ایس اے ساگر
اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی روح سے بعض قومیں اعلی اور بعض ادنی سمجھی جاتی ہیں۔ اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ قوم قبیلہ، ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں۔اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی روح سے بعض قومیں اعلی اور بعض ادنی سمجھی جاتی ہیں۔ اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن نے واضح کیا کہ قوم قبیلہ، ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں۔ اسلام کی نظر میں عزت و ذلت، بڑا اور چھوٹا ہونے کا مدار ایمان و کردار پر ہے۔ حسب و نسب پر نہیں۔ تاہم آدمی اپنی صحبت اور حسب و نسب سے پہچانا جاتا ہے. نسب آدمی کی اصل اور نزاد کو کہتے ہیں اور حسب کا مطلب ہے کسی شخص کی ذاتی قابلیت اور لیاقت یعنی ذاتی اوصاف جو اس کے باپ دادا میں تھے جو اس کے لئے فضیلت اور بزرگی کا باعث ہوں۔ فخر کی عادت عربوں میں ہمیشہ سے تھی بلکہ آج بھی ہے. انہیں اپنے عربی ہونے پر اور باقی دنیا کے عجمی ہونے پر تعصب کی آخری حد تک فخر تھا. ان کے فخر کا باعث ان کی کئی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ذہانت بھی تھی. اور یہ بات تاریخ میں مسلم الثبوت ہے کہ حافظے اور ذہانت میں عرب کا ہر باشندہ بے مثال تھا اور یہ سارے ذہین ترین عرب قبائل مکہ کے قبیلہ قریش کی سیادت کے قائل تھے. اور قبیلہ قریش کے سبھی خاندان عمر بن ہشام کی ذہانت کا لوہا مانتے تھے
شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ صدیوں پہلے فرماگئے تھے۔ آپ کا ایک شعرہے:
اگرقحط الرجال افتد، بہ ایں سہ انس کم گیری
اول افغان، دوم کمبوہ، سوم بد ذات کشمیری
یعنی اگرزمیں پرانسانی قحط بھی ہوجائے توان تین سے دوررہنا؛ اول افغان، دوم کمبوہ، سوم بدذات کشمیری
قصة ..{عبد الله يرث وعبد الله لا يرث وعبد الله يرث}
تین بھائیوں کی حکایت:کہتے ہیں کسی جگہ ایک شخص رہتا تھا جس کے تین بیٹے تھے۔ اس شخص نے اپنے ان تینوں بیٹوں کا نام عبداللہ رکھا تھا۔ دن گزرتے رہے حتیٰ کہ اسے مرض الموت نے آن لیا۔ اس نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلا کر وصیت کی کہ عبداللہ کو وراثت ملے گی، عبداللہ کو وراثت نہیں ملے گی اور عبداللہ کو وراثت ملے گی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی روح قبض ہوگئی۔ یہ خود تو فوت ہوگیا مگر اپنے بیٹوں کو حیرت میں ڈال گیا کہ کیسے فیصلہ کریں؟ کن دو عبداللہ کو وراثت ملے اور کس ایک کو نہیں ملے گی۔ تینوں نے فیصلہ کیا کہ شہر جاکر قاضی سے اپنا مسئلہ بیان کریں اور اس سے کوئی حل طلب کریں۔
سب خاموش رہے۔دربار میں بیٹھا ہوا ایک غریب دیہاتی کھڑا ہوا اور کہا: ”میں زیارت کرواسکتا ہوں۔“
سلطان نے شرط پوچھی تو عرض کرنے لگا: ”6 ماہ دریا کے کنارے چلہ کاٹنا ہوگا لیکن میں ایک غریب آدمی ہوں میرے گھر کا خرچا آپ کو اٹھانا ہوگا۔“
سلطان نے شرط منظور کرلی۔ اس شخص کو چلہ کے لئے بھج دیا گیا اور گھر کا خرچہ بادشاہ کے ذمے ہوگیا....6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان نے اس شخص کو دربار میں حاضر کیا اور پوچھا تو دیہاتی کہنے لگا: ” حضور کچھ وظائف الٹے ہوگئے ہیں، لہٰذا 6 ماہ مزید لگیں گے ....“
مزید 6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان محمود نے پھر دربار لگایا اور دربار میں ہزاروں افراد شریک تھے ........اس شخص کو دربار میں حاضر کیا گیا اور بادشاہ نے پوچھا: ”میرے کام کا کیا ہوا؟“
یہ بات سن کے دیہاتی کہنے لگا: ”بادشاہ سلامت کہاں میں گنہگار اور کہاں خضر علیہ السلام، میں نے آپ سے جھوٹ بولا .... میرے گھر کا خرچا پورا نہیں ہورہا تھا، بچے بھوک سے مررہے تھے، اس لئے ایسا کرنے پر مجبور ہوا....“
سلطان محمود غزنوی نے اپنے ایک وزیر کو کھڑا کیا اور پوچھا: ”اس شخص کی سزا کیا ہے؟“
وزیر نے کہا: ”اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ جھوٹ بولا ہے۔ لہٰذا اس کا گلا کاٹ دیا جائے۔“
دربار میں ایک نورانی چہرے والے بزرگ تشریف فرما تھے، کہنے لگے: ”بادشاہ سلامت اس وزیر نے بالکل ٹھیک کہا ....“
بادشاہ نے دوسرے وزیر سے پوچھا: ”آپ بتاو!“
اس نے کہا: ”اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ فراڈ کیا ہے اس کا گلا نہ کاٹا جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے تاکہ یہ ذلیل ہوکے مرے، اسے مرنے میں کچھ وقت تو لگے!“
دربار میں بیٹھے اسی نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا: ”بادشاہ سلامت یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ........“
سلطان محمود غزنوی نے اپنے پیارے غلام ایاز محمود سے پوچھا: ”آپ کیا کہتے ہو؟“
ایاز نے کہا: ”بادشاہ سلامت آپ کی بادشاہی سے ایک سال اس غریب کے بچے پلتے رہے۔ آپ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئی،.اور نہ ہی اس کے جھوٹ سے آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا۔ اگر میری بات مانو تو اسے معاف کردو ........اگر اسے قتل کردیا تو اس کے بچے بھوک سے مرجائیں گے ....“
ایاز کی یہ بات سن کر محفل میں بیٹھا وہی نورانی چہرے والا بابا کہنے لگا ....”ایاز بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ....“
سلطان محمود غزنوی نے اس بابا کو بلایا اور پوچھا: ”آپ نے ہر وزیر کے فیصلے کو درست کہا، اس کی وجہ مجھے سمجھائی جائے...؟“
بابا کہنے لگا: ”بادشاہ سلامت پہلے نمبر پر جس وزیر نے کہا اس کا گلا کاٹا جائے، وہ قوم کا قصائی ہے اور قصائی کا کام ہے گلے کاٹنا اس نے اپنا خاندانی رنگ دکھایا، غلطی اس کی نہیں آپ کی ہے کہ آپ نے ایک قصائی کو وزیر بنالیا........
دوسرا جس نے کہا اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے، ا س وزیر کا والد بادشاہوں کے کتے نہلایا کرتا تھا، کتوں سے شکار کھیلتا تھا، اس کا کام ہی کتوں کا شکار ہے تو اس نے اپنے خاندان کا تعارف کروایا۔ آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ نے ایسے شخص کو وزارت دی جہاں ایسے لوگ وزیر ہوں وہاں لوگوں نے بھوک سے ہی مرنا ہے ..
اور تیسرا ایاز نے جو فیصلہ کیا تو سلطان محمود سنو، ایاز سیّد زادہ ہے۔ سیّد کی شان یہ ہے کہ سیّد اپنا سارا خاندان کربلا میں ذبح کروادیتا ہے مگر بدلا لینے کا کبھی نہیں سوچتا ....“
سلطان محمود اپنی کرسی سے کھڑا ہوگیا اور ایاز کو مخاطب کرکے کہا کہ: ”ایاز تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم سیّد ہو؟“
ایاز نے کہا: ”آج تک کسی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ ایاز سیّد ہے لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھولا، آج میں بھی راز کھول دیتا ہوں، سنو اے بادشاہ سلامت اور درباریو، یہ بابا کوئی عام ہستی نہیں، یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں....“
اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی روح سے بعض قومیں اعلی اور بعض ادنی سمجھی جاتی ہیں۔ اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ قوم قبیلہ، ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں۔اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی روح سے بعض قومیں اعلی اور بعض ادنی سمجھی جاتی ہیں۔ اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن نے واضح کیا کہ قوم قبیلہ، ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں۔ اسلام کی نظر میں عزت و ذلت، بڑا اور چھوٹا ہونے کا مدار ایمان و کردار پر ہے۔ حسب و نسب پر نہیں۔ تاہم آدمی اپنی صحبت اور حسب و نسب سے پہچانا جاتا ہے. نسب آدمی کی اصل اور نزاد کو کہتے ہیں اور حسب کا مطلب ہے کسی شخص کی ذاتی قابلیت اور لیاقت یعنی ذاتی اوصاف جو اس کے باپ دادا میں تھے جو اس کے لئے فضیلت اور بزرگی کا باعث ہوں۔ فخر کی عادت عربوں میں ہمیشہ سے تھی بلکہ آج بھی ہے. انہیں اپنے عربی ہونے پر اور باقی دنیا کے عجمی ہونے پر تعصب کی آخری حد تک فخر تھا. ان کے فخر کا باعث ان کی کئی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ذہانت بھی تھی. اور یہ بات تاریخ میں مسلم الثبوت ہے کہ حافظے اور ذہانت میں عرب کا ہر باشندہ بے مثال تھا اور یہ سارے ذہین ترین عرب قبائل مکہ کے قبیلہ قریش کی سیادت کے قائل تھے. اور قبیلہ قریش کے سبھی خاندان عمر بن ہشام کی ذہانت کا لوہا مانتے تھے
عمر بن ہشام کو اس کی بے مثال ذہانت اور معاملہ فہمی کے اعتراف میں اب الحکم کہہ کر پکارا جاتا تھا. مکہ کی مقامی پالیمنٹ یا مجلس شوریٰ ابوالحکم کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی؛ مکہ کی مجلس شوریٰ یعنی دارالندوہ. اس مجلس شوریٰ میں شریک ہونے کی ایک شرط عمر میں بڑا ہونا اور جہاندیدگی بھی تھی، یہ انسانوں کا معیار تھا. پھر اسی مکہ میں ایک صادق اور امین کا ظہور ہوا. صرف مسلم مؤرخ ہی نہیں غیر مسلم مؤرخین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دارالندوہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی چند سال کے بچے نے دارالندوہ کے اجلاس میں شرکت کی ہو. یہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے. آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے داد حضرت عبدالمطلب کے ساتھ دارالندوہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے. دارالندوہ کا ہمیشہ سے چلا آرہا اصول ایک بچے کیلئے بدل گیا..... کیوں؟؟ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غارِ حرا سے اترکر آئے تو انھوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مجھ پر ظاہر ہوا اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق خدا کی ہدایت کیلئے نبی بنایا گیا ہے. کچھ نے یہ سنا اور مان لیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادق ہیں. آپ صلی اللہ علیہ و سلم جو فرما رہے ہیں وہی سچ ہے. چاہے ہم نے خدا کو نہیں دیکھا مگر چونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خبر دے رہے ہیں کہ خدا ہے تو ہم مانتے ہیں کہ خدا ہے. بھلے ہی ہمارے اجداد بتوں کئی سو سال سے بت پرست تھے مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.... پس ہم مانتے ہیں کہ ہر بت جھوٹا ہے .... سچا صرف وہ رب ہے جس کا کوئی شریک ہے نہ ہمسر ہے
اور وہ صدیق کہلائے. عمر بن ہشام کو یہ خبر ہوئی تو اس نے ماننے سے انکار کردیا. کیونکہ ایک وجہ تو یہ تھی کہ اسے اپنے عمر میں بڑا ہونے کا زعم تھا. اسے اپنی ذہانت کا زعم تھا. اسے اپنے اجداد کی بیان کی گئی تاریخ کا زعم تھا، پس اس نے انکار کردیا اور وہ ابوالحکم قیامت تک کیلئے ابوجہل کے نام سے موسوم کردیا گیا. اللہ کے نزدیک اور اللہ کے اس سب سے عاجز بندے کے نزدیک حق اور سچ کا معیار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں. آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ان کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور جو بھی اس راستے پر ہے. اس کے علاوہ جو اس راستے پر نہیں، پھر چاہے وہ کتنا ہی بڑا ڈاکٹر اور اسکالر ہی کیوں نہ ہو اس کی ساری علمیت سارا تقابل ادیان ابوجہل کے برابر ہے.
تین سے دوررہنا:شیخ سعدی رحمة اللہ علیہ صدیوں پہلے فرماگئے تھے۔ آپ کا ایک شعرہے:
اگرقحط الرجال افتد، بہ ایں سہ انس کم گیری
اول افغان، دوم کمبوہ، سوم بد ذات کشمیری
یعنی اگرزمیں پرانسانی قحط بھی ہوجائے توان تین سے دوررہنا؛ اول افغان، دوم کمبوہ، سوم بدذات کشمیری
قصة ..{عبد الله يرث وعبد الله لا يرث وعبد الله يرث}
...
يحكى أن هناك رجلا كان لديه ثلاثة أولاد اسماهم الثلاثة ب "عبد الله "
ومضت الأيام وعندما كان الرجل على فراش الموت قال : عبد الله يرث وعبد الله لايرث وعبد الله يرث !
ثم قبضت روحه ومات .. تعجب الأخوة من العبارة كيف سيحلون هذه المعضلة ؟؟ فاتفقوا على الذهاب الى قاض المدينة .
وفعلا مضى الثلاثة في الطريق واذا بهم يرون رجلا حائرا يبحث عن شيئ ما ..
فأوقفهم وسألهم "لي ناقة تاهت مني ولا أعلم أين هي ؟ هل رأيتموها في طريقكم ؟
قال عبد الله الأول: هل بعيرك أعور ؟
قال الرجل: نعم نعم
قال عبد الله الثاني : هل بعيرك أعرج ؟
قال الرجل: نعم نعم
قال عبد الله الثالث : هل بعيرك مقطوع الذنب ؟
قال الرجل وقد استبشر خيرا : نعم اذا لقد رأيتموها أين هي ؟؟
قال الثلاثة : لا والله ما رأيناها !
جن جنون الرجل وقرر أن يصطحب الثلاثة إلى القاضي ..لأنه اعتقد بأنهم أكلوها ويريدون اخفاء الأمر عنه
لم يعترض الأخوة على الأمر بل قالو نعم ونحن ذاهبون لقضاء أمر عند ذاك القاضي
وصل الأربعة إلى القاضي فقص الرجل صاحب الناقة القصة على القاضي
قال القاضي : ان ماوصفتم به الناقة انما يدل على أنكم رأيتموها ..هلا اعترفتم؟؟
قال الأول : والله ياسيدي مارأينها ولكننا رأينا أثارها ..فعندما قلت أنها عوراء ذلك لأنني لاحظت أن العشب في المكان
الذي مرت به قد أكل من ناحية واحدة ..وهذا دليل على أنها لاترى إلا بعين واحدة
قال الثاني : ولما قلت أنها عرجاء ..فذلك لأن أحد أثار أقدامها أعمق من الأخر وهذا دليل عجز في احدى رجليها
قال
الثالث : ولما قلت أنها مقطوعة الذيل .. فلأنني وجدت بعرها قد تكتل بشكل
كتل والعادة أن تحرك الناقة ذيلها لتنثر بعرها يمينا ويسارا .. وهذا يعني
أن ذيل هذه الناقة مقطوع
نظر القاضي إلى الرجل وقال : اذهب يارجل فوالله ماوجدوا ناقتك قط !
وبعد
أن رحل ذلك الرجل قص الأخوة الثلاثة القصة على القاضي فتعجب منها أشد
العجب .. وقرر أن يبقي القضية إلى غد ريثما يفكر بحل لها ..
توجه الأخوة إلى دار المضافة لقضاء اليوم هناك .. وأحسوا بأن أحد ما يراقبهم
وبعد قليل وصلهم الطعام وهو لحم والخبز
فقال الأول: هذا اللحم لحم كلب ! !
وقال الثاني: هذا الخبز خبزته امرأة في الشهر التاسع من حملها !
وقال الثالث: وهذا القاضي ابن حرام !!!!
وصل الخبر إلى القاضي .. فجمعهم في اليوم التالي ..
القاضي: من قال منكم أن اللحم لحم كلب ؟ فقال الأول : أنا ..
سأل القاضي الطباخ هل فعلا هذا اللحم لحم كلب : فقال الطباخ لم يبقى لدينا لحم فقدمنا هذا اللحم وهو فعلا لحم كلب
سأل القاضي عبد الله الأول : قلي يارجل كيف عرفت أنه لحم كلب ؟
قال الأول: لحم الابل والغنم وغيرها يكون الشحم فوق اللحم أما هذه فكام اللحم فوق الشحم
فصرخ القاضي: أن ترث من مال أبيك
القاضي: من قال منكم أن الخبز قد خبزته امرأة في شهر حملها التاسع ؟ فقال الثاني : أنا ..
سأل القاضي عن الأمر فتبين فعلا أن من خبز الخبز امرأة حامل في شهرها التاسع
سأل القاضي عبد الله الثاني : قل كيف عرفت عن هذا الخبز ومن خبزه ؟
قال الثاني: رأيت الخبز منفوخا من جهة ومستويا في أخرى فتأكدت من علو النفخة أن صاحبته لم تكن تستطيع تحريكه
عندما كان في بيت النار لأن هناك شيئا يعيقها وهو بطنها الكبير من الحمل !
فصرخ القاضي: أن ترث من مال أبيك
القاضي: من قال منكم انني ابن حرام ؟ فقال الثالث قال : أنا ...
سأل القاضي أمه عن المسألة وأقرت بأنه ابن حرام !
سأل القاضي عبد الله الثالث : وكيف عرفت أنني ابن حرام ؟؟ فقال الثالث : لو كنت ابن حلال ما أرسلت لنا
عينا لتراقبنا ولا لحم كلب نأكله ولا خبزا غير ناضج
فصرخ القاضي: أنت لاترث شيئا
قال الثالث: ولماذا ؟؟؟؟؟
قال القاضي: لأنه لايعرف ابن الحرام إلا ابن حرام مثله !
وفعلا ذهب الأول والثاني إلى أمهما وأقرت بأن الثالث اتى به والده من أمام باب المسجد ورباه وأسماه عبد الله
فانظر أخي إلى دهاء وحكمة اجدادنا العرب !
الأن يمكنك متابعة ثقف نفسك في جوجل بلاس على:
http://goo.gl/3gmNKA
تین بھائیوں کی حکایت:کہتے ہیں کسی جگہ ایک شخص رہتا تھا جس کے تین بیٹے تھے۔ اس شخص نے اپنے ان تینوں بیٹوں کا نام عبداللہ رکھا تھا۔ دن گزرتے رہے حتیٰ کہ اسے مرض الموت نے آن لیا۔ اس نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلا کر وصیت کی کہ عبداللہ کو وراثت ملے گی، عبداللہ کو وراثت نہیں ملے گی اور عبداللہ کو وراثت ملے گی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی روح قبض ہوگئی۔ یہ خود تو فوت ہوگیا مگر اپنے بیٹوں کو حیرت میں ڈال گیا کہ کیسے فیصلہ کریں؟ کن دو عبداللہ کو وراثت ملے اور کس ایک کو نہیں ملے گی۔ تینوں نے فیصلہ کیا کہ شہر جاکر قاضی سے اپنا مسئلہ بیان کریں اور اس سے کوئی حل طلب کریں۔
تینوں اپنے زاد راہ کے ساتھ شہر کیلئے عازم سفر ہوئے۔ راستے میں انھوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو اپنی کسی گم شدہ چیز کو تلاش کرتا پھرتا تھا۔ ان بھائیوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی اونٹنی گم ہوگئی ہے جسے وہ تلاش کرتا پھر رہا ہے۔
پہلے عبداللہ نے پوچھا: کیا تیری اونٹنی ایک آنکھ سے کانی تھی؟
اس آدمی نے کہا: ہاں ہاں، ایسا ہی تھا۔
دوسرے حجر نے پوچھا: کیا تیری اونٹنی ایک ٹانگ سے لنگڑی تھی؟
تو اس آدمی نے جلدی سے کہا: بالکل صحیح، میری اونٹنی واقعی ایک ٹانگ سے لنگڑی تھی۔
تیسرے عبداللہ نے اونٹنی کے مالک سے پوچھا: کیا تیری اونٹنی کی دم کٹی ہوئی تھی؟
تو اس نے خوشی سے کہا: بالکل ٹھیک، میری اونٹنی کی دُم بھی کٹی ہوئی تھی۔ بس اب جلدی سے بتادو کہ میری اونٹنی کہاں ہے؟
تینوں عبداللہ نے مل کر جواب دیا: بخدا ہمیں آپ کی اونٹنی کے بارے میں کوئی علم نہیں، ہم نے اسے ہرگز نہیں دیکھا۔
اونٹنی کا مالک ان کی یہ بات سن کر غصے سے پاگل ہو گیا، اس نے فیصلہ کیا کہ اس تینوں کو کھینچ کر قاضی کے پاس لے جائیگا۔ اسے پورا یقین تھا کہ اس کی اونٹنی کو یہ تینوں ذبح کر کے کھا چکے ہیں اور اب اپنے جرم کو چھپانے کیلئے جھوٹ بول رہے ہیں۔۔ اونٹنی والے نے جب تینوں کو اپنا ارادہ بتایا تو انہوں نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ہم خود بھی قاضی کے پاس ہی جا رہے ہیں.
جب یہ چاروں قاضی کے پاس پہنچے تو اونٹنی والے نے قاضی سے اپنا قصہ بیان کیا۔ قاضی نے ان تینوں سے کہا جس طرح تم تینوں نے اونٹنی کی نشانیاں بتائی ہیں اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اونٹنی تم تینوں کے پاس ہے، بہتر ہے کہ تم اپنے جرم کا اعتراف کرلو۔
پہلے نے کہا: جناب عالی، ہم نے اونٹنی تو نہیں دیکھی تھی، ہاں البتہ اونٹنی کے آثار ضرور دیکھے تھے۔ جب میں نے اسے کہا تھا کہ تیری اونٹنی ایک آنکھ سے کانی ہے تو میں نے دیکھا تھا کہ راستے کے ایک طرف کا گھاس تو خوب چرا ہوا تھا مگر دوسری طرف کا ویسے ہی بآمان موجود تھا۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ اس شخص کی اونٹنی ایک آنکھ سے کانی رہی ہوگی۔
دوسرے عبداللہ نے کہا: میں نے دیکھا تھا کہ راستے میں تین قدم تو گہرے پیوست ہوئے ہیں جبکہ چوتھا قدم زمین پر معمولی پڑا ہوا تھا جس کا مطلب بس اتنا ہی بنتا تھا کہ یہ جانور لنگڑا بھی تھا۔
تیسرے عبداللہ نے کہا: اونٹ جب راہ چلتے ہوئے اپنا گوبر گراتے ہیں تو دم سے ادھر اُدھر بکھیرتے ہیں۔ جبکہ ہم جس راہ سے آئے تھے وہاں پر گوبر ایک ہی سمت میں سیدھا گرا ہوا تھا جس کا ایک مطلب ہوسکتا تھا کہ اونٹنی کی دُم کٹی ہوئی ہے جو اپنا گوبر دائیں بائیں نہیں پھیلا پائی۔
قاضی نے بغیر کسی تاخیر کے اس آدمی کی طرف دیکھا اور کہا: تم جاسکتے ہو۔ تمہاری اونٹنی ان لوگوں کے پاس نہیں ہے اور نا ہی انھوں نے اُسے دیکھا ہے۔
اونٹنی والے شخص کے جانے کے بعد ان تینوں بھائیوں نے قاضی سے اپنا قصہ بیان کیا جسے سُن کر قاضی بہت حیران ہوا۔ ان تینوں سے کہا: تم آج کی رات مہمان خانے میں ٹھہرو، میں کل تمہیں سوچ کر کوئی حل بتاؤنگا۔
یہ تینوں مہمان خانے میں جاکر ٹھہرے تو انھوں نے محسوس کیا کہ ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ کچھ دیر کے بعد ان کے لئے کھانا لایا گیا جو گوشت کے پکے ہوئے سالن اور روٹیوں پر مشتمل تھا۔
پہلے نے کھانے کو دیکھتے ہی کہا: یہ سالن کتے کے گوشت کا بنا ہوا ہے۔
دوسرے نے کہا: روٹیاں جس عورت نے پکائی ہیں وہ حاملہ ہے اور پورے دنوں سے ہے۔
تیسرے نے کہا: یہ قاضی حرام کی اولاد ہے۔
بات قاضی تک پہنچ گئی، اُس نے تینوں کو دوسرے دن اپنی عدالت میں طلب کرلیا اور تینوں سے مخاطب ہوکر کہا: تم میں سے کس نے کہا تھا یہ کتے کا گوشت پکا ہوا ہے؟ پہلا بولا: میں نے کہا تھا۔
قاضی نے باورچی کو بلواکر پوچھا تو اس نے اعتراف کیا کہ پکانے کیلئے کچھ نہیں تھا تو اس کو شرارت سوجھی اور اس نے کتا مارکر اس کا گوشت پکایا اور ان کو کھانے کیلئے بھجوادیا۔
قاضی نے پہلے سے پوچھا: تمہیں کیسے پتہ چلا یہ گوشت کتے کا ہے؟
تو اس نے بتایا: گائے، بکری یا اونٹ کے گوشت کے نیچے چربی لگی ہوتی ہے جبکہ یہ سارا چربی نما تھا جس کے نیچے کہیں کہیں گوشت لگا ہوا تھا۔
قاضی نے کہا: تم وہ عبداللہ ہو جس کو اپنے باپ کے مال سے وراثت ملے گی۔
قاضی نے دوبارہ ان سے مخاطب ہوکر پوچھا کس نے کہا یہ روٹیاں ایسی عورت نے بنائی ہیں جو نو ماہ کے حمل کے ساتھ اور اپنے پورے دنوں سے ہے؟
جواب میں دوسرے نے کہا: میں ہوں جس نے یہ کہا تھا۔
قاضی نے پوچھا: تمہیں کیونکر یہ لگا؟
تو اس نے کہا: میں نے دیکھا روٹیاں ایک طرف سے پھولی ہوئی اور خوب پکی ہوئی ہیں تو دوسری سے کچی اور موٹی رہ گئی ہیں۔ میں نے اس سے یہی اخذ کیا کہ روٹیاں بنانے والی ایسی خاتون ہے جس سے تکلیف کے مارے زیادہ جھکا نہیں جا رہا اور وہ سامنے کی چیز بھی نہیں دیکھ پارہی جس کا مطلب یہی بنتا تھا کہ عورت حاملہ ہے اور روٹیاں بنانے میں تکلیف محسوس کرتی رہی ہے۔
قاضی نے اس دوسرے سے بھی کہا کہ: تم وہ عبداللہ ہو جسے اس کے باپ کے ترکہ سے وراثت میں حصہ ملے گا۔
پھر قاضی نے تینوں سے مخاطب ہوکر پوچھا: یہ کس نے کہا تھا میں ولد الحرام ہوں؟
تیسرے نے جواب دیا کہ: یہ میں نے کہا تھا۔ قاضی اُٹھ کر اندر گیا اور اپنی ماں سے پوچھا: کیا یہ سچ ہے کہ میں ولدالحرام ہوں؟
تو اُس کی ماں نے کہا: یہ سچ ہے کہ تم حرام کے ہو۔
قاضی نے واپس آکر اس تیسرے حجر سے پوچھا: تمھیں کیونکر معلوم ہوا میں ولدالحرام ہوں؟
تو اُس نے جواب دیا: اگر تم حلالی ہوتے تو مہمان خانے میں ہم پر نگران مقرر نہ کرتے، نا ہی کتے کا گوشت پکواکر ہمیں کھانے کیلئے بھجواتے اور نا ہی کچی روٹیاں کسی مظلوم عورت سے بنوا کر ہمیں کھلواتے۔
قاضی نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: تم وہ عبداللہ ہو جسے اُس کے باپ کے مال سے ورثہ نہیں ملے گا۔
تیسرے نے حیرت کے ساتھ قاضی کو دیکھا اور پوچھا: مگر ایسا کیوں ہے؟
قاضی نے کہا: کیونکہ ایک حرامی ہی دوسرے ولد الحرام کو ٹھیک ٹھیک پہچان سکتا ہے اور تم بھی میری طرح حرام کی اولاد ہو۔
وراثت پانے والے دونوں عبداللہ اپنی ماں کی طرف لوٹے اور دریافت کیا کہ: ہمارے تیسرے بھائی کا کیا ماجرا ہے؟
تو اُن کی ماں نے کہا: تمھارا باپ ایک بار صبح کی نماز پڑھنے مسجد گیا تو اسے دراوزے پر رکھا ہوا پایا تھا، اسے گھر لایا، اس کا نام بھی تم دونوں جیسا عبداللہ رکھا اور اس کی پرورش کی۔ تو ایسی ہوتی ہیں عربوں کی حکایتیں جن میں حکمت کے درس ہوتا پے!
سید کی شان:
سلطان محمود غزنوی نے ایک بار دربار لگایا۔ دربار میں ہزاروں افراد شریک تھے جن میں اولیا، قطب اور ابدال بھی موجود تھے۔ سلطان محمود نے سب کو مخاطب کرکے کہا: "کوئی شخص مجھے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کرواسکتا ہے؟"سب خاموش رہے۔دربار میں بیٹھا ہوا ایک غریب دیہاتی کھڑا ہوا اور کہا: ”میں زیارت کرواسکتا ہوں۔“
سلطان نے شرط پوچھی تو عرض کرنے لگا: ”6 ماہ دریا کے کنارے چلہ کاٹنا ہوگا لیکن میں ایک غریب آدمی ہوں میرے گھر کا خرچا آپ کو اٹھانا ہوگا۔“
سلطان نے شرط منظور کرلی۔ اس شخص کو چلہ کے لئے بھج دیا گیا اور گھر کا خرچہ بادشاہ کے ذمے ہوگیا....6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان نے اس شخص کو دربار میں حاضر کیا اور پوچھا تو دیہاتی کہنے لگا: ” حضور کچھ وظائف الٹے ہوگئے ہیں، لہٰذا 6 ماہ مزید لگیں گے ....“
مزید 6 ماہ گزرنے کے بعد سلطان محمود نے پھر دربار لگایا اور دربار میں ہزاروں افراد شریک تھے ........اس شخص کو دربار میں حاضر کیا گیا اور بادشاہ نے پوچھا: ”میرے کام کا کیا ہوا؟“
یہ بات سن کے دیہاتی کہنے لگا: ”بادشاہ سلامت کہاں میں گنہگار اور کہاں خضر علیہ السلام، میں نے آپ سے جھوٹ بولا .... میرے گھر کا خرچا پورا نہیں ہورہا تھا، بچے بھوک سے مررہے تھے، اس لئے ایسا کرنے پر مجبور ہوا....“
سلطان محمود غزنوی نے اپنے ایک وزیر کو کھڑا کیا اور پوچھا: ”اس شخص کی سزا کیا ہے؟“
وزیر نے کہا: ”اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ جھوٹ بولا ہے۔ لہٰذا اس کا گلا کاٹ دیا جائے۔“
دربار میں ایک نورانی چہرے والے بزرگ تشریف فرما تھے، کہنے لگے: ”بادشاہ سلامت اس وزیر نے بالکل ٹھیک کہا ....“
بادشاہ نے دوسرے وزیر سے پوچھا: ”آپ بتاو!“
اس نے کہا: ”اس شخص نے بادشاہ کے ساتھ فراڈ کیا ہے اس کا گلا نہ کاٹا جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے تاکہ یہ ذلیل ہوکے مرے، اسے مرنے میں کچھ وقت تو لگے!“
دربار میں بیٹھے اسی نورانی چہرے والے بزرگ نے کہا: ”بادشاہ سلامت یہ وزیر بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ........“
سلطان محمود غزنوی نے اپنے پیارے غلام ایاز محمود سے پوچھا: ”آپ کیا کہتے ہو؟“
ایاز نے کہا: ”بادشاہ سلامت آپ کی بادشاہی سے ایک سال اس غریب کے بچے پلتے رہے۔ آپ کے خزانے میں کوئی کمی نہیں آئی،.اور نہ ہی اس کے جھوٹ سے آپ کی شان میں کوئی فرق پڑا۔ اگر میری بات مانو تو اسے معاف کردو ........اگر اسے قتل کردیا تو اس کے بچے بھوک سے مرجائیں گے ....“
ایاز کی یہ بات سن کر محفل میں بیٹھا وہی نورانی چہرے والا بابا کہنے لگا ....”ایاز بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے ....“
سلطان محمود غزنوی نے اس بابا کو بلایا اور پوچھا: ”آپ نے ہر وزیر کے فیصلے کو درست کہا، اس کی وجہ مجھے سمجھائی جائے...؟“
بابا کہنے لگا: ”بادشاہ سلامت پہلے نمبر پر جس وزیر نے کہا اس کا گلا کاٹا جائے، وہ قوم کا قصائی ہے اور قصائی کا کام ہے گلے کاٹنا اس نے اپنا خاندانی رنگ دکھایا، غلطی اس کی نہیں آپ کی ہے کہ آپ نے ایک قصائی کو وزیر بنالیا........
دوسرا جس نے کہا اسے کتوں کے آگے ڈالا جائے، ا س وزیر کا والد بادشاہوں کے کتے نہلایا کرتا تھا، کتوں سے شکار کھیلتا تھا، اس کا کام ہی کتوں کا شکار ہے تو اس نے اپنے خاندان کا تعارف کروایا۔ آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ نے ایسے شخص کو وزارت دی جہاں ایسے لوگ وزیر ہوں وہاں لوگوں نے بھوک سے ہی مرنا ہے ..
اور تیسرا ایاز نے جو فیصلہ کیا تو سلطان محمود سنو، ایاز سیّد زادہ ہے۔ سیّد کی شان یہ ہے کہ سیّد اپنا سارا خاندان کربلا میں ذبح کروادیتا ہے مگر بدلا لینے کا کبھی نہیں سوچتا ....“
سلطان محمود اپنی کرسی سے کھڑا ہوگیا اور ایاز کو مخاطب کرکے کہا کہ: ”ایاز تم نے آج تک مجھے کیوں نہیں بتایا کہ تم سیّد ہو؟“
ایاز نے کہا: ”آج تک کسی کو اس بات کا علم نہ تھا کہ ایاز سیّد ہے لیکن آج بابا جی نے میرا راز کھولا، آج میں بھی راز کھول دیتا ہوں، سنو اے بادشاہ سلامت اور درباریو، یہ بابا کوئی عام ہستی نہیں، یہی حضرت خضر علیہ السلام ہیں....“
اہل علم کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ان کا موجود رہنا اور ان دونوں کی باہمی گفتگو کا ذکر قرآن میں موجود ہے باقی اب وہ زندہ ہیں یا نہیں؟ اور وہ نبی تھے یا ولی؟ اس میں علمائے کبار کے دونوں اقوال ہیں، بعض ان کی حیات کے قائل ہیں اور بعض موت کے ، اسی طرح بعض ان کو نبی مانتے ہیں اور بعض ولی، اب کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا اور ان کی بعثت کا مقصد خدمت خلق وغیرہ ہے۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Islamic-Beliefs/2854
’سیاسی‘ بصیرت:کسی بادشاہ کے دربار میں ایک اجنبی شخص نوکری کی طلب لئےحاضر ہوا، قابلیت پوچھی گئی، کہا سیاسی ہوں۔ عربی زبان میں 'سیاسی' افہام و تفہیم سے مسئلہ حل کرنے والے معاملہ فہم کو کہتے ہیں۔ بادشاہ کے پاس سیاست دانوں کی بھر مار تھی، اسے خاص ’گھوڑوں کے اصطبل کا انچارج‘ بنالیا گیا، جو حال ہی میں فوت ہوچکا تھا۔ چند دن بعد بادشاہ نے اس سے اپنے سب سے مہنگے اور عزیز گھوڑے کے متعلق دریافت کیا۔ اس نے کہا:
”نسلی نہیں ہے!“
بادشاہ کو تعجب ہوا، اس نے جنگل سے سائیس کو بلاکر دریافت کیا، اس نے بتایا: ”گھوڑا نسلی ہے لیکن اس کی پیدائش پر اس کی ماں مرگئی تھی، یہ ایک گائے کا دودھ پی کر اس کے ساتھ پلا ہے۔“
مسﺅل کو بلایا گیا:”تم کو کیسے پتا چلا کہ گھوڑا نسلی نہیں ہے؟“
اس نے کہا: ”اب یہ گھاس کھاتا ہے تو گائیوں کی طرح سر نیچے کرکے جبکہ نسلی گھوڑا گھاس منہ میں لے کر سر اٹھالیتا ہے۔“
بادشاہ اس کی فراست سے بہت متاثر ہوا اور اس کے گھر اناج، گھی، بھنے دنبے اور پرندوں کا اعلی ٰ گوشت بطور انعام بھجوایا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے ملکہ کے محل میں تعینات کردیا۔ چند دنوں بعد بادشاہ نے مصاحب سے بیگم کے بارے رائے مانگی۔
اس نے کہا: ”عادات و اطوار تو ملکہ جیسے ہیں لیکن شہزادی نہیں ہے۔“
بادشاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس نے فوراً ساس کو بلا بھیجا۔ معاملہ اس کے گوش گزار کیا۔ ساس نے تصدیق کردی۔ اس نے کہا کہ: ”حقیقت یہ ہے تمہارے باپ نے میرے خاوند سے ہماری بیٹی کی پیدائش پر ہی رشتہ مانگ لیا تھا لیکن ہماری بیٹی 6 ماہ کی عمر میں ہی فوت ہو گئی تھی۔ چنانچہ ہم نے تمہاری بادشاہت سے قریبی تعلقات قائم کرنے کے لئے کسی کی بچی کو اپنی بیٹی بنالیا۔“
بادشاہ نے مصاحب سے دریافت کیا کہ اسے ملکہ کے شہزادی نہ ہونے کا کیسے علم ہوا تو اس نے کہا کہ: ”ملکہ کا خادموں کے ساتھ سلوک جاہلوں سے بھی بدتر ہے۔ شہزادیاں ایسے سلوک نہیں کیا کرتیں۔“
بادشاہ اس کی فراست سے خاصا متاثر ہوا۔ ایک بار پھر سے بہت سا اناج اور بھیڑ بکریاں اسے بطور انعام دیں اور اسے اپنے دربار میں متعین کردیا۔ کچھ وقت گزرا تو مصاحب کو پھر بلا بھیجا اور اپنے بارے میں دریافت کیا۔ مصاحب نے کہا: ”جان کی امان کا وعدہ دیجئے!“
بادشاہ نے وعدہ کیا تو مصاحب بولا: ”نہ تو تم بادشاہ زادے ہو اور نہ تمہارا چلن بادشاہوں والا ہے!“
بادشاہ کو تاو آیا مگر جان کی امان دے چکا تھا۔ سیدھا والدہ کے محل پہنچا، والدہ نے کہا: ”یہ سچ ہے۔ تم ایک چرواہے کے بیٹے ہو۔ ہماری اولاد نہیں تھی تو تمہیں لے کر پالا تھا۔“
بادشاہ نے مصاحب کو بلایا اور پوچھا کہ اسے کیسے معلوم ہوا؟ اس نے کہا کہ:” بادشاہ جب کسی کو انعام و اکرام دیا کرتے ہیں تو ہیرے، موتی اور جواہرات کی شکل میں دیتے ہیں لیکن آپ بھیڑ، بکریاں اور دیگر کھانے کی چیزیں عنایت کرتے ہیں۔ یہ اسلوب بادشاہ زادے کا نہیں ہوتا، بلکہ کسی چرواہے کے بیٹے کا ہی ہو سکتا ہے۔“
اچھی صحبت اور بری صحبت:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے پاس یمن والے آئے، ان کے قلب ضعیف اور فواد نرم ہیں۔ فقہ بھی یمنی ہے اور حکمت بھی یمنی ہے۔“ اور ”کفر کی چوٹی مشرق کی طرف ہے اور بڑائی و شیخی مارنا اور فخر و گھمنڈ کرنا گھوڑے والوں اور اونٹ والوں میں ہے اور جو چلاتے ہیں اور وبر والے ہیں اور غریبی اور نرمی بکری والوں میں ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی صحبت اور بری صحبت کو ایک عظیم مثال کے ساتھ سمجھایا چناچہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَثَلُ الجَلِيسِ الصَّالِحِ وَالسَّوْءِ، كَحَامِلِ المِسْكِ وَنَافِخِ الكِيرِ، فَحَامِلُ المِسْكِ: إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الكِيرِ: إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً " (صحیح بخاری : 5534 ، صحیح مسلم :2628 )
یعنی : ابوموسی رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھے اور برے ساتھی کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مشک لئے ہوئے ہے اور بھٹی دھونکنے والا ہے، مشک والا یا تو تمہیں کچھ دیدے گا یا تم اس سے خرید لوگے یا اس کی خوشبو تم سونگھ لوگے(یعنی ہر صورت فائدہ ہی فائدہ ہے ) اور بھٹی والا یا تو تمہارے کپڑے جلادے گا یا تمہیں اس کی بدبو پہنچے گی۔(یعنی ہر صورت میں نقصان ہی نقصان ہے ۔)
یہی روایت سنن ابو داؤد (4829 ) وغیرہ میں انس رضی اللہ عنہسے بھی مروی ہے۔
اچھی صحبت کے فوائد:
مذکورہ بالا حدیث کی روشنی میں اچھی صحبت کے فوائد اور بری صحبت کے نقصانات کو سمجھا جا سکتا ہے لیکن ہم اسے مزید ذیلی سطور میں بیان کررہے ہیں۔ ایک عالم کی صحبت کے بڑے فوائد ہیںکہ انسان اس سے بہت کچھ دینی معلومات کے حوالے سے سیکھ کر نہ صرف اسے خود اختیار کر سکتا ہے بلکہ دوسروں کی نجات کا سبب بھی بن سکتا ہے ۔اس حوالے سے ایک عظیم واقعہ جو صحیح مسلم اور کتب تفاسیر میں بھی موجود ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے ایک بادشاہ تھا جس کے پاس ایک جادوگر تھا جب وہ جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں تو آپ میرے ساتھ ایک لڑکے کو بھیج دیں تاکہ میں اسے جادو سکھا سکوں ،بادشاہ نے ایک لڑکا جادو سیکھنے کے لئے جادوگر کی طرف بھیج دیا ،جب وہ لڑکا چلا تو اس کے راستے میں ایک راہب تھا، وہ لڑکا اس راہب کے پاس بیٹھا اور اس کی باتیں سننے لگا جو کہ اسے پسند آئیں ،پھر جب بھی وہ جادوگر کے پاس آتا اور راہب کے پاس سے گزرتا تو اس کے پاس بیٹھتا (اور اس کی باتیں سنتا) اور جب وہ لڑکا جادوگر کے پاس آتا تو وہ جادوگر اس لڑکے کو (دیر سے آنے کی وجہ سے) مارتا، اس لڑکے نے اس کی شکایت راہب سے کی۔ راہب نے کہا کہ اگر تجھے جادوگر سے ڈر ہو تو کہہ دیا کر کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب تجھے گھر والوں سے ڈر ہو تو تو کہہ دیا کر کہ مجھے جادوگر نے روک لیا تھا۔(میرے پاس آتے رہنا) اسی دوران ایک بہت بڑے درندے نے لوگوں کا راستہ روک لیا (جب لڑکا اس طرف آیا) تو اس نے (دل میں )کہا کہ میں آج جاننا چاہوں گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب افضل ہے ۔اور پھر ایک پتھر پکڑا اور کہنے لگا :اے اللہ! اگر تجھے جادوگر کے معاملہ سے راہب کا معاملہ زیادہ پسند یدہ ہے تو اس درندے کو مار دے ، تاکہ لوگوں کا آنا جانا ہو اور پھر وہ پتھر اس درندے کو مار کر اسے قتل کر دیا اور لوگ گزرنے لگے پھر وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اور اسے اس واقعے کی خبر دی۔ راہب نے اس لڑکے سے کہا :اے میرے بیٹے! آج تو مجھ سے افضل ہے ،کیونکہ تیرا معاملہ اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ جس کی وجہ سے تو عنقریب ایک مصیبت میں مبتلا کر دیا جائے گا پھر اگر تو (کسی مصیبت میں) مبتلا کر دیا جائے تو کسی کو میرا نہ بتانا۔
اب وہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو صحیح کر دیتا تھا بلکہ لوگوں کا ساری بیماری سے علاج بھی کر دیتا تھا بادشاہ کا ایک ہم نشین اندھا ہو گیا، اس نے لڑکے کے بارے میں سنا، تو وہ بہت سے تحفے لے کر اس کے پاس آیا اور اسے کہنے لگا :اگر تم مجھے شفا دے دو تو یہ سارے تحفے جو میں یہاں لے کر آیا ہوں وہ سارے تمہارے لئے ہیں۔ اس لڑکے نے کہا: میں تو کسی کو شفا نہیں دے سکتا، شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے ،اگر تو اللہ پر ایمان لے آئے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ وہ تجھے شفاء دے دے ۔پھر وہ (شخص) اللہ پر ایمان لے آیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے شفاء عطا فرما دی۔ پھر وہ آدمی بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا جس طرح کہ وہ پہلے بیٹھا کرتا تھا۔ بادشاہ نے اس سے کہا: کس نے تجھے تیری بینائی واپس لوٹا دی؟ اس نے کہا: میرے رب نے ۔اس نے کہا: کیا میرے علاوہ تیرا اور کوئی رب بھی ہے ؟اس نے کہا: میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔ پھر بادشاہ اس کو پکڑ کر اسے سزائیں دینے لگا تو اس نے بادشاہ کو لڑکے کے بارے میں کہا پھر جب وہ لڑکا آیا تو بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا :کیا تیرا جادو اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ اب تو مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو بھی صحیح کرنے لگ گیا ہے اور ایسے ایسے کرتا ہے؟ لڑکے نے کہا :میں تو کسی کو شفا نہیں دیتا بلکہ شفاء تو اللہ تعالیٰ دیتا ہے ۔بادشاہ نے اسے پکڑ کر سخت سزائیں دیں،یہاں تک کہ بچے نے راہب کے بارے میں بادشاہ کو بتا دیا ۔
راہب آیا تو اس سے کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا، راہب نے انکار کر دیا پھر بادشاہ نے آرا منگوایا اور اس راہب کے سر پر رکھ کر اس کا سر چیر کر اس کے دو ٹکڑے کر دئیے ۔پھر بادشاہ کے ہم نشین کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا گیا کہ تو اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کر دیا بادشاہ نے اس کے سر پر بھی آرا رکھ کر سر کو چیر کر اس کے دو ٹکڑے کروا دئیے۔ پھر اس لڑکے کو بلوایا گیا ،وہ آیا تو اس سے بھی یہی کہا گیا کہ اپنے مذہب سے پھر جا اس نے بھی انکار کر دیا تو بادشاہ نے اس لڑکے کو اپنے کچھ ساتھیوں کے حوالے کرکے کہا اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے اس پہاڑ کی چوٹی پر چڑھاؤ ،اگر یہ اپنے مذہب سے پھر جائے، تو اسے چھوڑ دینا اور اگر انکار کر دے ،تو اسے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے پھینک دینا۔ چنانچہ بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے، اب اس لڑکے نے کہا اے اللہ تو مجھے ان سے کافی ہے جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچا لے، اس پہاڑ پر فورا ایک زلزلہ آیا جس سے بادشاہ کے وہ سارے ساتھی گر گئے، اور وہ لڑکاچلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا ۔بادشاہ نے اس لڑکے سے پوچھا: تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ لڑکے نے کہا: اللہ پاک نے مجھے ان سے بچا لیا ہے ۔بادشاہ نے پھر اس لڑکے کو اپنے ساتھیوں کے حوالے کر کے کہا،اگر یہ اپنے مذہب سے نہ پھرے تو اسے ایک چھوٹی کشتی میں لے جا کر سمندر کے درمیان میں پھینک دینا ۔بادشاہ کے ساتھی اس لڑکے کو لے گئے ،اب اس لڑکے نےپھروہی کہا اے اللہ! تو جس طرح چاہے مجھے ان سے بچا لے۔ (اللہ نے اس کی دعا قبول کی )وہ کشتی بادشاہ کے ان ساتھیوں سمیت الٹ گئی اور وہ سارے کے سارے غرق ہو گئے۔ اور وہ لڑکا چلتے ہوئے بادشاہ کی طرف آگیا۔ بادشاہ نے اس لڑکے سے کہا :تیرے ساتھیوں کا کیا ہوا؟ اس نے کہا: اللہ تعالیٰ نے مجھے ان سے بچا لیا ہے ۔پھر اس لڑکے نے بادشاہ سے کہا: تو مجھے قتل نہیں کر سکتا جب تک کہ اس طرح نہ کرو، جس طرح کہ میں تجھے حکم دوں ۔بادشاہ نے کہا: وہ کیا؟ اس لڑکے نے کہا :سارے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کرو اور مجھے سولی کے تختے پر لٹکاؤ، پھر میرے ترکش سے ایک تیر کو پکڑو، پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں رکھو ،اور پھر کہو :بسم اللہ رب ھذا الغلام ۔ یعنی : اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے ۔پھر مجھے تیر مارو، اگر تم اس طرح کروگے، تو مجھے قتل کرسکتے ہو۔
بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں اکٹھا کیا اور پھر اس لڑکے کو سولی کے تختے پر لٹکا دیا پھر اس کے ترکش میں سے ایک تیر لیا پھر اس تیر کو کمان کے حلہ میں رکھ کر کہا:بسم اللہ رب ھذا الغلام ۔یعنی : اس اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے۔ پھر وہ تیر اس لڑکے کو مارا ،وہ تیر اس لڑکے کی کنپٹی میں جا گھسا۔ لڑکے نے اپنا ہاتھ تیر لگنے والی جگہ پر رکھا اور مر گیا ۔سب لوگوں نے یہ منظر دیکھ کر کہا: ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے ،ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے، بادشاہ کو اس کی خبر دی گئی، اور اس سے کہا گیا ،تجھے جس بات کا ڈر تھا اب وہی بات آن پہنچی کہ لوگ ایمان لے آئے ۔ بادشاہ نے گلیوں کے دھانوں پر خندق کھودنے کا حکم دیا ،پھر خندقیں کھودیں گئیں اور ان خندقوں میں آگ جلا دی گئی بادشاہ نے کہا جو آدمی اپنے مذہب سے پھرنے سے باز نہیں آئے گا ،اسے اس خندق میں ڈلوادیا جائے گا ،لوگ خندقوں میں کودنے لگے یہاں تک کہ ایک عورت آئی ،اور اس کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا، وہ عورت خندق میں گرنے سے گھبرائی، تو اس عورت کے بچے نے کہا :اے امی جان صبر کر کیونکہ تو حق پر ہے ۔‘‘ (صحیح مسلم : 3005 ،ترمذی :3340،مصنف عبدالرزاق :9751 ،مسند احمد :23931 ،مسند بزار :2090 ،المعجم الکبیر : 7320 ،صحیح ابن حبان : 873 ،شعب الایمان : 1518 ، )
اس واقعے کو بار بار پڑھا جائے تو اس میں بڑی سبق آموز نصیحتیں ہیںاور ساتھ ہی اس واقعے سے اچھی صحبت کے فوائد بھی واضح ہوگئے اگر ہم اپنے بچوں کو اس طرح علماء کی صحبت میں بیٹھنے کے مواقع دیں تو جس طرح یہ بچہ خود تو دولت توحید سے مالا مال ہوا ہی ، ساتھ کتنے ہی لوگوں کے اصلاح عقیدہ کا سبب بن گیا،تو یقیناً ہمارے بچے بھی نت نئے فتنوں اور شعبدہ بازوں کے چنگل سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔
اور خداانخواستہ اگر یہ بچہ اسی جادوگر کے زیر تربیت رہتا تو جادو سیکھنا ویسے ہی کفر ،اور نہ جانے مزید کتنے ہی گھروں میں فساد برپا کرنے کا سبب بن جاتا؟؟
اسی طرح ایک عالم کی صحبت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے فرمایا:اعمال میں جلدی کرلو اندھیری رات کی طرح فتنوں کے آنے سے پہلے پہلے ،آدمی صبح کو مومن ہوگا اور شام کو کافر ،اور شام کو مومن ہوگا اور صبح کوکافر ، آدمی اپنے دین کو دنیا کے فائدے کے بدلے بیچ دے گا ۔(صحیح مسلم : 118، ترمذی : 2195 ،مسند احمد : 8030، المعجم الاوسط :2774، صحیح ابن حبان : 6704،مسند ابی یعلی :6515 )
اسی طرح اس مفہوم کی روایت دیگر صحابہ سے بھی ثابت ہیں۔
اب انسان سوچتا ہے کہ عقل انسانی تو دن بدن ترقی کرتی جارہی ہے تو بھلا یہ کیونکر اور کیسے ممکن ہے کہ لوگوں کا شعور اتنا گر جائے لوگ ایک دن میں متعدد بار اپنا دین بدلیں گے تو اسکی ایک وجہ تو حدیث میں مال کا فتنہ بیان ہوئی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ علم اٹھ جائے گا چناچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ علم اٹھ جائے گا اورجہالت ،زنا اور شراب نوشی بڑھ جائے گی ،اادمی کم ہوجائیں گے اور عورتیں بڑھ جائیں گی حتی کہ 50عورتوں کا ایک ہی نگران ہوگا ۔(صحیح بخاری :5231 )
اب علم کیسے اٹھے گا ؟دوسری حدیث میں فرمایا: اللہ تعالی لوگوں کے سینوں سے کھینچ کر علم نہیں نکالے گا بلکہ علم چلاجائے گا علماء کے چلے جانے سے ،حتی کہ کوئی عالم باقی ہی نہیں رہے گا ،پھر لوگ اپنے رہبر و پیشوا جہال کو بنالیں گے ،(کہا جاسکتا ہے کہ دین کے معاملے میں تو جاہل ہوںگے لیکن دنیاوی امور میں تیز ترار ہوں گے )لوگ ان سے مسائل پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوی دیں گے ،ایسے لوگ خود بھی گمراہ ہونگے اور لوگوں کو بھی گمراہ کر ڈالیں گے ۔(صحیح بخاری : 100،صحیح مسلم :2673، ترمذی : 2652 ،سنن ابن ماجہ : 52 )
اس حدیث سے علماء کی صحبت کی اہمیت بالکل واضح ہوگئی ،ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوگیا کہ غیر عالم کو وہ حیثیت و مرتبہ دے دینا جو ایک عالم کا ہونا چاہئے اور ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرنا گمراہی کا سبب ہے ۔
نیک انسان کی صحبت :
عالم کی صحبت کے فوائد تو احادیث کی روشنی میں واضح ہوگئے ،اب ایک ایسا انسان جو عالم تو نہیں مگر نیک ہے اس کی صحبت بھی مفید ہے، چناچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
الْمُؤْمِنُ مِرْآةُ الْمُؤْمِنِ (سنن ابوداؤد : 4918)
یعنی مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ کی طرح ہے ۔
اب ایک مومن دوسرے مومن کے لئے آئینہ کی طرح کیسے ہوگا ظاہر سی بات ہے کہ جب اس کی صحبت اختیار کرے گا اور ایک آئینہ سے تشبیہ میں جو بلاغت ہے وہ بھی ملاحظہ فرمائیے :
(1) آئینہ کا کام اصلاح کرناہے لہذا یہی کام مومن کا ہے کہ وہ بھی اپنے مومن بھائی کی اصلاح کرتا رہے ۔
(2) آئینہ جس میں خامی ہوتی ہے اسی کو بتلاتا ہے، ایسا نہیں کرتا کہ خامی کسی میں اور آئینہ جا کر کسی کو بتلا رہا ہو۔یہی کام مومن کا ہوناچاہئے ۔
(3) آئینہ میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ جتنی خامی ہوتی اتنی دکھاتا ہے زیادہ نہیں ۔ایک مومن کو بھی ایسا ہونا چاہئے ۔
(4)آئینہ میں جب بھی دیکھا جائے تو وہ اصلاح کے لے تیار ہے ،تو ایک مومن کو بھی ایسا ہی ہونا چاہئے کہ ہمہ وقت غیر شرعی معاملے میں اپنے ساتھی کی اصلاح کے لئے تیار رہے
قارئین خود ہی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب ایسے مومن کی صحبت اختیار کی جائے گی اور ہر مومن ایسا بننے کی کوشش کرے گا تو ایسی صحبت کس حد تک مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
اسی طرح ایک نیک مومن انسان کی صحبت کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی قابل غور ہے ،چناچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا تُصَاحِبْ إِلَّا مُؤْمِنًا، وَلَا يَأْكُلْ طَعَامَكَ إِلَّا تَقِيٌّ(سنن ابوداؤد : 4832 ، ترمذی : 2395 )
یعنی : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سوائے مومن آدمی کے کسی کی صحبت مت اختیار کر، اور تیرا کھانا سوائے پرہیزگار کے کوئی نہ کھائے۔
لہذا ہماری حد درجہ ترجیحی بنیادوں پر یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ہماری صحبت اور ہمارے اہل مجلس علماء ہوں ،یا کم از کم نیک صالح مومن کی صحبت ضرور اختیار کی جائے۔
بری صحبت اور اس کے نقصانات :
جس طرح ہمیں اچھی صحبت اختیار کرنے کا جذبہ ساتھ ہی حد درجہ بری صحبت سے دور رہنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ کیونکہ انسان کی شخصیت کے لئے بڑی متاثر کرتی ہے۔مثلاً:
ایک صحابی مالک بن دخشن رضی اللہ عنہ انہیں بعض صحابہ منافق سمجھتے تھے اور پھر خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے گواہی دی کہ یہ منافق نہیں بلکہ سچے صحابی ہیں ۔(صحیح بخاری : 425 ،صحیح مسلم : 33)
حدیث میں یہ بھی وضاحت ہے کہ صحابہ نے انہیں منافق سمجھنے کی وجہ بتلائی کہ انکی توجہ منافقین کی طرف ہے نیز شارحین نے بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ مالک بن دخشن رضی اللہ عنہ کا بعض منافقین سے ملاقات کا سلسلہ تھا اسی وجہ سے بعض صحابہ انہیں منافقین میںسے شمار کرنے لگے۔
اب اندازہ لگائیے کہ ایک صحابی رسول مالک بن دخشن رضی اللہ عنہ جو بدری صحابی ہیں اور وہ صحابی ہیں جو مسجد ضرار کو جلانے والوں میں سے ہیں ،جن کے ایمان میں ذرا بھی شک ہمارے ایمان کے لئے نقصان دہ ہے ۔ایسے صحابی کی شخصیت بھی بعض صحابہ کی نظر میں بظاہر مشکوک ہوسکتی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراًختم کردیا ،تو آج ہم جو کہتے ہیں کہ ہم تو ٹھیک ہیں جس کے پاس بیٹھتے ہیں وہ غلط ہیں اس میں ہمارا کیا قصور؟؟ یا اگر ہم اہل بدعت کے پاس اٹھتے ،بیٹھتے ہیں تو کیا ہوا ہم تو اپنے ایمان پر قائم ہیں ایسے نادانوں کو اس واقعے سے سبق حاصل کرنا چاہئے ۔
بری صحبت کے نقصانات کو پیچھے گزری حدیث کی روشنی میں بھی سمجھا جاسکتا ہے ۔
اسی طرح جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بن مغیرہ کو ان کے پاس موجود پایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے چچا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا کلمہ کہہ دو میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی گواہی دوں گا ابوجہل اور ابن امیہ کہنے لگے کیا تم عبدالمطلب کے دین سے پھر رہے ہو؟ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باربار کلمہ تو حید اپنے چچا ابوطالب کے سامنے پیش کرتے رہے اور یہی بات دھراتے رہے بالآخر ابوطالب نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہنے سے انکار کردیا اور آخری الفاظ یہ کہے کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک مجھے روکا نہیں جائے گا میں تو برابر دعائے مغفرت کرتا رہوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت
[مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْ ا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْم ]
نازل فرمائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنوں کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ ان پر یہ ظاہر ہوگیا ہو کہ وہ دوزخی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی
[اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ]
یعنی بے شک تو ہدایت نہیں کر سکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ تعالیٰ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔(صحیح بخاری : 3884 ،صحیح مسلم :24 )
یہاں بھی دیکھیں کہ بری صحبت کس قدر نقصان دہ ثابت ہوئی ۔ابوجہل اور ابن امیہ کی صحبت ابو طالب کے کفر کا سبب بن گئی ،باوجود اس کے کہ ابو طالب نے ساری زندگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا مگر وہ ساتھ کسی کام نہیں آئے گا ۔کیونکہ اصل ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اسے ہی ابوطالب نے اختیار نہ کیا ۔
لہذا کفار و منافقین ، گناہگاروں کی صحبتیں بری صحبتیں ہیں جن سے بچنا انتہائی ضروری ہے اسی لئے قرآن مجید میں ایسی صحبتوں میں بیٹھنا جہاں شریعت کا مذاق اڑایا جارہا ہو اس محفل میں بیٹھنا انہیں میں شمار ہوگا ۔
اپنا جائزہ :
یہاں یہ پہلو بھی قابل غور ہے کہ انسا ن کو اپنا جائزہ بھی لینا چاہئے کہ اس کا اپنا طرز عمل کیسا کہ لوگ اس کی صحبت کے حریص و مشتا ق ہیں یا بیزار ۔
کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : اس دنیا سے انسان جاتا ہے تو یا تو وہ مستریح (راحت پانے والا )ہوتا ہے یا مستراح (کہ جس سے لوگ راحت پاجائیں )پھر صحابہ کے پوچھنےپر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی کہ مومن آدمی دنیا کی تکالیف سے راحت پاکر اللہ کی رحمت کی طرف راحت پالیتا ہے ،اور گنا ہ گار آدمی جب اس دنیا سے جاتا ہے تو لوگ شہر ،درخت اور جانوروں کوبھی اس(کے شر ) سے راحت پالیتے ہیں ۔ (صحیح بخاری : 6512 ، صحیح مسلم : 950)
ہمیں اپنا اخلاق اور کردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم جیسا بنانا ہوگاکہ لوگ ان کی صحبت کے مشتاق تھے جیسا کہ قرآن مجید نے گواہی دی :
[فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ۚ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۠]
یعنی : اللہ کی یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ (اے پیغمبر آپ ان کے حق میں نرم مزاج واقع ہوئے ہیں ۔ اگر آپ (خدانخواستہ) تند مزاج اور سنگ دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے سب منتشر ہوجاتے۔(آل عمران : 159)
اسی طرح صحیح بخاری میں ایک عورت کاواقعہ موجود ہے: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ایک حبشی عورت جو کسی عرب کی لونڈی تھی۔ ایمان لائی اور مسجد (کے قریب) میں اس کی ایک جھونپڑی تھی جس میں وہ رہتی تھی ،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ ہمارے پاس آکر ہم سے باتیں کرتی اور جب وہ اپنی بات سے فارغ ہو جاتی تو یہ اشعار پڑھاکرتی تھی :
ٱ ويوم الوشاح من تعاجيب ربنا
ألا إنه من بلدة الکفر أنجاني
یعنی : اور ہار والا دن پروردگار کی عجائبات قدرت میں سے ہےہاں اسی نے مجھے کفر کے شہر سے نجات عطا فرمائی!
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : جب اس نے بہت دفعہ یہ کہا تو اس سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے پوچھا۔ ہار والا دن؟ (یعنی اس کا کیا پس منظر ہے ؟ ) اس نے کہا :میرے آقا کی ایک لڑکی باہر نکلی اس پر ایک چمڑے کا ہار تھا، وہ ہار اس کے پاس سے گر گیا تو ایک چیل گوشت سمجھ کر اس پر جھپٹی اور لے گئی۔ لوگوں نے مجھ پر تہمت لگائی اور مجھے سزادی۔ حتی کہ میرا معاملہ یہاں تک بڑھا کہ انہوں نے میر ی شرمگاہ کی بھی تلاشی لی۔ لوگ میرے ارد گرد تھے اور میں اپنی مصیبت میں مبتلا تھی۔ کہ دفعتا ًوہ چیل آئی جب وہ ہمارے سروں پر آگئی تو اس نے وہ ہار اوپر سے پھینک دیا۔ لوگوں نے اسے لے لیا تو میں نے کہا: تم نے اسی کی تہمت مجھ پر لگائی تھی، حالانکہ میں اس سے بالکل بری تھی۔(صحیح بخاری : 3835 ،کتاب مناقب الانسار ، باب ایام الجاھلیۃ )
اس واقعہ سے بھی یہ واضح ہے کہ اگرآج کے مسلمان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس دور اوّل جیسا اخلاق وکردار اختیار کریں تو لوگ اس طرح صحبت کے حریص و مشتاق اور ایسی صحبت پر فخر کیا کرتے ہیں ۔جیسے یہ عورت اپنے ایک بہت بڑے غم کہ اس پر چوری کا نہ صرف الزام لگایا گیا بلکہ اس کی ستر تک کی تلاشی لی اور ایک پاکدامن عورت کے لئے یہ یقیناً ناقابل فراموش سانحہ ہے لیکن اس عورت کو صحبت اسلام ایسی بھانے لگی کہ اب یہ عورت اس واقعے پر بھی رنجیدہ نہیں ہے ۔
صحبت آخرت میں:
ہمیں ایک اہم دعا بھی کرنی چاہئے کہ اللہ آخرت میں اچھی ہی صحبت عطافرمائے ،جیسا کہ ایک صحابی ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ سے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تھا ،مانگو تمہاری کیا خواہش ہے ؟ اس صحابی ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ کا جذبہ دیکھئے کہ کہتا ہے : أَسْأَلُكَ مُرَافَقَتَكَ فِي الْجَنَّةِ. یعنی میں جنت میں آپکی رفاقت کا طالب ہوں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر اس میں کثرت سجود کے ساتھ میری معاونت کرو ۔(صحیح مسلم : 489، سنن ابوداؤد : 1320)
No comments:
Post a Comment