اگر آپ سے کوئی غیر مسلم یہ سوال کرے کہ تمہاری دوسری مستند کتاب صحیح بخاری میں یہ لکھا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی شادی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نو سال کی عمر میں ہوئی تو کیا آپ اسے یہ جواب دے کر مطمئن کرسکتے ہیں کہ دراصل وہ عدد 9 نہیں 19 تھا غلطی سے نو لکھا گیا ہے؟ اور کیا آپ آکسفورڈ یونیورسٹی کے کسی غیر مسلم پروفیسر کے سامنے یہ کہنے کی جرات رکھتے ہیں کہ صحیح بخاری کی حدیث ہی کیوں نہ ہو ہم اسے اس لئے ریجکٹ کرتے ہیں کہ اس سے ہمارے رسول کی توہین اور گستاخی ہوتی ہے؟ (نعوذ باللہ)۔
اور اگر اس پروفیسر نے آپ سے یہ پوچھ لیا کہ یہی بات ہم کہیں تو تم ہمیں گستاخ کہتے ہو اور تمہارا امام بخاری یہی بات لکھتا ہے تو تم اسے گستاخ رسول کیوں ڈیکلئیر نہیں کرتے؟
جناب والا اس قسم کی بے سروپا باتوں سے غیر مسلم حضرات متاثر نہیں ہونگے بلکہ الٹا اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا باعث ہوگا۔
آج سے چند سال قبل ایک اسکول میں مجھے اسلام سے متعلق بات کرنے کی دعوت دی گئی. ایک انگریز خاتون نی یہی سوال مجھ سے کیا جس کا میں نے موقع محل کے لحاظ سے جواب دیا. بعد میں اسے ایک مضمون کی شکل میں کچھ اضافہ کے ساتھ لکھدیا. آج کافی عرصہ بعد ایک صاحب کا مضمون دیکھ کر مجھے اپنا مضمون یاد آگیا، لیجئے آپ بھی پڑھ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی منگنی چھ سال کی عمر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگئی، اس کے بعد تین سال تک انتظار کیا گیا جب نو سال عمر ہوئی تو ان کے والدین نے ان کی رخصتی کردی، نو سال کی عمر میں شادی کی روایت صرف امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر نہیں کی ہے بلکہ ان سے قبل امام عبد الرزاق صنعانی اور امام ابوبکر ابن ابی شیبہ نے بھی اپنی مصنفات میں ذکر کی ہیں جن کا شمار دوسری صدی کے عظیم محدثین میں ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے بعد سے لیکر 1300 صدیوں تک کسی بھی اسلام مخالف نے اس شادی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کسی بھی قدیم لٹریچر میں اس شادی پر اعتراض نہیں ملتا ہے، سب سے پہلے اس شادی پر تنقید 1900ع کے بعد برطانوی مورخ David Margoliouth نے اپنی کتاب Mohammed and The Rise of Islam میں کی (قلم ان الفاظ کو لکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے) سوچنے کی بات یہ ہے کہ تیرہ سو سال تک مخالفین نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر بہت سے اعتراضات کئے لیکن کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا جس کی وجہ یہ ہے کہ سو سال قبل دنیا میں چھوٹی عمر کی بالغ لڑکیوں سے شادی کا رواج عام تھا Arthur Siccan لکھتا ہے کہ 1900ع سے قبل دنیا کے مختلف ممالک بشمول ریاستہائے متحدہ امریکہ 10 سالہ لڑکی سے شادی کا رواج عام طور پر پایا جاتا تھا، موجودہ دور کے میڈیکل سائنس نے بھی یہ بات قبول کی ہے کہ نو سال کی عمر میں لڑکی بالغ ہوسکتی ہے۔
بنیادی غلطی یہ کی جاتی ہے کہ شادی کے معاملہ میں موجودہ دور کے معاشرتی اسٹینڈرڈ کا چودہ سو سال قبل کے اسٹینڈرڈ سے موازنہ کیا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آج کے عرف کو سو سال قبل کے عرف سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے تو چودہ سو سال قبل معاشرہ کے عرف سے موازنہ کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہوگا.
آج اگر کسی علاقہ میں سولہ سالہ عمر کی لڑکی کی شادی کو درست سمجھا جاتا ہے تو گذشتہ دور میں اس سے چھوٹی عمر میں شادی بھی درست سمجھی جاتی تھی. اسی طرح آج اگر کسی عرف میں شادی کی کم از کم عمر سولہ سال ہے اور کچھ عرصہ بعد معاشرہ کا عرف یا ملک کا قانون بدل کر بیس سال ہوجائے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہ ہوگا کہ سابقہ سولہ سال کی عمر میں شادی کرنے والوں کو مطعون کیا جائے۔
دور جانے کی زحمت نہ کیجئے آج کے دور میں ہی دیکھ لیجئے کہ دنیا کی مختلف ممالک اور علاقوں میں مختلف عمروں میں شادیاں کی جاتی ہیں، صرف امریکہ میں دیکھا جائے تو عام طور پر 18 سال کی لڑکی شادی کرسکتی ہے لیکن Nebraska میں 19 سال اور Mississippi میں 21 سال سے کم عمر لڑکی شادی نہیں کرسکتی، جبکہ والدین کی رضامندی سے 15 اور 16 سال کی لڑکی بھی شادی کرسکتی ہے البتہ بعض ریاستوں میں اس سے کم عمر میں بھی شادی کی جاسکتی ہے مثلاً Texas میں 14، Hampshire میں 13 اور Massachusetts میں 12 سالہ لڑکی بھی والدین کی رضامندی سے شادی کرسکتی ہیں.
جب ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں میں عرف کا فرق موجودہ زمانہ میں قابل قبول ہے تو 1400 سال پہلے کا عرف کیونکر قابل اعتراض ہوسکتا ہے؟؟
عقل کا تقاضہ تو یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی شادی کو دور رسالت کے عرف کے تناظر میں دیکھا جائے نہ کہ موجودہ عرف کے تناظر میں، لہذا سوال یہ ہونا چاہئے کہ 1400 سال قبل عرب معاشرہ میں چھوٹی عمر کی شادی کا تصور پایا جاتا تھا یا نہیں؟ جب اس تناظر میں دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ اس دور کے عرب معاشرے میں عام طور پر چھوٹی عمر کی بالغ لڑکیوں سے شادی کا عرف پایا جاتا تھا، جس کا اندازہ ان مثالوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے.
(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم کی پیدائش سنہ 6ھ میں ہوئی، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 11ھ میں ان کی عمر پانچ سال تھی اور سنہ 17 ھ میں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی شادی ہوئی، اس وقت ان کی عمر گیارہ سال تھی۔
(2) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ دوسری صدی کے مشہور فقیہ گذرے ہیں فرماتے ہیں کہ یمن میں نو سال کی عمر میں بچیاں بالغ ہوجاتی تھیں، مزید فرماتے ہیں کہ صنعاء میں ایک لڑکی اکیس سال کے عمر میں نانی بن چکی تھی، نو سال کی عمر میں اس کی شادی ہوئی. دس سال کی عمر میں بیٹی پیدا ہوئی، پھر اس کی بیٹی کی شادی نو سال کی عمر میں ہوئی اور دسویں سال اس کی بیٹی پیدا ہوئی (بيهقي)
(3) غزوہ خیبر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب سے ہوئی، اس وقت ان کی عمر تقریباً سولہ سال تھی (عيون الأثر) ابن کثیر کے یہاں تو اس سے بھی چھوٹی عمر بنتی ہے تقریباً چودہ سال، جبکہ اس قبل حضرت صفیہ کی دو شادیاں ہوچکی تھیں. پہلی شادی سلام بن مشکم اور دوسری کنانہ بن ابی الحقیق سے ہوئی تھی اور یہ دونوں شادیاں یقیناً چھوٹی عمر میں ہوئی تھیں، حضرت صفیہ کے والد حیی بن اخطب یہود کے معزز لیڈر اور سردار تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معززین کے یہاں چھوٹی عمر میں شادی کرنا عرب عرف میں رائج تھا. اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت عائشہ کی شادی پر مشرکین مکہ، منافقین اور یہود خاموش نہ رہتے بلکہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت بڑا طوفان کھڑا کردیتے۔
چند روز قبل ایک اسکول میں اسلام سے متعلق لیکچر دینے کا اتفاق ہوا، طالبات اور اساتذہ نے بہت سے سوالات کئے اسکول کی پرنسپل انگریز خاتون نے آخر میں یہ سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ پرافٹ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نو سال کی عمر میں شادی کی اور یہ مسلمانوں کی کتابوں میں لکھا ہے؟
میں نے ان سے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ اپنی شادی سے بہت زیادہ خوش تھیں انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا اور صرف وہ نہیں بلکہ ان کے والدین، رشتہ دار اور تمام مسلمان بھی خوش تھے، یہاں تک کہ اس وقت کے مشرکین، یہود و نصاری نے بھی اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں کیا. بالفرض اگر یہ شادی اس دور کے ٹریڈیشن اور عرف کے خلاف ہوتی تو کیا مخالفینِ اسلام خاموش بیٹھے رہتے؟
پھر میں نے عرض کی کہ یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی شادی پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے حالانکہ دیگر مذاہب کی کتب میں بھی چھوٹی عمر کی شادیوں کا ذکر ملتا ہے مثلاً Gospel of James کے چیپٹر 8 کے مطابق بی بی مریم کی شادی 12 سال کی عمر میں ایک شادی شدہ اور عمر رسیدہ بزرگ سینٹ جوزف سے ہوئی (مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق بی بی مریم کی شادی نہیں ہوئی) تلمود کے مطابق حضرت اسحاق کی شادی رابیکا سے ہوئی. اس وقت اسحاق کی عمر چالیس سال اور رابیکا کی عمر تین سال تھی لیکن ان سب کو چھوڑکر صرف عائشہ رضی اللہ عنھا کی شادی کو ٹارگٹ کرنا اور یہ ظاہر کرنا کہ دنیا کی تاریخ میں بس یہی ایک چھوٹی عمر کی شادی ہوئی ہے اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ تنقید صرف اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت اور حسد کی بنا پر کی جاتی ہے۔
ان سب باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام چھوٹی عمر کی شادیوں کو پروموٹ کرتا ہے بلکہ اسلام ہر دور کے عرف اور مروجہ قانون کا مکمل احترام کرتا ہے اور اس کا احترام سکھاتا بھی ہے. لہذا موجودہ دور میں عرف اور ملکی قوانین کے مطابق شادی کی عمر ہوجانے پر ہی شادی کرنی چاہئے، البتہ یہ انتہائی غیر معقول اور نامناسب رویہ ہے کہ گذشتہ قوموں کے عرف اور کلچر کی توہین کی جائے اور انہیں نا مناسب اور غلط کہا جائے، اگر یہ روش ترک نہ کی گئی تو کل ہماری نسلیں ہماری شادیوں کا مذاق اڑائیں گی۔
اور اگر اس پروفیسر نے آپ سے یہ پوچھ لیا کہ یہی بات ہم کہیں تو تم ہمیں گستاخ کہتے ہو اور تمہارا امام بخاری یہی بات لکھتا ہے تو تم اسے گستاخ رسول کیوں ڈیکلئیر نہیں کرتے؟
جناب والا اس قسم کی بے سروپا باتوں سے غیر مسلم حضرات متاثر نہیں ہونگے بلکہ الٹا اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا باعث ہوگا۔
آج سے چند سال قبل ایک اسکول میں مجھے اسلام سے متعلق بات کرنے کی دعوت دی گئی. ایک انگریز خاتون نی یہی سوال مجھ سے کیا جس کا میں نے موقع محل کے لحاظ سے جواب دیا. بعد میں اسے ایک مضمون کی شکل میں کچھ اضافہ کے ساتھ لکھدیا. آج کافی عرصہ بعد ایک صاحب کا مضمون دیکھ کر مجھے اپنا مضمون یاد آگیا، لیجئے آپ بھی پڑھ لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی منگنی چھ سال کی عمر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگئی، اس کے بعد تین سال تک انتظار کیا گیا جب نو سال عمر ہوئی تو ان کے والدین نے ان کی رخصتی کردی، نو سال کی عمر میں شادی کی روایت صرف امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر نہیں کی ہے بلکہ ان سے قبل امام عبد الرزاق صنعانی اور امام ابوبکر ابن ابی شیبہ نے بھی اپنی مصنفات میں ذکر کی ہیں جن کا شمار دوسری صدی کے عظیم محدثین میں ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے بعد سے لیکر 1300 صدیوں تک کسی بھی اسلام مخالف نے اس شادی کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کسی بھی قدیم لٹریچر میں اس شادی پر اعتراض نہیں ملتا ہے، سب سے پہلے اس شادی پر تنقید 1900ع کے بعد برطانوی مورخ David Margoliouth نے اپنی کتاب Mohammed and The Rise of Islam میں کی (قلم ان الفاظ کو لکھنے کی طاقت نہیں رکھتا ہے) سوچنے کی بات یہ ہے کہ تیرہ سو سال تک مخالفین نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر بہت سے اعتراضات کئے لیکن کسی نے یہ اعتراض نہیں کیا جس کی وجہ یہ ہے کہ سو سال قبل دنیا میں چھوٹی عمر کی بالغ لڑکیوں سے شادی کا رواج عام تھا Arthur Siccan لکھتا ہے کہ 1900ع سے قبل دنیا کے مختلف ممالک بشمول ریاستہائے متحدہ امریکہ 10 سالہ لڑکی سے شادی کا رواج عام طور پر پایا جاتا تھا، موجودہ دور کے میڈیکل سائنس نے بھی یہ بات قبول کی ہے کہ نو سال کی عمر میں لڑکی بالغ ہوسکتی ہے۔
بنیادی غلطی یہ کی جاتی ہے کہ شادی کے معاملہ میں موجودہ دور کے معاشرتی اسٹینڈرڈ کا چودہ سو سال قبل کے اسٹینڈرڈ سے موازنہ کیا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آج کے عرف کو سو سال قبل کے عرف سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا ہے تو چودہ سو سال قبل معاشرہ کے عرف سے موازنہ کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہوگا.
آج اگر کسی علاقہ میں سولہ سالہ عمر کی لڑکی کی شادی کو درست سمجھا جاتا ہے تو گذشتہ دور میں اس سے چھوٹی عمر میں شادی بھی درست سمجھی جاتی تھی. اسی طرح آج اگر کسی عرف میں شادی کی کم از کم عمر سولہ سال ہے اور کچھ عرصہ بعد معاشرہ کا عرف یا ملک کا قانون بدل کر بیس سال ہوجائے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہ ہوگا کہ سابقہ سولہ سال کی عمر میں شادی کرنے والوں کو مطعون کیا جائے۔
دور جانے کی زحمت نہ کیجئے آج کے دور میں ہی دیکھ لیجئے کہ دنیا کی مختلف ممالک اور علاقوں میں مختلف عمروں میں شادیاں کی جاتی ہیں، صرف امریکہ میں دیکھا جائے تو عام طور پر 18 سال کی لڑکی شادی کرسکتی ہے لیکن Nebraska میں 19 سال اور Mississippi میں 21 سال سے کم عمر لڑکی شادی نہیں کرسکتی، جبکہ والدین کی رضامندی سے 15 اور 16 سال کی لڑکی بھی شادی کرسکتی ہے البتہ بعض ریاستوں میں اس سے کم عمر میں بھی شادی کی جاسکتی ہے مثلاً Texas میں 14، Hampshire میں 13 اور Massachusetts میں 12 سالہ لڑکی بھی والدین کی رضامندی سے شادی کرسکتی ہیں.
جب ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں میں عرف کا فرق موجودہ زمانہ میں قابل قبول ہے تو 1400 سال پہلے کا عرف کیونکر قابل اعتراض ہوسکتا ہے؟؟
عقل کا تقاضہ تو یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی شادی کو دور رسالت کے عرف کے تناظر میں دیکھا جائے نہ کہ موجودہ عرف کے تناظر میں، لہذا سوال یہ ہونا چاہئے کہ 1400 سال قبل عرب معاشرہ میں چھوٹی عمر کی شادی کا تصور پایا جاتا تھا یا نہیں؟ جب اس تناظر میں دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ اس دور کے عرب معاشرے میں عام طور پر چھوٹی عمر کی بالغ لڑکیوں سے شادی کا عرف پایا جاتا تھا، جس کا اندازہ ان مثالوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے.
(1) حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی ام کلثوم کی پیدائش سنہ 6ھ میں ہوئی، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 11ھ میں ان کی عمر پانچ سال تھی اور سنہ 17 ھ میں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی شادی ہوئی، اس وقت ان کی عمر گیارہ سال تھی۔
(2) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ دوسری صدی کے مشہور فقیہ گذرے ہیں فرماتے ہیں کہ یمن میں نو سال کی عمر میں بچیاں بالغ ہوجاتی تھیں، مزید فرماتے ہیں کہ صنعاء میں ایک لڑکی اکیس سال کے عمر میں نانی بن چکی تھی، نو سال کی عمر میں اس کی شادی ہوئی. دس سال کی عمر میں بیٹی پیدا ہوئی، پھر اس کی بیٹی کی شادی نو سال کی عمر میں ہوئی اور دسویں سال اس کی بیٹی پیدا ہوئی (بيهقي)
(3) غزوہ خیبر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب سے ہوئی، اس وقت ان کی عمر تقریباً سولہ سال تھی (عيون الأثر) ابن کثیر کے یہاں تو اس سے بھی چھوٹی عمر بنتی ہے تقریباً چودہ سال، جبکہ اس قبل حضرت صفیہ کی دو شادیاں ہوچکی تھیں. پہلی شادی سلام بن مشکم اور دوسری کنانہ بن ابی الحقیق سے ہوئی تھی اور یہ دونوں شادیاں یقیناً چھوٹی عمر میں ہوئی تھیں، حضرت صفیہ کے والد حیی بن اخطب یہود کے معزز لیڈر اور سردار تھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معززین کے یہاں چھوٹی عمر میں شادی کرنا عرب عرف میں رائج تھا. اگر ایسا نہ ہوتا تو حضرت عائشہ کی شادی پر مشرکین مکہ، منافقین اور یہود خاموش نہ رہتے بلکہ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت بڑا طوفان کھڑا کردیتے۔
چند روز قبل ایک اسکول میں اسلام سے متعلق لیکچر دینے کا اتفاق ہوا، طالبات اور اساتذہ نے بہت سے سوالات کئے اسکول کی پرنسپل انگریز خاتون نے آخر میں یہ سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ پرافٹ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے نو سال کی عمر میں شادی کی اور یہ مسلمانوں کی کتابوں میں لکھا ہے؟
میں نے ان سے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ اپنی شادی سے بہت زیادہ خوش تھیں انہیں کوئی اعتراض نہیں تھا اور صرف وہ نہیں بلکہ ان کے والدین، رشتہ دار اور تمام مسلمان بھی خوش تھے، یہاں تک کہ اس وقت کے مشرکین، یہود و نصاری نے بھی اس شادی پر کوئی اعتراض نہیں کیا. بالفرض اگر یہ شادی اس دور کے ٹریڈیشن اور عرف کے خلاف ہوتی تو کیا مخالفینِ اسلام خاموش بیٹھے رہتے؟
پھر میں نے عرض کی کہ یہ بھی غور کرنا چاہئے کہ صرف حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کی شادی پر اعتراض کیوں کیا جاتا ہے حالانکہ دیگر مذاہب کی کتب میں بھی چھوٹی عمر کی شادیوں کا ذکر ملتا ہے مثلاً Gospel of James کے چیپٹر 8 کے مطابق بی بی مریم کی شادی 12 سال کی عمر میں ایک شادی شدہ اور عمر رسیدہ بزرگ سینٹ جوزف سے ہوئی (مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق بی بی مریم کی شادی نہیں ہوئی) تلمود کے مطابق حضرت اسحاق کی شادی رابیکا سے ہوئی. اس وقت اسحاق کی عمر چالیس سال اور رابیکا کی عمر تین سال تھی لیکن ان سب کو چھوڑکر صرف عائشہ رضی اللہ عنھا کی شادی کو ٹارگٹ کرنا اور یہ ظاہر کرنا کہ دنیا کی تاریخ میں بس یہی ایک چھوٹی عمر کی شادی ہوئی ہے اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ تنقید صرف اسلام اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نفرت اور حسد کی بنا پر کی جاتی ہے۔
ان سب باتوں کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اسلام چھوٹی عمر کی شادیوں کو پروموٹ کرتا ہے بلکہ اسلام ہر دور کے عرف اور مروجہ قانون کا مکمل احترام کرتا ہے اور اس کا احترام سکھاتا بھی ہے. لہذا موجودہ دور میں عرف اور ملکی قوانین کے مطابق شادی کی عمر ہوجانے پر ہی شادی کرنی چاہئے، البتہ یہ انتہائی غیر معقول اور نامناسب رویہ ہے کہ گذشتہ قوموں کے عرف اور کلچر کی توہین کی جائے اور انہیں نا مناسب اور غلط کہا جائے، اگر یہ روش ترک نہ کی گئی تو کل ہماری نسلیں ہماری شادیوں کا مذاق اڑائیں گی۔
امام عطاءاللہ خان
No comments:
Post a Comment