کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے 60 ملین سے زیادہ لوگوں کی مادری زبان اردو ہے جس کا شمار دنیا کی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں چوتھے نمبر پر ہوتا ہے۔ یعنی دنیا کی کل آبادی میں سے چار اعشاریہ سات فیصد لوگ اس زبان کو بولنے والے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں متعدد ممالک ایسے ہیں جہاں اردو زبان بولی اور سمجهی جاتی ہے مثلاً بنگلہ دیش، نیپال و دیگر ممالک میں۔ لیکن آپ کو تعجب ہو گا کہ برما، جہاں کی اپنی قومی زبان تو برمی ہے، لیکن اپنی اس قومی زبان کے باوجود وہاں اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے. اس بات کا تجربہ بندہ کو برما کے ۹ دن کے سفر کے دوران ہوا۔ بہت ہی افسوس کی بات کہ موجودہ دور کے بچوں میں اردو زبان سے دلچسپی کا عنصر بہت کم نظر آتا ہے۔ والدین بھی بچوں کو اردو زبان بولنے یا سیکھنے کی طرف مائل نہیں کرتے اور دوسری ماڈرن لینگوجز سکهانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسکی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ شاید دورِ حاضر میں انگریزی میڈیم کا بڑھتا ہوا رجحان، جو اردو زبان کی اہمیت و افادیت سے مسلمانوں کو محروم کر رہا ہے۔
یا پھر اردو زبان کی وجہ سے روزگار حاصل کرنے میں دشواریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اس لیے اس عظیم سرمایہ کی اہمیت دل میں نہیں رہی۔ لیکن یاد رکھیں! اردو زبان ایک ایسا سرمایہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا۔ اردو مسلمانوں کی صرف زبان ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی شناخت کا ایک اہم ذریعہ ہےـ ہمارا اسلامی دینی سرمایہ اردو زبان میں موجود ہےـ اس سے استفادہ کر کے ہی ہم درست اسلامی تعلیمات سے روشناس ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ بعض مسلمان اسے اپنے مذہب کی سلامتی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت میں لگے ہیں۔ چوں کہ اس زبان میں ان کے مذہب کا سرمایہ محفوظ ہے اس لیے وہ ڈرتے ہیں کہ اردو کے زوال سے ان کا مذہبی ورثہ گم نہ ہو جائے۔ اپنے سفر کے دوران 27 دسمبر 2014 جمعرات کے دن بعد نماز ظہر، جناب حافظ شرجیل باوا صاحب، مولانا صالح بوڈی صاحب، جناب رفیع صاحب کی معیت میں دو منزلہ عمارت پر مشتمل بچوں کی بنیادی تربیت گاہ مدرسہ سورتیہ عربیہ کا دورہ کیا۔ مدرسہ سورتیہ کے ناظم حضرت مولانا ہارون لولات صاحب، ناظمِ تعلیمات مولانا یونس اچھا صاحب اور دیگر ٹرسٹی حضرات نے بندہ کا استقبال کیا۔ اس مدرسہ میں صبح شام بچے تعلیم میں مصروف رہتے ہیں اس مدرسہ میں تعلیم حاصل کر نے والے طلبہ کی تعداد 300 کے قریب تهی اور 4 سال سے لے کر 12 سال تک کی عمر کے بچے موجود تھے۔ یہ مدرسہ نئی نسل کو قرآن کریم کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینیات سے بهی روشناس کر نے کی عظیم خدمت انجام دے رہا ہے۔ اس مدرسہ کی بنیاد 1964 میں حافظ محمد منصور صاحب رحمة الله علیہ نے ڈالی اور تحفیظ کی بنیاد 1965 میں حضرت مولانا عبدالولی مظاہری صاحب رحمة الله علیہ نے رکھی۔ تعلیم کا نظام ماشاء اللہ بہت ہی اچھا لگا۔ راقم کو ناظم صاحب نے تمام درجات کا دورہ کروایا اور اساتذہ سے ملاقاتیں بھی کروائیں۔ بچے بہت ہی باادب طریقہ سے فرش پر تپائیاں لیے ہوئے بیٹھے تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ راقم نے شاکر نامی ایک بچے کا قرآن بھی سنا۔ بہت ہی دلکش انداز میں قرآن سنایا۔ اس مدرسہ کا امتیازی کردار جو دیکھنے میں آیا وہ یہ ہے کہ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی تعلیم پر خاص توجہ دی جاتی ہے۔ مدرسہ کے ناظم صاحب اساتذہ، بچوں اور ان کے والدین کو ہمیشہ اردو بولنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لیے ایک اور عجیب طریقہ اختیار کیا گیا کہ ہر کلاس کو تنبیہ کر نے کے لیے یہ الفاظ دیواروں پر نقش کیے گئے۔
"ہمارے مدرسہ میں اردو میں ہی تعلیم ہوتی ہے مگر تعجب ہےکہ بچے اردو بات نہیں کرپاتے"
"اردو کے سوا دوسری زبان میں بات نہ کیجیے"
"دین کا اکثر مواد اردو میں ہے لہٰذا اردو زبان کو فروغ دیجیے"
"کیا آپ بھول گئے اردو میں بولیے"
"اساتذہ آپس میں بھی اردو میں ہی بات کریں"
"بچوں کے سرپرست کو تاکید کیجیے کہ گھر میں بھی بچوں سے اردو میں بات کرے"
مدرسہ سورتیہ عربیہ رنگون دینیات اور قرآن کے ساتھ بچوں کو اردو کی اچھی خاصی مشق کرواتے ہیں اور بچوں کو ابتدائی سال یعنی چار سال کی عمر سے ہی اردو زبان بنیاد ڈال دی جاتی ہے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اردو کے مشکل الفاظ کی خوش خطاطی کی مشق بھی کروائی جاتی ہے۔ ہندوستان کی قدیم خوش نویسی برما میں بھی موجود ہے اور اس پر خوب محنت ہو رہی ہے۔ اردوکے اس عظیم ورثہ کو تحفظ دینے اور مزید آگے بڑھانے کی کوشش میں مدرسہ سورتیہ عربیہ رنگون کی طرف سے بڑی حکمت اور تدبرکےساتھ کام جاری ہے۔ راقم کو ناظم صاحب نے بچوں کے امتحانی پرچے اور نتائج بھی دکھائے، جس میں بچوں نے خصوصاً اردو میں عمدہ اور امتیازی نمبر حاصل کیے۔ یہ سب دیکھ کر دل بہت خوش ہوا کہ ان حضرات نے اردو کی حفاظت بلکہ دین کی حفاظت کے لیے کتنا بہترین طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔ رنگون کےسفر سے کچھ عرصے پہلے جنوبی افریقہ سفر ہوا وہاں کی صورتِ حال نہایت تشویشناک دیکھنے کو ملی۔ جن بچوں کی مادری زبان اردو یا گجراتی تھی، وہاں کے لوگوں غفلت کے نتیجہ میں وہ اپنی دونوں زبانوں سے مکمل محروم ہو چکے ہیں، اب بچوں کی مادری زبان انگریزی بن چکی ہے۔
لہٰذا ایسی صورتِ حال میں مدرسہ سورتیہ عربیہ رنگون کی حکمتِ عملی اردو زبان کے تحفظ اور بقاء کے لیے مشعلِ راہ ہے.
"ہمارے مدرسہ میں اردو میں ہی تعلیم ہوتی ہے مگر تعجب ہےکہ بچے اردو بات نہیں کرپاتے"
"اردو کے سوا دوسری زبان میں بات نہ کیجیے"
"دین کا اکثر مواد اردو میں ہے لہٰذا اردو زبان کو فروغ دیجیے"
"کیا آپ بھول گئے اردو میں بولیے"
"اساتذہ آپس میں بھی اردو میں ہی بات کریں"
"بچوں کے سرپرست کو تاکید کیجیے کہ گھر میں بھی بچوں سے اردو میں بات کرے"
مدرسہ سورتیہ عربیہ رنگون دینیات اور قرآن کے ساتھ بچوں کو اردو کی اچھی خاصی مشق کرواتے ہیں اور بچوں کو ابتدائی سال یعنی چار سال کی عمر سے ہی اردو زبان بنیاد ڈال دی جاتی ہے۔ ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اردو کے مشکل الفاظ کی خوش خطاطی کی مشق بھی کروائی جاتی ہے۔ ہندوستان کی قدیم خوش نویسی برما میں بھی موجود ہے اور اس پر خوب محنت ہو رہی ہے۔ اردوکے اس عظیم ورثہ کو تحفظ دینے اور مزید آگے بڑھانے کی کوشش میں مدرسہ سورتیہ عربیہ رنگون کی طرف سے بڑی حکمت اور تدبرکےساتھ کام جاری ہے۔ راقم کو ناظم صاحب نے بچوں کے امتحانی پرچے اور نتائج بھی دکھائے، جس میں بچوں نے خصوصاً اردو میں عمدہ اور امتیازی نمبر حاصل کیے۔ یہ سب دیکھ کر دل بہت خوش ہوا کہ ان حضرات نے اردو کی حفاظت بلکہ دین کی حفاظت کے لیے کتنا بہترین طریقہ اختیار کیا ہوا ہے۔ رنگون کےسفر سے کچھ عرصے پہلے جنوبی افریقہ سفر ہوا وہاں کی صورتِ حال نہایت تشویشناک دیکھنے کو ملی۔ جن بچوں کی مادری زبان اردو یا گجراتی تھی، وہاں کے لوگوں غفلت کے نتیجہ میں وہ اپنی دونوں زبانوں سے مکمل محروم ہو چکے ہیں، اب بچوں کی مادری زبان انگریزی بن چکی ہے۔
لہٰذا ایسی صورتِ حال میں مدرسہ سورتیہ عربیہ رنگون کی حکمتِ عملی اردو زبان کے تحفظ اور بقاء کے لیے مشعلِ راہ ہے.
برما ڈائری
خادمِ ختمِ نبوت سہیل باوا
خادمِ ختمِ نبوت سہیل باوا
No comments:
Post a Comment