ڈاکٹر محمد اقبال (وفات : 1938) برصغیر ہند کے عظیم مسلم مفکر مانے جاتے ہیں - انهوں نے موجوده زمانے کے مسلمانوں کے بارے میں کئ باتیں لکهی ہیں - ان کا ایک مصرع یہ ہے :
یہ مسلمان ہیں جنهیں دیکهہ کے شرمائیں یہود !
موجوده زمانے کے مسلمانوں میں یہود کی جو صفات آئی ہیں ، ان میں سے ایک ہے ------- اپنے کو مظلوم بتا کر دوسروں کے ظلم پر احتجاج کرنا - یہ بلاشبہہ یہود کی صفت ہے - اس مزاج سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں - مگر عجیب بات ہے کہ موجوده زمانے کے تقریبا تمام مسلمان اسی یہودی مزاج کا شکار ہیں -
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہود کے اندر جب دینی بگاڑ آیا تو انهوں نے دعوتی ذمے داری کو چهوڑ دیا (3:188) ، وه دوسروں کی طرح صرف ایک قوم بن کر ره گئے - اس غفلت کی بنا پر اللہ تعالی نے یہود پر اپنی تنبیہات (warnings) بهیجیں - یہ تنبیہات آسمان سے نہیں آئی تهیں ، بلکہ وه اسباب کی صورت میں انسانوں کے ذریعہ ان پر بهیجی گئ تهیں ( 5:17) - مثلا بابل کے حکمران بخت نصر کے ذریعے 586 قبل مسیح میں ، اور رومی حکمران ٹائٹس کے ذریعے 70 عیسوی میں -
مگر یہودی علما اور قائدین نے یہ کیا کہ ایسے تمام واقعات کو انهوں نے خدائی تنبیہہ کے بجائے انسانی ظلم کے خانے میں ڈال دیا - یہودی لٹریچر اس قسم کی داستانوں سے بهرا هوا ہے - اس پر یہودی علماء نے کثرت سے کتابیں لکهی ہیں - مثلا :
Hasidic Tales of the Holocaists
یہودی علما کی اس روش کی بنا پر ایسا هوا کہ جن واقعات کا نتیجہ یہ هونا چاہئے تها کہ وه ان سے متنبہ هو کر خدا کی طرف رجوع کریں ، اس کے بجائے انهوں نے یہ کیا کہ ان واقعات کو کچهہ انسانوں کی طرف منسوب کر کے انهوں نے ان لوگوں کے خلاف شکایت اور احتجاج کا ایک پورا کلچر چلا دیا - یہ شکایتی کلچر اتنا بڑها کہ لغت میں باقاعده ایسے الفاظ شامل هو گئے جو یہود کے اوپر دوسروں کے ظلم کو بتانے کے لیے وضع هوئے تهے - گویا کہ ظلم یہود کی ایک مستقل ڈکشنری تیار هو گئ ، ظلم یہود کا اتنا زیاده چرچا هوا کہ وه لٹریچر کا ایک جز بن گیا -
حدیث میں آیا ہے کہ بعد کے زمانے کے مسلمان یہود کے طریقے کی پیروی کریں گے - یہ اتباع یہود صرف سحر و عملیات جیسی چیزوں میں نہیں هو گا ، بلکہ وه مزکوره قسم کی سنت یہود کے بارے میں بهی هو گا - یہود میں یہ خرابیاں زوال کے نتیجے میں آئی تهیں - یہی خرابیاں دوباره دور زوال کے نتیجے میں خود مسلمانوں کے اندر بهی یقیبی طور پر پیدا هوں گی - موجوده زمانے کے مسلمانوں میں یہ خرابیاں عمومی طور پر پیدا هو چکی ہے - موجوده زمانے کے مسلمان ، عرب اور غیر عرب آخری حد تک اس کا شکار هو چکے ہیں - موجوده زمانے میں مسلمانوں کے تقریبا تمام لکهنے اور بولنے والے صرف ایک کام کر رہے ہیں ، اور وه ہے اپنے مسائل کا الزام دوسروں پر عائد کر کے ان کے خلاف شکایت اور احتجاج کا طوفان برپا کرنا - ہر ایک کو مسلم مسائل کے پیچهے " اغیار " کی سازش اور دشمنی دکهائی دیتی ہے -
یہ بلاشبہہ یہودی روش ہے صحیح یہ ہے کہ مسلمان اس روش سے توبہ کریں ، وه خود اپنے اوپر نظر ثانی کریں - وه اس صورت حال کو خدا کا انتباه ( warning) قرار دے کر خود اپنی کمیوں اور کمزوریوں کو دریافت کریں اور ساری توجہ خود اپنی اصلاح پر لگا دیں ، نہ کہ مفروضہ دشمنوں کے خلاف ہنگامہ آرائی کر کے وه خدا کے غضب میں مزید اضافہ کریں - اس کے بغیر ان کے حالات ہر گز بدلنے والے نہیں -
خدائی انتباه کے معاملے کو مفروضہ دشمنوں کی طرف منسوب کرنا کوئی ساده بات نہیں - یہ ایک واقعہ کو غلط طور پر کسی اور سے منسوب کرنا ہے - اس قسم کا مزاج کسی فرد یا قوم کو بہت بڑا فکری نقصان پہنچاتا ہے ، اور وه ہے معاملات کے صحیح تجزیہ سے محرومی -کامیاب منصوبہ بندی ہمیشہ صحیح تجزیہ پر مبنی هوتی ہے - جب صحیح تجزیہ نہ هو تو کامیاب منصوبہ بندی بهی عملا نا ممکن هو جاتی ہے -
UNA
Mateen Khan
No comments:
Post a Comment