Thursday, 1 February 2018

امیری اور فقیری کے اسباب

امیری اور فقیری کے اسباب
غریبی آتی ہے سات چیزوں کے کرنے سے:
1.. جلدی جلدی نماز پڑھنے سے۔
2.. کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے۔
3..  پیشاب کرنے کی جگہ وضو کرنے سے۔ 4..  کھڑے ہو کر پانی پینے سے۔
5..  منھ سے چراغ بجھانے سے۔
6..  دانت سے ناخن کاٹنے سے۔
7..  دامن یا آستین سے منھ صاف کرنے سے ۔
خوش حالی آتی ہے سات چیزوں کے کرنے سے
1.. قرآن پاک کی تلاوت کرنے سے۔
2..  پانچوں وقت کی نماز پڑھنے سے۔
3.. خدا کا شکر ادا کرنے سے۔
4..  غریبوں اور مجبوروں کی مدد کرنے سے. 5..  گناہوں سے معافی مانگنے سے۔
6..  ماں باپ اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے سے۔
7..  صبح کے وقت سورہ یسٰین اور شام کے وقت سورہ واقعہ پڑھنے سے۔ (بکھرے موتی:114,113/1)

قرض دینے کا ثواب صدقہ سے زیادہ
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا ، صدقہ کا ثواب دس گنا اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا۔ تو میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ اے جبرئیل !کیا وجہ ہے کہ قرض کا ثواب صدقہ سے زیادہ ہے ؟ تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا اس لیے کہ مانگنے والا سوال کرتا ہے حالاں کہ اس کے پاس کچھ ہوتا ہے اور قرض مانگنے والا ضرورت کی وجہ سے ہی قرض مانگتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب القرض، رقم الحدیث:2431)
تین آدمیوں کا قرض الله تعالیٰ ادا فرمائیں گے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے تین آدمیوں کا ذکر فرمایا کہ انہوں نے قرض لیا اور ادا نہیں کر سکے موت سے پہلے، تو قیامت کے دن الله تعالیٰ ان کی طرف سے قرض ادا فرمائیں گے۔
ایک وہ آدمی جو جہاد میں جانے کے لیے اپنے پاس کچھ نہیں پاتا اور وہ قرض لے کر الله کے راستے میں جہاد کے لیے نکلتا ہے۔
وہ آدمی جس کے پاس ایک مسلمان فوت ہو گیا او راس کے پاس مال نہیں کہ اس کا کفن دفن کردے اور وہ قرض لے کر اس کا کفن دفن کر تا ہے۔
تیسرا وہ آدمی جس کو شادی کی شدید خواہش ہو اور وہ قرض لے کر نکاح کر لیتا ہے، اس سے نکاح کے لیے جو ضروری اخراجات مہر وغیرہ ہوتے ہیں ان کے لیے قرض لینا مراد ہے، آج کل جو شادی میں فضول خرچیوں کے لیے قرض لیے جاتے ہیں، وہ مراد نہیں۔ (سنن ابن ماجہ، کتاب الصدقات، باب ثلاث من ادّان فیھن قضی الله عنہ، رقم الحدیث:2435)

ٹال مٹول کرنے والے کو جیل میں ڈال سکتے ہیں
اگر کوئی شخص بلاوجہ ٹال مٹول کرے، تو شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اس کو جیل میں ڈال دیا جائے۔ ( سنن ابن ماجہ، ابواب الصدقات، باب الحبس فی الدین، رقم الحدیث:2427)

قرض دیتے وقت کے احکام
جب آپ نے کسی کو قرض دیا ہے تو قرض دینے کے وقت کسی کو اس پر گواہ بنانا چاہیے او راگر کسی کو گواہ نہیں بنایا اور بعد میں وہ انکاری ہو گیا تو عندالله تو وہ ماخوذ ہو گا، لیکن دنیا میں اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو سکتی۔

اس لیے الله تبارک وتعالیٰ نے اس کے احکام صاف بیان فرما دیے، چناں چہ ارشاد ہے:
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ إِذَا تَدَایَنتُم بِدَیْْنٍ إِلَی أَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوہُ﴾․ (سورہ البقرہ:282)
ترجمہ: اسے ایمان والو! جب تم آپس میں معاملہ کرو ادھار کا کسی وقت مقررہ تک، تو اس کو لکھ لیا کرو۔

﴿وَاسْتَشْہِدُواْ شَہِیْدَیْْنِ من رِّجَالِکُم﴾․(سورة البقرہ:282)
ترجمہ: اور گواہ کرو دو گواہ اپنے مردوں میں سے۔

اس آیت میں ایک اصول تو یہ بتلا دیا کہ ادھار کے معاملات کی دستاویز لکھنی چاہیے، تاکہ بھول چوک، یا انکار کے وقت کام آئے۔
دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ اس تحریری معاملے پر گواہ بھی بنالیے جائیں، تاکہ اگر کسی وقت باہمی نزاع پیش آجائے تو عدالت میں ان گواہوں کی گواہی سے فیصلہ ہوسکے، اس لیے کہ صرف تحریر حجت شرعی نہیں ہے۔

کن چیزوں کو بطور قرض لے سکتے ہیں؟
کسی نے کوئی بھی چیز ادھار خریدی تو اب اس کے ذمہ جو قرض ہے، فقہاء کی اصطلاح میں اس کو دین کہا جاتا ہے، البتہ قرض کہتے ہیں کہ کوئی ایسی چیز کسی سے قرض لینا، جس چیز کی مثل بازار میں ملتی ہو اور آپس میں قیمت میں بہت زیادہ فرق نہ ہو مثلاً100 روپے قرض لینا یا ایک کلو چینی قرض لینا تو اس جیسی چینی بازار میں موجود ہے، اس کو واپس کر سکتا ہے ،یا مثلاً دکان دار کے پاس فی الحال کوئی چیز نہیں ہوتی اور وہ دوسرے دکان دار سے وہ چیز قرض لے کر گاہک کو دے دیتا ہے تو اگر وہ چیز ایسی ہے کہ اس کی مثل ملتی ہے تو اس طرح کا قرض صحیح ہے، اگر ایسا نہیں ، مثلاً بکری مرغی قرض لینا، یہ صحیح نہیں، اس لیے کہ ہر بکری اور مرغی قیمت کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہیں۔ (الدر مع الرد، کتاب البیوع، فصل فی القرض،191/4، رشیدیہ)

بینک سے سودی قرض لینے کا حکم
جس طرح سود لینا حرام ہے ، اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے۔ حضرت جابر رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود کے معاملے کو لکھنے والے او راس معاملے کے دو گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا یہ سب (گناہ میں) برابر کے شریک ہیں۔ (مشکوٰة المصابیح، باب الربوٰا الفصل الأول، ص243، قدیمی) بنا برین کسی بھی بینک سے سودی قرضہ لیناناجائز وحرام ہے۔

ادھار کے خرید وفروخت میں مدت کی تعیین
اگر کوئی چیز ادھار خرید رہا ہے یا بیچ رہا ہے تو ایسی صورت میں مدت متعین کرنا ضروری ہے ، مثلاً یہ چیز میں ادھار خرید رہا ہوں اور پیسے ایک مہینہ بعد فلاں تاریخ کو دوں گا۔ ( شرح المجلہ، سلیم رستم باز، رقم المادہ،245، ص:124، حنفیہ کوئٹہ)

البتہ اگر کسی سے پیسے وغیرہ قرض لے رہا ہے تو اس میں مدت متعین کرنا ضروری نہیں، بلکہ قرض دینے والا جب چاہے مطالبہ کر سکتا ہے۔ (الدرمع الرد،190/4)

ادھار میں چیز کی قیمت زیادہ لگانا
اگر کوئی ایک چیز کو نقد مثلاً 100 روپے میں بیچتا ہے اور اگر کوئی ادھار لے تو 110 روپے میں بیچتا ہے اس طرح بیچنا صحیح ہے۔ بشرطیکہ ادائیگی کے مقررہ وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے اس پر جرمانہ نہ لگایا جائے۔ (المبسوط للسرخی، باب البیوع الفاسدہ،9/13 غفاریہ کوئٹہ)

لیکن ادھار کی وجہ سے زیادہ قیمت بڑھانا بے مروتی ہے، خاص کر جب خریدار حاجت مند ہو مجبوراً ادھار لیتا ہو تو وہ مستحق رحم وشفقت ہے، اس کو مجبور اور بے بس پاتے ہوئے، زیادہ قیمت لینا خلاف مروت ہے۔ ( فتاوی محمودیہ، کتاب البیوع 152/16)

کسی انسان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانا مناسب نہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے: 
”لایرحم الله من لا یرحم الناس“․ 
(مشکوٰة المصابیح، کتاب الأدب، باب الشفقة والرحمة علی الخلق، الفصل الأول، ص:421 قدیمی)
ترجمہ: الله تعالیٰ اس پر رحم نہیں فرماتے، جو لوگوں پر رحم نہ کرے۔

گھریلو اشیا قرض لینا
عام طور پر گھروں میں روٹی بطور قرض لیتے ہیں تو امام محمد رحمہ الله تعالیٰ کے نزدیک وزن اور عدد دونوں اعتبار سے درست اور اسی پر فتوی ہے۔ (الدرمع الرد، کتاب البیوع، فصل فی القرض، 192/4 رشیدیہ)

آٹا بھی قرض لینا جائز ہے، لیکن وزن کرکے، اندازے سے جائز نہیں۔ (الدر مع الرد، 195/4)

اگر کوئی چیز قرض لی، مثلاً گندم وغیرہ اور اس وقت گندم سستی تھی، بعد میں مہنگی ہو گئی تو قیمت کا اعتبار نہ ہو گا، بلکہ اس نے جتنی گندم قرض لی ہے اتنی واپس کرے۔ (الدر مع الرد ،192/4)

اکثرکاشت کے وقت بیج ادھار دیتے ہیں اور کھیت کاٹنے کے بعد جتنا دیا تھا اس سے زیادہ لیتے ہیں، یہ سود ہے۔ ( فتاوی محمودیہ، کتاب البیوع،345/16)

قرض کی ادائیگی کا ایمان افروز واقعہ
امام احمد بن حنبل رحمہ الله تعالیٰ نے اپنی مسند میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا بیان کردہ ایک واقعہ نقل فرمایا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک آدمی نے دوسرے سے ایک ہزار دینار قرض طلب کیا تو دوسرے آدمی نے اس سے کہا کہ کوئی گواہ لاؤ، تاکہ اس پر گواہ بناؤں۔ تو اس آدمی نے کہا کہ الله تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے۔ تو دوسرے نے کہا کہ چلو کفیل لاؤ۔ تو اس نے کہا کہ الله تعالیٰ کافی ہے بطور کفیل تو اس دوسرے آدمی نے کہا کہ تونے سچ کہا اور ایک ہزار دینار اس کو دے دیے ، چناں چہ وہ قرض لے کر سمندری سفر پر چلا گیا اور اس نے اپنی ضرورت پوری کی پھر واپسی کے لیے کشتی کو تلاش کرنا شروع کیا، تاکہ واپس آکر قرض اتار دے، اس لیے کہ جس دن قرض واپس کرنے کا وعدہ کیا تھا ، وہ آگیا تھا، قرض دینے والے کے پاس جانے کے لیے اس نے کشتی تلاش کی، لیکن اس کو کشتی نہیں ملی، لہٰذا اس نے ایک موٹی لکڑی لی اور اس کو اندر سے کھوکھلا کرکے اس میں ایک ہزار دینار رکھ کر اس کو بند کر دیا اور ایک خط بھی لکھ کر اس میں رکھ دیا، جو دائن ( قرض دینے والے کے نام لکھا تھا ) اور اس لکڑی کو لے کر سمندر کے پاس آیا ، پھر کہا کہ اے الله آپ جانتے ہیں کہ میں نے فلاں سے ایک ہزار دینار قرض طلب کیا تھا تو اس نے مجھ سے کفیل مانگا تھا اور میں نے کہا تھا کہ الله بطورکفیل کافی ہے تو وہ اس پر راضی ہو گیا، پھرمجھ سے گواہ مانگا تو میں نے کہاتھا کہ الله تعالیٰ بطور گواہ کافی ہے۔ تو وہ اس پر بھی راضی ہو گیا اور اب میں نے بہت کوشش کی کشتی ڈھونڈنے کی، تاکہ میں اس کا قرض ادا کردوں، لیکن میں نے کشتی نہیں پائی، لہٰذا میں آپ کے سپرد کرتا ہوں اور اس کو سمندر میں پھینک دیا اور وہ لکڑی سمندر میں چلی گئی، پھر وہ وہاں سے لوٹا اور کشتی کی تلاش میں رہا جو اس شہر کی طرف جائے۔ دوسری جانب وہ قرض دینے والا سمندر کی طرف نکلا، یہ دیکھنے کے لیے کہ شاید آج اس کا مقروض قرض لے کر آجائے (اس نے مقروض کو نہیں پایا)، لیکن ایک لکڑی دیکھی تو سوچاکہ چلو جلانے کے کام آجائے گی، جب اس لکڑی کو توڑا تو اس میں سے ایک ہزار دینار اور خط نکلا ،پھر وہ آدمی جس نے اس سے قرض لیا تھا، وہ قرض لے کر آگیا اور معذرت کرنے لگا کہ اس دن میں نے بہت کشتی تلاش کی، لیکن مجھے کشتی نہیں ملی تو اس دوسرے آدمی نے پوچھا کہ کیا تونے میری طرف کوئی چیز بھیجی ہے؟ تو اس آدمی نے کہا کہ میں آپ کو بتا نہیں رہا کہ میں نے کشتی نہیں پائی کہ میں آپ تک قرض پہنچا دیتا تو دوسرے آدمی نے کہا کہ الله تبارک وتعالیٰ نے تیری طرف سے ادا کر دیا جو تونے لکڑی میں بھیجا تھا لہٰذا مجھے اپنا قرض مل گیا اور یہ ہزار دینار تو واپس لے جا۔ (فتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد، کتاب القرض، باب ماجاء فی حسن القضاء، رقم الحدیث، 84/15,280، دارالحدیث)

قرض کے اعتبار سے انسانوں کی چار قسمیں
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
کچھ لوگ قرض ادا کرنے میں اچھے ہوتے ہیں ، لیکن قرض وصول کرنے میں سختی کرتے ہیں، یہ لوگ نہ قابل تعریف ہیں، نہ قابل مذمت۔ کچھ لوگ قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول کرتے ہیں ، لیکن قرض وصول کرنے میں نرمی برتتے ہیں، یہ بھی نہ قابل تعریف ہیں، نہ قابل مذمت۔ تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جو قرض ادا کرنے میں بھی اچھے ہیں اور قرض وصول کرنے میں بھی اچھے ہیں۔ اور تم میں بدترین وہ لوگ ہیں ، جو نہ قرض ادا کرنے میں اچھے ہیں، نہ وصول کرنے میں اچھے ہیں۔ (مشکوٰة المصابیح، ص:438)

قرض وصول کرنے کی تدبیر
اگر کسی کو قرض دیا اور وہ واپس نہیں کر رہا ہے تو شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جس کو قرض دیا ہے اس کی کوئی بھی چیز قرض کی مالیت کے بقدر اس کی اجازت کے بغیر اس سے لے سکتا ہے ۔ (الدر مع الرد ، کتاب الحجر،105/5 رشیدیہ)

ادا نہ کرنے کی نیت سے قرض لے کر کھانا حرام ہے
اگر کوئی اس نیت سے قرض لیتا ہے کہ ادا نہیں کروں گا تو وہ ایسا ہے جیسے حرام کھارہا ہو۔ (الفتاوی العالم گیریہ، کتاب الکراہیة، الباب السابع والعشرون،366/5، رشیدیہ)

اگر قرض واپس کرنے کی کوئی صورت نہ ہو
اگر کسی نے کئی لوگوں سے قرض لیا یا کئی لوگوں کا حق کھایا، جن کو اب جانتا نہیں تو جس طرح ممکن ہو ان لوگوں کو تلاش کرے اور ان کو ان کا حق واپس کرے ، وہ نہ ہوں تو ان کے والدین یا اولاد کو دے دے، اگر ان کو تلاش کرنا ممکن نہ ہو توایسی صورت میں جتنی مقدار میں قرض لیا ہے یا حقوق کھائے ہیں اتنی مقدار صدقہ کرے۔ اور یہ نیت کرے کہ اس کا ثواب اصل مالک کو پہنچ جائے۔( الفتاوی العالم گیریہ، کتاب الکراہیة، الباب السابع والعشرون 367/5، رشیدیہ)

قرض سے متعلق زکوٰة کے چند ضروری احکام
مقروض کے ذمے زکوٰة کا حکم:
اگر کسی شخص کے ذمے اتنا قرض ہے کہ اس قرض کے ادا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب کے بقدر (ساڑھے سات تولے سونا، یا ساڑھے باون تولے چاندی، یا اتنی مالیت کی رقم ، سامان تجات وغیرہ، یا اگر کچھ رقم اور سونا ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی بنتی ہو) اگر اتنی مقدار میں مال نہیں بچتا ہے تو ایسے شخص کے ذمے زکوٰة واجب نہیں۔ (فتح القدیر، کتاب الزکوٰة160/2، مصطفی البابی)

مقروض کو زکوٰة دینا
اگر کوئی آدمی اتنا مقروض ہے کہ قرض ادا کرنے کے بعد اس کے پاس نصاب کے بقدر نہیں بچتا ہے تو ایسے شخص کو زکوٰة دینا جائز ہے۔ (الدر مع الرد ، باب المصرف343/2 سعید)

قرض دی ہوئی رقم پر زکوٰة کا حکم
اگر کسی کو قرض دیا یا کوئی چیز ادھار بیچی تو قرض دینے والے شخص پر اس رقم کی زکوٰة واجب ہو گی، اگر وہ صاحب نصاب ہے، لیکن زکوٰة کی ادائیگی میں اسے اختیار ہے کہ قرض کی وصولی سے پہلے زکوٰة ادا کرے یا بعد میں ، بعد میں ادا کرنے کی صورت میں جتنے سال میں وصول ہو، ہر سال کی زکوٰة دے گا ۔ (الدر مع الرد، باب زکوٰة المال 305/2 سعید)

عورت کے مہر میں زکوٰة کا حکم
اگر خاوند کے ذمے مہر کا دین ( قرض) واجب ہے، اگر وہ معجل ہے یعنی جس وقت بھی زوجہ طلب کرے اس کا ادا کرنا ضروری ہے یا مؤجل ہے، لیکن خاوند خود ہی اس کو ادا کرنے کی فکر او رکوشش میں لگا ہوا ہے او رجمع کر رہا ہے، تاکہ ادا کرے تو ایسا دین (قرض) مانع عن وجوب زکوٰة ہے، ( یعنی اس مال پر زکوٰة واجب نہ ہو گی) اس مقدار دَین (قرض) کے علاوہ اس کے پاس بقدر نصاب مال ہو گا تو اس پر زکوٰة واجب ہو گی، ورنہ نہیں ۔

اگر خاوند ادا کرنے کی فکر او رکوشش میں لگا ہوا نہیں ہے، بلکہ اس کو اطمینان ہے کہ ، ادا نہیں کرنا ہے ، تو ایسا دین (قرض) مانع عن وجوب زکوٰة نہیں (یعنی اس مال پر زکوٰة واجب ہو گا) ۔(فتاوی محمودیہ ، کتاب الزکوٰة ، باب وجوب زکوٰة 319/9)

شوہر کے ذمے یہ دَین ( قرض) مانع ہو یا نہ ہو، بہرصورت زوجہ پر اس کی زکوٰة لازم نہیں۔ (یعنی عورت پر زکوٰة اس وقت واجب ہو گی، جب وہ مہر پر قبضہ کرے اس سے پہلے اس پر زکوٰة لازم نہیں۔) ( فتاوی محمودیہ، کتاب الزکوٰة، باب وجوب زکوٰة320/9)
http://www.farooqia.com/ur/lib/1434/11/p51.php

No comments:

Post a Comment