Saturday 16 June 2018

کیا حلالہ کے لئے دخول شرط ہے؟

کیا حلالہ کے لئے دخول شرط ہے؟
سوال # 67099
دوسرا شوہر حلالہ کے لئے نکاح کرکے ہمبستری نہیں کرنا چاہتا ہے اور طلاق دیتا ہے تو ایسی صورت میں پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے؟

Published on: Jul 20, 2016
جواب # 67099
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 997-982/N=10/1437
تین طلاق کی صورت میں عورت سابق شوہر کے لئے حلالہ شرعی سے پہلے حلال نہیں ہوتی، اور حلالہ شرعی میں دوسرے شوہر کا محض نکاح کرنا کافی نہیں؛ بلکہ اس کا عورت کے ساتھ صحبت کرنا یعنی: دخول کرنا بھی ضروری ہے، پس اگر شوہر ثانی نے صحبت سے پہلے طلاق دیدی یا اس کا انتقال ہوگیا تو عورت پہلے شوہر کے لئے حلال وجائز نہ ہوگی، اور اگر اس نے پہلے شوہر سے نکاح کرلیا تو وہ ہرگز درست نہ ہوگا؛ بلکہ باطل وغیر معتبر ہوگا؛ کیوں کہ حلالہ نہیں ہوا۔ اور واضح رہے کہ شرط لگاکر یا پلان ومنصوبہ کے تحت حلالہ کی غرض سے نکاح کرنا اور کرانا لعنت اور گناہ کا کام ہے اگرچہ عورت اس طرح کے حلالہ سے بھی اپنے سابق شوہر کے لیے حلال ہوجاتی ہے بشرطیکہ شوہر ثانی صحبت کرنے کے بعد طلاق دیدے یا بقضائے الٰہی اس کا انتقال ہوجائے اور عدت گذرجائے، 
ثم اعلم أن اشتراط الدخول ثابت بالإجماع فلا یکفي مجرد العقد الخ (رد المحتار، کتاب الطلاق، باب الرجعة ۵: ۴۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وکرہ التزوج للثاني تحریماً لحدیث :”لُعِنَ المحلل والمحلل لہ“ بشرط التحلیل …… وإن حلت للأول لصحة النکاح وبطلان الشرط (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الطلاق، باب الرجعة ۵: ۴۷)، 
نیز فتاوی عثمانی (۲:۴۱۹،۴۲۰، ۴۳۷، مطبوعہ: مکتبہ معارف القرآن کراچی) دیکھیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.........
سوال: حلالہ کے بعد زوج ثانی طلاق دے تو اس کی عدت کتنی ہوگی؟
جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم
حلالہ کی وضاحت یہ ہے کہ شوہر کے بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد شوہر کے لیے مطلقہ ثلاثہ کے حلال ہونے کی شریعت نے جو ترتیب بتلائی ہے ، یعنی: عدت گزارکر عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلے اور دوسرا شوہر ہمبستری بھی کرلے ، پھرکسی وجہ سے طلاق دیدے یا انتقال کرجائے اور عورت عدت طلاق یا عدت وفات گزارلے ، تو اب یہ پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے ، پہلے شوہر کے لیے عورت کے حلال ہونے کے اس شرعی ضابطے کو“ تحلیل”کہتے ہیں، جس کو اردو میں “حلالہ شرعیہ” سے تعبیر کرتے ہیں، حلالہ کا ذکر قرآن پاک کی اس آیت کریمہ میں ہے: 
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ (الآیة) 
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص مطلقہٴ ثلاث سے تحلیل اورحلالہ کی شرط پر ہی نکاح کررہا ہے تو یہ فعل مکروہ تحریمی ہے، حدیث شریف میں اس پر لعنت وارد ہوئی ہے:
إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعن المحلل والمحلل لہ (ترمذی: ۱/۲۱۳، أبواب النکاح) 
ہاں اگر کوئی شخص عقد میں حلالہ کی شرط کے بغیر اپنے دل میں یہ سوچ کر کہ اس غریب کا گھر ویران ہوگیا ہے کیا اچھا ہو کہ اس کا گھر آباد ہوجائے اور پریشانی دور ہوجائے مطلقہٴ ثلاث سے نکاح کرلیتا ہے اورہمبستری کے بعد طلاق دیدیتا ہے، پھروہ عورت عدت گزارکر سابق شوہر سے نکاح کرلیتی ہے تو اس صورت میں کوئی گناہ نہیں ہے؛ بلکہ اس کی حسن نیت پر ثواب ملنے کی امید ہے، قال فی الدر: أماإذا أضمر ذلک لا یکرہ وکان الرجل مأجورا لقصد الإصلاح (الدر مع الرد: ۵/۴۸، زکریا)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
.....................
حلالہ کرنے کی شرط پر نکاح کرنا تو مکروہ تحریمی ہے اگرچہ بعد عدت ثانی زوج اول کے لیے جائز ہوجائے گی اور اگر شرط نہیں لگائی بس نکاح کر لیا تو چاہے دل میں ایسا ارادہ ہو تو بھی مکروہ نہیں ہے۔ حلالہ کی شرط پر نکاح کہ میں اس شرط پر تجھ سے نکاح کرتا ہوں کہ تجھے طلاق دے کر حلال کردوں گا دوسرے شخص کا نکاح مکروہِ تحریمہ ہے لیکن دونوں نے اگر دل میں حلالہ کی نیت کی تو مکروہ نہیں، اس صورت میں دوسرا شخص اصلاح کی غرض سے نکاح کرنے پر اجر کر مستحق ہوگا.
حلالہ کے بارے میں احناف کا مؤقف یہ ہے کہ نِکَاح بِشَرْطِ التَّحْلِیْل (یعنی حلالہ کی شرط کے ساتھ نکاح کرنا) جس کے بارے میں حدیث میں لعنت آئی، وہ یہ ہے کہ عقد ِ نکاح یعنی ایجاب و قبول میں حلالہ کی شرط لگائی جائے اور یہ نکاح مکروہِ تحریمی ہے، زوجِ اول و ثانی (یعنی پہلا شوہر جس نے طلاق دی اور دوسرا جس سے نکاح کیا) اور عورت تینوں گنہگار ہوں گے مگر عورت اِس نکاح سے بھی بشرائط ِ حلالہ شوہرِ اوّل کے لیے حلال ہو جائے گی اور شرط باطل ہے اور شوہرِ ثانی طلاق دینے پر مجبور نہیں اور اگر عقد میں شرط نہ ہو اگر چہ نیت میں ہو تو کراہت اصلا ً نہیں بلکہ اگر نیت ِ خیر ہو تو مستحقِ اجر ہے۔‘‘ 
عقد نکاح سے پہلے ہی دوسرے شوہرکوسمجھادیاجائے کہ عورت اپنے پہلے شوہرکے پاس جاناچاہتی ہے اوراس کے ہاں پہلے شوہرسے کچھ اولادبھی ہے جن کی تربیت بخیروخوبی پہلے شوہر اوراس کے ذریعے ہی ہوسکےگی اورپہلے شوہرکے نکاح میں جانے اوربچوں کی صحیح تربیت کرنے کاذریعہ شوہَرِثانی سے نکاح اورہمبستری کے سواکچھ نہیں ہے،تواگر ان حالات میں شوہَرِثانی ان دونوں (شوہَرِاول اور اس عورت) کی پریشانی کو حل کرنے کی نیت سے اس عورت سے نکاح کرلے اوریہ نکاح حلالہ کی شرط پرنہ کیا جائے (یعنی ایجاب وقبول کے وقت حلالہ کی شرط نہ لگائی جائے بلکہ نارملالفاظ میں ایجاب وقبول ہوں اگرچہ دل میں ارادہ حلالہ کا ہو) اورنہ ہی اس پرشوہَرِاَوَّل سے اجرت لی جائے اور پھر بعدِ نکاح، ہمبستری کرکے اس کوطلاق دے تاکہ وہ عورت عدت گزار کراپنے پہلے شوہرسے نکاح کرلے اوربچوں کی صحیح طورپرپرورش کرسکے تویہ شوہَرِثانی اس طرح کرکے ان دونوں (شوہَرِاَوّل اورعورت) کی خیروبھلائی چاہنے کی وجہ سے ثواب کامستحق قرار پائےگا۔ (دارالافتاء اہلسنت، 25ذوالقعدۃ الحرام 1433ھ، 13 اکتوبر2012ء)
اگر دُوسرے مرد سے نکاح کرتے وقت یہ نہیں کہا گیا کہ وہ صحبت کے بعد طلاق دے دے گا، لیکن اس شخص کا اپنا خیال ہے کہ وہ اس عورت کو صحبت کے بعد فارغ کر دے گا تو یہ صورت موجبِ لعنت نہیں۔ اسی طرح اگر عورت کی نیت یہ ہو کہ وہ دُوسرے شوہر سے طلاق حاصل کرکے پہلے شوہر کے گھر میں آباد ہونے کے لائق ہو جائے گی، تب بھی گناہ نہیں۔
متعہ خاص مدت کے لیے تمتع حاصل کرنے کا معاملہ کیا جائے جو ناجائز وحرام ہے اور حلالہ میں نکاح کے وقت کی تعیین نہیں ہوتی بلکہ نکاح کی دوامی خصوصیت موجود رہتی ہے، کوئی جملہ اس کے منافی نہیں صادر کیا جاتا ہے جب کہ متعہ میں نکاح کی دوامی کیفیت کے خلاف مدت کی تعیین کی جاتی ہے کہ ہم مثلاً ایک ہفتہ ایک ماہ کے لیے تم سے نکاح کردیتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment