Saturday 16 June 2018

تراویح میں ختم قرآن کے موقع سے کسی بزرگ شخصیت سے دعا کروانا؟

تراویح میں ختم قرآن کے موقع سے کسی بزرگ شخصیت سے دعا کروانا؟
انفرادی اور اجتماعی دونوں حیثیتوں سے ختم قرآن کے وقت دعا کرنا اور پوری امت مسلمہ کی بھلائی اور کامیابی وکامرانی کے دعا کرنا مستحب ہے، ختم قرآن کے وقت دعا کا اہتمام (نہ کہ التزام) اسباب قبولیت میں سے ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین  وتابعین عظام رحمہم اللہ سے اس بابت بے شمار اور ان گنت صحیح آثار وروایات ثابت ہیں اور ختم قرآن کے بعد استحباب دعا پہ ان حضرات کا عمل بھی ثابت ہے۔
حضرت انس رضی للہ عنه سےروایت ہے کہ وہ ختم قرآن مجید کے موقع پر اپنے اہل خانہ کو جمع کرکے دعا فرمایا کرتے تھے۔ (سنن دارمی فضائل القرآن باب فی ختم القرآن حدیث نمبر: 3468۔3468)ٰ
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جعفر بن سليمان، عن ثابت قال: «كان أنس إذا ختم القرآن جمع أهله وولده فدعا لهم۔ رواه الدارمي وجاء في كتاب فضائل القرآن للفريابي 1/79
یہ موقوف حدیث یعنی حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ذاتی عمل ہے جو فنی اعتبار سے صحیح ہے۔ حافظ ابن حجر، علامہ نووي اور علامہ هيثمی رحمہم اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔
و حدثنا وكيع، عن سفيان، عن منصور ، عن الحكم، عن مجاهد، قيل: قال: «الرحمة تنزل عند ختم القرآن» ن م (1/84)
قال ابن حجر في نتائج الأفكار 3/177: روي بإسنادين كلاهما على شرط الصحيح
حدثنا الهيثم بن أيوب الطالقاني قال: ثنا الفضيل بن عياض، عن منصور ، عن الحكم قال: كان مجاهد وعبدة بن أبي لبابة وناس يعرضون المصاحف، فلما كان في اليوم الذي أرادوا أن يختموا فيه القرآن بعثوا إلي ، وإلى سلمة بن كهيل ، فقالوا: «إنا كنا نعرض المصاحف ، وإنا نريد أن نختم اليوم ، فإنه كان يقال: الرحمة تنزل أو تحضر عند ختم القرآن» ن م (1/85
قال ابن حجر في نتائج الأفكار: 3/177: موقوف صحيح الإسناد
حدثنا إبراهيم بن العلاء الزبيدي، ثنا بقية ، عن شعبة، عن الحكم بن عتيبة قال: بعث إلي مجاهد وعبدة بن أبي لبابة فأتيتهما، فقالا: «هل تدري لم بعثنا إليك؟ إنا أردنا أن نختم القرآن» حدثنا محمد بن المثنى، ثنا محمد بن جعفر، ثنا شعبة، عن الحكم قال : بعث إلي مجاهد، وعبدة بن أبي لبابة ، فذكر نحوه .ن م 1/88
قال ابن حجر في نتائج الأفكار 3/177: موقوف صحيح
إلى غير ذلك من الآثار ساق معظمها ابن أبي شيبة في مصنفه والفريابي في فضائل القرآن والدارمي في سننه وغيرهم من المحدثين والمصنفين)

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مرفوع حدیث مروی ہے کہ فرض نماز کے بعد دعا قبول ہوتی ہے اور ختم قرآن کے وقت دعا قبول ہوتی ہے:
حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ هَارُونَ الْبَغْدَادِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّرْجُمَانِيُّ، ثنا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةَ فَرِيضَةٍ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ، وَمَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ» المعجم الكبير للطبراني (ج18/ ص 259/حدیث 647)
علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ختم قرآن کے وقت دعا میں شرکت کے لئے اپنے اہل وعیال (یا دیگر مسلمانوں کو جمع کرلینا) مستحب ہے:
فصل: ويستحب أن يجمع أهله عند ختم القرآن وغيرهم؛ لحضور الدعاء . قال أحمد: كان أنس إذا ختم القرآن جمع أهله وولده . وروي ذلك عن ابن مسعود وغيره. ورواه ابن شاهين مرفوعا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم . واستحسن أبو بكر التكبير عند آخر كل سورة من الضحى إلى آخر القرآن ; لأنه روي عن أبي بن كعب {أنه قرأ على النبي صلى الله عليه وسلم فأمره بذلك}، رواه القاضي، في "الجامع" بإسناده .
المغني لابن قدامہ ج1  ۔مسئلہ نمبر  (1104)
امام نووی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
’’و یستحب حضور مجلس الختم لمن یقرأ ولمن لا یحسن القراءۃ ، فقد روینا فی الصحیحین: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمر الحیض بالخروج یوم العید لیشھدن الخیر و دعوۃ المسلمین‘‘۔
’’ختم قرآن کی مجلس میں شرکت مستحب ہے، خواہ قاری عمدہ پڑھتا ہو، یا عمدہ نہ پڑھتا ہو، چنانچہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوں کو عید کے دن نکلنے کا حکم فرمایا: تاکہ وہ بھلائی اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوسکیں‘‘۔
(تلاوة القرآن المجيد ص 118)
إمام نووی رحمه الله "الاذکار" میں لکھتے ہیں:
[فصل]: ويستحب الدعاء عند الختم استحبابا متأكدا شديدا لما قدمناه (الأذكار 1/243)
ان ساری تصریحات سے صاف واضح ہے کہ ختم قرآن کے موقع پر دعا کا اہتمام کرنا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خصوصا حضرت ابن مسعود، ابن عباس، انس بن مالک اور تابعین حضرات سے منقول ہے اور وہ حضرات اس کا  اہتمام بھی فرماتے تھے،
بعض روایتوں میں ہے کہ یہ عمل صحابہ تابعین کے زمانہ میں اہل حرمین مکہ مدینہ اور اہل بصرہ میں معروف ومشہور تھا، مشہور ائمہ حدیث میں سے سفیان بن عیینہ، مجاھد بن جبر، احمد بن حنبل، امام بخاری رحمہم اللہ سے بھی ختم قرآن کے موقع پر اجابتِ دعا کی امید پر  دعا کرنا منقول ہے۔
(حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَنْبَأَنَا الْعَوَّامُ ، قَالَ هُشَيْمٌ أَحْسَبُهُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ : " مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ " . قَالَ : فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا خَتَمَ الْقُرْآنَ جَمَعَ أَهْلَهُ ثُمَّ دَعَا وَأَمَّنوا عَلَى دُعَائِهِ . فضائل القرآن لأبي عبيد القاسم بن سلاّم الهروي، بَابُ فَضْلِ خَتْمِ الْقُرْآنِ ،حدیث ۸۷
أخبرنا أحمد، قال: حدثنا محمد ، قال : أخبرنا النضر بن محمد الكندي ، قال: حدثنا هشيم بن بشير ، عن العوام بن حوشب ، قال: أحسبه عن إبراهيم التيمي ، عن عبد الله بن مسعود ، قال : " من ختم القرآن فله دعوة مستجابة". فضائل القرآن لابن الضريس، حدیث۷۴
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ ، أخبرني محمد بن خالد الصوفي ، ثنا مسبح بن سعيد، قال:  محمد بن إسماعيل البخاري إذا كان أول ليلة من شهر رمضان اجتمع إليه أصحابه فيصلي بهم ، فيقرأ في كل ركعة عشرين آية، وكذلك إلى أن يختم القرآن ،وكذلك يقرأ في السحر ما بين النصف إلى الثلث من القرآن، فيختم عند السحر في كل ثلاث ليال، وكان يختم بالنهار كل يوم ختمة، ويكون ختمه عند الإفطار كل ليلة ويقول : "عند كل ختمة دعوة مستجابة " شعب الإيمان للبيهقي، حدیث۸۷۱۲  ۔
قال ابن قدامة في المغني: فصل في ختم القرآن، قال الفضل بن زياد: سألت أبا عبدالله -يعني الإمام أحمد- فقلت: أختم القرآن أجعله في الوتر أو في التراويح؟ قال: اجعله في التراويح حتى يكون لنا دعاء بين اثنين، قلت: كيف أصنع؟ قال: إذا فرغت من آخر القرآن فارفع يديك قبل أن تركع، وادع بنا ونحن في الصلاة، وأطل القيام، قلت: بما أدعو؟ قال: بما شئتَ. قال: ففعلت بما أمرني، وهو خلفي يدعو قائماً، ويرفع يديه.
قال النووي في (التبيان، في آداب حملة القرآن): (يُستحبُّ حضورُ مجلس ختم القرآن استحباباً مؤكّداً! وقد روى الدارمي وابن أبي داود بإسنادهما، عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه كان يجعل رجلاً يراقب رجلاً يقرأ القرآن، فإذا أراد أن يختم أعلم ابنَ عباس، فيشهدُ ذلك)
ختم قرآن خواہ نماز میں ہو یا نماز سے باہر؟ اس موقع سے کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔ البتہ رکوع سے پہلے پہلے نماز کے اندر ہی دعا شروع نہ کردے۔ کیونکہ اس ہیئت   کو امام مالک رحمہ اللہ  بدعت کہتے ہیں۔ (:ومن المستخرجة عن ابن القاسم قال سئل مالك عن الذي يقرأ القرآن فيختمه ثم يدعو قال ما سمعت أنه يدعو عند ختم القرآن وما هو من عمل الناس۔ المدخل لابن الحاج المالكي (2/468 ـــ469)
ختم تراویح کے موقع سے اجتماعی دعاء کے اہتمام کا ثبوت بھی انہی مذکورہ  روایتوں سے ہے البتہ اس ذیل میں ایک اہم بات قابل غور  یہ ہے کہ جس نے قرآن ختم کیا ہے اس کی دعا مقبول ہونے کی بات حدیث میں آئی ہے،
وَمَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ» المعجم الكبير للطبراني (ج18/ ص 259/حدیث 647 )
الفاظ حدیث "من ختم القرآن فله دعوة مستجابة"

صاف بتارہے ہیں قرآن کریم ختم کرنے والا حافظ ہی اس موقع سے دعا بھی کرے۔ اور اسی کی دعا قبول بھی ہوگی۔
دوسری اہم اور بزرگ ترین شخصیات کی شرکت مجلس ختم میں بھلے جائز ومباح ہو
لیکن اس مجلس میں دعا کی مقبولیت کی بات غیر حافظ کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ شرف اس شخص کے لئے خاص ہے جس نے پورے قرآن کریم کا ختم کیا ہے۔
لہذا حافظ قرآن غایت ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی اور کو یہ موقع نہ دیدے۔
ہاں دیگر صلحاء واتقیاء بھی شریک مجلس ہوں تو ان سے بھی استفادے کی کوئی مناسب راہ ضرور ڈھونڈی جائے اور ختم قرآن کے بعد مختصر وعظ ونصیحت کے بعد ان سے دعا کروالی جائے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
2 شوال 1439 ہجری

No comments:

Post a Comment