Thursday 21 June 2018

ستاروں کے ذریعے قبلہ کس طرح معلوم کیا جاتا ہے؟

ستاروں کے ذریعے قبلہ کس طرح معلوم کیا جاتا ہے؟
آپ نے سنا ہی ہوگا کہ پہلے زمانے میں اور اب بھی بعض جگہوں پر ستاروں کے ذریعے راستے معلوم کرتے ہیں اور بعض لوگ ستاروں کے ذریعے وقت بھی معلوم کرتے ہیں لیکن ستارے دیکھ کر یہ کس طرح معلوم ہوگا کہ راستہ کس طرف جاتا ہے ؟؟ وقت کیا ہورہا ہے ؟؟ اور قبلہ کس جانب ہے ؟؟
مختصر یہ کہ آسمان پر ستارے کافی زیادہ ہیں قدیم ماہرین فلکیات نے ان ستاروں کو چند گروپ میں تقسیم کرکے نام رکھ دئے ہیں جن کو کانسٹیلیشن  Constellation یا ستاروں کے جھمکے کہا جاتا ہے ۔ یہ جھمکے سال کے مختلف اوقات میں مشرق سے مغرب کی طرف حرکت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر ان جھمکوں کے صحیح مقامات اور طلوع و غروب کے اوقات کو یاد کرلیں تو ہمیں ان سے سمت Direction، سمت قبلہ اور اوقات کا تعین کرنا آسان ہوجائے گا ۔۔
ستاروں میں سے قطب تارہ، جسے North Star یا Polaris بھی کہتے ہیں، زمین کی شمالی جانب کی نشاندہی کرتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں شمال کے رخ کا تعین ہوجاتا ہے اور اس سے قبلہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے.
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قطب ستارے کو کیسے تلاش کیا جائے؟
تو سنئے کہ دو جھمکے ایسے ہیں جن سے ہم قطب تارے تک پہنچ سکتے ہیں:
1. دبِّ اکبر (Big Dipper یا Usra Major)
قطب تارہ کو پہچاننے میں مدد دینے والے سات ستاروں پر مشتمل ایک جھرمٹ کا نام دبِّ اکبر ہے، اس کی شکل ہل یا چمچہ کی طرح ہے ، اس جھمکے میں پہلے دو ستارے ہمیشہ قطب تارہ کی سیدھ میں رہتے ہیں، اس لیے ان دو ستاروں کو دلیلین، پوائنٹرز (Pointers) کہتے ہیں، دلیلین کے درمیانی فاصلے کو اگر پونے پانچ گنا بڑھا دیا جائے تو قطب تارے تک پہنچا جا سکتا ہے. (پوسٹ کی تصویر دیکھیں)
دب اکبر گویا ایک ریچھ ہے جس کی گردن میں رسی ڈال کر کھونٹے (کیل) سے باندھ دی گئی ہو اور وہ کھونٹے کے گرد چکر لگا رہا ہے ، وہ کھونٹا قطبی تارہ Polar Star ہے۔
2.  ذات الکرسی (کیسیوپیا، W-Star ,Cassiopeia):
قطب تارے کو پہچاننے میں مدد دینے والا دوسرا مشہور جھمکا "ذات الکرسی" ہے ، یہ جھمکا انگریزی حرف "W" کی شکل سے ملتا جلتا ہے، ڈبلیو کی کھلی جانب کا رخ ہمیشہ قطب تارہ کی طرف رہتا ہے، اس کے پہلے اور تیسرے یا پہلے اور چوتھے ستارے کو ملاکر اس پر 90 درجے کا زاویہ بنائیں تو سامنے قطبی ستارہ نظر آئے گا ذیل کی تصویر سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے.
اب قطب تارے کے بارے میں چند ضروری باتیں سمجھئے:
1. جس طرح تمام ستاروں کا درمیانی فاصلہ ہمیشہ برابر رہتا ہے اسی طرح ذات الکرسی اور دب اکبر دونوں جھمکوں کا فاصلہ ہر موسم میں پورے سال قطب تارہ سے برابر رہتا ہے ، ذات الکرسی اگر قطب تارہ کی تقریباً ایک طرف تو دب اکبر قطب تارہ کی دوسری طرف نظر آئے گا۔
پیش کردہ تصویر میں دب اکبر اور ذات الکرسی کے مقام کا سال کے چار موسم میں فرق دکھایا گیا ہے ..
2. قطب تارہ بظاہر ساکن  رہتا ہے جبکہ دب اکبر اور ذات الکرسی (Anticlock wise) مخالف گھڑی وار سمت میں یعنی ہمارے دائیں سے بائیں جانب قطب تارہ کے گرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔
3. ان دو جھمکوں میں سے ایک مشرق اور دوسرا مغرب کو ہوتا ہے تو اس وقت یہ دونوں جھمکے نظر آتے ہیں لیکن جب ایک جھمکا قطب تارہ کے اوپر اور  دوسرا نیچے یعنی افق کی طرف ہوتا ہے تو اس وقت وہ جھمکا نظر آتا ہے جو قطب تارہ کے اوپر ہوتا ہے اور دوسرا جھمکا افق سے نیچے ہونے کی وجہ سے دکھائی نہیں دیتا ..
4.  ان دو جھمکوں میں سے کوئی ایک جھمکا ہر موسم اور رات کے ہر حصے میں ضرور دکھائی دیتا ہے۔
5. قطب تارہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہوجائیں تو دائیں ہاتھ کی طرف مشرق اور بائیں ہاتھ کو مغرب ہوگا، کیوں کہ قطب تارہ زمین کے شمالی قطب کی نشاندہی کرتا ہے اور جب آپ شمال کا تعین کرلیں گے تو ۹۰ کے زاوئے پر دائیں جانب مشرق اور بائیں جانعب مغرب ہوگا اور عین پچھے جنوب ہوگا. برصغیر پاک و ہند کا قبلہ مغرب ہی کو ہے لہذا اس طرح قبلے کا تعین ہوجائے گا اور جن علاقوں کا قبلہ مغرب سے کچھ ہٹ کر ہے ان علاقوں کے لئے پہلے آپ کو وہاں کے قبلے کے درجات کا مغرب سے فرق معلوم کرنا ہوگا پھر قبلے کا تعین کرسکیں گے.
واضح رہے اس طریقے سے آپ صرف قبلے کے رخ کا اندازہ کرکے اپنی عبادت انجام دے سکیں اگر کہیں مسجد کے لئے قبلے کا تعین مقصود ہوتو اس کے لئے سورج کے سائے کے ذریعے یا ایک اچھے قبلہ نما کمپاس Compass کے ذریعے قبلے کا تعین زیادہ مناسب ہے تاکہ عین قبلہ کی طرف رخ ہوجائے اورغلطی کا امکان نہ ہو.
6. قطب تارہ کا افق سے جتنا ارتفاع ، یعنی بلندی Altitude ہوتا ہے اس مقام کا عرض  Latitude بھی تقریباً اتنا ہی ہوتا ہے.
7. قطب تارہ بذات خود "دب اصغر" نامی جھمکے کا ایک فرد ہے ، دب اصغر کی شکل بالکل دب اکبر جیسی ہے ، اکبر و اصغر کا یہ فرق خصوصاً ملحوظ رکھنا چاہئے۔
8.  قطب تارہ بظاہر ساکن ہے مگر در حقیقت وہ ایک چھوٹے سے دائرے میں حرکت کرتا ہے اور عام ستاروں کی طرح 23 گھنٹے 56 منٹ میں ایک چکر مکمل کر لیتا ہے ، اس حرکت کے دوران وہ کبھی سماوی قطب شمالی کے مشرق میں کبھی مغرب میں کبھی انتہائی بلندی پر کبھی انتہائی پستی پر ہوتا ہے ۔
9. قطب تارے کے انتہائی بلندی اور انتہائی پستی پر ہونے کی پہچان کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جب ذات الکرسی کا آخری ستارہ قطب تارے کے اوپر پہنچ جائے اس وقت وہ انتہائی بلندی پر ہوتا ہے اور جب دب اکبر کا آخری ستارہ قطبی تارے سے تھوڑا سا آگے مغرب کی جانب چلا جائے تو اس وقت قطبی تارہ انتہائی پستی پر ہوتا ہے۔
بحوالہ:  تفہیم الفلکیات، صفحہ نمبر 73
تالیف:  مولانا اسد اللہ شہباز، رکن شعبہ فلکیات جامعةالرشید
ستاروں کے جھمکے Constellations کیا ہیں؟
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1346261562170143&id=398156666980642
ذیل میں ایک طرف گھومتے ہوئے ستاروں کی تصویر دکھائی گئی ہے ....
آپ نے اکثر اس طرح کی تصاویر دیکھی ہوں گی جس میں آسمان پر ستارے گھومتے ہوئی دکھائے جاتے ہیں.
یہ ایک خاص قسم کی تصویر سازی Photography ہے جس میں کیمرے کے Exposure Time کو بڑھایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ان تاروں کی حرکت ایک لکیر کی صورت میں دکھائی دیتی ہے یہ اس وجہ سے کہ  چونکہ ہماری زمین اپنے محور کے گرد مغرب سے مشرق کی سمت گھومتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں ستارے مشرق سے طلوع و مغرب میں غروب ہوتے دکھائی دیتے ہیں ستاروں کی ایسی تصویر زمین کی گردش ظاہر کرتی ہے اور چونکہ قطب تارہ کبھی غروب نہیں ہوتا اور ہمیشہ شمال کی سمت میں ہی رہتا ہے اسی وجہ سے وہ اس تصویر میں گھومتے ستاروں کے درمیان میں نظر آرہا ہے ...
ایسی تصاویر کو Star Trails کہا جاتا ہے.

No comments:

Post a Comment