نمازوں کے بعد دعاؤں کا حکم
خطبۂ مسنونہ کے بعد:
{وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا} (سورۂ فرقان آیت نمبر ٧٤)
بزرگانِ محترم: یہ سورۃ الفرقان کے آخری رکوع کی ایک آیتِ کریمہ ہے، جو امام صاحب نے آج نماز میں پڑھی ہے، اور مسلمان عام طور پر، بطور دعا یہ آیتِ کریمہ پڑھتے ہیں، جو عربی جانتے ہیں، اور اس کا مضمون سمجھتے ہیں، وہ سمجھ کر دعا مانگتے ہیں، مگر ہم عربی سے ناواقف ہیں، ہم کچھ نہیں سمجھتے، بس اتنا جانتے ہیں، کہ جن آیات کے شروع میں رَبَّنَا ہے، ان میں کوئی دعا ہے، اس لئے جن آیتوں کے شروع میں رَبَّنَا ہے، وہ آیتیں ہم نے یاد کرلی ہیں، اور ان کو ہم پڑھتے ہیں، مگر سمجھتے نہیں، اس سے دعا کا مقصد پورا نہیں ہوتا، اصل دعا یہ ہے کہ ہم سمجھ رہے ہوں، کہ ہم اللہ تعالیٰ سے کیا مانگ رہے ہیں، اگر ہم نے کچھ آیتیں، اور کچھ حدیثیں یاد کرلیں، جو از قبیل دعا ہیں، اور ہاتھ اٹھا کر ان کو پڑھ لیا، اور سمجھا نہیں، تو یہ کامل دعا نہیں۔
نمازوں کے بعد دعا مانگنا اچھا ہے:
آج کل عربوں میں اور عجمیوں میں یہ مسئلہ بڑا اختلافی ہے، کہ نمازوں کے بعد دعا مانگنی چاہئے یا نہیں؟ آپ حضرات حرمین شریفین میں دیکھتے ہونگے، کہ وہاں ائمہ نمازوں کے بعد دعا نہیں مانگتے، حرمین شریفین کے علاوہ عربوں کی جو دوسری مسجدیں ہیں، ان میں بھی ائمہ نمازوں کے بعد دعا نہیں مانگتے، وہ کہتے ہیں: نمازوں کے بعد ہیئتِ اجتماعی سے دعا مانگنا بدعت ہے، نہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے ثابت ہے، اور نہ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے اس طرح دعا مانگی ہے، دوسری طرف چاروں فقھوں میں [چار فقھیں چار مکاتبِ فکر ہیں، معین اشخاص کی رائیں نہیں ہیں، عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ مذہبِ حنفی یعنی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی رائیں، مذہبِ شافعی یعنی امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کی رائیں، مذہبِ مالکی یعنی امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کی رائیں، مذہبِ حنبلی یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ کی رائیں، ایسا سمجھنا صحیح نہیں، یہ معین اشخاص کی رائیں نہیں ہیں، بلکہ یہ چار مکاتبِ فکر ہیں، قرآن و حدیث سے مسائل اخذ کرنے کےلئے چار اصول ہیں، چنانچہ فقہِ حنفی میں صرف امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول پر فتویٰ نہیں دیا جاتا، متعدد مسائل میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول موجود ہوتا ہے، مگر فتویٰ ان کے شاگردوں کے قول پر دیا جاتا ہے، یہی حال باقی فقھوں کا ہے، مثلاﹰ: مزارعت جائز ہے، یا نہیں ؟ مزارعت کے معنیٰ ہیں: زمین بٹائی پر دینا، ہم نے اپنی زمین کسی کو دی، کہ اس میں غلہ بوؤ، اور پیداوار آدھی آدھی، یا ایک تہائی تمہاری، دو تہائی میری، با برعکس، اس کو مزارعت کہتے ہیں، امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: مزارعت جائز نہیں، امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ بھی یہی فرماتے ہیں، مگر فقہِ حنفی میں فتویٰ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول پر نہیں، صاحبین کے قول پر ہے، صاحبین مزارعت کو جائز کہتے ہیں، اور فقہِ شافعی میں بھی فتویٰ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے قول پر نہیں، بلکہ ان کے شاگردوں کے قول پر ہے، غرض چاروں فقھوں میں قرآن و حدیث سے مسائل اخذ کرنے کےلئے اصول ہیں، جو اصولِ فقہ کہلاتے ہیں، ان کی روشنی میں قرآن و حدیث سے خاص نہج پر مسائل مستنبط کئے جاتے ہیں، پس جو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ معین اشخاص کی رائیں ہیں، اور ان کی اتباع، تقلیدِ شخصی ہے، وہ غلط سوچتے ہیں، یہ معین اشخاص کی تقلید نہیں، بلکہ معین مکتبِ فکر کی تقلید ہے] جن کی مسلمانوں کی اکثریت پیروی کرتی ہے، یہ مسئلہ لکھا ہے کہ نمازوں کے بعد دعا مانگنا حسن (اچھا) ہے، سنت نہیں لکھا۔
اور نمازوں کے بعد دعا مانگنے کو علماء نے حسن اس لئے کہا ہے کہ دورِ اول میں اسلام صرف عربوں میں تھا، عربی ان کی مادری زبان تھی، اور قرآن کریم عربی میں ہے، احادیثِ شریفہ بھی عربی میں ہیں، اور ان میں جو دعائیں آئی ہیں، وہ بھی عربی میں ہیں، دورِ اول کے مسلمان قرآن کریم کو سمجھتے تھے، احادیثِ شریفہ کو سمجھتے تھے، اور دعاؤں کو بھی سمجھتے تھے، اور خود نماز میں دعائیں مانگنے پر قادر تھے، اور وہ نماز کے آخری قعدہ میں سب دعائیں مانگ لیا کرتے تھے، اور سنن و نوافل میں رکوع و سجود اور قومہ و جلسہ میں بھی دعائیں مانگتے تھے، آنحضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کی نمازِ تہجد کے بارے میں مروی ہے کہ آپ سجدہ پچاس آیتوں کے بقدر فرماتے تھے، اور اس میں خوب دعائیں مانگتے تھے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا بھی یہی حال تھا، بلکہ آج بھی عرب علماء نماز میں اپنی ساری ضروتیں مانگ لیتے ہیں، آپ حضرات نے رمضان المبارک میں ائمۂ حرمین شریفین کو وتروں میں پون گھنٹہ دعا کرتے سنا ہوگا، وہ دعائیں ان کی پہلے سے رٹی ہوئی، اور یاد کی ہوئی نہیں ہوتی، بلکہ فی البدیہہ مانگی ہوئی ہوتی ہیں، ان کو اس پر قدرت ہے، پس جب انہوں نے وتروں میں، قعدہ میں، رکوع و سجود میں سب دعائیں مانگ لیں، تو اب نمازوں کے بعد الگ سے دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ اس لئے آنحضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اور حضراتِ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نمازوں کے بعد اجتماعی طور پر دعا نہیں مانگتے تھے۔
مگر جب اسلام عربوں سے نکل کر عجمیوں میں پہنچا، تو ان کےلئے پریشانی کھڑی ہوئی، اللہ تعالیٰ سے مانگنا ان کو بھی ہے، نہیں مانگیں گے تو بندوں کا اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا تعلق ٹوٹ جائےگا، پھر عبادتوں کا مغز دعا ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
الدُعَاءُ مُخُّ العِبَادَةِ،
دعا عبادت کا مغز ہے، اگر بادام میں گری نہ ہو، تو بادام بےکار ہے، اس بادام کی کوئی قیمت نہیں، اصل چیز گری ہے، اسی کی وجہ سے بادام کی قیمت ہے، اسی طرح عبادت میں اصل دعا ہے، اس کی وجہ سے عبادت، عبادت ہے، دعا کے بغیر عبادت بےگری کی مونگ پھلی ہے، اور عجمی لوگ نمازوں میں دعا مانگ نہیں سکتے، اپنی زبان میں مانگیں گے، تو نماز ٹوٹ جائےگی، اور قرآن و احادیث کی دعائیں مانگیں گے، تو عجمیوں کے حق میں وہ اذکار ہیں، اس لئے کہ وہ ان دعاؤں کو سمجھتے نہیں، جب وہ بے سمجھے دعائیں پڑھیں گے، تو وہ دعا نہیں ہوگی، اذکار ہونگے، دعا وہ ہے، جسے بندہ سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے مانگے، یہ ایک بھت بڑی ضرورت عجمیوں کے سامنے تھی، اس لئے چاروں مکاتبِ فکر کے علماء نے اس کا حل یہ نکالا، کہ نمازوں کے بعد دعائیں مانگ لیا کریں، البتہ اجتماعی ہیئت کو لازم نہ بنایا جائے، گاہ بہ گاہ ناغہ بھی کیا جائے، اور کوئی سلام پھیر کر چلا جائے، تو اسے مطعون نہ کیا جائے، کوئی امام سے پہلے دعا شروع کردے، یا امام کے بعد تک دعا میں مشغول رہے، تو اس میں توسع برتا جائے، امام کے ساتھ دعا شروع کرنے کو، اور امام کے ساتھ دعا ختم کرنے کو لازم نہ بنایا جائے، ان باتوں کا خیال رکھ کر نمازوں کے بعد دعا مانگنا مستحب ہے، یہ چاروں فقھوں کے علماء کی رائے ہے، اور عجمیوں کی ضرورت ہے، اس لئے اس کو حسن قرار دیا ہے۔
الدُعَاءُ مُخُّ العِبَادَةِ،
دعا عبادت کا مغز ہے، اگر بادام میں گری نہ ہو، تو بادام بےکار ہے، اس بادام کی کوئی قیمت نہیں، اصل چیز گری ہے، اسی کی وجہ سے بادام کی قیمت ہے، اسی طرح عبادت میں اصل دعا ہے، اس کی وجہ سے عبادت، عبادت ہے، دعا کے بغیر عبادت بےگری کی مونگ پھلی ہے، اور عجمی لوگ نمازوں میں دعا مانگ نہیں سکتے، اپنی زبان میں مانگیں گے، تو نماز ٹوٹ جائےگی، اور قرآن و احادیث کی دعائیں مانگیں گے، تو عجمیوں کے حق میں وہ اذکار ہیں، اس لئے کہ وہ ان دعاؤں کو سمجھتے نہیں، جب وہ بے سمجھے دعائیں پڑھیں گے، تو وہ دعا نہیں ہوگی، اذکار ہونگے، دعا وہ ہے، جسے بندہ سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے مانگے، یہ ایک بھت بڑی ضرورت عجمیوں کے سامنے تھی، اس لئے چاروں مکاتبِ فکر کے علماء نے اس کا حل یہ نکالا، کہ نمازوں کے بعد دعائیں مانگ لیا کریں، البتہ اجتماعی ہیئت کو لازم نہ بنایا جائے، گاہ بہ گاہ ناغہ بھی کیا جائے، اور کوئی سلام پھیر کر چلا جائے، تو اسے مطعون نہ کیا جائے، کوئی امام سے پہلے دعا شروع کردے، یا امام کے بعد تک دعا میں مشغول رہے، تو اس میں توسع برتا جائے، امام کے ساتھ دعا شروع کرنے کو، اور امام کے ساتھ دعا ختم کرنے کو لازم نہ بنایا جائے، ان باتوں کا خیال رکھ کر نمازوں کے بعد دعا مانگنا مستحب ہے، یہ چاروں فقھوں کے علماء کی رائے ہے، اور عجمیوں کی ضرورت ہے، اس لئے اس کو حسن قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو بندوں کا مانگنا پسند ہے:
غرض میں یہ بیان کررہا تھا کہ نمازوں کے بعد دعا مانگنا حسن اور اچھا ہے، اس لئے کہ دعا عبادت کا خلاصہ، نچوڑ اور مغز ہے، اور دعاؤں ہی کے ذریعہ بندوں کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق جڑتا ہے، اور اللہ تعالٰی کو بندوں کی سب سے زیادہ پسندیدہ چیز دعا ہے، اللہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ بندے اپنی تمام چھوٹی بڑی حاجتیں اپنے مولیٰ سے مانگیں، حدیث شریف میں ہے کہ اگر چپل کا تسمہ ٹوٹ جائے، تو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے مانگو، ظاہر ہے چپل کی پٹی معمولی چیز ہے، کوڑیوں کے دام مل جاتی ہے، مگر اسے بھی اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو بندوں کا مانگنا پسند ہے، وہی بندہ اللہ تعالیٰ کو پیارا ہے، جو اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے، چاہے اوندھا مانگے، چاہے سیدھا، مگر مانگے ضرور ۔
اللہ تعالیٰ ہر شخص کے ساتھ اس کی عقل و فہم کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں:
مولانا روم رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک واقعہ لکھا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر تشریف لے جارہے تھے، تو انہوں نے ایک چرواہے کو دیکھا، جو اپنی بکریاں چرا رہا تھا، وہ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ رہا تھا، وہ کہہ رہا تھا، ائے میرے خدا! تو کہاں ہے؟ اگر تو مجھے مل جائے تو میں تجھے اپنی بکریوں کا دودھ پلاؤں، آئے میرے مولیٰ! تیرے سر میں جوئیں پڑگئی ہونگی، میں تیرے سر میں سے جوئیں نکالوں، ائے میرے خدا! ہوسکتا ہے تیرے گریبان میں بٹن نہ ہو، میں ببول کے کانٹوں کا اس میں بٹن لگاؤں، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اس کو اس طرح دعا کرتے سنا تو ڈانٹا، اس نے دعا بند کردی، حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہِ طور پر پہنچے، اور اللہ تعالٰی سے ہم کلام ہوئے، تو پہلی بات اللہ تعالیٰ نے یہ فرمائی، کہ موسیٰ! میرا ایک بندہ مجھ سے راز و نیاز کی باتیں کر رہا تھا، تم نے اس کو کیوں روک دیا ؟ اس کا مبلغِ علم اتنا ہی تھا، وہ اپنی دانست اور علم کے مطابق میری تعریف کررہا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ساتھ اس کی حیثیت کے مطابق معاملہ فرماتے ہیں۔
ایک گناہ گار کی بخشش کا واقعہ:
ایک گناہ گار کی بخشش کا واقعہ:
خیر یہ تو ایک بےسند قصہ تھا، مگر ایک اعلیٰ درجہ کی حدیث ہے، حضورِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا: پچھلی امتوں میں ایک شخص تھا، جس کی زندگی بھت خراب تھی، اس نے وصیت کی، کہ مجھے جلاکر میری آدھی راکھ سمندر میں ڈال دینا، اور آدھی ہَوا میں اڑادینا، تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ نہ آؤں، اگر میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ آگیا، تو وہ مجھے اتنی سخت سزا دیں گے، کہ اتنی سخت سزا کسی کو نہیں دی ہوگی، چنانچہ اس کے مرنے کے بعد اس کے ورثاء نے اس کی وصیت کی تعمیل کی، اس کو جلادیا، آدھی راکھ سمندر میں ڈال دی، اور آدھی ہَوا میں اڑا دی، اللہ تعالیٰ نے راکھ کو حکم دیا، کہ: 'اکٹھی ہوجا، وہ ہوگئی، اور وہ زندہ ہوکر اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا ہوگیا، اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا: میرے بندے! تو نے یہ حرکت کیوں کی ؟ اس نے عرض کیا: پروردگار! آپ کے ڈر سے، اللہ تعالیٰ نے اس کو بخش دیا۔
یہ واقعہ حدیث شریف میں ہے، اگر ایسا عقیدہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کوئی سمجھ دار، اور عقلمند رکھے، تو وہ کافر ہوجائےگا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے منافی عقیدہ ہے، مگر وہ شخص زیادہ سمجھ دار نہیں تھا، اس لئے اس کے خیال کو کفر قرار نہیں دیا، اور اللہ تعالٰی نے اس کو معاف کردیا، اس حدیث کی وجہ سے علمائے کرام نے فرمایا: ہر شخص کے ساتھ اس کی عقل و فہم کے مطابق معاملہ کیا جائےگا۔
جو خوش حالی میں مانگے، وہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے:
میں عرض یہ کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے مانگا نہ جائے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ کو وہی بندہ پسند ہے، جو مانگتا ہے، اور خوب مانگتا ہے، بلکہ جو بندہ خوشحالی میں اللہ تعالیٰ سے مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ کو وہ بندہ زیادہ پسند ہے، تنگ حالی میں اللہ تعالیٰ اس کو دے سکتے ہیں، اور جو لوگ خوشحالی میں اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتے، اس کے سامنے نہیں روتے، وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس سب کچھ ہے، کھانا، پینا، مکان، کپڑا اور ضرورت کی ہر چیز ہے، اللہ تعالیٰ نے ان کو سب کچھ دے رکھا ہے، اس لئے وہ مانگتے نہیں، وہ لوگ جب بیماریوں میں، اور آفتوں میں پھنسیں گے، اور یااللہ! یااللہ! پکاریں گے، تو اللہ ان کی نہیں سنیں گے، اللہ تعالیٰ کا بہترین بندہ وہ ہے، جو خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کو پکارے، اس سے تعلق رکھے، اس سے دعائیں مانگے، اس کے سامنے گڑگڑائے، تو مصیبتوں میں اللہ تعالیٰ اس کی پکار سنیں گے، اور اس کی مراد پوری کریں گے۔
غرض اللہ تعالیٰ سے اپنی آرزوئیں اور خواہشیں مانگنا بھت ضروری ہے، اور یہ عبادت کا خلاصہ اور نچوڑ ہے، جب عجمیوں کے ساتھ یہ صورت پیش آئی، کہ وہ نماز میں اپنی مرادیں نہیں مانگ سکتے، اور دعائیں نہیں کرسکتے، تو علماء نے اس کا حل یہ نکالا، کہ نماز کے بعد دعائیں مانگیں، اپنی زبانوں میں مانگیں، علماء نے اس کو مستحب کہا ہے۔
حسن ہونے کی دلیل:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے: مَا رَآہٗ المُسْلِمُوْنَ حَسَنَاً فَھَوَ عِنْدَ اللہِ حَسَنٌ، جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں، وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اچھی ہے، نمازوں کے بعد دعا کرنے کو چاروں مکاتبِ فکر کے علماء نے، جن کی مسلمانوں کی بڑی تعداد تقلید کرتی ہے، اچھا سمجھا ہے، پس نمازوں کے بعد دعا کرنا حسن ہے، اس کو بدعت کہنا صحیح نہیں۔
نمازِ جنازہ کے بعد دعا:
بعض لوگوں نے نمازِ جنازہ کے بعد بھی دعا شروع کردی ہے، حالانکہ نمازِ جنازہ خود دعا ہے، میت کےلئے دعا کرنے ہی کےلئے نمازِ جنازہ مشروع کی گئی ہے، مگر جب لوگوں نے اس دعا کو سمجھا نہیں، تو نمازِ جنازہ کے بعد بھی دعا شروع کردی، امام صاحب جہراً دعا کرتے ہیں، انہوں نے چند رَبَّنَا یاد کر رکھے ہیں، جن کو نہ امام صاحب سمجھتے ہیں، نہ لوگ، بس جہاں سانس ٹوٹتا ہے، لوگ آمین کہتے ہیں، یہ ایک رسم بن کر رہ گئی ہے، حالانکہ نمازِ جنازہ خود کامل دعا ہے، اس کے بعد کسی دعا کی ضرورت نہیں، جنازہ کی ایک چھوٹی سی دعا ہے، ہر شخص اس کو یاد کرسکتا ہے، پس وہ دعا کافی ہے، اس کے بعد میت کو دفن کردینا چاھئے، اب دوسری دعا کی ضرورت نہیں۔
تدفین کے بعد دعا:
پھر تدفین کے بعد دعا ہے، ابوداؤد میں حدیث ہے کہ نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم جب ایک میت کی تدفین سے فارغ ہوئے، تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا: اپنے بھائی کےلئے مغفرت طلب کرو، اور خاص طور پر یہ دعا کرو، کہ اب جو سوال و جواب ہونگے، اللہ تعالیٰ ان میں اس کو ثابت قدم رکھیں، اور صحیح جواب دینے کی توفیق عطا فرمائیں، لوگوں کے قبر سے ہٹتے ہی سوال و جواب شروع ہونگے، لٰہذا میت کےلئے دو دعائیں کرنی چاہئیں، ایک: اس کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ بخش دیں، دوسری: اس سے جو تین سوال ہونگے، ان کے صحیح جواب دینے کی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں، اور ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا کرنا ضروری نہیں، ابوداؤد کی حدیث میں اس طرف اشارہ ہے، کہ نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم تدفین کے بعد اجتماعی اور جہری دعا نہیں کرتے تھے، ورنہ صحابہ کو تلقین کرنے کی ضرورت نہیں تھی، دیوبند، سہارنپور میں یہی معمول ہے، میں پچاس سال سے دیکھ رہا ہوں، جب قبر بھر جاتی ہے، تو ایک آدمی قبر کے سرہانے، اور ایک پائینتی کھڑے ہوکر سورۂ بقرہ کا اول و آخر پڑھتے ہیں، اس وقت سب لوگ قبر کے پاس آجاتے ہیں، اور ہر شخص اپنے طور پر، مذکورہ دو دعائیں کرتا ہے، پھر لوگ چل دیتے ہیں۔
ایک مقصد ہو تو جہراً اجتماعی دعا مانگنا جائز ہے:
فرض نمازوں کے بعد دعا مانگنی چاہئے، اللہ تعالیٰ سے اپنی آرزوئیں مانگنی چاہیئں، اور ہر شخص اپنی دعا خود مانگے، مقتدیوں کا امام کے ساتھ جو تعلق ہے، وہ سلام پر ختم ہوجاتا ہے، اب ہر شخص آزاد ہے، اس کو اپنے لئے دعا کرنی ہے، اور اپنی آرزوئیں مانگنی ہیں، اور اپنی زبان میں مانگنی ہیں، اور سمجھ کر مانگنی ہیں، البتہ اگر حاضرین کا ایک مقصد ہو، مثلاﹰ بارش نہیں ہورہی، اور بارشِ طلبی کےلئے لوگ جمع ہوئے ہیں، یا کوئی آفت اور مصیبت آئی ہے، اس کےلئے دعا مانگنی ہے، تو چونکہ سب کی مراد ایک ہے، اس لئے اجتماعی طور پر جہراً دعا کرنا جائز ہے، حدیث سے ثابت ہے۔
نمازوں کے بعد دعا کب کی جائے:
اور یہ بات بھی جان لی جائے کہ جن تین نمازوں کے بعد سنتیں اور نوافل ہیں، ان میں فرض کے بعد مختصراً اذکار ہیں، دعا نوافل سے فارغ ہوکر ہر ایک کو کرنی چاہئے، اس کےلئے ہیئتِ اجتماعی نہ بنائی جائے، کیونکہ سب نمازی نوافل سے ایک ساتھ فارغ نہیں ہوتے، ہر شخص جب فارغ ہو، دعا کرے، سب کا ایک ساتھ دعا کرنا، جس کو دعائے ثانیہ کہتے ہیں، بدعت ہے، اور فجر و عصر کے بعد چونکہ نوافل نہیں، اس لئے تسبیحات سے فارغ ہوکر دعا کریں، اور ہر شخص جب فارغ ہوجائے، دعا شروع کردے، امام صاحب کے ہاتھ اٹھانے کا انتظار نہ کرے، ہیئتِ اجتماعی نہ بنائیں، اور جب کسی کی دعا ختم ہو، تو منہ پر ہاتھ پھیر لے، امام صاحب کے فارغ ہونے کا انتظار نہ کرے، اور کسی مقتدی کو، یا امام کو کوئی ضرورت ہو تو وہ دعا کے بغیر بھی جاسکتا ہے، پس التزام اور ہیئتِ اجتماعی نہ ہو، مگر دعا ضرور کی جائے، سری کی جائے، اور ہر شخص اپنی زبان میں اپنے دل کی مراد مانگے۔
دعا بند کرنا غلطی کی اصلاح نہیں، بلکہ دوسری غلطی ہے:
غیر مقلد کہتے ہیں: اب نمازوں کے بعد دعا کا التزام ہوگیا ہے، اس لئے اس کو بند کردینا ضروری ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ آپ لوگوں نے عدمِ دعا کا التزام شروع کردیا ہے، لٰہذا اس کو بھی بند کرنا ضروری ہے۔
ثانیاً: اصلاح کا یہ طریقہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے مانگنا بند کردیا جائے، یہ تو دوسری غلطی ہے، پہلی غلطی التزام دعا تھی، دوسری غلطی ترکِ دعا ہے، بلکہ اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ امام صاحب وقتاً فوقتاً لوگوں کو مسئلہ سمجھائیں، اور گاہ بہ گاہ اس پر عمل کرکے بھی دکھائیں، ان شآء اللہ تعالیٰ ایسا کرنے سے لوگ صحیح بات سمجھ لیں گے۔
وَ آخِرُ دَعْوَانا أنِ الحَمْدُ للہ رَبِّ العَالَمِیْنَ
مقرر: حضرت اقدس مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتھم،
شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند
ناقل: عادل سعیدی پالن پوری
No comments:
Post a Comment