Friday 29 June 2018

کن جانوروں کو مارنے کی اجازت ہے؟

کن جانوروں کو مارنے کی اجازت ہے؟
جن پانچ جانوروں کو ہر جگہ مارنا جائز ہے
(1760)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : " خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ : الْحَيَّةُ، وَالْغُرَابُ الْأَبْقَعُ ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ ، وَالْحُدَيَّا ".
رواه مسلم
‏قال الشيخ عبدالله بن عقيل رحمه الله :
خمسُ فواسق حدأةُ مع فأرةٍ
                    كلبُ عقورُ والغراب وعقربُ
حدیا کا صحیح ترجمہ کیا ہوگا؟
وضاحت فرمائیں بہتر ہوگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ الْفَأْرَةُ وَالْعَقْرَبُ وَالْحُدَيَّا وَالْغُرَابُ وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ
صحيح البخاري: 3136۔ كتاب بدأ الخلق .بَاب خَمْسٌ مِنْ الدَّوَابِّ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ
أخرجه مسلم في الحج ٦٧\٦٨.٦٩.والنساي في المناسك باب ١١٣.١١٤.١١٩.وابن ماجة في المناسك باب ٩١ .ومالك في الحج ٩٠.ومسند أحمد ٦\٣٣.
٨٧.٩٧.٢٥٩\٢٦١
(والحديا) تصغير حدأة على وزن عنبة قلبت الهمزة بعد ياء التصغير ياء وأدغمت ياء التصغير فيه فصار حدية ثم حذفت التاء وعوض عنها الألف لدلالته على التأنيث أيضا، كذا في المرقاة.
یعنی "چیل" کو مصغرا حدیا کہتے ہیں
موطأ مالك اور نسائی کی روایت میں مکبرہ یعنی "الحدأة" کے ساتھ آیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ایذاء پہنچانے والے پانچ جانور ہیں جن کو حدود حرم سے باہر بھی اور حدود حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے (مارنے والا خواہ احرام کی حالت میں ہو خواہ احرام سے باہر ہو) سانپ، ابلق کوا، چوہا، کٹ کھنا کتا، چیل۔ (بخاری ومسلم)
اس کتے کو مارنا حرام ہے جس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے، اسی طرح اس کتے کو بھی مارانا حرام ہے جس سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو تو اس سے کوئی ضرر و نقصان بھی نہ پہنچتا ہو۔
مذکورہ بالا حدیث میں جن جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے مارنے کی اجازت صرف انہیں پر منحصر نہیں بلکہ یہی حکم ان تمام جانروں کا بھی ہے جن سے ایذاء پہنچتی ہو جیسے چیونٹی، پسو، چچری اور کھٹمل وغیرہ۔ ہاں اگر حالت احرام میں جوئیں ماری جائیں گی تو پھر حسب استطاعت و توفیق صدقہ دینا واجب ہوگا۔
گرگٹ اور چھپکلی کو مارنا باعث اجر وثواب فعل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حدیثوں میں اسے ماڈالنے کا نہ صرف حکم دیا ہے بلکہ پہلی مرتبہ مارنے پر زیادہ ثواب بتایا ہے۔
ارشاد نبوی ہے: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَسَمَّاهُ فُوَيْسِقًا۔ (صحیح مسلم، کتاب السلام، باب استحباب قتل الوزغ حدیث نمبر 2238 )
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’وزغ‘ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے 'فاسق' قرار دیا ہے۔
بخاری کی روایت میں ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَقَالَ كَانَ يَنْفُخُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام۔(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی واتخذ اللہ ابراھیم خلیلا ۔حدیث نمبر 3180)
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’وزغ‘ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے جلائی آگ میں پھونکیں مارتی تھی۔
گرگٹ کی بہت ساری قسمیں ہیں۔ ہر قسم اپنی طبعیت کے اعتبار سے نوع انسانی کے لئے مضر ہے۔ اس لئے ضرر سے بچانے کے لئے اسے مار ڈالنے کا حکم ہے۔
ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ پہلی ہی مرتبہ میں مار ڈالنے والے کو زیادہ ثواب ملتا ہے:
عن أبي ہریرة أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من قتل وزغة بالضربة الأولی کان لہ کذا وکذا حسنة فإن قتلہا في الضربة الثانیة کان لہ کذا وکذا حسنة فإن قتلہا في الضربة الثالثة کان لہ کذا وکذا حسنة․ (رواہ الترمذي وقال: حدیث أبي ہریرة حدیث حسن صحیح: ۱/۲۷۳، أبواب الصید، باب في قتل الوزغ، ط: مریم أجمل فاوٴنڈیشن ممبئی إنڈیا)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
١٤\٦\١٤٣٩ہجری
.......
(۱) مکڑی مارنا اور اس کے جالے صاف کرنا 
(۲) چھپکلی مارنا:
(سوال ۲۴۴) کہتے ہیں کہ مکڑی کو نہیں مارنا چاہئے، کیونکہ اس نے غار ثور پر جالا تن کرحضور ﷺ کی حفاظت کی تھی، گاہے گاہے گھر میں ان کی وجہ سے بہت جالے ہوجاتے ہیں جسے نحوست کہتے ہیں، تو شرعاً ان کے مارنے کی اجازت ہے؟ اسی طرح چھپکلی کے مارنے کے متعلق کچھ ممانعت ہے ؟بینوا توجروا۔ (از حیدرآباد)
(الجواب) مکڑی کی مختلف قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جو زمین میں گھر بناتی ہے وہ موذی ہے، اس کو مارنے کی اجازت ہے، روح المعانی میں ہے،
النوع الآخر الذی یحفر بیتہ فی الارض ویخرج فی اللیل کسائر الھوام وھی علی ما ذکر ہ غیرواحد من دوات السموم فیسن قتلھا (روح المانی ج۲۰ ص ۱۶۱ سورۂ عنکبوت) اور جو گھروں میں جالا تنتی ہے وہ موذی جانور نہیں ہے، بلا ضرورت اسے تکلیف پہنچانے اور مارنے سے، خصوصاً جب کہ مذکور واقعہ مشہور ہے۔ احتراز کرنا چاہئے۔ روح المعانی میں ہے:
وقیل لا یسن قتلھا فقد اخرج الخطیب انا وابوبکر الغار فاجتمعت العنکبوت فنسجت بالباب فلا تقتلوھن ذکر ھذا الخبر جلال الدین السیو طی فی الدر المنثور، واﷲ اعلم بصحتہ وکونہ مما یصلح للاحتجاج بہ (روح المعانی ج۲۰ ص ۱۶۱ سورۂ عنکبوت)
یعنی: مکڑی کو مارنا نہ چاہئے، خطیب نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا میں اور ابوبکر غار میں داخل ہوئے تو مکڑیوں نے جمع ہوکر فوراً جالا بن دیا اس لئے تم ان کو قتل مت کرو۔
گھر میں اگر مکڑی کے جالے ہوگئے ہوں تو صاف کرسکتے ہیں،
وذکر انہ یحسن ازا لۃ بیتھا من البیوت، لما اسند الثعلبی وابن عطیۃ وغیرھما عن علی کرم اﷲ وجھہ انہ قال طھرو ابیو تکم من نسج العنکبوت فان ترکہ فی البیت یورث الفقر وھذا ان صح عن الا مام کرم اﷲ وجہ فذاک والا فحسن الا زالۃ لما فیھا من النظافۃ ولا شک بندبھا۔
یعنی ثعلبی اور ابن عطیہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے نقل کیا ہے، مکڑی کے جالوں سے اپنے گھر ں کو صاف رکھا کرو کیونکہ اس کے چھوڑ دینے سے فقر پیدا ہوتا ہے اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس اثر کا ثبوت ہو تو یہی دلیل ہے، ورنہ جالے صاف کرنا مستحب ہی ہے اس لئے کہ اس میں نظافت ہے (روح المعانی ج۲۰ ص ۱۶۱)
چھپکلی موذی جانور گاہے وہ کھانے پینے کی چیزوں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال دیتی ہے تو ا س میں زہریلے اثرات پیدا ہوجاتے ہیں اور اس کی کھانے سے طبیعت پر بہت برا اثر پڑتا ہے، ہمارے علم میں ایسے واقعات ہیں کہ ایساکھانا کھانے کی وجہ سے پورے گھر والوں کو ایک دم اسپتال جانا پڑا۔ اور حدیث میں وزغ کو مارنے کا حکم ہے (مسلم شریف ج۲ ص ۲۳۵ باب فی قتل الوزغ) (ترمذی شریف ج۱ ص ۱۷۹ باب فی قتل الوزغ) وزغ وزغۃ کی جمع ہے اور وزغ کا مصداق جس طرح گرگٹ ہے اسی طرح چھپکلی بھی ہے، مصباح اللغات اور المنجد اردو میں تو ورغۃ کا ترجمہ چھپکلی کیا گیا ہے، چنانچہ مصباح اللغات میں ہے۔
الوزغۃ چھپکلی وزغ ووزاغ واوزاع وزغان (مصباح اللغات) المنجد مترجم اردو میں ہے ۔
الوزغۃ: چھپکلی ج وزع ووزاغ واوزاغ ووزغان (المنجد)
فقط واﷲ اعلم۔
فتاوی رحیمیہ
ناقل نورالحسن پرتاپگڑھی

No comments:

Post a Comment