Saturday 16 June 2018

(رد: مفتی زر ولی صاحب بابت: فتوی: شوال کے چھ روزے بدعت ہیں)

(رد: مفتی زر ولی صاحب بابت: فتوی: شوال کے چھ روزے بدعت ہیں)
* الحمدللّٰہ وحدہ والصلاۂ والسلام علی من لا نبی بعدہ - امابعد:
سوال: یوروپ وامریکہ ودیگر علاقوں کے مسلمانوں نے کہ جن میں مختلف مسلکوں کے لوگ ہیں: سوال کیاکہ ہم نے (مفتی زر ولی صاحب) کی کیسٹ سنی، اس میں انہوں نے (شوال کے چھ روزوں) کو بدعت کہا ہے اور نہ رکھنے کی دعوت دی ہے! ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس عنوان پر سیر حاصل روشنی ڈالئے، اس لئے کہ کل سے شوال کے روزوں کا وقت شروع ہورہا ہے!
الجواب: ہم نے دوسال پہلے بھی مفتی صاحب کے اس موقف کارد کیا تھا، آج بھی اسی بیان کو کچھ تشریح وتوضیح کے اضافے کے ساتھ آپ کی نذر کرتے ہیں: اللہ آپ کے اس جذبہ تحقیق کو قبول فرمائے!
                (اصل الاصول)
* امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع رہا ہے کہ دین کی اصل: قران، حدیث، اور اجماع صحابہ ہے: 
* ہاں کوئی ایسا امر ہو کہ جس کے متعلق قران حدیث اور اجماع صحابہ میں کوئی رہبری نہ ملے تو پھر : اجتہاد : کو اپنایا جائےگا -
* اور وہ اجتہاد بھی ان تینوں مراجع سے میل کھاتا ہو، مخالف نہ ہو -
* اس سے پہلے کہ ہم آگے چلیں، ان تینوں یعنی : قران ، حدیث ، اور صحابہ کے اجماع  : کی اہمیت کو جان لینا نہایت ضروری ہے -
* ۱- قران: ہر مسلمان جانتا ہے کہ قران مجید اسلام کی اصل ہے ، اس کے بغیر اسلام نہیں !
* ۲۔ حدیث: قران مجید کی تشریح ، توضیح ، اور تطبیق اور قران کی تفسیر ، ان تما م امور کو حدیث مبارکہ احاطہ کئے ہوئے ہے !
* ۳- صحابہ کا اجماع: یعنی قران وحدیث کا وہ فہم و معنی ومطلب جو صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا اور سمجھا اور اسے عمل میں لایا ہو !
* ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت )
* اللہ تعالی کے بھیجے ہوئے پیغام یعنی ( قران مجید ) اور اللہ کے بندوں کے درمیان ( پل اور بریج اور واسطہ ) ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم !
* اس لئے اہم ترین ذمہ داری محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت ہی کی ہے ، اس لئے اللہ تعالی نے قران مجید میں : حضور کا مقام ، اور حضور کے الفاظ کی اہمیت ، اور حضور کے کئے ہوئے فیصلوں کو قبول کرنے کی تاکید ، جگہ جگہ بیان فرمائی ، ارشاد باری تعالی ہے :
* ( وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ ) سورۂ النساء : ۶۴:
* ترجمہ: ہم نے ہر ہر رسول کو صرف اس لئے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی فرمانبرداری کی جائے -
* فائدہ: اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ بعض لوگوں نے اپنے جھگڑوں کے فیصلے کے لئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم  کو چھوڑکر کسی اور کی طرف رجوع کیا ، یعنی اس میں حضور کی طرف رجوع نہ کرنے کو اللہ تعالی نے ناپسند کیا ، اور اس عمل کو: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ، اور : استخفاف رتبہ : سے تعبیر کیا!
* اوردوسری جگہ فرمایا کہ:
* ( فلاور بک لا یؤمنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ثم لایجدوا فی انفسھم حرجامما قضیت ویسلموا تسلیما ) سورۂ النساء : ۶۵ -
* ترجمہ : سو قسم ہے تیرے پرورد گار کی ! یہ مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام  آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں ، پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ، ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں ، اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں !
* فائدہ : اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بات یا کسی فیصلے سے اختلاف تو کجا ، دل میں انقباض بھی محسوس کرنا ایمان کے منافی ہے !
* یہ آیت  منکرین حدیث کے لئے تنبیہ ہے  ، اور دیگر افراد کے لئے بھی فکریہ لمحیہ ہے ، جو : بعض دفعہ اپنے  بڑوں کے اقوال و طریقوں کے مقابلے میں حدیث صحیحہ سے انقباض ہی محسوس نہیں کرتے ، بلکہ یاتو کھلے لفظوں میں اس حدیث کو  ماننے سے انکار کردیتے ہیں یا اس کی دور ازکار تاویل کرکے ، یا ثقہ راویوں کو ضعیف باور کرکے ، مسترد کرنے کی مذموم سعی وکوشش کرتے ہیں !
* اطاعت رسول میں یہ بات بھی داخل ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو ترجیح دیں ، چاہے وہ اپنے معمول کے خلاف ہی کیوں نہ جاتی ہو -
* جس طرح توحید اللہ کا حق ہے ، اس میں کوئی شریک نہیں ہوسکتا !
*  اسی طرح اطاعت رسول ، رسول اللہ کا حق ہے ، اس میں بھی کسی اور کی اطاعت کی رعایت روا نہیں -
* فائدہ : ائمہ کرام اور ان کے مرتب کردہ مذاہب :  شریعت محمدیہ کی تشریح اور اسے آسان بنانے کے لئے ہیں ، اس لئے نہیں کہ احادیث نبوی سے کاٹ کر ہم کو صرف قیاس ورائے ہی کے حوالے کردیں !
       ( تشریح وتحریف میں فرق )
* تشریح کا معنی یہ ہے کہ :  بات وہی ہو ، لیکن ہمارے سمجھنے اور عمل کرنے میں سہولت کا سبب ہو !
* تحریف یہ ہے کہ : بات ہی بدل  دی جائے : جس طرح سے کہ ( شوال کے چھ روزے )
* صحیح حدیث تو ان روزوں کو سنت اور ثواب بتا رہی ہے ،
* اور اسی بات کو (مفتی زر ولی صاحب ) نے  تشریح کرتے کرتے تحریف کرڈالی ، اور سنت کی بجائے بدعت قرار دے دیا ، ثواب کی بجائے عذاب ثابت کردیا -
* لاکھوں ائمہ کی رائے اور ان کا قیاس اور ان کا اجتہاد سب مل کر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صحیح حدیث کو منسوخ اورناقابل عمل  نہیں ٹہرا سکتا !
* التماس : ذرا ٹھنڈے دل ودماغ سے سونچئے کہ محض ائمہ و فقہاء کے اجتہاد اور قیاس اور ان کی رائے کی خاطر حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انکا ر کرنا وہ بھی : اصح الحدیث : جو تقریباً درجنوں محدثین سے مروی ہے ، اور جس کے صحیح ہونے پر سب کا اتفاق ہے ،
* ائمہ ومجتہد ین معصوم نہیں ہیں اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم باذن اللہ تعالی معصوم ہیں ، اورآپ کا  ہر ہر لفظ من اللہ ہوتا ہے -
* افسوس تو یہ ہے کہ ( مفتی زر ولی صاحب ) اس مسئلہ ( صیام ستۂ من شوال ) میں غیر محسوس طریقے پر صحیح حدیث کے وقار کو مجروح کردیا ہے - یہی کام تو منکر حدیث پرویزی بھی کررہا ہے ، اور اس کی یہی کوشش ہے کہ مسلمانوں کے دلوں سے عظمت حدیث کو خارج کردو ،
* اس نے اس کے لئے اپنے نظریات اور علوم ومنطق کو استعمال کرتا ہے ،
* اورہم بھی اپنی بحث ومنطق کو  استعمال کریں تو پھر دونوں میں کیا فرق رہ گیا !
* جس طرح پرویزی کو حدیث سے دشمنی ہے ، اسی طرح  ہمیں بھی حدیث سے دشمنی  ہو تو ، پھر ہم میں اور اس میں کیافرق رہ گیا !العیاذ باللہ !
      ( مفتی زر ولی صاحب کارد)
* شوال کے چھ روزوں کے بارے میں مفتی زر ولی خان صاحب کا بیان سنا گیا ! جس میں انہوں بہت ہی سختی سے ان روزوں کا رد کیا ہے ، یہاں تک کہ سخت اور سست الفاظ بھی کہدئے ہیں  مثلا :
* ۱۔ ستۂ شوال کے روزے رکھنا : بدعت : ہے
* ۲۔ سنہ چار سو (۴۰۰) ہجری تک ان روزوں کو کوئی جانتا بھی نہیں تھا ، بعد والوں نے یہ بدعت جاری کی ہے !
* ۳۔ ستہ شوال کے روزوں کی روایت اسرائلیات کی طرح غیر معتبر ہے ،
* ۴۔ جاہل لوگ ان روزوں کو رکھتے ہیں ، جنہیں علم راسخ نصیب نہیں !
* ۵۔ یہود دین میں افراط وتفریط کرتے تھے ، اسی طرح مسلمانوں نے ( شوال کے چھ روزوں ) کو دین بناڈالا
* ۶۔ اپنے بیانوں میں ان روزوں کو نہ رکھنے کی اپیل بھی کی ہے -
* الجواب :
* اسلام کوئی نیا دین نہیں ہے ! بلکہ سابقہ ادیان کاتکملہ ہے !
* فائدہ : پہلی قومیں ہر ماہ تین دن روزے رکھتی تھیں :
* ( یا ایھالذین آمنوا کتب علیکم آلصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون  - ایامامعدودت  ) سورۂ البقرۂ :
* ترجمہ : اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسا کہ تم سے پہلوں پر روزے فرض کئے گئے تھے ، گنتی کے دن !
* فائدہ : ایاما معدودت : تین دن کی میعاد کو : ایامامعدودت : کہاجاتاہے !
* جیسا کہ مسائل حج میں  حج کے بعد : قیام منی : کے بارے میں فرمایاگیا
* ( واذکرواللہ فی ایام معدودت : اللہ کو یاد کرو ( تین دن ) اگر تم دودن بعد بھی : منی : چھوڑدو تو کوئی گناہ نہیں ، اور اگر دیر تک رہو تو بھی کوئی گناہ نہیں !
* فائدہ : پہلی قومیں مہینے میں تین دن روزے رکھتی تھیں !
* اسلام کےابتدائی دور میں بھی ماہانہ تین دن کے روزوں کا معمول رہا ، لیکن جب رمضان کے مہینے کے روزے فرض ہوئے تو ، یہ ماہانہ تین روزوں کی فرضیت منسوخ کردی گئی !
* اس کے بعد یہ ماہانہ تین دن کے روزے فرض نہ رہے ، بلکہ مستحب ہوگئے ، اور آج تک امت مسلمہ کا اس پر عمل جاری ہے !
* یعنی ہر قمری مہینے کے ( ۱۵-۱۴-۱۳) کے روز ے !
* فائدہ : سابقہ قومیں سال میں ( ۳۶) چھتیس روزے رکھتی تھیں  !
* اور ہم امت محمدیہ(ماہ رمضان ) کے روزے ، اور شوال کے چھ روزے رکھ کر سابقہ قوموں کے روزوں کی برابری کرتے ہیں !
               ( فطرت انسانی )

* یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی کو اپنا بڑا اور مربی نہیں بنا  رکھتا ، توایک دن ایسا بھی آجاتاہے کہ وہ : خود بڑا بن بیٹھتا ہے :
*   پھر اس کی طبیعت انقباض کا شکار ہوجاتی ہے ، جس کی وجہ سے : زبان تلوار کی نوک بن جاتی ہے :  اور خاص کر دینی کاروبار میں یہ کیفیات زیادہ نمایاں ہوتی ہیں  !
* اس لئے کہ شیطان ابھی مرا نہیں ! وہ خوب جانتا ہے کہ کس کو کس طرح سے ہلاک کیا جائے -
* افسوس تو اس بات پر ہوتا ہے کہ آدمی اپنی علمی استعداد پر حد سے زیادہ اطمینان کرنے لگ جاتاہے ، اور بالآخر ( قانون دان سے آگے بڑھ کر خود قانون ساز ) بن جاتاہے ،
* اور اس کی زبان وقلم سے ایسے فتوے صابر ہوجاتے ہیں کہ جنہیں نہ قرن اوّل والوں نے دیا ہوگا اور نہ قرن ثانی وثالث والوں نے !
               ( ہا ئے پستئ بشر )
* یاد رکھیں کہ : ساری امت اور اس کے علماء : دین ،  وعلوم دین میں :  کتنی ہی ترقی کرلیں : وہ صرف اسلامی قوانین کے پاسدار ( قانون دان ہوسکتے ہیں ، نہ کہ قانون ساز !
* قانون سازی کاحق  تو صرف اورصرف ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے  )
* رہی امت ! تو امت کے علماء قانون شریعت کے چاکر ہیں ، نہ کہ قانون شریعت میں تحریف وتبدیلی کے مجاز !
* دینی مسائل میں وسعت کی وجہ سے اہل علم اپنی رائے تو رکھ سکتے ہیں ، لیکن اپنی رائے اور اپنے اصول کو : حدود : کا درجہ ہرگز نہیں دے سکتے -
* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
* ( بعثت بشریعۂ حنیفیۂ سمحۂ ) صحیح حدیث ہے -
* ترجمہ : میں ایسی شریعت کے ساتھ بھیجا گیا ہوں جو صاف شفاف ہے اور بہت ہی وسعت ودرگذر کرنے والی ہے
* ( سختی کسی امر میں روا نہیں ، خاص کر سنن ومستحبات میں )
* جسطرح مفتی زر ولی خان صاحب نے ( ستہ شوال ) کا انکار کیا ، بالکل اسی طرح ایک اور عالم ان پہاڑی علاقوں میں گذرے ہیں ، جن کا نام : علامہ کیدانی : تھا -
* پہاڑی علاقوں کے آدمی تھے ، ان کے فیصلے بھی پہاڑ کی طرح اٹل  ہوتے تھے -
* ایک دن اعلان کردیا کہ نماز کے تشہد میں انگلی اٹھانا : بدعت : ہے ، اور یہ ثابت نہیں ہے !
* پائے کے عالم تھے،  اور سارے بلخان ، ترک اور افغان پران کا  سکہ چلتا تھا،  پھر کیا تھا ؟ دیکھتے ہی دیکھتے ساری قومیں انگلی اٹھا ناچھوڑدی !
* ایک آدمی نے انگلی اٹھائی ، پہاڑی جرگہ نے فیصلہ دیا کہ انگلی کاٹ دی جائے ، نمازی کی انگلی کاٹ دی گئی -
* حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ : اگر تاویل سے کام نہ لیاجائےتو : علامہ کیدانی : پر کفر کا فتوی لگایا جاسکتا ہے -
* بحوالہ ( تدوین فقہ : مولانا مناظر احسن گیلانی : رحمہ اللہ
*   (ستۂ شوال کے روزےمشروع ہیں)
* ۱- شوال کے چھ روزے نص حدیث سے ثابت ہیں ،
* ( من صام رمضان واتبعہ ستۂ من شوال فصام کصیام  الدھر ) رواہ مسلم :
* ترجمہ : جس نے رمضان کے روزے رکھے اوراس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو گویا اس نے سارا سال روزہ رکھا -
* یہ حدیث صحیح درجہ کی ہے ، محدثین میں سے کسی نےبھی  اس حدیث پر کلام نہیں کیا ، اور نہ ہی ائمہ جرح وتعدیل میں سے کسی نے اس پر تبصرہ کیا ، امام مسلم کی ( صحیح مسلم کی احادیث )  کا صحیح ہونا روزروشن کی طرح عیاں ہے -
* اس لئے : ستہ شوال : کے روزوں کا انکار سراسر غیر شرعی اور غیر منطقی ہے اور جہل ہے -
* ۲۔ تبصرہ : شیخ عبدالعزیز ابن باز : رحمہ اللہ : صحیح مسلم کی مذکورہ بالا حدیث بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ : اس حدیث سے واضح ہواکہ شوال کے چھ روزے مستحب ہیں ، اکٹھے رکھیں یا متفرق ، جیسا کہ قران مجید میں ہے کہ ( وعجلت الیک رب لترضی ) سورۂ طہ : ۸۴: ترجمہ : اے اللہ میں نے سبقت کی آپ کی طرف تاکہ آپ راضی ہوں !
* آیات قرآنی اور احادیث کثرت کے ساتھ ترغیب دیتے ہیں بندوں کو کہ اپنے رب کی رضا وخوشنودی کی تلاش میں دوڑو ، نیکی کا کوئی موقع نہ چھوڑو -
* ( الفتاوی المھمۂ : صفحہ : ۷۱۵)
* ۳۔ تبصرہ : حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی: رحمہ اللہ :
* اوپر گذری ہوئی صحیح مسلم کی حدیث بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :
* رمضان کے روزوں کے بعد شوال کے ان چھ روزوں کی مشروعیت ایسی ہے جیسے فرض نمازوں کے بعد سنن ، اس میں بھید یہ ہے کہ ، جن کے روزوں میں کیفیات کے حساب سے کمی بیشی ہوئی ہو وہ پوری ہوجائے ، اور ہر عمل کا اجر دس کے برابر کے حساب سے ، سارا سال روز داروں کی طرح لکھا جائے - ( حجۂ اللہ البالغہ :صفحہ ( ۳۸۱ )
* فائدہ : پہلی حدیث : صحیح مسلم : دوسری تشریح : شیخ ابن باز : تیسری تشریح : شاہ ولی اللہ  صاحب رحمہم اللہ !
* تنبیہ : ہم نے یہاں ( حنفی وسلفی ) دونوں کو یکجا جمع محض اس لئے کیاکہ شوال کے روزوں کی مشروعیت سے کسی کو اعتراض اور راہ فرار کا موقع نہ ملے !
* فائدہ : ہم اہتمام سے شوال کے چھ روزے رکھیں ، یہ عین سنت ہے ، مدلل ہے ،
* امام مسلم اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  : اور شیخ عبدالعزیز بن باز : رحمہم اللہ علیہم : سےسبھی واقف ہیں ،
* فائدہ : مسلک دیوبند حنفیۂ  ، اور شیخ بن باز اور علمائے حجاز حنابلہ کی تعلیمات  کو  ( اللہ سلامت رکھے ) یہ جب تک موجود و باقی  ہیں : دین میں شرک وبدعت کو پنپنے کی کوئی راہ نہیں !  الحمدللّٰہ
* فائدہ :اور یہ دونوں مسلک والے ( شوال کے چھ روزوں کے قائل ہیں )
* ( حدیث کے مراجع ملاحظہ ہوں )
* ۱- عن ابی ایوب الا نصاری رضی اللہ عنہ : قال قال النبی صلی اللہ ولیہ وسلم : من صام رمضان واتبعہ ستۂ من شوال فکانما صام السنۂ : وھکذا عن ثوبان مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :
* قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : قال اللہ الحسنۂ بعشر ، فشھر بعشرۂ اشھر ، وستۂ ایام بعد الفطر تمام السنۂ -
* ( المعتصر من المختصر: من مشکل الآثار :للطحاوی : صفحہ :۱۴۵ : جلد ۱ )
* ترجمہ : وہی بات جو صحیح مسلم میں بیان ہوئی کہ :  ( شوال کے چھ روزے سنت ہیں
* ۲۔ اس حدیث کو جس قدر کثرت سے بیان کیا گیا ہے اسے ملاحظہ فرمائیے :
* مسلم (۳/ ۱۶۹)
* ابوداؤد : حدیث نمبر ( ۲۴۳۳)
* ترمذی ( ۱/ ۱۴۶)
* الدارمی ( ۲/ ۲۱)
* ابن ماجہ ( ۱۷۱۶)
* ابن ابی شیبۂ ( ۲/ ۱۸۰/ ۲)
* الطحاوی : فی مشکل الآثار( ۳/ ۱۱۷-۱۱۹ )
* البیھقی( ۴/ ۲۹۲)
* الطیالسی ( رقم ۵۹۴)
* امام احمد بن حنبل( ۵/ ۴۱۷-۴۱۹)
* اس طریق سے یہ روایت مروی ہے :
* عن سعد بن سعید ، عن یحیی بن سعید ، عن عمر بن ثابت الانصاری ، عن ابی ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ ،
* امام ترمذی نے اس روایت کو حسن صحیح کہا ہے -
* امام طحاوی کہتے ہیں کہ : سعد بن سعید : کا حافظہ آخری عمر میں کمزور ہوگیا تھا ، لیکن ان سے بہت سی روایات محدثین نے لی ہیں ، اور ان کے علاوہ بھی کئی طریق سے یہ روایت بیان ہوئی ہے ، جس کی وجہ سے ہم اس روایت سے مطمئن ہیں : مثلا:
* عن عمرو بن ثابت ، صفوان بن سلیم ، زید بن اسلم ، یحیی بن سعید الانصاری ، وعبد ربہ بن سعیدالانصاری رضی اللہ عنہ ::
* اس طرح سے اور بھی بہت سی روایات اس سلسلہ میں آئی ہیں مثلا : ثوبان رضی اللہ عنہ جو حضور کے خادم تھے ، اس روایت کو بیان کیا ہے :
* اوپر ذکر کئے گئے  محدثین کے علاوہ : صحیح احادیث والے مشہور محدثین نے بھی اسے نقل کیا ہے مثلا:
* ابن حبان ( ۹۲۸)
* ابن خزیمہ فی صحیحہ: کما فی الترغیب ( ۲/ ۷۵) ابن خزیمہ نے اس کے بعد لکھا کہ اس روایت کی ساری سندیں صحیح ہیں : اور بھی مزید تفصیل کے لئے کتاب
* ( مجمع الزوائد ) دیکھیں -
* فائدہ : اس قدر مشہور ومعروف ومستند روایت کے بارے میں یہ کہدینا کہ : یہ روایت ضعیف ہے ، متروک ہے ، من گھڑت ہے ، موضوع ہے ، اور اس پر عمل کرنا : بدعت ہے ، گمراہی ہے ، وغیرہ : یہ کیسے ممکن ہے ؟
* جب کہ کہنے والا کوئی عام آدمی بھی نہیں ! مفتی زر ولی صاحب کا ایک نام ہے ، اور بڑے علماء میں ان کا شمار ہوتا ہے !
* ہماری کوتاہ نظر و بے علمی و بے بضاعتی یہی کہتی ہے کہ یہ مفتی صاحب کی اجتہادی غلطی ہے ، اگر یہ اپنے موقف سے رجوع کرلیں تو اھلا وسھلا : اگر اپنے موقف پر جمے رہے تو یہ ان کی اپنی تقدیر ہے - اس لئے کہ اللہ تعالی نے جس جس کے بارے میں جو لکھا ہے وہ تو ہوکر ہی رہتا ہے -
* مفتی زر ولی صاحب نے اپنی تقریر میں یہ بھی فرمایا ہے کہ شوال کے چھ روزوں کو چارسو سال ھجری تک کوئی نہیں جانتا تھا ، یعنی متقدمین اس کے قائل نہیں تھے : متاخرین نے ان روزوں کو رکھنا شروع کیا  :
* جواب  :
* الحمد للّٰہ کہ جن جن محدثین کے نام اور ان کی کتابوں کے حوالے ہم نے دئے ہیں وہ سبھی لوگ ( متقدمین ) میں سے ہیں ، سب تیسری صدی ہجری کے بزرگ ہیں : سوائے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۂ اللہ علیہ ، اور عبدالعزیز بن باز : رحمہما اللہ  کے !
* اور مفتی صاحب نے کویتی کانفرنس کا ذکر کیا ہے ، اور ان میں شریک ہونے والوں کا ذکر کیا ہے ! کیا ان میں علمائے حدیث تھے ؟ مثلا: علمائے دیوبند ، و ندوہ ، ومظاہر ، یا شیخ عبدالعزیز ابن باز ، یا شیخ ناصر الدین البانی ۔ یا شیخ فوزان ، شیخ عثیمین ؟
* اگر ان  حضرات کے ساتھ امام مسلم کی ( شوال کے چھ روزوں ) والی حدیث پر مذاکرہ کیا جاتا ، تو  پھر حق کھل کر سامنے آتا ، اور پتہ چلتا کہ صحیح مسلم کی حدیث کی مسلمانوں میں کیا وقعت واہمیت ہے !
* حدیث کی بات ماہرین حدیث کے ساتھ کی جاتی ہے ، نہ کہ سلاطین وواعظین کے ساتھ  ، کہ ان بے چاروں کواحادیث کے شاخسانوں سے کیا واسطہ !!
* میر کیا سادہ ہیں
        بیمار ہوئے جس کے سبب
* اسی عطار کے بیٹے
              سے دوا لیتے ہیں !
* دین میں جتنا بگاڑ آیا ، انہیں غیر محقق واعظین ومقررین کی وجہ سے آیاہے کہ : جو بغیر سند کے بغیر تحقیقی علم کے عوام پر سکہ بجاتے رہے ہیں :
* بیان باز تو : بیان کے جادو سے عوام کے عقل وِہوش تو اڑا سکتےہیں ،  مگردین کی صحیح  راہ پر تو محققین ہی لے آئیں گے !
* بہر حال ہم نے مفتی صاحب کی تقریر سنی اور روتے رہے ،
* اور ہم اپنی کم علمی کے اعتراف کے ساتھ یہ چند گذارشات ، اور چند تحقیقی باتیں جو بڑوں نے عرق ریزی کرکے : ہم بعد والوں کے لئے چھوڑ گئے تھے :  انہیں کی باتوں کو آپ حضرات کے سامنے پیش کردی ہے ! اللہ اسے زاد راہ بناد ے !
* وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین ، والصلاۂ والسلام علی سیدنا محمد وعلی آلہ واصحابہ اجمعین !
*  ( جاری )
* محبوب
‏Muslim Advisory Advisory

No comments:

Post a Comment