گو کہ ہماری پیدائش سے کہیں پہلے مدرسہ کو سکول بنا دیا گیا تھا، لیکن انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔
بہت وقت پہلے تین چار الفاظ انگریزی زبان کے رائج تھے،
ہیڈ ماسٹر،
فِیس،
فیل،
پاس اور جمعرات کو لاسٹ ورکنگ ڈے (کیونکہ اُن دِنوں اتوار کی بجائے جمعہ کے دن سرکاری چھٹی ہوتی تھی)
کہا جاتا تھا اس دن آدھی چھٹی یعنی ہاف ڈے ہوتا تھا۔
انگلش میڈیم سکول میں پیپر اور سرکاری سکول میں پرچہ کہا جاتا تھا
پھر استاد جی کی بجائے سر جی آیا۔
یوں استاد جی سے سر جی کہلانے لگے
سارے استاد ٹیچر بن گئے۔
پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تک جاری ہے۔
اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت،
کلاس میں تبدیل ہوگئ۔ اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلو بن گئے۔
اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم، دہم، جماعتیں ہوتی تھیں اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
پھر کمروں سے کلاس روم بن گئے
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔
تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔
گرمیوں کی چھٹیاں اور سردیوں کی چھٹیاں (المعروف وڈے دناں دی چھٹیاں) کی جگہ سمر ووکیشن اور وِنٹر ووکیشن آگئیں۔
چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہوم ورک ہو گیا ۔
ہم نے یوم آزادی کی بجائے انڈیپنڈنس ڈے منانا شروع کردیا۔
پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاح آگئ۔
امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے،
اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن ہال جاتے ہیں۔
قلم،
دوات،
سیاہی،
تختی،
گاچی،
سلیٹ اور
سلیٹی جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل اور بال پین آگئیں۔
کاپیاں گئیں نوٹ بکس آگئیں۔
نصاب کو کورس کہا جانے لگا
اور اس کورس کی ساری کتابیں بکس بن گئیں یوں بکس کے نام بھی تبدیل ہوگئے۔
ریاضی کو میتھ کہا جانے لگا۔
اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئ۔
انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئ۔
اسی طرح طبیعات فزکس،
معاشیات اکنامکس
اور مطالعہ پاکستان، پاکستان سٹڈیز لکھی اور پڑھی جانے لگیں۔
پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے پھر سٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔
پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
اساتذہ کیلئے میز اور کرسیاں لگانے والے ٹیچرز کے لئے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔
داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔
اول دوم سوم آنے والے طلبہ فرسٹ سیکنڈ تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔
پہلے انعام ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔
بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔
یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔
باقی رہے پرائیویٹ اسکول،
ان کا تو پوچھیے ہی مت۔
ان کاروباری مراکز کیلئے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا تھا۔
مکتب نہیں دکان ہے یہ خام مال کی
مقصد جہاں پہ علم نہیں روزگار ہے
اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔
زنان خانہ اور مردان خانہ تو کب کے ختم ہوگئے۔
خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔
باورچی خانہ کچن بن گیا
اور اس میں پڑے برتن کراکری۔
غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کرکے واش روم بن گیا۔
مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔
پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا اور پہلے گھنٹی بجتی تھی اب بیل بجنے لگی۔
کمرے روم بن گئے۔
کپڑے الماری کی بجائے کیبنٹ میں رکھے جانے لگے۔
ابو جی جیسا پیار اور ادب سے بھرپور تخاطب دقیانوسی لگنے لگا اور ہر طرف پاپا، پاپا کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے کو کھایا کرتے تھے۔
اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ امی جی، ممی میں تبدیل ہوگیا۔
سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔ چچا چچی،
تایا تائی،
ماموں ممانی،
پھوپھا پھوپھو،
خالو خالہ علی ہذالاقیاس سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ انکل اور آنٹی میں تبدیل ہوگئے۔
بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے
یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔
ساری عورتیں آنٹیاں۔ چچا زاد،
ماموں زاد،
خالہ زاد بہنیں و بھائی سب کے سب کزن میں تبدیل ہوگئے
نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔
بس ایک کام کرنے والی پہلے بھی ماسی تھی اب بھی ماسی ہے۔
گھر اور اسکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتا۔ دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے،
آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے خریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
سڑکیں روڈ بن گئیں۔ کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی
یعنی، اس نے کس ڈھب سے مذکر کو مؤنث باندھا'۔
کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھارلیا اور نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔
ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔
پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی اب آفس بن گیا اور منتھ ٹو منتھ سیلری ملنے لگی۔ جو صاحب تھے وہ باس بن گئے۔
بابو کلرک اور چپڑاسی پِیَن۔
پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا۔
آوے کا آوا کچھ یوں بگڑا کہ ہمارے صدر مملکت کو پریزیڈنٹ کہا جانے لگا۔
پہلے وزیر اعظم کرسی سے اتارے جاتے تھے اب پرائم منسٹر کو کرسی سے اتارا جانے لگا۔
وزیر اعلی چیف منسٹر بن گئے۔
وفاقی حکومت کو فیڈرل گورنمنٹ کہا جانے لگا
اور صوبائی کو پراوینشل۔
سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں
اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
محبوب بوائے فرینڈ اور محبوبہ گرل فرینڈ بن گئی۔
صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔
کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔
اردو زبان کے زوال میں حکومت سے لے کر ایک عام آدمی تک نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے.
اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا۔
وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا.
بہت وقت پہلے تین چار الفاظ انگریزی زبان کے رائج تھے،
ہیڈ ماسٹر،
فِیس،
فیل،
پاس اور جمعرات کو لاسٹ ورکنگ ڈے (کیونکہ اُن دِنوں اتوار کی بجائے جمعہ کے دن سرکاری چھٹی ہوتی تھی)
کہا جاتا تھا اس دن آدھی چھٹی یعنی ہاف ڈے ہوتا تھا۔
انگلش میڈیم سکول میں پیپر اور سرکاری سکول میں پرچہ کہا جاتا تھا
پھر استاد جی کی بجائے سر جی آیا۔
یوں استاد جی سے سر جی کہلانے لگے
سارے استاد ٹیچر بن گئے۔
پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تک جاری ہے۔
اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت،
کلاس میں تبدیل ہوگئ۔ اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلو بن گئے۔
اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم، دہم، جماعتیں ہوتی تھیں اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
پھر کمروں سے کلاس روم بن گئے
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔
تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔
گرمیوں کی چھٹیاں اور سردیوں کی چھٹیاں (المعروف وڈے دناں دی چھٹیاں) کی جگہ سمر ووکیشن اور وِنٹر ووکیشن آگئیں۔
چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہوم ورک ہو گیا ۔
ہم نے یوم آزادی کی بجائے انڈیپنڈنس ڈے منانا شروع کردیا۔
پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاح آگئ۔
امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے،
اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن ہال جاتے ہیں۔
قلم،
دوات،
سیاہی،
تختی،
گاچی،
سلیٹ اور
سلیٹی جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل اور بال پین آگئیں۔
کاپیاں گئیں نوٹ بکس آگئیں۔
نصاب کو کورس کہا جانے لگا
اور اس کورس کی ساری کتابیں بکس بن گئیں یوں بکس کے نام بھی تبدیل ہوگئے۔
ریاضی کو میتھ کہا جانے لگا۔
اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئ۔
انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئ۔
اسی طرح طبیعات فزکس،
معاشیات اکنامکس
اور مطالعہ پاکستان، پاکستان سٹڈیز لکھی اور پڑھی جانے لگیں۔
پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے پھر سٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔
پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
اساتذہ کیلئے میز اور کرسیاں لگانے والے ٹیچرز کے لئے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔
داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔
اول دوم سوم آنے والے طلبہ فرسٹ سیکنڈ تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔
پہلے انعام ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔
بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔
یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔
باقی رہے پرائیویٹ اسکول،
ان کا تو پوچھیے ہی مت۔
ان کاروباری مراکز کیلئے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا تھا۔
مکتب نہیں دکان ہے یہ خام مال کی
مقصد جہاں پہ علم نہیں روزگار ہے
اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔
زنان خانہ اور مردان خانہ تو کب کے ختم ہوگئے۔
خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔
باورچی خانہ کچن بن گیا
اور اس میں پڑے برتن کراکری۔
غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کرکے واش روم بن گیا۔
مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔
پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا اور پہلے گھنٹی بجتی تھی اب بیل بجنے لگی۔
کمرے روم بن گئے۔
کپڑے الماری کی بجائے کیبنٹ میں رکھے جانے لگے۔
ابو جی جیسا پیار اور ادب سے بھرپور تخاطب دقیانوسی لگنے لگا اور ہر طرف پاپا، پاپا کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے کو کھایا کرتے تھے۔
اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ امی جی، ممی میں تبدیل ہوگیا۔
سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔ چچا چچی،
تایا تائی،
ماموں ممانی،
پھوپھا پھوپھو،
خالو خالہ علی ہذالاقیاس سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ انکل اور آنٹی میں تبدیل ہوگئے۔
بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے
یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔
ساری عورتیں آنٹیاں۔ چچا زاد،
ماموں زاد،
خالہ زاد بہنیں و بھائی سب کے سب کزن میں تبدیل ہوگئے
نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔
بس ایک کام کرنے والی پہلے بھی ماسی تھی اب بھی ماسی ہے۔
گھر اور اسکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتا۔ دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے،
آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نے خریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
سڑکیں روڈ بن گئیں۔ کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی
یعنی، اس نے کس ڈھب سے مذکر کو مؤنث باندھا'۔
کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھارلیا اور نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔
ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔
پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی اب آفس بن گیا اور منتھ ٹو منتھ سیلری ملنے لگی۔ جو صاحب تھے وہ باس بن گئے۔
بابو کلرک اور چپڑاسی پِیَن۔
پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا۔
آوے کا آوا کچھ یوں بگڑا کہ ہمارے صدر مملکت کو پریزیڈنٹ کہا جانے لگا۔
پہلے وزیر اعظم کرسی سے اتارے جاتے تھے اب پرائم منسٹر کو کرسی سے اتارا جانے لگا۔
وزیر اعلی چیف منسٹر بن گئے۔
وفاقی حکومت کو فیڈرل گورنمنٹ کہا جانے لگا
اور صوبائی کو پراوینشل۔
سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں
اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
محبوب بوائے فرینڈ اور محبوبہ گرل فرینڈ بن گئی۔
صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔
کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔
اردو زبان کے زوال میں حکومت سے لے کر ایک عام آدمی تک نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے.
اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا۔
وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا.
مصنف کی بجائے رائیٹر بن گیا ہم کہاں سے کہاں آگئے اور کہاں جارہے ہیں؟
No comments:
Post a Comment