ایس اے ساگر
تازہ ترین حقائق نے ایک مرتبہ پھر ثابت کردیا ہے کہ دنیا بھر میں آلودگی تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس کا ذمہ کسی نہ کسی حد تک خود انسان ہے۔ انسان نے اپنی آسانی کیلئے لاکھوں چیزیں بنائیںجبکہ ان کے منفی پہلو?ں ہر توجہ نہ دی اور ، نتیجہ آج ہمیں آلودگی کی صورت میں بھگتنا پڑرہا ہے۔ انسان آسائشوں کو حاصل کرنے کی لالچ میں اتنا مگن ہوگیا کہ اسے اس بات کابھی اندازہ نہ ہوا کہ وہ اپنی تباہی کا ساماں خود بنا رہا ہے۔ دنیا بھر میں تمام تر اقدامات کے باوجود آلودگی کے مسائل بڑھتے ہی جارہی ہیں۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بحیرہ روم Mediterranean Seaمیں بڑی تعداد میں پلاسٹک کا ملبہ جمع ہو رہا ہے۔
مچھلی اور سیپ بھی نہیں محفوظ:
حالیہ سروے کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ سمندر کی سطح پر تقریباً ایک ہزار ٹن پلاسٹک تیر رہا ہے جن میں زیادہ بوتلیں، بیگز اور لفافے شامل ہیں۔ہسپانوی محققین کا کہنا ہے کہ بحیرہ روم میں آبی حیات کی کثیر تعداد اور اقتصادی اہمیت کا مطلب ہے کہ پلاسٹک کی آلودگی خاص طور پر نقصان دہ ہے۔مچھلیوں، پرندوں، کچھوو ¿ں اور وہیل مچھلیوں کے معدوں سے پلاسٹک کے ٹکڑے برآمد ہوئے ہیں۔شمالی یوروپ کے ساحلوں سے پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کستورا مچھلی اور سیپ میں بھی ملے ہیں۔
مینجمنٹ ا سٹریٹیجیز کی ضرورت:
اسپین کے شہر پورٹو ریال کی ساڈز یونیورسٹی University of Cadizکے آندریز کوزرAndres Cozarکے بقول ’ہم بحیرہ روم کو پلاسٹک کا ملبہ جمع کرنے والا زون سمجھتے ہیںجبکہ پلاسٹک کے استعمال کے نصف صدی کے بعد ہی سمندر میں پلاسٹک کی آلودگی اس زمین کا اہم مسئلہ بن گئی ہے، اس مسئلہ کے حل کیلئے ہنگامی طور پر مینجمنٹ ا سٹریٹیجیز کا تعین کرنے کی ضرورت ہے۔‘دیگر سمندروں میں پلاسٹک کی بڑی مقدار پائی ہے جن میں خلیج بنگال، بحیرہ جنوبی چین اور بحرآرکٹک شامل ہیں۔رائل ہولووے، لندن یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیوڈ مورٹ پلوس ون جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سائنس دان خاص طور پر پلاسٹک کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں یعنی 5 ملی میٹر سے چھوٹے کے بارے میں فکر مند ہیں جنھیں مائیکرو پلاسٹک کہا جاتا ہے۔
اقتصادی اور ماحولیاتی اہمیت:
تحقیق کے مطابق بحیرہ روم میں پائے جانے والے پلاسٹک کا 80 فیصد یہی ہے۔اسکول آف بائیولوجیکل سائنسز کے ڈاکٹرمورٹDr Morritt نے سنسی خیز انکشاف کیا ہے کہ پلاسٹک کے یہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑے سمندری جاندار نگل لیتے ہیں، یہ پلاسٹک ان کے پیٹ میں کیمیکل خارج کرتے ہیں۔پلاسٹک ماحول میں نہیں گلتے سڑتے، ہمیں اس کو ٹھکانے لگانے، ری سائیکل کرنے اور اس کے استعمال میں کمی لانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا ہوگاجبکہ بحیرہ روم دنیا میں کل سمندری پانی کے ایک فی صد حصہ سے بھی کم حصہ پر مشتمل ہے لیکن ان کی اقتصادی اور ماحولیاتی اہمیت ہے۔
دنیا کے آلودہ ترین ممالک:
تمام سمندری حیات کا4سے 18 فیصد حصہ یہیں پایا جاتا ہے اور یہ بحیرہ روم کے ممالک کیلئے سیاحت اور ماہی گیری کا اہم ذریعہ ہے۔اس سلسلہ میں غور طلب امر یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے سروے کے مطابق پاکستان، ایران، بھارت اور منگولیا دنیا کے آلودہ ترین ممالک ہیں۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں واقع شہر کوئٹہ آلودہ ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ملک میں آلودگی کی شرح بڑھنے کی وجہ حکومت اور عوام کا اس اہم مسئلہ پر توجہ نہ دینا ہے۔ آلودگی کی وجہ سے ہر سال کروڑوں انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
Plastic PollutionBy: S. A. Sagar
Large quantities of plastic debris are building up in the Mediterranean Sea, say scientists.
According to reports, 2 April 2015, a survey found around one thousand tonnes of plastic floating on the surface, mainly fragments of bottles, bags and wrappings. The Mediterranean Sea's biological richness and economic importance means plastic pollution is particularly hazardous, say Spanish researchers. Plastic has been found in the stomachs of fish, birds, turtles and whales. Very tiny pieces of plastic have also been found in oysters and mussels grown on the coasts of northern Europe. "We identify the Mediterranean Sea as a great accumulation zone of plastic debris," said Andres Cozar of the University of Cadiz in Puerto Real, Spain, and colleagues. "Marine plastic pollution has spread to become a problem of planetary scale after only half a century of widespread use of plastic materials, calling for urgent management strategies to address this problem." Plastic is accumulating in the Mediterranean Sea at a similar scale to that in oceanic gyres, the rotating ocean currents in the Indian Ocean, North Atlantic, North Pacific, South Atlantic and South Pacific, the study found. Commenting on the study, published in the journal PLOS ONE, Dr David Morritt of Royal Holloway, University of London, said scientists were particularly concerned about very small pieces of plastic (less than 5mm in length), known as microplastics. The study found more than 80% of plastic items in the Mediterranean Sea fell into this category. "These very small plastic fragments lend themselves to being swallowed by marine species, potentially releasing chemicals into the gut from the plastics," Dr Morritt, of the School of Biological Sciences, told BBC News.
"Plastic doesn't degrade in the environment, we need to think much more carefully about how we dispose of it, recycle it, and reduce our use of it." The Mediterranean Sea represents less than 1% of the global ocean area, but is important in economic and ecological terms. It contains between 4% and 18% of all marine species, and provides tourism and fishing income for Mediterranean countries. "Given the biological wealth and concentration of economic activities in the Mediterranean Sea, the effects of plastic pollution on marine and human life could be particularly relevant in this plastic accumulation zone," said Dr Cozar.
No comments:
Post a Comment