امام ابن جوزی بغدادی رحمہ اللہ تعالٰی کی تالیف کردہ ”کتاب الاذکیا“ کا اردو ترجمہ جو ”لطائف علمیہ“ کے نام سے مطبوعہ ہے، اس کے ”پیش لفظ“ میں حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی قدس اللہ سرہ العزیز رقمطراز ہیں ……
”جہاں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جوہر فکرِ آخرت، گریہ و بکا اور خوف و خشیت تھا وہیں حق نفس ادا کرنے کیلئے جائز خوش طبعی اور علمی مزاح بھی ان کا جوہر نفس تھا۔
ایک مرتبہ صدیق اکبر، فاروق اعظم اور علی مرتضٰی رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے اس طرح چلے جا رہے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیچ میں تھے اور دونوں حضرات دونوں طرف۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مزاحاً فرمایا،
”علیٌّ بیننا کالنون فی لنا“
علی ہم دونوں کے درمیان ایسے ہے جیسے ”لَنَا“ کے درمیان نون (کہ ایک طرف لام اور ایک طرف الف اور بیچ میں نون)۔
اس کلمہ کے الفاظ کی نشست سے اشارہ تھا اتحاد باہمی کی طرف کہ جیسے ”لنا“ میں تینوں حرف باہم جڑے ہوئے ہیں ایسے ہی ہم بھی باہم جڑکر ایک ہیں اور معناً اشارہ تھا اس طرف کہ جب ہم باہم متحد ہیں تو سب کچھ ہمارے ہی لئے ہے کیونکہ ”لنا“ کے معنی ہیں (ہمارے لئے)۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے برجستہ جواب دیا جو مزاح و خوش طبعی کی جان ہے کہ،
”لولا کنت بینکما لکنتما لا“
اگر میں تمھارے درمیان نہ ہوتا تو تم ”لا“ ہوجاتے۔ (یعنی منفی ہوجاتے) اور کچھ بھی نہ رہتے کیونکہ ”لنا“ کا نون نکل جانے کے بعد ”لا“ رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں ”نہیں“ یعنی تم میرے بغیر کچھ نہیں۔
کتنا پاکیزہ مذاق تھا جو علم و حکمت، مناسبات نقلی و معنوی اور صنائع کلام سے لبریز ہے۔“
”جہاں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا جوہر فکرِ آخرت، گریہ و بکا اور خوف و خشیت تھا وہیں حق نفس ادا کرنے کیلئے جائز خوش طبعی اور علمی مزاح بھی ان کا جوہر نفس تھا۔
ایک مرتبہ صدیق اکبر، فاروق اعظم اور علی مرتضٰی رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کے گلے میں ہاتھ ڈالے اس طرح چلے جا رہے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیچ میں تھے اور دونوں حضرات دونوں طرف۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے مزاحاً فرمایا،
”علیٌّ بیننا کالنون فی لنا“
علی ہم دونوں کے درمیان ایسے ہے جیسے ”لَنَا“ کے درمیان نون (کہ ایک طرف لام اور ایک طرف الف اور بیچ میں نون)۔
اس کلمہ کے الفاظ کی نشست سے اشارہ تھا اتحاد باہمی کی طرف کہ جیسے ”لنا“ میں تینوں حرف باہم جڑے ہوئے ہیں ایسے ہی ہم بھی باہم جڑکر ایک ہیں اور معناً اشارہ تھا اس طرف کہ جب ہم باہم متحد ہیں تو سب کچھ ہمارے ہی لئے ہے کیونکہ ”لنا“ کے معنی ہیں (ہمارے لئے)۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے برجستہ جواب دیا جو مزاح و خوش طبعی کی جان ہے کہ،
”لولا کنت بینکما لکنتما لا“
اگر میں تمھارے درمیان نہ ہوتا تو تم ”لا“ ہوجاتے۔ (یعنی منفی ہوجاتے) اور کچھ بھی نہ رہتے کیونکہ ”لنا“ کا نون نکل جانے کے بعد ”لا“ رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں ”نہیں“ یعنی تم میرے بغیر کچھ نہیں۔
کتنا پاکیزہ مذاق تھا جو علم و حکمت، مناسبات نقلی و معنوی اور صنائع کلام سے لبریز ہے۔“
(”کتاب الاذکیا“ اردو ترجمہ ”لطائف علمیہ“ مترجم مولانا اشتیاق احمد صاحب فاضل دار العلوم دیوبند، ص 10،11 طبع لاہور)
خوشی طبعی اور مزاح، زندگی اور زندہ دلی کی علامت ہے بشرطیکہ فحش، عریانی اور عبث گوئی سے پاک ہو۔ واقعات ِمزاح نفسِ انسانی کے لیے باعث نشاط او رموجب ِحیات نو اور تازگی کا سبب بنتے ہیں. مزا ح اس خوش طبعی کو کہتے ہیں جو دوسروں کے ساتھ کی جاتی ہے اور اس میں تنقیص یا تحقیر کا پہلو نہیں ہوتا۔ اور اس طرح کا مزاح یعنی خوش طبعی کرنا جائز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسے مزاح اور خوش طبعی کو اختیار کیا جس کی مثالیں اور واقعات کتب ِاحادیث میں موجود ہیں اور جس مزاح سے منع کیا گیا ہے وہ اس نوعیت کی خوش طبعی اور مذاق ہوتا ہے جس میں جھوٹ اور زیادتی کا عنصر پایا جاتاہے اس نوعیت کا مذاق زیادہ ہنسی اور دل کی سختی کا باعث بنتا ہے اس سے بغض پیدا ہوتا ہے اور انسان کارعب ودبدبہ اور وقار ختم ہو جاتا ہے۔ ’لطائف علمیہ‘ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالٰی کی عربی کتاب ’کتاب الاذکیاء‘ کا سلیس ترجمہ ہے. اس کتاب کا اکثر حصہ تاریخی واقعات او ر احادیث سے ماخوذ ہے اس میں امام ابن جوزی رحمہ اللہ تعالٰی نے انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، خلفاء الراشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین وسلاطین اور اکابر سلف رحمہم اللہ تعالٰی کی مجالس کے مزاح وخو ش طبعی کے واقعات، سوالات او ربرجستہ جوابات کو دلنشیں انداز میں بیان کیا ہے۔
ڈائونلوڈ کریں، پی ڈی ایف، 57 میگابائٹ
https://ia600302.us.archive.org/16/items/LataifEIlmiya_201503/00567_Lataif-e-Ilmiya.pdf
No comments:
Post a Comment