Wednesday 27 June 2018

خاتم الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا طریقہ نماز کیا ہے؟

خاتم الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا طریقہ نماز کیا ہے؟
سم اللہ الرحمن الرحیم
مکمل نماز
خاتم الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا طریقہ نماز
اس کتاب میں صحیح احادیث کی روشنی میں ىہ بات ثابت کی گئی ہے کہ
اہل سنت والجماعت احناف کا طریقہ نماز خاتم الانبیاء صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم والا ہے
وضو کی فضیلت
حدیث: عن عثمانؓ بن عفان قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من توضا فاحسن الوضو ءخرجت خطایا ہ من جسدہ حتی تخرج من تحت اظفارہ ۔ مسلم جلد 1 ص 125 قدیمی کتب خانہ ترجمہ ۔
ترجمہ :حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اچھی طرح وضوءکیا (سنن و آداب کا خوب خیال رکھا) تو گناہ اس کے جسم سے نکل جاتے ہیں یہاں تک کہ اس کے ناخنوں کے نیچے سے بھی نکل جاتے ہیں ۔
وضو سے پہلے کی دعا
حدیث: عن ابی ہریرہؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا ابا ہریرہ اذا توضات فقل بسم اللہ والحمد للہ فان حفظتک لا تستریح تکتب لک الحسنات حتی تحدث من ذلک الوضوئ۔ المعجم الصغیر للطبرانی ،جلد 1 ص 73مکتبہ دارا الکتب العلمیہ ۔
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے ابو ہریرہ جب تو وضو کرنے لگے تو کہہ بسم اللہ والحمدللہ بلا شبہ تیرے محافظ فرشتے تیرے لئے مسلسل نیکیاں لکھتے رہیں گے حتی کہ تو اس وضو ءسے بے وضوءہو جائے۔
وضو کا سنت طریقہ
حدیث: عن حمران مولی عثمان بن عفان ؓ انہ رای عثمان ؓ دعا بوضوءفافرغ علی یدیہ من انائہ فغسلھما ثلث مرات ثم ادخل یمینہ فی الوضوءثم تمضمض واستنشق وا ستنثر ثم غسل وجھہ ثلثا و یدیہ الی المرفقین ثلثا ثم مسح براسہ ثم غسل کل رجل ثلثا ثم قال رایت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتوضاءنحو وضوئی ھذا الخ۔ بخاری ج 1ص 28مکتبہ قدیمی کتب خانہ
ترجمہ: حضرت حمران ؓ (سیدنا عثمان ؓ کے غلام) فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمانؓ کو دیکھا انہوں نے وضو کے لئے پانی منگوایاپھر اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا اس کو تین مرتبہ دھویا پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا تین مرتبہ پھر تین مرتبہ چہرہ دھویا پھر اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک تین مرتبہ دھویا پھر سر کا مسح کیا پھر دونوں پاؤں کو تین تین مرتبہ دھویا پھر حضرت عثمانؓ نے فرمایا! میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ علیہ السلام نے اسی طرح وضو کیا۔
انگلیوں کا خلال کرنا
حدیث: عن لقیط بن صبرة عن ابیہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا توضات فخلل الاصابع ۔ ترمذی ج 1ص16 حسن صحیح مکتبہ الحسن و مستدرک حاکم ج1 ص 253مکتبہ دارالفکر حدیث صحیح نمبر 534 واللفظ للترمذی۔
ترجمہ :حضرت لقیط بن صبرہ ؓ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم وضو کرو تو اپنی انگلیوں کا خلال کرو۔
پورے سر کا مسح کرنا
حدیث: عبد اللہ بن زید ؓ فرماتے ہیں فمسح براسہ فاقبل بیدہ و ادبر بھا ۔بخاری ج1 ص 32 ۔
ترجمہ: نبی علیہ السلام نے اپنے سر کا مسح کیا آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی ۔
کانوں کا مسح کرنا
حدیث: عن ابن عباس ؓ قال توضا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ثم مسح براسہ واذنیہ باطنھما بالسباحتین و ظاھر ھما بابھامیہ ۔ نسائی ج1 ص29 مکتبہ قدیمی کتب خانہ
ترجمہ : حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر کا مسح کیا اور دونوں کانوں کا مسح کیا اندرونی حصہ کا مسح شہادت کی انگلی سے اور ظاہری حصہ کا دونوں انگوٹھوں سے ۔
گردن کا مسح کرنا
حدیث : عن ابن عمرؓ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال من توضا ومسح بیدیہ علی عنقہ و فی الغل یوم القیامہ۔ تلخیص الحبیر ج1 ص 288
ترجمہ : حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جس شخص نے وضوءکیا اور ہاتھوں کے ساتھ گردن کا مسح کیا تو قیامت کے دن گردن میں طوق کے پہنائے جانے سے اس کی حفاظت کی جائے گی ۔
نوٹ : علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے تلخیص الحبیر ج1 ص 288 ۔ علامہ شوقانی نے بھی اس کی تصحیح کی ہے ۔ نیل الاوطار ج1 ص 123 مکتبہ دارالمعرفہ لبنان۔
حدیث: عن طلحہ، عن ابیہ، عن جدہ انہ رای رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یمسح راسہ حتی بلغ القذال وما یدیہ من مقدم العنق بمرة۔ مسند احمد ج3 ص 481 حدیث نمبر 15521
ترجمہ : حضرت طلحہ بروایت اپنے والد ، اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ اپنے سر پر مسح کر رہے ہیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اپنے ہاتھ) سر کے آخری حصے اور اس سے متصل گردن کے اوپر کے حصے تک ایک بار لے گئے ۔ اس کے ہم معنی روایت السنن الکبری للبیھقی ج 1 صفحہ 60 مکتبہ ادارہ تالیفات اشرفیہ میں بھی موجود ہے۔
حدیث: عن وائل بن حجرؓ (فی حدیث طویل) ثم مسح رقبتہ ، الخ۔ المعجم الکبیر للطبرانی ج 22 ص 50
ترجمہ : حضرت وائل بن حجرؓ سے روایت ہے کہ ۔۔۔۔۔۔پھر نبی علیہ السلام نے گردن کا مسح کیا۔
حدیث: عن مجاھد عن ابن عمرؓ انہ کان اذا مسح راسہ مسح قفاہ مع راسہ ۔السنن الکبری للبیھقی ج1 ص60۔
ترجمہ: مجاہد ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ جب سر کا مسح کرتے تو گردن کا مسح بھی کرتے۔
فائدہ: مذکورہ بالا احاد یث سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ گردن پر مسح کرنا نبی علیہ السلام کی سنت ہے مگر ان احادیث کے باوجود غیر مقلدین نام نہاد اہل حدیث حضرات کا موقف یہ ہے کہ گردن پر مسح کر نا بدعت ہے چنانچہ غیر مقلدین کے مشہور و معروف عالم خالد حسین گرجاکھی لکھتے ہیں۔وضو میں گردن کا مسح کرنا ثابت نہیں بلکہ بدعت ہے۔ (صلاة النبی ص70)
نیز غیر مقلدین کے مایہ ناز مفتی عبد الستار صاحب لکھتے ہیں گردن کا مروجہ مسح کسی حدیث میں نہیں بلکہ احداث فی الدین (بدعت) ہے ۔ فتاویٰ ستاریہ ج3ص 53
اور مبشر ربانی لکھتے ہیں: گردن کے مسح کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں۔ (صلوة المسلم ص 14)
جرابوں پر مسح کرنا
وضو میں موزوں پر مسح کرنا احادیث متواترہ سے ثابت ہے وضو کے دوران جرابوں پر مسح کرنا جائز نہیں کیونکہ ایسا کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں اور غیر مقلدین علماءنے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے چنانچہ غیر مقلدین کی ریڑھ کی ہڈی مولانا نذیر حسین دہلوی لکھتے ہیں کہ ،مذکورہ (اونی، سوتی) جرابوں پر مسح جائز نہیں ہے کیونکہ اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے ۔ فتاویٰ نذیریہ ج1 ص 327
غیر مقلدین کے مشہور و معروف عالم مولانا ابو سعید شرف الدین فرماتے ہیں ”یہ مسئلہ (جرابوں پر مسح کرنا) نہ قرآن سے ثابت ہے نہ مرفوع صحیح حدیث سے نہ اجماع سے نہ قیاس صحیح سے ۔۔۔۔۔ لہذا خف چرمی (موزوں) کے سوا جرابوں پر مسح ثابت نہیں ہوا۔“ فتاویٰ ثنائیہ ج 1 ص 442 نیز اہل حدیث کے محقق عالم علامہ عبد الرحمن مبارکپوری تحفہ الاحواذی ج 1 ص 120 میں اور مولانا عبد اللہ روپڑی صاحب نے فتاوی اہل حدیث ج 1 ص 351 میں اور مولانا یونس دہلوی صاحب نے دستور المتقی ص 78 میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جرابوں پر مسح کرنے کی احادیث ضعیف ہیں۔
اذان کے مسنون کلمات
اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اشھد ان لا الہ الا اللہ اشھد ان لا الہ الا اللہ
اشھد ان محمدا رسول اللہ اشھد ان محمدا رسول اللہ حی علی الصلوہ حی علی الصلوہ
حی علی الفلاح حی علی الفلاح اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ
(ابو داؤد ج 1 ص 83 مکتبہ رحمانیہ)
نوٹ: فجر کی اذان میں ”الصلوة خیر من النوم“ بھی کہے۔ ابو داؤد ص 84 و مصنف عبد الرزاق ج 1 ص 186حدیث نمبر 1889 مکتبہ دارہ الاحیاءالتراث
اقامت کے مسنون کلمات
اللہ اکبر (4 مرتبہ)
اشھدان لا الہ اللہ (2 مرتبہ)
اشھد ان محمدا رسول اللہ (2 مرتبہ)
حی علی الصلوہ (2 مرتبہ)
حی علی الفلاح (2 مرتبہ)
قد قامت الصلوہ (2 مرتبہ)
اللہ اکبر (2 مرتبہ)
لا الہ الا اللہ ۔ (1 مرتبہ)
نوٹ: مذکورہ بالا اذان و اقامت کو دوہری اذان و اقامت کہتے ہیں اس کے لئے کہ احادیث میں شفع اور مثنی کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ روایت میں آتا ہے 
ان بلال رضی اللہ عنہ کان یثنی الاذان و یثنی الا قامة مصنف عبد الرزاق ج1ص 188
حضرت بلال ؓ اذان و اقامت دوہری دوہری کہتے تھے
حدیث :کان عبد اللہ بن زید الا نصاری موذن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یشفع الاذان و الاقامہ ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج 1 ص234مکتبہ امدادیہ
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن زید ؓ انصاری نبی علیہ السلام کے موذن اذان اور اقامت دوہری دوہری کہتے تھے ۔
فائدہ: یہی وہ اقامت ہے جو نبی علیہ السلام نے اپنے صحابی ابو محذورہ ؓ کو سکھلائی تھی (مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص 231 مکتبہ امدادیہ ملتان) اور یہی اقامت حضرات صحابہ کرام علیہم الرضوان اور تابعین و تبع تابعین سے ثابت ہے حوالہ جات کے لئے یہ کتب ملاحظہ فرمائیں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ، مصنف عبد الرزاق، طحاوی، نصب الرایہ اعلاءالسنن، آثار السنن)
ان احادیث و آثار کے باوجود غیر مقلدین (نام نہاد اہل حدیث) کی مساجد میں کہری اقامت کہی جاتی ہے جو کہ ان احادیث و آثار کی مخالف ہے کیا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اتنی احادیث اور آثار کی مخالفت کرکے اپنے آپ کو اہل حدیث کہلانا اور جو ان احادیث پر عمل کرے اس کو بدعتی کہنا؟
نماز کا طریقہ
جب آدمی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسنون طریقہ سے وضو کرلے تو پھر مسنون طریقہ سے نماز ادا کر لے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”صلو کما رائتمونی اصلی“ بخاری۔ نماز اس طرح پڑھو جس طرح مجھ کو نماز پڑھتے دیکھتے ہو۔
حدیث : عن انس ؓ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبر فحاذی بابھامیہ اذنیہ الخ۔مستدرک حاکم ج 1 ص 356 مکتبہ دارا لفکر حدیث نمبر 931 نیز اس حدیث کو امام حاکم اور علامہ ذہبیؒ نے صحیح کہا ہے
ترجمہ : حضرت انس ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے تکبر کہی تو اپنے دونوں انگوٹھے کانوں کے برابر لے گئے۔
حدیث : عن مالک بن حویرث ؓ انہ رای نبی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقال حتی یحاذی بھما فروع اذنیہ مسلم ۔۔قدیمی کتب خانہ ج 1 ص 167
ترجمہ : حضرت مالک بن حویرثؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو کانوں کی لو تک اٹھایا۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا
حدیث : عن علقمہ بن وائل بن حجر عن ابیہ قال رایت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضع یمینہ علی شمالہ فی الصلاة تحت السرة۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج 3 ص 321 بتحقیق الشیخ عوامہ مکتبہ ادارة القرآن و العلوم الاسلامیہ ۔
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ علیہ السلام نے نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھا۔
حدیث : عن علی ؓ قال من سنة الصلوة وضع الایدی علی الایدی تحت السرر ۔
ترجمہ : حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت طریقہ یہ ہے کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر ناف کے نیچے رکھا جائے ۔
فائدہ : نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا نبی علیہ السلام تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان و تابعین و تبع تابعین میں سے کسی ایک سے بھی بسند صحیح ثابت نہیں۔
نوٹ: ائمہ اربعہ (امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمھم اللہ تعالی) میں سے سینہ پر ہاتھ باندھنے کا کوئی بھی قائل نہیں تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو شرح مسلم للنووی ؒ مع مسلم ج1 ص 173 مکتبہ قدیمی کتب۔
ثنائ: عن عائشہ رضی اللہ عنھا قالت ، کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا استفتح الصلوة قال سبحانک اللھم و بحمدک و تبارک اسمک و تعالی جدک ولا الہ غیرک ۔ھذا حدیث صحیح الاسناد مستدرک حاکم ج 1 ص 319 مکتبہ دارالفکر حدیث نمبر 890 و ابو داﺅ ج1 ص 113 ۔
ترجمہ: حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز شروع فرماتے تو کہتے ”سبحانک اللھم و بحمدک وتبارک اسمک وتعالی جدک ولا الہ غیرک “
امام حاکمؒ و علامہ ذہبیؒ فرماتے ہیں یہ حدیث صحیح ہے ۔
حدیث نمبر 2 : عن الاسواد عن عمر ؓ کان اذا افتتح الصلوة قال سبحانک اللھم و بحمدک و تبارک اسمک وتعالی جدک والہ غیرک ۔ مستدرک حاکم واللفظ لہ ج 1 ص 320 و صحیح مسلم ج1 ص 172۔
ترجمہ :اسود ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ جب نماز شروع کرتے تو سبحانک اللھم وبحمدک و تبارک اسمک و تعالی جدک ولا الہ غیرک پڑھتے ۔ امام حاکم ؒو علامہ ذہبی ؒ نے اس کو بھی صحیح کہا ہے ج1 ص 320 ۔
بسم اللہ آہستہ پڑھنا
حدیث نمبر 1 : عن انس ؓ قال صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وابی بکر و عمر و عثمان فلم اسمع احدامنھم یقراء بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ مسلم ج 1 ص172۔
ترجمہ :حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی علیہ السلام کے ساتھ نماز پڑھی حضرت ابو بکر ؓ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ کے ساتھ نماز پڑھی لیکن ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔
حدیث نمبر 2 : عن انس ؓ قال صلیت خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و ابی بکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنھم فلم اسمع احدا منھم یجھر بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ نسائی ج 1 ص 144 مکتبہ قدیمی کتب خانہ ۔
ترجمہ : حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی حضرت ابو بکر و حضرت عمر و حضرت عثمان رضی اللہ عنھم کے پیچھے نماز پڑھی ان میں سے کسی کو بھی بسم اللہ الرحمن الرحیم اونچی آواز سے پڑھتے نہیں سنا۔
نماز میں قرات کا بیان
نمازی تین طرح کے ہوتے ہیں ۔
-1 منفرد (اکیلا نماز پڑھنے والا)
-2 امام
-3 مقتدی
منفرد اور امام کے لئے قرات کا حکم :
اکیلے نمازی اورامام کے لئے نماز میں سورة فاتحہ پڑھنا ضروری ہے حدیث پاک میں آتا ہے ۔
حدیث: عن عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال لا صلوة لمن لم یقرا بفاتحة الکتاب۔ بخاری ج1 ص 104 قدیمی کتب خانہ ۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں نماز اس شخص (امام و منفرد) کی جو سورة فاتحہ کی قرات نہ کرے ۔
حدیث : عن نافع ان عبداللہ بن عمر کان اذا سئل ھل یقراءاحد خلف الامام قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراة الامام و اذا صلی وحدہ فلیقر ء قال و کان عبد اللہ بن عمر ؓ لا یقراءخلف الامام۔ موطا امام مالک ص 68 ترک القراہ خلف الامام ۔
ترجمہ : نافع ؒ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابن عمر ؓ سے پوچھا جاتا کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی پڑھے؟ تو آپ جواب دیتے کہ مقتدی کے لئے امام کی قرات کافی ہے البتہ جب وہ اکیلا نماز پڑھے تو قرات کرے ۔ خود حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ  امام کے پیچھے قرات نہیں کرتے تھے ۔
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ جب آدمی امام ہو یا اکیلا نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے لئے قرات ضروری ہے لیکن اگر مقتدی ہوتو پھر قرات نہ کرے ۔
مقتدی کے لئے قرات کا حکم
مقتدی کو امام کے پیچھے قرات کرنا منع ہے۔ چنانچہ حکم خدا وندی ہے۔  واذا قرا القرآن فاستمعو لہ و انصتوا لعلکم ترحمون oسورہ اعراف آیت نمبر 204 ۔
ارشاد ربانی ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔
حدیث: عن یسیر بن جابر قال صلی ابن مسعودؓ فسمع ناسا یقرون مع الامام فلما انصرف قال اما آن لکم ان تفھموا اما آن لکم ان تعقلوا و اذا قری القرآن فاستمعوا لہ و انصتوا کما امر کم اللہ ۔ تفسیری طبری ج9 ص 110 بحوالہ تفسیر ابن کثیر ج2 ص 245مکتبہ داراحیاء۔
حدیث: عن عبد اللہ قال والذی لا الہ الا غیرہ ما من کتاب اللہ سورة الا انا اعلم حیث نزلت وما من آیت الا انا اعلم فی ما انزلت ولو اعلم احدا ھوا علم بکتاب اللہ منی تبلغہ الا بل لرکبت الیہ ۔ صحیح مسلم ج2 ص 293 ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے علاوہ کوئی الہ نہیں قرآن کریم کی کوئی سورت کو آیت ایسی نہیں جس کا شان نزول مجھے معلوم نہ ہو کہ کس موقعہ پر اتری اور کس حالت میں نازل ہوئی ہے اور میں اپنے سے بڑا کتاب اللہ کا عالم کسی کو نہیں پاتا اگر (اس وقت یعنی دور صحابہؓ میں ) مجھ سے بڑا کوئی عالم ہوتا جس تک پہنچنا ممکن ہوتا تو میں اس کی طرف رجوع کرتا۔
یہی عبد اللہ بن مسعود ؓ اس آیت کے متعلق کیا فرماتے ہیں ۔ ملاحظہ فرمائیں ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے (ایک دفعہ) نماز پڑھی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قرات کرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو جب قرآن کی تلاوت ہو رہی ہو تو تم اس کی طرف کان لگاﺅ اور خاموش رہو جیسا کہ اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا ہے ۔
آیت مذکورہ کی تفسیر رئیس المفسرین و حبر الامہ حضرت ابن عباس ؓ سے ۔
یوں تو سب صحابہ ؓ آسمان ہدایت کے روشن ستارے ہیں مگر عبد اللہ بن عباسؓ وہ صحابی رسول ہیں کہ آپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا۔ اللھم فقھہ فی الدین و علمہ التاویل ۔ (مسند احمد ج 1 ص 540 حدیث نمبر 3024 مکتبہ داراحیاءالترات العربی)۔ اے اللہ ان کو (حضرت ابن عباسؓ) کو دین کی سمجھ اور قرآن کی تاویل و تفسیر میں مہارت عطا فرما۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں ۔
عن ابن عباس ؓ فی الا یةقولہ ”واذا قری القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا“یعنی فی الصلاة المفروضہ ۔ تفسیر ابن کثیر ج 2 ص 245 و تفسیر ابن جریر و تفسیر روح المعانی و کتاب القراة للبیہقی۔
ترجمہ: حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ واذا قری القرآن کا شان نزول فرض نماز ہے۔ ان کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ ؓ ، حضرت مقداد بن اسودؓ ، حضرت عبد اللہ مغفل ؓ سے بھی مروی ہے کہ اس آیت کا تعلق نماز سے ہے حوالہ جات کے لئے ملاحظہ فرمائیں تفسیر ابن کثیر تفسیری مظہری ، تفسیر روح المعانی و کتاب القراة للبیھقی و غیرہ ۔ تابعین میں بھی مندرجہ ذیل حضرات بھی ہی فرماتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق نماز سے ہے ۔
-1 حضرت مجاہد ؒ -2 حضرت سعید بن مسیب ؒ -3 حضرت سعید بن جبیر ؒ
-4 حضرت حسن بصری ؒ -5 حضرت عبید بن عمیر ؒ -6 حضرت عطاءبن ابی رباح ؒ
-7 حضرت ضحاکؒ -8 حضرت ابراہیم نخعیؒ -9 قتادہ ؒ
-10 حضرت شعبیؒ -11 امام السدیؒ -12 حضرت عبد الرحمن بن زیدؒ
حوالہ جات کے لئے ملاحظہ فرمائیں ۔ تفسیر ابن کثیر، تفسیر ابن جریر، تفسیر روح المعانی، کتاب القراة للبیھقی ۔
امام احمد بن حنبلؒ : امام احمد بن حنبل ؒ نے اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ یہ آیت (واذا قرای القرآن ) نماز کے بارہ میں نازل ہوئی ۔ فتاوی ابن تیمیہ ج 2 ص 128۔
مقتدی کے لئے قرات خلف الامام نہ کرنے کا حکم
احادیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ۔
حدیث نمبر 1 : عن ابی موسی ؓ الا شعری قال (فی حدیث) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاذاکبر الامام فکبر وا واذا قرافانصتوا۔ مسلم ج1 ص 174 ۔
ترجمہ : حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ نبی علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا جب امام تکبیر کہے تم بھی تکبر کہو جب امام قرات کرے تم خاموش رہو۔
حدیث نمبر 2 : عن ابی موسیٰ الاشعریؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا قرا الامام فانصتوا واذا قال غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا آمین ۔ مسند ابی عوانہ ج 2 ص 133 مکہ المکرمہ ۔
ترجمہ: حضرت ابو موسی اشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو اور جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو۔
حدیث نمبر 3 : عن ابی ہریرہؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انما جعل الامام لیو تم بہ فاذا اکبر فکبر وا واذا قراءفانصتوا الخ۔ نسائی ج1 ص146 قدیمی کتب خانہ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا امام اس لئے مقرر کیا جاتا ہے کہ اس کی اقتداءکی جائے سو جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو جب امام قرات کرے تو تم خاموش رہو۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کا قول
وکذلک ان کان مامو ما ینصت الی قراة الامام ویفھمھا۔ غنیہ الطالبین مترجم ص 592
ترجمہ : ایسے ہی اگر نماز پڑھنے والا مقتدی ہے تو اس کو امام کی قرات کے لئے خاموش رہنا چاہئے اور قرات کو سمجھنے کی کوشش کرے ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث و آثار موجود ہیں لیکن اختصار کی وجہ سے ہم ذکر نہیں کررہے۔
مسئلہ آمین
تمام نمازوں کی ہر رکعت میں سورة الفاتحہ کے بعد آمین آہستہ کہنا سنت ہے۔
قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق اللہ تعالی کا فرمان ہے۔ قد اجیبت دعوتکما سورہ یونس آیت نمبر 89 میں نے تم دونوں کی دعا قبول کر لی حالانکہ حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبد اللہ بن عباس حضرت عکرمہ، حضرت ابوصالح، حضرت ابو العالیہ، حضرت ربیع، حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہھم وغیرہ حضرات فرماتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تھی اور ہارون علیہ السلام نے آمین کہی تھی۔ (تفسیر ابن کثیر، تفسیر الدرالمنثور)
حضرت عطاءرحمہ اللہ فرماتے ہیں: آمین دعا ہے صحیح بخاری ج ؟ ص 107۔
نیز آمین کا لغوی معنی بھی دعائیہ ہے چنانچہ المنجد میں ہے آمین اسم فعل بمعنی (اے اللہ) قبول کر، ایسا ہی ہو صفحہ 64 مکتبہ دارالاشاعت مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوا کہ آمین دعا ہے اور دعا کے متعلق حکم باری تعالی ہے ادعوا ربکم تضرعا و خفیہ۔ (سورہ اعراف آیت نمبر 55)
ترجمہ: دعا کرو اپنے رب سے عاجزی سے اور خفیہ (آہستہ) تو معلوم ہوا کہ آمین آہستہ کہنی چاہئے ۔
حدیث نمبر 1 : علقمہ بن وائل عن ابیہ انہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فلما بلغ (غیر المغضوب علیہم ولا الضالین) قال آمین و اخفی بھا صوتہ (مسند احمد ، ابو داﺅد الطیالسی ابو یعلی، الدار قطنی، والحاکم وقال صحیح الاسناد و لم یخرجاہ بحوالہ نصب الرایہ ج 1 ص 446مکتبہ حقانیہ)
ترجمہ : حضرت علقمہ ؒ اپنے باپ حضرت وائل بن حجر ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ولا الضالین پڑھا تو آمین کے وقت اپنی آواز کو پوشیدہ کیا۔ یہ حدیث صحیح ہے ۔
حدیث : عن ابی وائل قال کان عمرؓ و علیؓ لا یجھران ببسم اللہ الرحمن الرحیم ولا بالتعوذ ولا بالتامین۔ شرح المعانی الاثار للطحاوی ج 1 ص 140 ۔
ترجمہ : ابو وائل ؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہما نہ تو بسم اللہ اور اعوذ باللہ اونچی آواز سے پڑھتے تھے اور نہ ہی آمین اونچی آواز سے کہتے تھے ۔
تکبیر تحریمہ کے علاوہ رکوع و سجود میں رفع یدین نہ کرنا
حدیث : عن علقمہ عن عبد اللہ انہ قال الا اصلی بکم صلوة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فصلی فلم یرفع یدیہ الامرہ واحدة ۔ سنن نسائی ص 161 قدیمی
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کیا میں تم لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاﺅں پر انہوں نے نماز پڑھی اور صرف (شروع نماز میں ) ایک مرتبہ رفع یدین کیا۔ علامہ ابن حزم نے محلی میں اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔ المحلیٰ ص 364 اور علامہ ناصر الدین البانی غیر مقلد عالم نے بھی اس کو صحیح کہا ہے سنن نسائی بتحقیق البانی ص 183 ، 168 ۔
حدیث : عن سالم عن ابیہ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا افتتح الصلوة رفع یدیہ حتی یحاذی بھما و قال بعضھم حذو منکبیہ واذا ارادان یرکع و بعد ما یرفع راسہ من الرکوع لا یرفعھما وقال بعضھم ولا یرفع بین السجدتین ۔ مسند ابی عوانہ ج 2 ص 90 دارالباز مکة المکرمہ ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا جب آپ علیہ السلام نے نماز شروع کی تو رفع یدین کیا یہاں تک کہ بعضوں نے کہا کہ ہاتھوں کو کندھوں کے برابر لے گئے اور جب رکوع کا ارادہ کیا اور رکوع سے سر اٹھایا تو رفع یدین نہ کیا اور بعضوں نے کہا کہ آپ علیہ السلام نے سجدوں میں بھی رفع یدین نہ کیا ۔
حدیث : عن البراءبن عاذب ؓ قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رفع یدیہ حین افتتح الصلوة ثم لم یرفعھما حتی انصرف۔ سنن ابی داﺅد ج 1 ص 116 مکتبہ امدادیہ ملتان
ترجمہ : حضرت براءبن عاذب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رفع یدین کیا جب نماز شروع کی پھر نماز سے فارغ ہونے تک رفع یدین نہیں کیا۔
حدیث : عن عبد اللہ قال صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مع ابی بکر و مع عمر فلم یرفعوا یدیھم الا عند التکبیرة الاولی فی افتتاح الصلوة - سنن دار قطنی ج 1 ص 592
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور ابو بکر و عمر رضی اللہ رنھما کے ساتھ نماز پڑھی پس انہوں نے رفع یدین نہیں کیا مگر صرف شروع نماز میں ۔
رکوع
بغیر ہاتھ اٹھائے تکبیر کہہ کر رکوع کرے کیونکہ حدیث شریف میں ہے ۔
حدیث : عن ابی ہریرہ ؓ انہ کان یصلی بہم فیکبر کلما خفض و رفع فاذا انصرف قال انی لا شبھکم صلاة برسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ بخاری شریف ص 62حدیث نمبر 785مکتبہ دار السلام ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہؓ نماز ادا کرتے تو جب بھی (رکن کی ادائیگی کے لئے ) اوپر نیچے ہوتو (صرف) تکبیر کہتے جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا میری نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے مشابہ ہے ۔
رکوع میں کمر کا سیدھا کرنا
حدیث : عن ابی مسعود الانصاری ؓ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لا تجزی صلوة لا یقیم فیھا الرجل یعنی صلبہ فی الرکوع والسجود ۔ سنن ترمذی بتحقیق البانی ص 75 حدیث نمبر 265
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں وہ نماز کافی نہیں جس میں نمازی رکوع و سجود میں کمر کو سیدھا نہ کرے ۔ یہ حدیث صحیح ہے۔
رکوع کا مسنون طریقہ
رکوع میں کمر اور سر برابر ہوں ہاتھ گھٹنوں پر کہنیوں کو جسم سے نہ ملائے اطمینان سے رکوع کرے ۔
حدیث : عن سالم البراد قال اتینا عقبة بن عامر الانصاری ابا مسعود ؓ فقلنا لہ حدثنا عن صلوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فقام بین ایدینا فی المسجد فکبر فلیما رکع و ضع یدیہ علی رکبتیہ و جعل اصابعہ اسفل من ذالک و جافی بین مرفقیہ حتی استقر کل شی منہ الخ۔ سنن ابی داﺅد بتحقیق البانی ص 138 حدیث نمبر 863 یہ حدیث صحیح ہے۔
ترجمہ : سالم براد ؒ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت ابو مسعود انصاری ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان فرمائیں حضرت ابو مسعودؓ مسجد میں ہمارے سامنے کھڑے ہوگئے اور تکبیر کہی جب رکوع کیا تو ہاتھوں کو گھٹنوں پر اس طرح رکھا کہ انگلیاں گھٹنوں سے نیچے اور کہنیاں کوکھ سے فاصلے پر تھیں یہاں تک کہ ہر عضو میں ٹھہراﺅ پیدا ہوگیا۔
رکوع کی تسبیحات
حدیث : عن حذیفة ؓ انہ صلی مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فکان یقول فی رکوعہ سبحان ربی العظیم وفی سجودہ سبحان ربی الاعلی ۔ سنن ابی داﺅد بتحقیق البانی ص 139 حدیث نمبر 871 یہ حدیث صحیح ہے ۔
ترجمہ : حضرت حذیفہ ؓ نے آپ علیہ السلام کے ساتھ نماز پڑھی پس آپ علیہ السلام رکوع میں سبحان ربی العظیم پڑھتے اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلی پڑھتے۔
رکوع سے سر اٹھانا
جب رکوع سے سر اٹھاتے تو سمع اللہ لمن حمدہ پڑھتے پھر ربنا لک الحمد
حدیث : عن ابی ہریرہؓ ثم یقول سمع اللہ لمن حمدہ حین یرفع صلبہ من الرکوع ثم یقول و ھو قائم ربنا لک الحمد ۔۔۔ الخ۔ بخاری ص 62 حدیث نمبر 789 مکتبہ دارالسلام ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرؓہ سے روایت ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع سے اٹھتے ہوئے سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور کھڑے ہوکر ربنا لک الحمد پڑھتے۔
نوٹ : اگر نماز باجماعت ہے تو امام صرف سمع اللہ لمن حمدہ کہے گا اور مقتدی صرف ربنا لک الحمد ۔
حدیث : عن انس بن مالک ؓ قال (قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) واذا قال سمع اللہ لمن حمدہ فقولوا ربنا لک الحمد ۔ بخاری ص 88 حدیث نمبر 733 مکبتہ دارالسلام ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب امام سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو ۔
سجدہ : پھر تکبیر کہہ کر سجدہ میں چلا جائے لیکن پہلے گھٹنوں کو زمین پر رکھے پھر ہاتھ کو پھر چہرہ کو۔
حدیث : عن وائل بن حجر قال رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا سجد وضع رکبتیہ قبل یدیہ واذا نھض رفع یدیہ قبل رکبتیہ ۔ سنن نسائی بتحقیق البانی ص 177 حدیث نمبر 1089 یہ حدیث امام نسائی ؒ کے نزدیک صحیح ہے ۔
ترجمہ : حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا آپ علیہ السلام جب سجدہ کرتے تو پہلے گھٹنے نیچے رکھتے پھر ہاتھ اور جب اٹھتے تو پہلے ہاتھ اٹھاتے پھر گھٹنے۔
سجدہ کی تسبیحات
سجدہ میں سبحان ربی الاعلی پڑھے۔
حدیث: عن حذیفہؓ انہ صلی مع النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فکان یقول فی رکوعہ سبحان ربی العظیم وفی سجودہ سبحان ربی الاعلی ۔ سنن ابی داؤد بتحقیق البانی ص 139 حدیث نمبر 871 یہ حدیث صحیح ہے ۔
ترجمہ : حضرت حذیفہ ؓ فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام رکوع میں سبحان ربی العظیم اور سجدہ میں سبحان ربی الاعلی پڑھتے تھے ۔
سجدہ کی مسنون کیفیت
سجدہ اعتدال سے کرے کہنیوں کو زمین پر نہ بچھائے ۔
حدیث : عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتدلوا فی السجود ولا یسبط احدکم ذراعیہ انبساط الکلب۔مسلم ص 755حدیث نمبر 1102 مکتبہ دارالسلام ۔
ترجمہ : حضرت انس ؓ نبی علیہ السلام کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ سجدہ میں اعتدال کرو اور تم میں سے کوئی بھی سجدہ میں کہنیوں کو کتے کی طرح نہ بچھائے ۔
اعضائے سجدہ
سجدہ سات اعضاءپر کرے ۔
حدیث : عن ابن عباس ؓ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امرت ان اسجد علی سبعة اعظم علی الجبھة واشار بیدہ علی انفہ والیدین والرکبتین و اطراف القدمین ولا نکفت الثیاب و الشعر۔ بخاری ص 64 حدیث نمبر 812مکتبہ دارالسلام ۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ساتھ ہڈیوں پر سجدہ کروں پیشانی پر اور آپ علیہ السلام نے ناک کی طرف اشارہ کیا اور دونوں ہاتھوں پر دونوں گھٹنوں پر دونوں پاﺅں کی انگلیوں پراور ہمیں یہ بھی حکم دیا ہم نماز میں کپڑے اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔
سجدہ میں انگلیوں کو جوڑنا
حدیث : عن علقمہ بن وائل بن ابیہ ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان اذا سجد ضم اصابعہ۔مستدرک حاکم ج 1 ص 357 حدیث نمبر 936 دارالفکر۔یہ حدیث صحیح ہے
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ آپ علیہ السلام جب سجدہ کرتے تو اپنے انگلیوںکو ملا لیتے۔ سجدہ میں بازو پہلو سے جدا ہوں اور ہتھیلیاں کندھوں کے برابر ہوں ۔
حدیث : عن ابی حمید الساعدی ان النبی علیہ السلام کان اذا سجد امکن انفہ و جبھہ من الارض نحی یدیہ عن جنبیہ ووضع کفیہ حذو منکبیہ ۔ سنن ترمذی بتحقیق البانی ص 77 حدیث نمبر 270 ۔یہ حدیث صحیح ہے ۔
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب سجدہ کرتے تو ناک اور پیشانی کو خوب ٹکا کر زمین پر رکھتے اور بازو پہلو سے جدا کرتے اور ہتھیلیاں کندھوں کے برابر کرتے ۔
پھر دونوں سجدوں سے فارغ ہوکر سیدھا کھڑا ہو جائے بیٹھے مت
حدیث : عن ابی ہریرہؓ (مرفوعا فی حدیث طویل) ثم اسجد حتی تطمئن ساجد اثم ارفع حتی تستوی قائما۔ بخاری ج2 ص 986 قدیمی کتب خانہ۔
ترجمہ : حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے پھر تو (دوسرا) سجدہ اطمینان سے کر پھر (دوسرے) سجدہ سے سر اٹھا یہاں تک کہ (دوسری رکعت کے لئے ) سیدھا کھڑا ہو جا(درمیان میں بیٹھ مت) ۔
قعدہ میں بیٹھنے کا مسنون طریقہ
حدیث : عن عبداللہ بن عبد اللہ انہ اخبرہ ۔۔۔ عبد اللہ بن عمرؓ قال انما سنة الصلاة ان تنصب رجلک الیمنی و تثنی الیسری الخ۔ بخاری ص 65 حدیث نمبر 827 مکتبہ دارالسلام۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ  فرماتے ہیں کہ نما ز کی سنت یہ ہے قعدہ میں تم دائیں پاﺅں کو کھڑا کرو اور بائیں کو موڑ کر نیچے بچھا لو۔
التحیات کے مسنون الفاظ
حدیث : التحیات للہ والصلوات والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمة اللہ و برکاتہ ، السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمد عبدہ و رسولہ ۔ بخاری ص 66 حدیث نمبر 731 مکتبہ دار السلام ۔
ترجمہ : سب زبانی عبادتیں ، سب بدنی عبادتیں اور سب مالی عبادتیں صرف اللہ کے لئے ہیں اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ پر سلام ہو اللہ کی رحمت اور برکتیں ہوں کہ بندگی کے لائق صرف اللہ تعالی ہے اس کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔
نوٹ: جب اشھد ان لا الہ الا اللہ پر پہنچے تو شہادت کی انگلی سے اشارہ کرے اور بڑی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ بنائے۔
حدیث: عن عبد اللہ بن الزبیر ؓ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اذا قعد یدعو وضع یدہ ال یمنی علی فخذہ الیمنی ویدة الیسری علی فخذہ الیسری واشارباصبعہ السابہ ووضع ابھامہ علی اصبعہ الوسطی و یلقم کفہ ال یسری رکبتہ ۔ مسلم ج1 ص 216 قدیمی کتب خانہ ملتان ۔
ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب دعا کے لئے بیٹھتے تو دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر رکھتے اور اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے اور انگوٹھے کو درمیانی انگلی سے ملا لیتے ۔ اس کے بعد درودِ ابراہیمی پڑھتے۔ اللھم صل علی محمد و علی ال محمد کما صلیت علی ابراہیم و علی ال ابراہیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید۔ بخاری ج 1 ص 477 مکتبہ قدیمی کتب خانہ ۔ پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے ۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ثم یتخیر من المسئلة ماشائ۔
ترجمہ : مسلم ص 742 حدیث 897 دارالسلام پھر جو دعا چاہے مانگے۔ پھر اس کے بعد دائیں اور بائیں سلام پھیرے اور السلام علیکم ورحمة اللہ کہے ۔ مسلم ج 1 ص 216 ترمذی ج 1 ص 69 حدیث نمبر 295 ۔ پھر اگر امام ہے تو مقتدیوں کی طرف منہ کرے ۔ بخاری ص 67 حدیث 845 دارالسلام۔ اس کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگے ۔
حدیث : عن ابی بکرہ ؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال سلو اللہ ببطون اکفکم ولا تسلوہ بظھورھا۔ مجمع الزوائد ج 10 ص 194 دارالکتب العلمیہ رجالہ رجا الصحیح غیر عمار وھو ثقة۔
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم اللہ سے سوال کرو تو ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو سامنے رکھ کر سوال کرو ہاتھوں کی پشت کو سامنے نہ رکھو ۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہاتھ اٹھا کر نماز کے بعد دعا مانگتے تھے ۔ مجمع الزوائد ج 10 ص 194 ۔
وتر : تین رکعت وتر ایک سلام کے ساتھ پڑھنا واجب ہے۔
وترواجب ہے: مستدرک حاکم ج 1 ص 416دارالفکر ترمذی ص 121 بتحقیق البانی۔
وتر تین رکعات ہیں: مسلم ص 254ترمذی ص 122 ۔
وتر ایک سلام کے ساتھ جیسا کہ اہل سنت والجماعت احناف کا عمل ہے ۔ مستدرک حاکم ج 1 ص 414 دارالفکر حدیث 1168 ۔
تراویح
اہل سنت والجماعت کے نزدیک تراویح رمضان المبارک کی مخصوص نماز ہے جو کہ گیارہ ماہ نہیں پڑھی جاتی بلکہ صرف رمضان المبارک میں عشاءکی نماز کے بعد با جماعت مسجد میں ادا کی جاتی ہے اور اس میں ایک قرآن پاک ختم کیا جاتا ہے جبکہ شیعہ حضرات کے ہاں تراویح کوئی عبادت نہیں وہ تراویح کے منکر ہیں لیکن غیر مقلدین حضرات بھی تراویح کو رمضان المبارک کا تحفہ نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں کہ یہ سارا سال والی نماز ہی ہے فرق یہ ہے غیر رمضان میں ہو تو تہجد کہلاتی ہے اور رمضان میں ہوتو تراویح کہلاتی ہے گویا کہ یہ بھی تراویح کے منکر ہیں۔
تعدادِ تراویح
بیس رکعت تراویح پڑھنا آپ علیہ السلام سے اور خلفاءالراشدین سے لے کر آج تک شرقاً و غرباً مکہ و مدینہ میں پڑھنا ثابت ہے ۔
حدیث : عن ابن عباس ؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یصلی فی رمضان عشرین رکعة والوتر ۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 286۔
ترجمہ : حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں بیس رکعت (تراویح) اور وتر پڑھے ۔
حدیث: عن جابر بن عبد اللہ قال خرج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذات لیلة فی رمضان فصلی الناس اربعة و عشرین رکعة واوتر بثلاثة -تاریخ حرجان لابی قاسم ص 285 عالم الکتب۔
ترجمہ : حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ نبی پاک علیہ السلام رمضان المبارک کی ایک رات مسجد میں تشریف لائے پس آپ علیہ السلام نے صحابہ کو چوبیس رکعات (4 فرض 20 تراویح) اور تین وتر پڑھائے ۔ اس کے علاوہ حضرت عمر و علی و عبد اللہ بن مسعود و دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان سے بیس تراویح کا ثبوت ملتا ہے جبکہ آٹھ رکعت تراویح کی ابتداءکرنے والا غیر مقلد عالم محمد حسین بٹالوی ہے ملاحظہ فرمائیں غیر مقلدین کے گھر کی گواہی ”سیرة ثنائی“ ص 452نعمانی کتب خانہ لاہور مولف مولانا عبد المجید سوہدروی غیر مقلد۔
نماز عیدین
طلوع آفتاب سے کچھ بعد اور زوال سے پہلے بغیر اذان و اقامت کے چھ زائد تکبیروں کے ساتھ دو رکعات نماز با جماعت پڑھی جاتی ہے پہلی رکعت میں ثناءکے بعد تین تکبیریں زائد کہی جاتی ہیں اور ہر تکبیر میں رفع الیدین کیا جاتا ہے اورتیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لئے جاتے ہیں اور امام اونچی آواز سے قرات کرتا ہے پھر رکوع و سجود کے بعد دوسری رکعت کا آغاز قرات سے ہوگا قرات کے بعد رکوع سے پہلے تین زائد تکبیریں کہی جاتی ہیں ہر تکبیر میں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے ہیں پھر چوتھی تکبیر کے بعد رکوع اور باقی نماز مکمل کی جاتی ہے ۔
گویا کہ پہلی رکعت میں تکبیر افتتاح اور تین تکبیرات زائد ملا کر چار تکبیرات ہوئیں اور دوسری رکعت میں تکبیرات زائد و رکوع کی تکبیر ملا کر چار تکبیرات ہوئیں۔
چار تکبیرات کہنا سنت نبوی علیہ السلام ہے
حدیث : ان سعید بن العاص سال ابا موسی الاشعری ؓ و حذیفہ بن الیمان کیف کان رسول اللہ علیہ السلام یکبیر فی الاضحی والفطر فقال ابو موسی کا ن یکبرا ربعاً تکبیرہ علی الجنائز ۔ ابو داﺅد بتحقیق النسائی ص 179 ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
ترجمہ : حضرت سعید بن العاص نے حضرت ابو موسی اشعری ؓ اور حضرت حذیفہ بن یمان ؓ سے پوچھا آپ علیہ السلام عیدین میں کتنی تکبیریں کہتے تھے حضرت ابو موسیؓ نے بتایا کہ آپ علیہ السلام چار تکبیریں کہتے تھے ۔
نوٹ: اگر عید جمعہ کے دن ہوتو جمعہ ساقط نہیں ہوتا بلکہ فرض ہی رہتا ہے لہذا اس دن جمعہ و عید دونوں پڑھی جائیں گی ۔
نماز جنازہ
نماز جنازہ کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ چار تکبیرات کہی جائیں پہلی تکبیر کے بعد ثناءدوسری تکبیر کے بعد درود شریف اور تیسری تکبیر کے بعد دعا چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دیا جائے ۔
چار تکبیرات
حدیث : عن ابی ہریرہ ؓ قال نصی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی اصحابہ النجاشی ثم تقدم فصفوا خلفہ فکبر اربعاً ۔ بخاری ج1 ص 176 قدیمی کتب خانہ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو نجاشی کی وفات کی خبر دی پھر آپ علیہ السلام آگے ہوئے حضرات صحابہ نے آپ کے پیچھے صف بندی کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار تکبیریں کہیں۔
ثناءو درود و دعائ: عن سعید بن ابی سعید المقبری عن ابیہ انہ سال ابا ہریرہ ؓ کیف تصلی عن الجنازہ فقال ابو ہریرہؓ انا لعمرک اخبرک اتبعھا من اھلھا فاذا وضعت کبرت و حمدت اللہ وصلیت علی نبیہ ثم اقول اللھم عبدک ۔ الخ۔ موطا امام مالک ص 209۔
ترجمہ : حضرت سعید ؒ کے والد نے حضرت ابو ہریرہؓ سے پوچھا آپ جنازہ کیسے پڑھتے ہیں تو آپ ؓ نے فرمایا بخدا میں تم کو بتاتا ہوں میں میت کے گھر سے اس کے ساتھ چلوںگا جب جنازہ رکھ دیا جائے تو میں ثناءاور درود شریف نبی علیہ السلام پر اور یہ دعا پڑھونگا اللھم الخ۔ تو معلوم ہوا کہ پہلی تکبیر کے بعد ثناءدوسری تکبیر کے بعد درود اور تیسری تکبیر کے بعد دعا پڑھنی چاہئے ۔
مسنون دعا
اللھم اغفر لحینا و میتنا و شاھدنا و غائبنا وصغیرنا و کبیرنا و ذکرنا و انثانا اللھم من احییتہ منا فاحیہ علی الاسلام ومن توفیتہ منا فتوفہ علی الایمان۔ترمذی ص 243 بتحقیق البانی حدیث 1024 یہ حدیث صحیح ہے ۔
نماز جنازہ میں رفع الیدین نہ کرنا
حدیث : عن ابن عباسؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کان یرفع یدیہ علی الجنازہ فی اول تکبیرة ثم لایعود۔ سنن دار قطنی ج 2 ص 75 احیاءالتراث بیروت۔
ترجمہ : حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز جنازہ کی پہلی تکبیر کے ساتھ ہاتھ اٹھاتے دوبارہ ہاتھ نہ اٹھاتے ۔
تنبیہ: آج کل بعض لوگ جو شہید کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھتے ہیں اس کی کوئی صریح دلیل موجود نہیں باقی نجاشی والی حدیث سے استدلال درست نہیں جیسا کہ ابن تیمیہ ؒ نے فرمایا ہے۔
زادالمعیاد ج1 ص 520نیز غیر مقلد عالم اس حقیقت کا یوں اعتراف کرتا ہے ”غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے پر نجاشی کے قصہ سے دلیل لی جاتی ہے یہ قصہ صحیح بخاری (1333,1327,1320,1318,1245) اور صحیح مسلم (901)میں موجود ہے مگر اس سے غائبانہ نماز جنازہ پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے “نماز نبوی از ڈاکٹر شفیق الرحمان ص 296 مکتبہ دارالسلام۔
خاتمة الکتاب: اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اللہ رب العزت نے اس کتاب کو لکھنے کی توفیق عطا فرمائی اب اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کتاب کو شرف قبولیت عطاءفرمائے اور میرے لئے اور والدین اور گھر والوں اور تمام دوست احباب خصوصاً پیر طریقت رہبر شریعت مولانا قاری علیم الدین شاکر دامت برکاتہم العالیہ خلیفہ مجاز حضرت سید نفیس الحسینی شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ و محمد ہارون حنفی و راشد حنفی و عزیز دوست مولانا فرقان صاحب اور جملہ احباب و قارئین و مسلمین کے لئے ذریعہ نجات و ہدایت کا سامان بنائے ۔ آمین ۔
واٹس ایپ گروپ احناف میڈیا سروس
+923238887667

No comments:

Post a Comment