Tuesday 26 June 2018

ناخن کاٹنے کے آداب و مسائل Ruling on men or women letting their nails grow long

ناخن کاٹنے کے آداب و مسائل
           
دین اسلام پاک صاف رہنے کی ترغیب دیتا ہے، اور اسی لئے ہر وہ چیز جو انسانی صحت کے لئے مضر ہو، اس سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے، یہی دین فطرت کا تقاضہ ہے، ناخن کاٹنا بھی انسانی صحت کے لئے ضروری ہے، اسی لئے اس کو امورِ فطرت میں شمار کیا گیا ہے اور سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ بتلایا گیا ہے، خود حضور اکرم صلی اللہ کی علیہ و سلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپ ناخن اور لبوں کے بال ہر جمعہ کو ترشواتے تھے، زیر ناف بال بیس دن میں صاف کرتے تھے اور بغل کے بال چالیس دن میں صاف کراتے تھے۔
● حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مونچھیں ترشوانے، ناخن کٹوانے، بغل کے بال صاف کرانے اور زیر ناف مونڈنے کے بارے میں ہمارے لئے جو مدت متعین کی گئی ہے وہ یہ کہ ہم ان کو چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔ (مسلم)
قنیہ میں لکھا ہے کہ افضل یہ ہے کہ ہفتہ میں ایک بار ناخن ترشوا کر لبوں کے بال ہلکے کرا کر اور جسم کے زائد بال صاف کر کے غسل کے ذریعہ اپنے بدن کو صاف ستھرا کیا جائے، اگر ہر ہفتہ یہ ممکن نہ ہو تو ہر پندرھویں دن اس پر عمل کیا جائے، یہاں تک کہ چالیس دن سے زائد کا عرصہ گزر جائے تو یہ "بلا عذر ترک" کہلائے گا، گویا ان چیزوں کے لئے ایک ہفتہ تو افضل مدت ہے، پندرہ دن اوسط مدت پر مشتمل ہے اور آخری مدت چالیس دن ہے، چالیس سے زیادہ گذارنے والا "بلا عذر ترک کرنے والا" شمار ہوگا جس پر وہ وعید کا مستحق ہو گا۔
مظہر کہتے ہیں کہ ابو عمر رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ الاغر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ کی علیہ و سلم ہر جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کو جانے سے پہلے لبوں کے بال اور ناخن کترتے تھے اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ آپ صلی اللہ کی علیہ و سلم بغل کے بال اور ناف کے نیچے کے بال چالیس دن میں اور بعض حضرات کی روایت کے مطابق ایک مہینہ میں صاف کرتے تھے، ایک مہینہ والی روایت ایک معتدل قول ہے۔ (مظاہر حق)
□ یستحب ان یقلم اظفارہ ویقص شاربه ویحلق عانته وینظف بدنه فی کل اسبوع مرۃ یوم الجمعة افضل ثم فی خمسة عشریوماً والزائد علی الاربعین اٰثما (طحطاوی ۳۰٤)
● حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ کی علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ دس چیزیں فطرت میں سے ہیں، یعنی دین کی وہ باتیں ہیں جن کا تعلق انسانی زندگی کے ساتھ ہے۔
١- قَصُّ الشَّارِبِ یعنی لبوں کے بال کٹوانا
٢- اِعْفَاءُ اللِّحْیَةِ یعنی داڑھی کا بڑھانا
٣- السِّوَاکُ یعنی مسواک کرنا
٤- اسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ یعنی ناک میں پانی ڈالنا
٥- قَصُّ الْاَظْفَارِ یعنی ناخن کٹوانا
٦- غَسْلُ الْبَرَاجِمِ یعنی جوڑوں کی جگہ کو دھونا
٧- نَتْفُ الْاِبِطِ یعنی بغل کے بال صاف کرنا
٨- حَلْقُ الْعَانَةِ یعنی زیر ناف بالوں کو مونڈنا
٩- انْتِقَاصُ الْمَاءِ یَعْنِیْ الْاِسْتِنْجَاءِ یعنی پانی کا کم کرنا یعنی استنجاء کرنا۔
راوی (مصعب یا زکریا) کا بیان ہے کہ دسویں چیز کو میں بھول گیا، ممکن ہے کہ الْمَضْمَضَة ہو یعنی کلی کرنا (صحیح مسلم)
1- ناخن کاٹنے کا کوئی خاص دن اور وقت مقرر نہیں ناخن کترنے کے لئے حضور اکرم صلی اللہ کی علیہ و سلم نے کوئی خاص دن متعین نہیں فرمایا، یہ ایک طبعی ضرورت ہے، آدمی جب ضرورت محسوس کرے ناخن کاٹ لے۔
□ سئل أبو یوسف عن قص الأظافیر في اللیل، فقال: ینبغي، فقال: مالدلیل علی ذلک؟ فقال قولہ علیه السلام: الخیر لا یؤخر۔ (ہندیة، الباب التاسع عشر، زکریا قدیم ۵/ ۳۵۸، جدید ۵/ ٤١٣)
2- ناخن کاٹنے کا مستحب طریقہ: 
امام غزالی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کرے اور اس کے بعد کی چاروں انگلیوں کے ناخن تراشنے کے بعد بائیں ہاتھ کے ناخن چھوٹی انگلی سے کاٹتے ہوئے انگوٹھے پر ختم کرے پھر آخر میں دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا ناخن تراشے (احیاء العلوم ۱/ ۱۲۷)
محققین فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں کوئی حدیث ثابت نہیں، چنانچہ علامہ ابن دقیق العید نے لکھا ہے کہ اس کے مستحب ہونے کی کوئی دلیل نہیں ( فتح الباری : ۱۰/ ٤٢٤) اور خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی صراحت کی ہے کہ ناخن کاٹنے میں انگلیوں کی ترتیب کا احادیث میں کوئی ذکر نہیں۔
"ولم یثبت فی ترتیب الأصابع عند القص شییٔ من الأحادیث"
البتہ چونکہ حضور اکرم 
صلی اللہ کی علیہ و سلم اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ دائیں جانب سے اس کی ابتداء ہو (صحیح البخاري، حدیث نمبر : ۱٦٨ ، باب الیمین في الوضوء و الغسل) اور ناخن کاٹنا بھی ایک اچھا کام ہے، اس لئے پہلے دائیں ہاتھ کے اور پھر بائیں ہاتھ کے ناخن تراشنا چاہیئں
3- ناخن کاٹنے کے آداب:
فقہاء کرام نے کچھ آداب و مستحبات لکھے ہیں:
١- ہفتہ میں ایک بار ناخن کاٹنا چاہیئے، یہ افضل طریقہ ہے، اوسط درجہ یہ ہے کہ دو ہفتہ میں ایک بار کاٹ لے، بہر حال چالیس دن سے زیادہ تاخیر نہیں ہونی چاہئیے۔
□ وینبغي أن یکون ابتداء قص الأظافیر من الید الیمنی وکذا الانتہاء بہا فیبدأ بسبابة الید الیمنی ویختم بإبہاہما وفي الرجل یبدأ بخنصر الیمنی ویختم بخنصر الیسری (ہندیہ: ۵/ ۳۵۸)
٢- دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی سے شروع کرے جیسا کہ اوپر ترتیب گزری۔
٣- کاٹے ہوئے ناخن دفن کردے، خاص کر بیت الخلاء یا گندی جگہ میں ڈالنا مکروہ ہے، بعض اہل علم نے لکھا ہے کہ اس سے برص کی بیماری پیدا ہوتی ہے۔
□ فإذا قلم أظفارہ أو جزّ شعرہ ینبغي أن یدفن ذلک الظفر والشعر المجزور فإن رمی به فلا بأس وإن ألقاہ في الکنیف أو في المغتسل یکرہ ذلک لأن ذلک یورث داء (ہندیة: ۵/ ۳۵۸)
٤- خواتین اور مردوں کے لئے فیشن کے طور پرلمبے ناخن رکھنا مکروہ ہے، بعض کتب میں لکھا ہے کہ لمبے ناخن روزی میں بے برکتی کا سبب بنتے ہیں اور بعض اطباء سے منقول ہے کہ لمبے ناخن رکھنے سے انسان نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔
□ قال العلامة التمرتاشی رحمه الله (و یستحب قلم اظافیرہ یوم الجمعة) وکونه بعد الصلٰوۃ افضل الا اذا اخرہ الیه تاخیرًا فاحشاً فیکرہ لان من کان ظفرہ طویلاً کان رزقه ضیقاً الخ۔
(تنویر الابصار مع شرحه الدّر المختار ٥/ ۲۸۷، کتاب الخطر والاباحة، فصل فی النظر والمس)

محمد عرفان قاسمی مظفرنگری
..............
ناخن کاٹنے کی ترتیب کی حیثیت!
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: ناخن کاٹنے کا مشہور طریقہ جو بعض کتابوں میں لکھا ہے: 
’’سیدھے ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے شروع کرکے ترتیب وار چھنگلیاں سمیت تراشیں، مگر انگوٹھا چھوڑدیں، اب اُلٹے ہاتھ کی چھنگلیاں سے شروع کرکے ترتیب وار انگوٹھے سمیت ناخن تراش لیں، اب آخر میں سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا جو باقی تھا، اس کا ناخن بھی کاٹ لیں، اس طرح سیدھے ہاتھ سے شروع ہوکر سیدھے ہاتھ پر ختم ہوگا۔‘‘ کیا یہ طریقہ مسنون ہے؟ 
الجواب حامداً ومصلیًا:
واضح رہے کہ ہاتھوں اور پیروں کے ناخن کاٹنے کی ترتیب اور طریقہ کے بارے میں کوئی بھی صحیح روایت موجود نہیں ہے، البتہ اتنی با ت ثابت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ کی علیہ و سلم دائیں طرف سے ابتداء کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ بعض فقہاء مذکورہ ترتیب کے مطابق ناخن کاٹنے کو اولیٰ اور بہتر کہتے ہیں، چنانچہ مذکورہ طریقے کے بارے میں مولانا اشرف علی تھانوی v فرماتے ہیں: 
’’ہاتھ کے ناخن اس ترتیب سے کتروانا بہتر ہے، دائیں ہاتھ کی انگشتِ شہادت سے شروع کرے اور چھنگلیاں تک بہ ترتیب کترواکر پھر بائیں چھنگلیاں پھر بہ ترتیب کٹوادے اوردائیں انگوٹھے پر ختم کرے اور پیر کی انگلیوں میں دائیں چھنگلیاں سے شروع کرکے بائیں چھنگلیاں پر ختم کرے، یہ ترتیب بہتر ہے اور اولیٰ ہے، اس کے خلاف بھی درست ہے۔‘‘              
(بہشتی گوہر، حصہ یازدہم، ص:۸۳۰، ط:دار الاشاعت) 
’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے: 
’’قلت: وفی المواہب اللدنیۃ قال الحافظ ابن حجر: إنہ یستحب کیفما احتاج إلیہ ولم یثبت فی کیفیتہٖ شیئ ولا فی تعیین یوم لہٗ عن النبی a وما یعزی من النظم فی ذٰلک للإمام علی ثم لابن حجر قال شیخنا: إنہ باطل۔‘‘         
(ج:۶، ص:۴۰۶، ط: سعید) 
’’حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح‘‘ میں ہے: 
’’لکن أنکر الہیئۃ المذکورۃ ابن دقیق العید ، فقال: کل ذٰلک لا أصل لہٗ وإحداث استحباب لا دلیل علیہ وقبیح عندی بالعالم نعم البداء ۃ بیمنی الیدین ویمنی الرجلین لہا أصل وہو أنہٗ a کان یعجبہ التیامن فی طہورہٖ وترجلہٖ وفی شانہٖ کلہٖ متفق علیہ وکذا تقدیم الیدین علی الرجلین قیاساً علی الوضوء وما یعزی لعلی وغیرہٖ باطل۔‘‘ (ج:۱،ص:۵۲۵،ط: دار الکتب العلمیہ)              
فقط واللہ اعلم           
الجواب صحیح                 
الجواب صحیح                          
کتبہ         
ابوبکرسعید الرحمن            
محمد شفیق عارف                     
ذبیح اللہ اختر                                           
                         
تخصصِ فقہِ اسلامی                                                            
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن  ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔
..............

1195: Ruling on men or women letting their nails grow long
What is the ruling on men or women letting their nails grow long? If it is forbidden, what is the wisdom behind this prohibition?
Published Date: 1998-10-06
Praise be to Allaah.

Cutting the nails is part of the fitrah, because the Prophet (peace and blessings of Allaah be upon him) said: “The fitrah is five things: circumcision, removing the pubic hair, trimming the moustache, cutting the nails, and plucking the armpit hairs.” (Reported by al-Bukhaari and Muslim). According to another hadeeth, ten things are part of the fitrah, including cutting the nails. Anas (may Allaah be pleased with him) said: “The Messenger of Allaah (peace and blessings of Allaah be upon him) set a time limit for us to cut our moustaches, cut our nails, pluck our armpit hairs and shave our pubic hairs: we were not to leave it any longer than forty days.” (Reported by Ahmad, Muslim and al-Nisaa’i; this version narrated by Ahmad). Whoever does not cut his nails is going against the fitrah. The reason behind this is cleanliness and hygiene, because dirt can gather under the nails. It also serves the purpose of making us different from those among the kuffaar who allow their nails to grow long, and from animals that have claws and talons. (Fataawa al-Lajnah al-Daa’imah, 5/173).

Most women nowadays have fallen into the trap of resembling savage animals with their long claw-like nails, which they then paint with nail polish. This ugly appearance looks utterly repulsive to any intelligent person whose fitrah is sound. Another bad habit that many people have is to leave one nail long. All of this is clearly contrary to the ways of the fitrah. We ask Allaah to keep us safe and sound. Allaah is the Guide to the Straight Path.



No comments:

Post a Comment