Wednesday 20 June 2018

ترکی میں اصلاح پسندوں کے کارنامے

ترکی میں اصلاح پسندوں کے کارنامے
میں جب ترکی گیا تووہاں کی اصلاحی تحریک پرت در پرت کھلنا شروع ہوئی۔ترکی میں جہاں اعلی سطح کے عہدے داراں سے ملاقات ہوئی وہیں پر ہمیں عام لوگوں، شہریوں اور ائمہ سے ملاقات کا موقع ملا۔ رفتہ رفتہ وہاں پر جاری اصلاحی کاموں کا علم ہونے لگا۔ ہمیں پتہ چلا کہ وہاں پر عوامی آگہی اور شعور کا آغاز اصلاح و ارشاد سے تعلق رکھنے والے طبقہ سے ہواہے۔ تصوف و سلوک نے دنیائے اسلام کو دو بڑے طوفانوں میں سنبھالا دیا ہے۔ پہلا اس وقت جب تاتاری یلغار نے عالم اسلام کے حصے بخرے کردیئے، دوسرا اس وقت جب مصطفی کمال کے فاشزم نے ترکی کو بے راہ روی، بے دینی اور آوارگی کا مرکز بنادیا تھا۔
مصطفی کمال کی مجہول الحال شخصیت کو اتاترک کا لقب ان  شرائط کی بنیاد پر ملا تھا:
*اسلامی شعائر کا خاتمہ
*اسلامی قانون کا خاتمہ
*ترکی معدنی ذخائر نہ نکال سکے
*اور نہ بحری ٹیکس لے سکے۔
مصطفی کمال کے دور میں اتنا جبر تھا کہ 40 سال قبل وہاں تعلیم کے لئے جانے والے ایک ڈاکٹر صاحب نے بتایا: وہاں کوئی نماز پڑھتا نظر آجاتا تو سیکولر حضرات ایکشن میں آجاتے۔ میں نے نماز پڑھنا چاہی تو دوستوں نے مشورہ دیا کہ اپنے ساتھ ایک تولیہ رکھو۔ حمام میں جاکر وضو کرو، پھر وہیں چھپ کر نماز پڑھ لو۔ اس لئے کہ ترک حمام خوبصورتی، صفائی اور تعمیراتی حسن کا شاہکار ہوتے ہیں۔ اس دور میں اگر کسی شخص کی جیب سے اسلامی سال کی جنتری نکل آتی تو اسے جیل ہوجاتی تھی۔خلافت عثمانیہ کے دور میں شیخ، خطیب، واعظ، عالم، مفتی، قاضی، یہ چھ تعلیمی ڈگریاں تھیں۔مصطفی کمال نے یہ ساری ڈگریاں ختم کردیں۔
اس دور میں لوگوں نے ایمان کی شمع روشن کئے رکھی۔ مسلمانوں نے بظاہر شراب خانہ نظر آنے والی جگہوں میں دین پڑھانے کے حلقے جمائے رکھے۔ رات دو سے صبح 6 بجے تک وہاں قرآن کی کلاس لگتی۔ ٹرینوں میں کیبن بک کرواتے، ایک اسٹیشن سے دوسرے تک کا ٹکٹ لیتے۔دروازہ بند کرکے اس میں پڑھنا پڑھانا جاری رکھتے۔ کھیتوں میں قرآن کی درس گاہیں جمتیں۔ دنیا کو اعتدال، نرمی اور محبت کا درس دینے والے ان سیکولرز کے جبر سے بچنے کے لئے تہہ خانوں میں قرآن کی کلاسیں ہوتیں۔
*شیخ محمود آفندی وہاں کے بہت بڑے اور مشہور نقشبندی شیخ ہیں۔ انہوں نے 18 سال تک لوگوں کو بلایا مگر انہیں ایک نمازی نہ ملا۔ 18 سال بعد موسی امجا نامی شخص نے اپنے بچے پڑھانے کے لیے بھیجے۔آج ان کے پورے ترکی میں 300 مکاتب و مدارس ہیں۔
تاتاریوں کے بعد تاریخِ اسلام میں دوسری باراسلام کی نشاۃ ثانیہ صوفیا نے کی جنہوں نے صنم خانوں میں کعبے کے پاسبان تیار کئے۔ ہماری تحقیق کے مطابق اس معرکہ ایمان و مادیت کے سرخیل سکندر پاشا مسجد کے امام شیخ زاہد کوتکو رحمہ اللہ تھے۔ انہوں نے مسجد کے سامنے چائے خانہ میں نوجوانوں پر محنت شروع کی۔ مسجد میں کوئی تعلیم و تبلیغ کرنے نہیں دیتا تھا۔ انہوں نے مشغلہ بنایا کہ چائے خانہ میں جاکر بیٹھ جاتے، ذہین لڑکوں کو چائے پلاتے۔ ان پر محنت کرتے اور دین کی تعلیم کے لئے تیار کرلیتے۔ اسی کوشش میں ان کے ہاتھ ایک ہیرا لگا۔ ان کا یہ شاگرد ایک انجینئر تھا۔ یہ شاگرد پڑھنے لگا تو جرمنی سے اعلی تعلیم حاصل کرلی۔ پھر ملک آیا تو ترکی کو  ٹینک کے لئے ایسی موٹر تیار کر کے دی جوسخت ترین سردی میں بھی انجن کو گرم رکھتی تھی۔ سیاست میں قدم رکھا تو ملک کا وزیر اعظم بن گیا۔ اس شاگرد کا نام نجم الدین اربکان تھا۔* اربکان نے اپنی زندگی میں متعددشاگرد تیار کیے۔ سیاسی شاگرد طیب اردگان کہلایا، رفاہی میدان میں بلند یلدرم وغیرہ۔
ترکی میں ہم نے اصلاح احوال کی دو محنتیں دیکھی ہیں۔
ایک باقاعدہ اور دوسری بے قاعدہ۔
*باقاعدہ محنتیں:
*حکمت و بصیرت:
نجم الدین اربکان نے مختلف ناموں سے سیاسی جماعت بنائی مگر ہر بار سیکولر فوج نے کسی نہ کسی بہانے سے ان پر پابندی لگادی۔ طیب اردگان یہ سارا تماشا دیکھ رہے تھے کہ پہلے سعادت پارٹی پر پابندی، پھر فضیلت پارٹی پر پابندی، پھر ملت پارٹی بھی بین ہوگئی۔ طیب اردگان نے کہا ہم جتنے بھی نام رکھ لیں، ہر نام پر پابندی لگے گی۔اردگان نے کہا کہ ہمیں کوئی بھی ایسا نام نہیں رکھنا چاہے جس پر کوئی شک کرسکے۔ اس لئے انصاف اور ترقی پارٹی نام رکھنا چاہیے۔ استاد کے سامنے یہ تجویز پیش کی تو اربکان نے اپنے ہونہار شاگرد سے کہا: ''تم یہ نام ضرور رکھو، مگر مجھ سے اور میری چھاپ سے الگ ہو جاؤ''۔اس طرح بظاہر اردگان اور اربکان کے راستے جدا جدا ہوگئے مگر دونوں دراصل ایک ہی منزل کے مسافر تھے۔
*انفاق فی سبیل اللّٰه:
ترکوں کی نمایاں ترین صفت اللّٰه کے راستے میں بے دریغ خرچ کرنا بھی ہے۔ پاکستان میں زلزلہ آیا تو سب سے پہلے وہ پہنچے، میکسیکو میں تباہی ہوئی تو وہاں بھی ترک ہی سب سے پہلے پہنچے۔ وہاں ہم نے محسوس کیا کہ ترک لوگ اپنی اضافی دولت خیرات کرتے ہیں۔ ان کا وژن ہے:
إن فی مالک حقا سوی الزکوۃ۔
اسی طرح
یسئلونک ما ذا یُنفقون، قل العفو۔
*عوامی خدمت:
طیب اردگان نے 12 سال میں تمام قرض اتار دیے۔ بغیر قرض کے دنیا کے 3 بڑے منصوبے بنا رہے ہیں۔دنیا کا سب سے بڑاائرپورٹ،دوسمندروں کو ملانے والی دنیا کی تیسری مصنوعی نہر"باسفورس کینال"اور خلیج باسفورس پر ایک اور بڑا پل۔
*ہاسٹلز:
انہوں نے یونیورسٹیوں کے قریب ہاسٹل بنائے۔ وہاں پر انتہائی واجبی فیس کے عوض بہترین رہائش فراہم کی ہے۔ یہاں آنے والے بچوں پر کوئی پابندی نہیں۔ صرف ایک یہ پابندی کہ رات دس بجے کے بعد باہر نہیں جانا ۔ دن میں دو بار ''کلیات النور'' سید الزمان نورسی کی تعلیم سنیں۔
*مولوی خانے:
ایک اہم کام مولوی خانے کا بھی ہے۔ یہ کہنے کو قدیم خانقاہیں ہیں مگر اس بلڈنگ میں خطاطی اور تزیین کاری سکھائی جاتی ہے۔ ایک کمرے میں درسِ قرآن اور دوسرے میں درس حدیث ہوتا ہے۔
*باب العالم:
انہوں نے باب العالم کے نام سے متعدد ادارے بنائے۔ ان اداروں میں دنیا بھر سے تعلیم کے لئے آنے والے طلبہ کو ہر قسم کی سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ ان طلبہ کو ایئرپورٹ سے لے کر واپس ایئرپورٹ چھوڑنے تک اعزاز و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔ ترک کہتے ہیں کہ یہ طلبہ دنیا بھر میں ہمارے سفیر ہیں۔ نیز اللّٰه کا فرمان ہے کہ:
ان ھذہ امّتکم امّۃ واحدۃ۔
*ٹیوشن سینٹرز:
ایک اہم ادارہ ٹیوشن سینٹرز بھی ہیں۔ نوجوان ایک محلے میں جائے گا اور محلے والوں سے کہے گا کہ میں شام کو فارغ ہوتا ہوں، آپ کسی گھر کی بیٹھک دیدو، وہاں محلے بھر کے بچوں کو مفت میں پڑھاؤں گا۔ اس طرح وہ محلے بھر کے بچوں کو مفت تعلیم دیتا ہے، ساتھ ہی ساتھ اصلاح و تجدید کی تحریک کا کارکن بھی بناتا ہے۔
ان باقاعدہ کاموں کا اتنا منظم نیٹ ورک ہے کہ پچھلے 20 سال میں انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور صحافت کے میدان میں جو بھی گیا، وہ کسی نہ کسی طرح ان اداروں سے وابستہ رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب طیب اردگان کے خلاف بغاوت ہوئی تو انہی طلبہ اور عوام نے اسے اللّٰه کی مدد سے کچل دیا۔
*کچھ بے قاعدہ اور غیر منظم کام:
اس کے ساتھ ساتھ ترکی میں اصلاح کی اس تحریک کے کچھ غیر منظم اور بے قاعدہ کام بھی ہیں۔
*چاند کی روشنی:
چاند کی روشنی نامی کلب عوام کے لئے کھلا ہوا ہے۔ اس میں ایک طرف بڑا ہال ہے، دوسری طرف چائے خانہ۔ تیسری طرف کرسیاں لگی ہیں، اور اس کے ساتھ نوجوانوں کو میچ دکھانے کے لئے ٹی وی بھی موجود ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے جم موجود ہے۔ کراٹے سکھانے کا بندوبست بھی ہے۔ اگر آپ کو لیکچر سننا ہے تو فلاں ہال میں چلے جائیں۔ اگر آپ کو ٹیوشن پڑھنی ہے تو فلاں ہال میں چلے جائیں۔ اس کے علاوہ گپ شپ کے لئے فلاں ہال میں چلے جائیں۔
*تاج اور تلوار:
شام ڈھلتے ہی ایک ادھیڑ عمر شخص سڑک پر آجاتا ہے جو بچوں کو غبارے سےتاج اور تلوار بنا کردیتا ہے۔ اس سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ میں ترک بلدیہ میں اعلی افسر ہوں۔ شام کو تاج اور تلوار اس لئے تیار کرتا ہوں تاکہ بچوں کو بتاؤں کہ تم نے تلوار چھوڑدی، اسی لئے تم سے تاج چھین لیا گیا۔
*نماز کا انعام:
وہاں پر بچوں کو ترغیب دینے کے لئے نماز کی ادائیگی پر سائیکل کا انعام دینے کی مہم بھی بہت کامیاب رہی۔اسی لئے وہاں فجر کی نماز میں بھی اتنے ہی نمازی دکھائی دیتے ہیں، جتنے جمعہ کی نماز میں ہوتے ہیں۔
*تعلیم یا کوچ
ترکی میں خیرات مانگنا ممنوع ہے۔ ترکی کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ہر چھوٹے بڑے کام میں مقامی افراد ہیں۔ ترکی ھر کام اپنے ھاتھ سے کرتے ھیں۔ مگر مہاجرین شام کی آمد کے بعد وہاں گداگری کا مسئلہ شروع ہوا۔ اس کو حل کرنے کے لئے انہوں نے ''جمعیت الماجرین والانصار'' بنائی ہے۔ جب کوئی شامی مہاجر خیرات مانگتا ہوا گرفتار ہوتا ہے تو اسے پکڑ کر جمعیت المہاجرین والانصار میں لے آتے ہیں۔ انہیں ترکی زبان سکھاتے ہیں اور تعلیم دیتے ہیں۔ اسے بتادیتے ہیں کہ تعلیم حاصل کرو،اگر دوبارہ گداگری کی تو واپس شام بھیج دیں گے۔
*انکار حدیث کا مسئلہ:
پاکستانی متجدد ڈاکٹر فضل الرحمن کے شاگردوں نے وہاں انکار حدیث کا فتنہ کھڑا کیا تو انہوں نے اس کو حل کرنے کے لئے منصوبہ بندی کی۔ علاج یہ تجویز کیا کہ اس وقت دنیا بھر میں حدیث کے سب سے بڑے ماہر شیخ محمد عوامہ حفظہ اللّٰه ہیں۔ ترکی عوام کی اکثریت حنفی، ماتریدی اور صوفی ہے۔ حکومت نے اپنے عوام کی رھنمائی کے لئے حضرت الشیخ کو سعودی عرب سے مستقل ترکی میں بلایا۔ تمام منکرین حدیث پر لازم کیا کہ حدیث پر جو بھی اعتراض ہو وہ شیخ سے جاکر پوچھو۔عوام کے دل میں وسوسہ ڈالنے کی تمہیں اجازت نہیں۔
*سگریٹ کی ڈبیا:
ترکی میں ہر دوسرا نوجوان سگریٹ کا عادی دکھائی دیتا ہے۔ اس لت کو ختم کرنے کے لئے اردگان نے یہ حکمت عملی اپنائی کہ جب بھی کوئی سگریٹ نوش اسے ملتا ہے تو اس سے سگریٹ کی ڈبیہ لے کر پہلے اسے ڈسٹ بن میں خالی کردیتا ہے۔ پھر اسی ڈبیا پر دستخط کردیتا ہے کہ آئندہ کے بعد سگریٹ نہیں پینا۔ اس کے بعد اس شخص کو صدر کے دفتر سے فون آتا ہے کہ اگر آپ نے سگریٹ چھوڑ دی ہے تو اعزازی تقریب میں آجائیں۔ اگر کوشش کے باوجود نہیں چھوڑ سکے تو ہم آپ کو نفسیاتی تربیت دینے کے لئے تیار ہیں۔
*وقف الامۃ:
وقف الامۃ کے نام سے 4 منزلہ عمارت فلسطینیوں کو دی ہے۔صرف اس لئے کہ تعلیم یافتہ فلسطینی یہاں آ کر مشورہ کریں کہ کس طرح القدس کو اسرائیلی غاصبین سے چھڑوانا ہے۔ استنبول میں دو فائیو اسٹار ہوٹلوں کی آمدنی کو اسی وقف الامہ کے اخراجات کے لئے وقف کردیا گیا ہے تاکہ اخراجات کا مسئلہ نہ ہو۔
*یتیموں سے سلوک:
ترک حضرات یتیم بچوں سے بہترین سلوک
کرتے ہیں۔ایسے دار الیتامی تعمیر کئے ہیں کہ ان کے سامنے بحریہ ٹاؤن کچھ بھی نہیں ہے۔آئی ایچ ایچ دنیا بھر میں ایک لاکھ، 30 ہزار یتیم بچوں کی  کفالت کر رہی ھے۔ ترک بچوں کو اتنی سہولیات دستیاب نہیں، جتنی ان یتیم بچوں کو سہولیات دی گئی ہیں۔
*کرنے کا کام:
ترکی سیکولر دور میں اسمگلنگ، منشیات، دھوکا دہی اور گندگی کا ڈھیر تھا۔ اس کے باوجود اللّٰه کا نام لے کر اٹھنے والے چند لوگوں نے ترکی کا نقشہ ہی بدل کے رکھ دیا ہے۔ *ہم بھی اگر اس ملک کو سنوارنے کی کوشش کریں تو نجانے کتنے طیب اردگان ہماری صفوں میں سے نکل آئیں۔
تحریر: مفتی ابولبابہ شاہ منصور
پسند آئے تو شیئر کرنا نہ بھولیں
آئیں ہم بھی خود کو بدلیں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں

No comments:

Post a Comment