Monday, 6 April 2015

حسن البنا شہید

حسن البنا شہید کا نام بیسویں صدی کے مصلحین امت میں ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کم عمری میں ہی جو کارنامہ انجام دیا وہ بڑی عمر کے لوگ طویل جدوجہد کے بعد بھی حاصل کرنے میں مشکل سے کامیاب نظر آتے ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ حسن البنا شہید کا میلان بچپن ہی سے نیکی کی طرف تھا لیکن اس عمر میں نیکی کے فروغ اور دوسروں کے لیے بھی اس کو اہم جاننے کی سوچ میں وہ دنیا کے مصلحین میں منفرد نظر آتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تحریک کی بنیاد گہرے فلسفیانہ اور مفکرانہ طرز پر نہیں رکھی بلکہ ایسا طریقہ اختیار کیا جس کو سمجھنے میں ایک عام آدمی کو کسی دقت اور پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ دین کو رسومات ِ عبادت کے طور پر اپنانااور اس پر عمل کرنا جان جوکھوں کا کام نہیں ہے۔ البتہ دین کو بطور نظام زندگی اپنانا دنیا جہاں کی طاقتوں کو اپنا دشمن قرار دینے کے مترادف ہے یہ کام کوئی مصلح جس قدر آسان انداز میں کرتا ہے اس کے مقبول عام ہونے کے امکانات اسی قدر زیادہ ہوتے ہیں۔ حسن البنا شہید کی مساعی کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انہوں نے یہی اسلوب اختیار کیا اور پھر عرب و عجم میں ان کی مقبولیت اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ وہ اس جدوجہد میں کامیاب ٹھہرے ہیں۔ 
انہوں نے قلم قرطاس کو اظہار مدعا کا ذریعہ بنانے کی بجائے زیادہ تر زبان کو ذریعہ بنایا اور مصر کے طول وعرض میں دعوت اصلاح کی غرض سے وعظ و تذکیر کے پروگرام منعقد کرکے ان میں خطاب کرتے رہے۔ اگرچہ ان کی فکر کا بیشتر حصہ ان کے خطابات کے ذریعے سامنے آتا ہے ۔ تاہم تصنیف و تالیف کی طرف بھی کچھ توجہ رہی۔ تصانیف کی یہ تعداد بہت مختصر ہے لیکن اپنی تاثیر اور افادیت میں ثانی نہیں رکھتی۔ انہوں نے فرد کی ذاتی اصلاح پر خاص توجہ دی اور اسی چیز کو اپنی دعوت کے مرکزی نقطہ کے طو رپر پیش نظر رکھا۔ یہ چیز انکی تصانیف میں بڑی واضح دکھائی دیتی ہے۔
  ایک مرتبہ امام سے کسی نے دریافت کیا کہ ” آپ کتب تصنیف کیوں نہیں کرتے“ امام کا جواب تھا کہ ”میں انسان تصنیف کرتاہوں۔“ سچی بات یہ ہے کہ امام کی توجہ ساری عمر مادی تصانیف سے زیادہ انسانی تصانیف کی جانب رہی اور وہ آدمی کو آدمی بنانے کے لئے کوشاں رہے۔ اس طرح امام نے انسان سازی اور کردار سازی پر توجہ مرکوز رکھی ۔ یہی وجہ ہے کہ تصنیفی سرمایہ کم ہونے کے باجود اخوان المسلمون کے اثرات جس تیزی کے ساتھ عالم عرب میں پھیلے ، اسکے پیچھے امام کی طلسماتی اور روحانی شخصیت کا عکس بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ مصر میں اسلام کی جوت جگانے اور مسلمانان مصر کو ولولہ تازہ بخشنے والے حسن البنا شہید قلم سے زیادہ ، گفتگو ، تقریر اور خطاب کے آدمی تھے۔ انکی تقاریر اور خطبے عملیت کا پہلو لیے ہوئے ہوتے ۔ انہوں نے قلم کااستعمال بھی کیا اور تحریک کی ضرورت کو اس ذریعہ سے پورا کرنے کی کوشش کی۔ گو وہ لکھنے لکھانے کی جانب زیادہ توجہ نہیں دے سکے مگر اس کے باوجود جو لکھا ہے اس میں عملیت پسندی، گہرائی گیرائی اور ہمہ گیریت کے نمونے جا بجا ملتے ہیں۔ امام کی تمام کتب و رسائل کا احاطہ کرنا اتنا آسان نہیں کیونکہ انکے خطبات و مقالات اخبارات و رسائل جابجا بکھرے ہیں۔ کتابچوں کی صورت میں جو چند ایک طبع ہوسکی ہیں اور عربی میں ہیں ۔ اردو کے قالب میں چند ایک ڈھالی گئی ہیں ۔ جن کو مختلف اداروں نے طبع کیا ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ رسالة التعالیم: ( تعلیمات حسن البنا شہیدؒ)
التعالیم حسن البناءشہید کی فکری مساعی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور یہی وہ مختصر تحریر ہے جس نے عالم عرب میں ایک انقلاب برپا کردیااور کم وبیش ہر عرب ملک میں اخوان المسلمون کا قیام عمل میں آیا۔اس کتاب کو سید مودودیؒ کی کتاب ” ہدایات“ سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے۔ اس رسالے کی متعدد شرحیں بھی سامنے آئی ہیں۔الاستاذ مصطفیٰ محمد طحان، پروفیسر سعید حویٰ مصری نے اس پر قابل قدر کام کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد یوسف قرضاوی نے اپنی کتاب ” اخوان المسلمون کا تربیتی نظام“ میں اس کے مندرجات کو ریفرنس کے طور پر پیش کیاہے۔
کارکنان تحریک کے لیے ہدایات کے اس خوبصورت مجموعے میں جماعت سے وابستہ ہونے والوں کو امام نے ۰۱واضح ہدایات سے نوازا ہے۔
  ۱۔ تدبر ۲۔اخلاص ۳۔عمل ۴۔ جہاد  ۵۔ قربانی  ۶۔ اطاعت  ۷۔ثابت قدمی  ۸۔یکسوئی ۹۔اخوت ۰۱۔باہمی اعتماد
کتاب کے آخر میں واضح کیا گیا کہ کارکنان پر زندگی کے تمام دائروں میں کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور انفرادی و اجتماعی زندگی میں کن امور کی پابندی اور کن امور سے مجتنب رہنا ضروری ہے۔ پہلی مرتبہ رسالة التعالیم دارلکتاب العربی مصر کے محمد حلیمی المیناری نے طبع کیا۔ تاریخ اشاعت درج نہیں۔ یہ رسالہ ” تعلیمات حسن البنا شہید “ کے عنوان سے البدر پبلیکشنز اردو بازار لاہور نے طبع کیا۔ جس کا ترجمہ شیخ الحدیث مولانا محمد چراغ ؒ کے صاحبزادے حافظ محمد حنیف نے کیا۔ پہلی مرتبہ مئی ۲۷۹۱ءمیں ۰۰۱۱ کی تعداد میں طبع ہوا جبکہ دوسری مرتبہ اکتوبر ۲۷۹۱ءمیں ۰۰۱۱ جبکہ تیسری مرتبہ ۷۷۹۱ءمیں۔ ۰۰۱۱ کی تعداد میں۔ یہی رسالہ تعلیمات اس ترجمہ کے ساتھ گلستان پبلیکشنز نے مئی۲۷۹۱ءمیں طبع کیا ۔” نظام الالسرو ر سالة التعالیم“ رسالہ تعلیمات میں ”اسلام ایک مثالی خاندان “کے عنوان سے ایک باب موجود ہے جو رسالہ کا باقاعدہ حصہ ہے۔ اس میں بتایاگیا ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کو کس طرح کے خاندان میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ اس کے تین حصے بیان کیے گئے ہیں۔تعارف میں بتایا گیا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ جان پہچان پیدا کیجئے۔ تفاہم میں واضح کیاگیا ہے کہ حق کے راستے پر ثابت قدم رہےے۔ کفالت میں بتایا گیا ہے کہ باہمی طور پر ایک دوسرے کی کفالت کیجئے اور ایک دوسرے کا بوجھ اٹھائیے یہی صحیح ایمان اور اخوت کا نچوڑ ہے۔
رسالہ کے آخر میںامام شہید حسن البناکی دس خوبصورت ہدایات درج ہیں۔ جو ہمارے ہاں بہت معروف ہیں۔ جس میں سے پہلی یہ ہے کہ ” اذان کی آواز کان میں پڑتے ہی نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔“
۲۔ احادیث الجمعہ :( خطبات حسن البناءشہیدؒ)
یہ امام شہید کے خطبات کا وہ مجموعہ ہے جس میں انہوں نے قرآن وسنت کی بنیاد پر مختلف اوقات میںمختلف مقامات اور ضروریات کے تحت جو خطبات و دروس ارشاد فرمائے ۔یہ خطبات کیا ہیں؟ فصاحت و بلاغت کا خوبصورت گلدستہ ہیں۔ خطبات میں فہم دین کی گہرائی ، دل کی دنیا کو بدل دینے والی تاثیر اور عزائم کو فولاد بنا دینے والا جذبہ موجود ہے۔ ان مقالات میں نہایت عمدہ تلمیحات، اور لطیف اشارات موجود ہیں، جن کا ادراک کرنا امام شہید کا ہی حصہ ہے۔ قرآنی آیات کو بہت خوبصورت انداز میں خوبی کے ساتھ مربوط کیا گیا ہے۔احادیث الجمعہ کے نام سے یہ مجموعہ1973ءمیں دارالتعلم دمشق بیروت سے طبع ہوا جبکہ اس کا اردو ترجمہ شیخ الحدیث مولانا محمد چراغ ؒ کے صاحبزادے محمد حنیف نے کیا جسے مکتبہ چراغ اسلام نے پہلی مرتبہ 1975یں جبکہ تیسری مرتبہ1989میں طبع کیا۔
۳۔ الرسائل الثلاث :
یہ دراصل تین رسائل ہیں ۔ الرسائل الثلاث پہلے رسالے کا عنوان ” دعوتنا“ ( ہماری دعوت کیا ہے) دوسرے کا عنوان” الی ای شی ¿ ندعو الناس“( ہم لوگوں کو کیا دعوت دیتے ہیں) تیسرا رسالہ نحو النور(روشنی کا پیغام)۔
i۔ دعوتنا: (ہماری دعوت کیا ہے) امام شہید کا یہ رسالہ دراصل تحریک کی دعوت اور انکے تعارف پر مبنی ہے۔ اخوان المسلمون نہ صرف مصر بلکہ پورے ممالک عربیہ کی جماعت ہے جو بیک وقت دینی و سیاسی میدان میں برسرپیکار ہے۔ اس کے افراد ایثار وقربانی، جرا ¿ت و ہمت، نظم وضبط،معرفت و اخلاق، روحانیت اور تقویٰ کے بلند مقام پر فائز ہیں اور اس دعوت کا پر تو ہے جو ان کی زندگیوں میں جاری و ساری ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ہماری دعوت کے نام سے ابولخبر عثمان الانحویٰ نے کیا اور مکتبہ الخبر اردو بازار لاہور نے طبع کیا۔تاریخ اشاعت درج نہیں ہے۔
II۔  رسالہ الی ای شی ندعو الناس:(ہم لوگوں کو کیا دعوت دیتے ہیں) اس کو مولانا خلیل الرحمن نعمانی مظاہری نے اردو میں منتقل کیا۔ یہ کتابچہ پہلی مرتبہ۶۲اپریل ۱۵۹۱ءمیں مولانا ماہرالقادری مدیر فاران کراچی کے پیش لفظ کے ساتھ، مکتبہ آفاق بند روڈ کراچی نے شائع کیا۔ دوسری مرتبہ محمد سعید اﷲ صدیق مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور نے محمد نصراﷲ خان خازن کے دیباچہ کے ساتھ ۰۹۹۱میں زیور طباعت سے آراستہ کیا۔ حسن البناءشہید کا یہ مضمون اس قابل ہے کہ اسے اپنے د ل ودماغ میں اتارا جائے ا ور روح میں جذب کیا جائے ۔جو لوگ اسلامی تحریک سے محبت اور انس رکھتے ہیں اور جن کا یہ عزم ہے کہ پاکستان کو اس دعوت حق کا گہوارہ بنایا جائے جس کی طرف تمام انبیاءدعوت دیتے رہے ۔ ان کے لئے اس رسالہ میں رہنمائی بھی موجود ہے اور تحرک کا سامان وافر بھی۔ ا س کا انگریزی ترجمہ? What is our messageکے عنوان سے عزیز احمد بلیامینی نے کیا جس کا پہلا ایڈیشن ۴۷۹۱ءمیں دو ہزار کی تعداد میں نکلا۔ اخلاق حسین ڈائریکٹر اسلامک پبلیکشنز لاہور نے طبع کیا۔قیمت ۳روپے درج ہے۔
III۔  رسالہ نحو النور(روشنی کا پیغام) د عوتی نقطہ نظر سے مختلف اوقات میں مختلف لوگوں کو امام شہید کی طرف سے لکھے گئے خطوط ہیں۔ ان میں شاہ فاروق، محمد محمود پاشا، مصطفےٰ نحاس پاشا، اسماعیل صدیق پاشا، عبد الفتح، علی ماہر جیسے وزراءاور نمایاں سیاسی شخصیات شامل ہیں۔ ان خطوط میں آپ نیکی اور پرہیز گاری کی تلقین کے ساتھ، ام الخبائث سے پرہیز، اپنی بیویوں اور بیٹیوں کے ہمراہ مخلوط مجالس میں جانے سے روکنے اور حرام وحلال کی تمےز کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
۴۔  الماثورات:   (مجموعہ ا ورادو وظائف )
یہ امام کا مرتب کردہ ۵۳دعاﺅں کا ایک خوبصورت اور مختصر مجموعہ ہے، جس میں ذکر اور ورد کرنے کی فضیلت ، ذکر کا مفہوم ، آداب ذکر، فضائل قرآن، مقدار تلاوت ، وہ سورتیں جن کی تلاوت کثرت سے مستحب ہے۔ تلاوت قرآن کے لئے روزانہ وقت نکالیں ۔اخوان کو چاہئے کہ ان سورتوں کو معمولات میں شامل کریں۔سورة یٰسین، دخان، واقعہ، الملک، شب جمعہ اور جمعہ کو ان کا زیادہ اہتمام ہو۔ اور آل عمران اور الکہف کے ساتھ ملا لی جائیں۔ آخر میں اخوان کے اوراد اور وظائف دیئے گئے ہیں۔ اس کے اختتام پر ایک طویل دعا ( ورد الرابطہ)ہے جو خود امام نے تصنیف کی ہے اور کارکنان تحریک اسے نماز مغرب شروع کرنے سے پہلے اکٹھا ہو کر پڑھتے ہیں اور تحریک کے ساتھ کئے گئے عہد کو پختہ کرتے ہیں۔
اس مجموعے میں امام نوویؒ کی تصنیف ” الاذکار “ اور ابن تیمیہ ؒ کی کتاب” الکلم طیب“ سے منتخب حصے بھی شامل ہیں۔الماثورات پہلی مرتبہ بیروت میں چھپی ۔اس کے بعد ایک مرتبہ اس کو مکتبہ المنار بالکویت نے بھی طبع کیا۔ پاکستان میں بھی اسکے متعدد ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔جن میں جولائی ۱۷۹۱ءاس مجموعہ کا ترجمہ ” تزکیہ نفس ،ا وراد وظائف کے ذریعے“ کے نام سے ایک ہزار کی تعداد میں عوامی پریس لاہو رنے چھاپا، جس کے ناشر اکرام غازی تھے۔ کتاب پر مترجم کا نام درج نہیں ۔ اس کا اردو ترجمہ ایک مرتبہ اسی نام سے مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور نے بھی طبع کیا۔ اس طرح یہ مجموعہ اب دوبارہ مولانا عبید اﷲ عبید کے ترجمہ کے ساتھ چھاپا گیا۔ پہلی مرتبہ یہ جولائی۲۰۰۲ءمیں اور دوسری مرتبہ نومبر۳۰۰۲ءمیں المجاہد پبلشر گوجرانوالہ نے طبع کیا۔
۵۔ مذکرات الدعوة الداعیة: ( دعوت اور داعی کی ڈائری)
  یہ امام شہید کی ڈائری ہے جو انکی یادداشتوں پر مبنی ہے۔ یہ دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ ایک حصہ میں انکی سرگزشت جبکہ دوسرا حصہ انکی برپا کردہ تحریک، اخوان المسلمون کی سرگرمیوں، پروگراموں کی رودادوں پر مبنی ہے۔یہ کتاب عربی میں پہلی مرتبہ قاہرہ سے طبع ہوئی۔ دوسری مرتبہ بیروت سے 1966ءمیں اور تیسری مرتبہ 1978ءبھی بیروت ۔ پاکستان میں اس کتاب کے چودہ ایڈیشن طبع ہوچکے ہیں۔ مولاناخلیل احمد حامدی مرحوم سابق ناظم دارلعروبہ جماعت اسلامی پاکستان نے خوبصورت انداز میں اس کاترجمہ کیا ہے۔ اسلامک پبلیکشنز(پرائیویٹ) لمیٹڈ لاہور نے بہت نفاست کے ساتھ طبع کیا ہے۔ اس کا دوسرا ترجمہ معروف سکالر، فی ظلال القرآن کے مترجم سید معروف شیرازی نے ” حسن البناءکی یاد داشتیں “ کے عنوان سے کیا ہے۔یہ ترجمہ پہلی مرتبہ احیائے اسلام اکیڈمی کے تحت ادارہ منشورات اسلامی چنار کوٹ ضلع مانسہرہ کے تحت ۰۰۱۱کی تعداد میں طبع کیا گیا۔ جبکہ سال اشاعت کا تذکرہ موجود نہیں ۔ جبکہ دوسری مرتبہ اگست۹۹۹۱ءمیں ۰۰۱۱کی تعداد میں ادارہ منشورات اسلامی منصورہ ملتان روڈ لاہور نے طبع کیا۔ ناشر سید عارف شیرازی ہیں۔
۶۔ رسالہ الجہاد :
رسالہ الجہاد میں امام شہید نے قرآن و حدیث کی روشنی میں جہاد کی اہمیت و فضیلت اور احکام بیان کئے ہیں۔یہ رسالہ اس دور کی تصنیف ہے جب اخوان رضاکار فلسطین میں یہودیوں کے خلاف بر سرپیکار تھے۔ موجودہ دور میں جہاد کے بارے میں تفصیلی بحث کی ہے۔ اس رسالے کو پہلی مرتبہ دارلکتا ب العربی مصر کے محمد حلمی المینادی نے طبع کیا تاریخ اشاعت درج نہیں۔ امام حسن البناءشہید کا یہ رسالہ عربی میں ہے دوسری مرتبہ افسو(IIFSO) نے مولانا خلیل احمد حامدی مرحوم کے مقدمہ کے ساتھ دارالعروبہ الدعوة الاسلامیہ منصورہ لاہور نے ۶۲ نومبر ۰۸۹۱ءمیں فارسی میں سید مودودیؒ اور سید قطب ؒ کے جہاد پر مبنی مضامین کے ساتھ یکجا شائع کیا۔
۷۔ مقدمات فی علم التفسیر:
امام حسن البناءکا عربی رسالہ ہے، جس میں انہوں نے علم تفسیر کے نکات بہت خوبصورت انداز میں بیان کئے ہیں۔ اس کا اردو ترجمہ نظر سے نہیں گزرا۔ عربی رسالہ ”مقدمات فی علم التفسیر“ الامام حسن البناءالناشر مکتبہ المنار الکویت مطابع المکتب الاسلامی بیروت نے لبنان نے طبع کیا۔
۸۔ رسالة الموتمر الخامس: (پانچویں کانفرنس کا پیغام)
  امام کا یہ وہ خطاب ہے جو انہوں نے اخوان کی پانچویں سالانہ کانفرنس کے موقع پر اخوان کی دس سالہ جدوجہد(۸۲۹۱ تا۸۳۹۱) کے جائزہ کے طور پر پیش کیا، امام کا یہ خطاب اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس میں اخوان کی گزشتہ دس سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا گیا ہے اور اس میں اخوان المسلمون کا دوسری تنظیمات اور نظریات کے بارے میں موقف نہایت وضاحت اور خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔پہلی مرتبہ یہ خطبہ اخوان کے سابق آرگن مجلہ” النذیر “کے پہلے سال کے ۵۳ویں شمارے میں شائع ہوا اور اسکے بعد الاستاذ محمد خیر حسن العرقسوی کے زیر نگرانی سلسلہ الاثار الامام کے تحت خطبات کے سلسلہ کے طور پر کیف نفھم الاسلام کے نام سے دمشق سے شائع ہوا۔ اس کا اردو ترجمہ پہلی مرتبہ۳۵۹۱ءمیں۰۰۰۲ کی تعداد” الاخوان المسلمون اور انکی دعوت“ کے نام سے مکتبہ چراغ راہ کراچی نے طبع کیا۔ مترجم طہ یٰسین ہیں جو دارالعروبہ راولپنڈی کے ابتدائی کارکنان میں سے ہیں۔ یہ کام انہوں نے مولانا مسعود عالم ندوی کے زیر نگرانی سر انجام دیا۔ اس کے بعد یہی رسالہ ” تاریخی خطبہ“ کے نام سے اسی ترجمہ کے ساتھ فرینڈ ز پبلیکشنز حسین آگاہی ملتان نے طبع کیا ۔ تعداداور تاریخ اشاعت درج نہیں کی گئی۔
۹۔ دعوتنا فی طور جدید ( ہماری دعوت کا نیا مرحلہ)
یہ اس دور کا رسالہ ہے جب اخوان کی دعوت تیزی سے پھل پھول رہی تھی اور نئے لوگ اس دعوت کے ہمنوا بن رہے تھے اور مخالفین کی جانب سے اس کے خلاف تابڑ توڑ حملے ہونے لگے تھے۔ امام شہید نے اس رسالہ میں تمام پہلوﺅں کا احاطہ کیا ہے جن پر اعتراضات کئے جارہے تھے۔ امام نے واضح کیا کہ ہماری دعوت عالمی نوعیت کی دعوت ہے۔ یہ کوئی محدود دعوت نہیں ہے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مصر میں ، مصری نیشنلزم ، عرب نیشنلزم ، مشرقیت اور عالمگیریت کا بڑا شہر ہ تھا۔
۰۱۔ مشکلاتنا فی ضوءالنظام الاسلامی: ( ہماری مشکلات نظام اسلامی کی روشنی میں )
  امام شہید کی یہ قیام پاکستان کے بعد کی تحریر ہے۔ اس میں مصر اور دوسرے اسلامی ممالک کا بھر پو رتجزیہ کیا گیا ہے۔ اصلاح احوال کے لئے تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
۱۱۔ الاخوان المسلمون تحت رایة القرآن ۔ (ا خوان المسلمون پرچم قرآن کے سائے میں )
  یہ امام شہید کی ایک تقریر دلپذیر ہے جو ۴ اپریل۹۳۹۱ءکو قاہرہ میں منعقد ہونے والے ایک بڑے اجتماع کے سامنے کی گئی۔ اس میں اخوان کے مقاصد اور نوجوانوں کے فرائض اور ذمہ داریوں کو واضح کیا گیا اور مغربی تہذیب کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بننے کی دعوت دی گئی۔ جو مسلم معاشرت کو اندر ہی اندر کھوکھلا اور کمزور کررہی ہے۔
۲۱۔ بین الامس و الیوم: ۔ (کل اور آج )
یہ امام کا وہ رسالہ ہے جو دوسری جنگ عظیم سے قبل تحریرکیا گیا ۔ اس میں اسلام کے اصول و مبادی اور ملی اصلاح کے طریق کار کو واضح کیا گیا ہے۔ رسالے کے آغاز میں حضور کی قیادت میں وقوع پذیر ہونے والی پہلی اسلامی ریاست کے خدو خال بیان کیے گئے ہیں۔رسالے کے آخر میں اخوانی دعوت بیان کی گئی ہے۔ جو انسان کی فلاح و نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ یہ رسالہ پہلی مرتبہ عویدات بیروت سے طبع ہوا۔
  امام حسن البنا کے چھوٹے چھوٹے کتابچوں کا مجموعہ ” رسائل حسن البنائ“ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ یہ اپنی اثر انگیزی ، تاثیر ، زبردست قوت کشش کے باعث بے مثال اور قیمتی چیز ہے۔ ان میں اسلامی زندگی کے بہت سے پہلوﺅں کی وضاحت بہت خوبصورت انداز تحریر میں جرا ¿ت و بے باکی کے ساتھ کی گئی ہے۔ علاوہ ازیں اس میں اخوان المسلمون کے نصب العین، مقصد ، طریقہ کار ، طریق تبلیغ وتربیت پر بہت مدلل انداز میں کلام کیا گیا ہے۔ اس مجموعے میں رسالہ التعالیم، نظام الاسرة، الجہاد، دعوتنا فی طور جدید، دعوتنا ، نحو النور، بین الامس و الیوم، رسالة الموتمر الخامس، اور چند دوسرے رسائل کے تراجم پر شامل ہےں۔” مجاہد کی اذان“ کے نام سے یہ ترجمہ محمد عنایت اﷲ سبحانی نے کیا ہے جو اس سے قبل سید قطب کی کتاب” معالم فی الطریق“ کا ترجمہ ” نقوش راہ “ کے نام سے شائع کرکے شائقین علم سے داد وصول کرچکے ہیں۔ اس کو اسلامک بپلیکیشنز لاہور نے طبع کیا ہے۔ اس کے ۹ ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ جن کی کل تعداد ۰۰۱۹ ہے۔ آخری ایڈیشن مارچ ۱۰۰۲ءمیں طبع ہوا ۔ امام کے رسائل میں سے رسالہ التعالیم بہت اہم ہے۔ پروفیسر سعیدحویٰ نے اس رسالہ کی بنیاد پر ” فی آفاق التعالیم“ کے نام سے رسالہ التعالیم“ کی تشریحات و توضیحات پر مشتمل کتاب ترتیب دی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ عبید اﷲ فہد فلاحی( علیگڑھ ) نے کیا۔ اس کا پہلا ایڈیشن ہندوستان پبلیکشنز دہلی نے ۰۰۰۲ کی تعداد میں طبع کیا جبکہ دوسرا ایڈیشن اپریل ۳۸۹۱ءمیں ایک ہزار کی تعداد میںادارہ مطبوعات طلبہ اچھرہ لاہور نے چھاپا۔ اسی طرح علامہ یوسف قرضاوی کی تصنیف ” التربیة الاسلامیہ و مدرسہ حسن النبائ“ امام کے مختلف رسائل کی روشنی میں ترتیب دیا گیا مجموعہ ہے۔ اس کا ترجمہ” اخوان المسلمون کا تربیتی نظام “ کے عنوان سے عبید اﷲ فہد فلاحی(علیگڑھ) نے کیا ہے اور اس کا پہلا ایڈیشن ہندوستان میں ۲۸۹۱ءمیں ۰۰۰۲ کی تعداد میں چھپا جبکہ دوسرا ایڈیشن ۲۸۹۱ءمیں ایک ہزار کی تعداد میں ادارہ مطبوعات طلبہ اچھرہ لاہور نے طبع کیا۔
  امام کی موثر ترین وہ تحریریں ہیں جو روزنامہ ” اخوان المسلمون“ میں ” وقت ہی زندگی ہے“ کے عنوا ن کے تحت لکھی گئی ہیں۔ اما م نے ماہنامہ ” الشہاب “ جاری کیا۔ یہ رسالہ پانچ شماروں سے زیادہ نہ نکل سکا۔ حسن البناءاس کا مواد خود ہی لکھتے اور ترتیب دیتے ۔ دسمبر ۸۴۹۱ءمیں داروگیر کا مرحلہ آیا اور فروری ۹۴۹۱ءمیں صاحب الشہاب شہید کردیئے گئے۔
  حسن البنا شہید کے اس کے علاوہ درج ذیل کتابچے شائع ہوچکے ہیں۔ تقاریر، خطبات کی طباعت و اشاعت کا فریضہ مرکز اخوان المسلمون کا ” شعبہ اشاعت دعوت“ کے تحت سر انجام پاتا ہے۔ یہی شعبہ مبلغین کی تیاری کا کام بھی کرتا ہے۔ امام کی چند کتب و رسائل حسب ذیل ہیں:
           
        ھل نحن قوم عملیون    کیا ہم عملی لوگ ہیں
        المنھاج     طریقہ کار
        المناجاة     سرگوشی
        عقیدتنا      ہمارا عقیدہ
        العقائد     عقائد 
        الی الاخوان الکتائب   اخوانی تربیتی دستوں کے نام
        رسالة الموتمو السادس  چھٹی کانفرنس کا پیغام
حسن البنا شہید کی ان کے علاوہ بھی متعدد تحریریںملتی ہیں جو مختلف اوقات میں حالات کے تقاضوں کے تحت لکھی گئی ہیں۔ ان میں سیاسی سماجی، اخلاقی معاشرتی ضرورتوں کے تحت لکھی گئی تحریریںبھی ہیں۔ یہ تحریریں اپنی زبان اسلوب کے ساتھ بھی فصاحت و بلاغت کا خوبصورت نمونہ ہیں۔ اپنے مضامین و مدعا کے اعتبار سے اچھی اور صحت مندانہ سوچ پیش کرتی نظر آتی ہیں۔ حسن البناءشہید تادم آخر،اپنی گفتگو ، کردار اور عمل سے جدوجہد پرنہ صرف خود کمر بستہ نظر آتے ہیں بلکہ معاشرے کو بھی اس جانب دعوت دیتے اور ابھارتے نظر آتے ہیں انکی تحریروں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عمل پر ابھارنے والی ہیں۔
http://www.ghazinaama.com.pk/2012/02/blog-post_6100.html

No comments:

Post a Comment