



No comments:

Post a Comment