Sunday 17 June 2018

مکروہات نماز

مکروہات نماز 
1. اوّل مکروہِ تحریمی، یہ واجب کے بالمقابل ہے اور حرام کے قریب ہے، 
2. دوم مکروہِ تنزیہی، یہ سنت اور مستحب و اولیٰ کے بالمقابل ہے 
پس مکروہات کا علم واجبات و سنن و مستحبات کے علم سے بآسانی ہو سکتا ہے یہاں بغرض وضاحت درج کئے جاتے ہیں:
١.سدل (کپڑے کو لٹکانا) یعنی کپڑے کو بغیر پہنے ہوئے سر یا مونڈھے پر اس طرح ڈالنا کہ دونوں سرے لٹکے رہیں کپڑے کو اہلِ تہذیب اور عام عادات کے خلاف استعمال کرنا بھی سدل میں داخل ہے مثلاً چوغہ یا شیروانی یا کرتے کی آستینوں میں ہاتھ نہ ڈالے اور پہنے بغیر ہی اپنے مونڈھوں و پیٹھ پر ڈال لے یا چادر یا کمبل اس طرح اوڑھے کہ اس کے دونوں سرے لٹکے رہیں، اگر اس کا ایک سرا دوسرے کندھے پر ڈال لے یا اور دوسرا سرا لٹکتا رہے تو مکروہ نہیں
٢.چادر یا کسی اور کپڑے میں اس طرح لپٹ جانا کہ کوئی جانب ایسی نہ رہے جس سے ہاتھ باہر نکل سکیں ، نماز کے علاوہ بھی بلا ضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے اور خطرے کی جگہ سخت مکروہ ہے
٣. آستین کہنیوں تک چڑھاکر یا دامن چڑھا کر نماز پڑھنا یعنی اگر وضو وغیرہ کے لئے آستین چڑھائی تھی اور اسی طرح نماز پڑھنے لگا تو مکروہ ہے، اور اس کے لئے افضل یہ ہے کہ نماز کے اندر عمل قلیل سے آستین اتار لے کسی نے نماز کے اندر آستین چڑھائی، اگر کہنیوں تک چڑھائی تو عملِ کثیر ہوجانے کی وجہ سے نماز ٹوٹ جائے گی اور اس سے کم ہو تو نماز نہیں ٹوٹے گی مگر مکروہ ہے، ایسی قمیض یا کرتہ وغیرہ پہن کر نماز پڑھنا جس کی آستین اتنی چھوٹی ہو کہ کہنیوں تک ہاتھ ننگے رہیں مکروہِ تحریمی ہے
٤. کرتہ ہوتے ہوئے صرف تہبند یا پاجامہ پہن کر نماز پڑھنا
٥. صافہ یا ٹوپی ہوتے ہوئے بلا عذر سستی یا بے پروائی کی وجہ سے ننگے سر نماز پڑھنا
٦. صافہ یا رومال سر پر اس طرح باندھنا کہ درمیان میں سے سر کھلا رہے، یہ نماز کے علاوہ بھی مکروہ ہے
٧. جنگ کے علاوہ خود و زرہ پہن کر نماز پڑھنا
٨. کپڑے کو اس طرح پہننا کہ اس کو داہنی بغل کے نیچے سے لیکر اس کے دونوں کنارے بائیں کندھے پر ڈال لے اس کو اضطباع کہتے ہیں جو احرام کی حالت میں طوافِ عمرہ و طوافِ حج کے لئے کرتے ہیں نماز میں اس طرح کرنا مکروہ ہے
٩. ایسے معمولی یا میلے کچیلے کپڑوں میں نماز پڑھنا جن کو پہن کر وہ دوسرے بڑے لوگوں کے پاس مجمع میں نہ جائے، اگر اس کے پاس اور کپڑے ہوں تو مکروہِ تنزیہی ہے اگر اور کپڑے نہ ہوں تو مکروہ نہیں
١٠. نماز میں ناک اور منھ ڈھانپ لینا یعنی ڈھاٹا باندھ لینا
١١. نماز میں اپنے کپڑے یا ڈاڑھی یا بدن سے کھیلنا یا سجدہ میں جاتے وقت کپڑوں کو سمیٹنا (اوپر اٹھانا) خواہ عادت کے طور پر ہو یا مٹی سے بچانے کے لئے
١٢. نماز میں ٹوپی یا کرتے کا اتارنا یا پہننا یا موزہ نکالنا اگر عمل قلیل سے ہو تو بلاضرورت مکروہ ہے اور اگر ضرورت ہو تو مکروہ نہیں مثلاً نماز میں ٹوپی یا صافہ وغیرہ گر پڑا تو اٹھاکر سر پر رکھ لینا افضل ہے جبکہ عمل کثیر کی ضرورت نہ پڑے
١٣. عمامے کے پیچ پر جو کہ پیشانی پر واقع ہو بلا عذر سجدہ کرنا مکروہِ تنزیہی ہے اور اگر عذر ہو مثلًا گرمی یا سردی سے بچاؤ کے لئے ہو تو مکروہ نہیں اور اگر پیچ اتنا موٹا اور ملائم ہے کہ اس کے نیچے زمین کی سختی معلوم نہیں ہوتی تو ہرگز نماز جائز نہیں اور اگر عمامے کے اس پیچ پر سجدہ کیا جو پیشانی پر نہیں ہے یعنی صرف سر کے پیچ پر سجدہ کیا اور پیشانی زمین پر نہ لگی تب بھی نماز جائز نہیں ہے
١٤. صرف پیشانی پر سجدہ کرنا اور ناک نہ لگانا بلاعذر مکروہ ہے عذر کے ساتھ مکروہ نہیں
١٥. بلاعذر اپنی آستین بچھاکر اس پر سجدہ کرنا، اگر اس لئے ہو کہ چہرے کو خاک نہ لگے تو مکروہِ تنزیہی ہے اور تکبر کی وجہ سے ہو تو مکروہِ تحریمی ہے اور اگر عذر ہو مثلاً گرمی یا سردی سے بچنے کے لئے ہو تو مکروہ نہیں
١٦. سجدہ میں پائوں کو ڈھانپنا
١٧. اسبال یعنی کپڑے کو عادت کی حد سے زیادہ بڑا رکھنا مکروہِ تحریمی ہے، دامن اور پائنچہ میں اسبال یہ ہے کہ ٹخنوں سےنیچے ہو اور آستینوں میں انگلیوں سے آگے بڑھا ہوا ہو اور عمامہ میں یہ ہے کہ بیٹھنے میں دبے
١٨. ایسے کپڑے کو پہن کر نماز پڑھنا جس میں نجاست بقدرِ معافی ہو یعنی جبکہ نجاستِ غلیظہ ایک درہم سے زیادہ نہ ہو اور نجاست خفیفہ چوتھائی حصہ سے زیادہ نہ ہو
١٩. نماز میں سجدہ کی جگہ سے کنکریوں کا ہٹانا لیکن اگر سجدہ کرنا مشکل ہو تو ایک مرتبہ ہٹانے میں مضائقہ نہیں
٢٠. ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈالنا یا انگلیاں چٹخانا
٢١. بالوں کو سر پر جمع کر کے چٹلا (جوڑا) باندھ کر نماز پڑھنا یا عورتوں کی طرح مینڈھیاں گوندھ کر سر کے گرد باندھ لینا وغیرہ، اگر نماز کے اندر بالوں کا جوڑا باندھےگا تو عمل کثیر کی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے گی
٢٢. نماز میں کولہے یا کوکھ یا کمر وغیرہ پر اپنا ہاتھ رکھنا
٢٣. دائیں بائیں اس طرح دیکھنا کہ تمام یا کچھ منھ قبلے کی طرف سے پھر جائے مکروہِ تحریمی ہے جبکہ سینہ نہ پھرے لیکن اگر اتنی دیر تک منھ پھیرے رہا کہ دور سے دیکھنے والا سمجھے کہ یہ شخص نماز میں نہیں تو نماز فاسد ہوجائے گی، بلا منھ پھیرے گوشئہ چشم سے دیکھنا بلا ضرورت ہو تو مکروہِ تنزیہی ہے اور اگر ضرورت ہو بلا کراہت مباح ہے
٢٤. نماز میں آسمان کی طرف نظر اٹھانا
٢٥. نماز میں قصداً جمائی لینا مکروہِ تحریمی ہے اور خود آئے تو حرج نہیں مگر روکنا مستحب ہے اور جمائی روک سکنے کی حالت میں نہ روکنا مکروہِ تنزیہی ہے
٢٦. نماز میں انگڑائی لینا یعنی سستی اتارنا مکروہِ تنزیہی ہے
٢٧. آنکھوں کا بند کرنا مکروہِ تنزیہی ہے لیکن اگر نماز میں دل لگنے کے لئے ہو تو مکروہ نہیں لیکن پھر بھی تمام نماز میں بند نہ رکھے
٢٨. پیشاب یا پاخانہ یا دونوں کی حاجت ہونے کی حالت میں یا غلبہ ریح کے وقت نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے نماز کی حالت میں ان کا غلبہ ہو تب بھی نماز پڑھتے رہنا مکروہِ تحریمی ہے اس لئے وہ نماز کو توڑ دے اور بعد فراغت وضو کر کے نئے سرے سے پڑھے ورنہ گناہگار ہو گا اور نماز کا اعادہ کرنا واجب ہو گا خواہ وہ نماز فرض و واجب ہو یا سنت و نفل
٢٩. نماز میں دامن یا آستین سے اپنے آپ کو ہوا کرنا اور اگر عمل کثیر ہو گیا یعنی تین بار ہو گیا تو نماز فاسد ہو جائے گی پنکہا جھلنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے
٠٣.نماز میں قصداً کھانسنا اور کھنکارنا
٣١. نماز میں تھوکنا اور سنکنا
٣٢. نماز میں تشہد اور دونوں سجدوں کے درمیان کتے کی طرح بیٹھنا یعنی رانیں کھڑی کرکے بیٹھنا اور رانوں کو پیٹ سے اور گھٹنوں کو سینے سے ملا لینا اور ہاتھوں کو زمین پر رکھ لینا
٣٣.نماز میں بلا عذر چار زانو (آلتی پالتی مار کر) بیٹھنا مکروہِ تنزیہی ہے
٣٤. مردوں کا سجدے کی حالت میں دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک زمین پر بچھادینا
٣٥. ہاتھ یا سر کے اشارہ سے سلام کا جواب دینا مکروہِ تنزیہی ہے
٣٦. کسی ایسے آدمی کی طرف نماز پڑھنا جو نمازی کی طرف منھ کئے ہوئے بیٹھا ہو جبکہ درمیان میں کوئی حائل نہ ہو اور اس طرح نماز پڑھنے والے کی طرف منھ کرکے بیٹھنا بھی مکروہ ہے، پس اگر کسی کے منھ کی طرف نماز پڑھنا نمازی کے فعل سے ہے تو کراہت نمازی پر ہے ورنہ اس شخص پر جس نے نمازی کی طرف منھ کیا
٣٧. کسی بیٹھے یا کھڑے ہوئے شخص کی پیٹھ کی طرف یا سوئے ہوئے شخص کی طرف نماز پڑھنا مکروہ نہیں لیکن اس سے بچنا بہتر ہے
٣٨. منھ میں روپیہ یا پیسہ یا کوئی اور چیز رکھ کر نماز پڑھنا جس کی وجہ سے قرآت کرنے میں رکاوٹ نہ ہو مکروہِ تنزیہی ہے اور اگر اس سے قرآت میں رکاوٹ ہو یا حروف و الفاظ صحیح ادا نہ ہو سکیں تو نماز فاسد ہو جائے گی
٣٩. نماز کے اندر آیتیں یا سورتیں یا تسبیحیں انگلیوں پر یا تسبیح ہاتھ میں لے کر شمار کرنا مکروہِ تنزیہی ہے خواہ نماز نفل ہی ہو
٤٠. ایسی جگہ نماز پڑھنا کہ نمازی کے سر کے اوپر چھت وغیرہ میں یا اس کے سامنے یا دائیں یا بائیں یا پیچھے یا سجدے کی جگہ کسی جاندار کی تصویر ہو خواہ وہ تصویر لٹکی ہوئی ہو یا گڑی ہوئی ہو یا دیوار یا پردے وغیرہ پر منقوش ہو، سامنے ہونے میں سب سے زیادہ کراہت ہے پھر سر پر ہونے میں پھر داہنی طرف میں پھر بائیں طرف میں پھر پیچھے ہونے میں ایسا کپڑا پہن کر نماز پڑھنا جس پر کسی جاندار کی تصویر ہو، نماز کو علاوہ بھی اس کا پہننا مکروہ ہے
٤١. تنور یا بھٹی جس میں آگ جل رہی ہو یا کوئی اور چیز جس کو کافر پوجتے ہوں نمازی کے سامنے ہونا، لیکن چراغ یا قندیل یا موم بتی کا سامنے ہونا مکروہ نہیں ہے
٤٢. اگر نمازی کے سامنے یا سر کے اوپر قرآن مجید یا تلوار یا کوئی اور ایسی چیز ہو جس کی پوجا نہیں کی جاتی تو کراہت نہیں
٤٣. امام کا محراب کے اندر اکیلا کھڑا ہونا جبکہ دونوں قدم بھی اندر ہوں، اگر دونوں قدم باہر ہوں تو مکروہ نہیں، اسی طرح اگر امام کے ساتھ محراب کے اندر مقتدی بھی ہوں تو مکروہ نہیں
٤٤. امام کو دروازوں اور ستونوں کے درمیان کی جگہ میں اکیلا کھڑا ہونا اور امام کو بلا ضرورت محراب یعنی وسطِ صف سے ہٹ کر کھڑا ہونا
٤٥. امام کا ایک ہاتھ اونچی جگہ پر اکیلا کھڑا ہونا، اگر اس کے ساتھ کچھ مقتدی بھی ہوں تو مکروہ نہیں اور ایک ہاتھ سے کم بلندی ہو تو اس پر امام کا اکیلا کھڑا ہونا مکروہِ تنزیہی ہے، اسی طرح اس کے برعکس اکیلے امام کا نیچے کھڑا ہونا اور مقتدیوں کا بلندی پر کھڑا ہونا مکروہ ہے لیکن یہ کراہتِ تنزیہی ہے کیونکہ اس کی نہی حدیث شریف میں وارد نہیں ہے
٤٦. مقتدی کا بلاعذر اکیلا بلند جگہ پر کھڑا ہونا اور مقتدی کا ایسی صف کی پیچھے اکیلا کھڑا ہونا جس میں خالی جگہ ہو
٤٧. تنہا یعنی جماعت کے بغیر نماز پڑھنے والے کو جماعت کی صفوں کے درمیاں میں کھڑا ہونا
.........
نماز کے مکروہ اوقات کی تفصیل
فجر کی دو رکعت سنت طلوع آفتاب  سے پہلے
پانچ اوقات نماز کے لئے مکروہ قرار دیئے گئے ہیں۔ تین اوقات کی کراہت ایک حدیث سے اور دو کی ایک حدیث سے ہے۔
1۔۔ عین طلوع آفتاب کے وقت۔
2۔۔۔ زوال شمس کے وقت۔
3۔۔۔ سورج کے غروب کے وقت۔
عن عقبة بن عامر الجهني : ثلاث ساعات كان رسول الله ينهانا أن نصلي فيهن وأن نقبر فيهن موتانا .حين تطلع الشمس بازغة حتي ترتفع .وحين يقوم قائم الظهيرة حتي تزول الشمس وحين تتضيف (تميل ) الشمس للغروب. صحيح مسلم.رقم 831.
4۔۔۔نماز فجر کے بعد یہاں تک کے سورج طلوع ہوکر بلند ہوجائے۔
5۔۔۔۔ بعد عصر سے غروب آفتاب تک۔
عن أبي سعيد الخدري قال سمعت رسول الله يقول :لا صلاة بعد الصبح حتي تطلع الشمس.ولا صلاة بعد العصر حتي تغيب الشمس.ولفظ مسلم ولا صلاة بعد صلاة الفجر. صحيح البخاري رقم 584.
طلوع، غروب اور زوال کے وقت حنفیہ کے یہاں فرض، واجب، نفل، قضاء، نماز جنازہ، سجدہ تلاوت، سب ناجائز ہے۔۔ ہاں اگر اسی دن کی عصر چھوٹ گئی ہو تو اسے پڑھ لینے کی اجازت ہے۔
فریضہ فجر اور عصر کے بعد نوافل مکروہ تحریمی یعنی ناجائز ہے۔ اس دن کی سنت فجر بھی۔ تحیہ المسجد کی نماز، نذر کی نماز، طواف کے دوگانہ،اور سجدہ سہو بھی ناجائز ہے۔ البتہ ان دو وقتوں میں فرائض کی قضاء یا وتر کی قضاء سجدہ تلاوت اور نماز جنازہ جائز ہے۔
مالکیہ کے یہاں شروع کے تین اوقات میں صرف نوافل ناجائز ہیں فرائض نہین اور آخر کے دو وقتوں میں نوافل مکروہ تنزیہی ہیں۔۔۔۔شوافع کے یہاں اوقات ثلاثہ میں تمام نمازیں مکروہ تحریمی ہیں۔اور دو وقتوں میں مکروہ تنزیہی ہیں۔ سواء جمعہ کے کہ ان کے یہاں جمعہ زوال کے وقت جائز ہے۔۔۔۔ حنابلہ کے یہاں پانچوں مکروہ اوقات میں فرائض کی قضاء بھی جائز ہے اور نذر کی نماز اور دوگانہ طواف بھی۔۔البتہ اوقات ثلاثہ میں حنابلہ کے یہاں بھی جنازہ کی نماز جائز نہیں ہے۔۔۔سنت فجر کی قضاء فریضہ فجر کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے اگرچہ فقہ حنبلی میں جائز لکھا ہے لیکن صاحب مذھب امام احمد بن حنبل نے اسکو طلوع آفتاب کے بعد پڑھنے کو افضل اور بہتر قرار دیا ہے۔۔حنابلہ کے نزدیک مشہور یہ ہے کہ تمام مکروہ اوقات میں سنن کی قضاء ناجائز ہے۔۔
قضاء صرف فرائض اور واجبات کی کی جاتی ہے۔ سنتوں کی قضاء اصولی طور پر نہیں ہے۔لیکن سنت فجر کی حدیثوں میں سخت تاکید آئی ہے۔ اس لئے ائمہ میں امام مالک واحمد بن حنبل اور حنفیہ میں امام محمد نے تنہاء سنت فجر کی قضاء کرنے کو کو کہا ہے ۔حافظ العصر علامہ انورشاہ کشمیری کا میلان بھی اسی طرف ہے۔ ہاں اگر فرض سمیت سنت فجر چھوٹی ہو تو اب امام ابو حنیفہ اور ابویوسف بھی زوال سے پہلے ادا کرنے کی صورت میں قضاء کے قائل ہیں۔ زوال کے بعد نہیں۔کیوں کہ اب فرض کی تبعیت میں سنت کی قضاء ہوگی مستقلا نہیں۔
(وعند ابی حنیفہ وابی یوسف لاقضاء بسنہ الفجر الفائتہ انفرادا واما اذا فات فرض الصبح فان السنہ تقضی تبعا لہ قبل الزوال۔۔ہدایہ 1/152۔153۔۔بذل المجہود 5/480۔)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر کے بعد سے طلوع آفتاب تک کسی بھی نفل نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے:
لا صلاة بعد صلاة الفجر حتي تطلع الشمس. بخاري رقم 584.
نیز مسند احمد اور جامع الترمذی میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جو شخص فجر کی دوگانہ سنت نہ پڑھ سکے اسے چاہیئے کہ طلوع آفتاب کے بعد ان دو رکعتوں کو پڑھلے۔ من لم يصل ركعتي الفجر فليصلهما بعد ما تطلع الشمس .ترمذي رقم 423.
جو حضرات تنہا چھوٹی ہوئ سنت فجر کی قضاء کے قائل ہیں جیسے مالکیہ حنابلہ اور حنفیہ میں امام محمد تو اب انکے مابین اس میں اختلاف ہے کہ ان دو رکعتوں کو فریضہ فجر کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟؟
امام محمد ابوھریرہ کی مذکورہ صریح حدیث کی وجہ سے طلوع آفتاب ہونے اور وقت مکروہ نکل جانے کے بعد ان دو رکعتوں کی قضاء کے کے قائل ہیں۔فرض پڑھنے کے بعد اور سورج نکلنے سے پہلے اسکی قضاء کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔یہ حدیث سند کے اعتبار سے بھی صحیح ہے اور اسکی تائید بخاری میں ابوسعید خدری کی اس روایت سے  بھی ہوتی ہے۔لا صلاة بعد الصبح حتي تطلع الشمس خ 584.۔
جبکہ قیس بن عمرو وغیرہ کی درج ذیل حدیث کی وجہ سے فقہائے حنابلہ وغیرہ کا خیال یہ ہے کہ طلوع شمس سے پہلے فجر کی دوگانہ سنت جلدی سے پڑھ لینے کی گنجائش ہے۔
عن قيس بن عمرو قال رأي رسول الله رجلا يصلي بعد صلاة الصبح ركعتين فقال رسول الله :صلاة الصبح ركعتان فقال الرجل إني لم أكن صليت الركعتين اللتين قبلهما فصليتهما الأن. فسكت رسول الله ..أبوداود 1267..ترمذي 422.ابن ماجه 1154..حاكم 5/447.... یعنی فجر کی نماز کے فورا بعد ایک صحابی نے سنت ادا کی۔ آپ نے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا چھوٹی ہوئی سنت۔تب آپ نے سکوت فرمالیا۔بعض روایتوں میں آپ کی صراحتہ اجازت بھی ثابت ہے۔)
لیکن حضرات محدثین کے نزدیک یہ حدیث مندرجہ ذیل وجوہ سے غیر معتبر اور ناقابل استدلال ہے۔
1۔۔۔۔۔امام ترمذی جیسے عظیم محدث  اس کی سند میں انقطاع کے قائل ہیں۔قال الترمذي اسناد هذا الحديث ليس بمتصل رقم 422.
2۔۔۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے طلوع شمس سے پہلے دو رکعت کی قضاء صراحت کے ساتھ منع ہونا ثابت ہے (جیسا کہ اوپر گذرا) لہذا آپ کی خاموشی دلیل جواز نہیں بن سکتی ۔
3۔۔۔۔یہ اجازت ممانعت سے پہلے تھی بعد میں منسوخ ہوگئ۔
4۔۔۔۔۔۔۔ ابن حبان نے کہا ہے: یہ حدیث ناقابل استدلال ہے (لا یجوز الاحتجاج بہذا الحدیث ۔عمدہ القاری۔4/109 )
5۔۔۔۔ اس حدیث کے راوی دراوردی پر جرح وتعدیل کے مختلف ائمہ نے سخت جرح کیا ہے۔ اسلئے اس حدیث کا اعتبار نہیں۔ دیکھئے تہذیب التہذیب۔ 6/354۔
6۔۔۔۔۔۔خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دن سنت فجر قضاء ہوگئ تھی تو آپ نے اسے طلوع آفتاب کے بعد ہی ادا فرمایا ہے۔
عن أبي هريرة أن النبي نام عن ركعتي الفجر فقضاهما بعد ما طلعت الشمس .ابن ماجه رقم 1155.
مرقات 3/134.35.معارف السنن 4/89.حديث نمبر 420.باب نمبر 310..

آپ کا عمل خود سو دلیلوں کی ایک دلیل ہے کہ طلوع آفتاب سے قبل فوت شدہ سنت فجر کی قضاء جائز نہیں ہے۔
اسلئے بہتر یہ ہے کہ ان سنتوں کو طلوع آفتاب کے بعد ہی کریں۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment