کیا ریلوے بھی ہوجائے گا فروخت
ایس اے ساگر
یکے بعد دیگرے شعبوں کی طرح اب ریلوے بھی منافع خوری کے نشانہ پر ہے. کسی کو یقین نہ ہوتو ذرائع ابلاغ میں شائع رپورٹوں کا مطالعہ کر سکتا ہے جبکہ
بھارت میں اس وقت نو ہزار ریل کے انجن ہیں جن میں 43 اب بھی بھاپ سے چلتے ہیں۔ ان کے ذریعے تقریباً پانچ لاکھ کے قریب مال بردار ڈبے اور 60 ہزار سے زیادہ مسافر ڈبے ایک لاکھ 15 ہزار کلومیٹر کے وسیع ریلوے ٹریک پر چلتے ہیں۔
انڈین ریلوے کی جانب سے روزانہ 12 ہزار ٹرینیں چلائی جاتی ہیں جن پر دو کروڑ 30 لاکھ مسافر سفر کرتے ہیں۔
یہ سرکاری ادارہ دنیا کا ساتواں سب سے بڑا ادارہ ہے۔ اس میں ریاست کے اندر ایک ریاست چل رہی ہے۔ ریلوے میں 13 لاکھ ملازمین ہیں جن کے لیے سکول، ہسپتال، پولیس، اور عمارتیں بھی موجود ہیں۔
لیکن شاید یہ تاریخی ادارہ جلد ہی ختم ہونے والا ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کوگذشتہ برس اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک بنیادی اصلاحات نہ کرنے کے لیے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تاہم گذشتہ ہفتے ملک کی ریلوے کی تعمیرِ نو کے لیے ممکنہ طور پر انتہائی متنازع تجاویز سامنے آئی ہیں۔
یہ تجاویز انڈین ریلوے میں اصلاحاتی تجاویز کا جائزہ لینے والی کمیٹی نے پیش کیں۔
کمیٹی کی عبوری رپورٹ غیر مبہم ہے اور اس کے مطابق انڈین ریلوے کو اپنا معیار بہتر بنانے کے لیے مسابقت کا زبردست جھٹکا چاہیے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک ایسا نظام بنانے کی ضرورت ہے جس کے تحت نجی کمپنیوں کو سرکاری ٹرینوں کے مقابلے میں مسافر اور مال بردار ٹرینین چلانے کی اجازت دی جائے۔
اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ ریلوے لائنوں کو بھی الگ کیا جائے جیسا کہ برطانیہ میں ہے۔
یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ اس مقصد کے لیے ایک خود مختار شخص کو منتخب کیا جائے جس کا کام اس بات کی نگرانی کرنا ہو کہ نجی ٹرینیں چلانے والوں کو ریلوے ٹریکوں تک برابر رسائی مل سکے۔
رپورٹ میں اس بات پر بھی بحث کی گئی ہے کہ نجی کمپنیاں پہلے سے ہی مال بردار ڈبے بنا رہی ہیں لہٰذا انھیں مسافروں کے لیے چلنے والے ڈبے اور انجن سپلائی کرنے کی اجازت بھی ہونی چاہیے۔
کمیٹی برائے شکایات کے چیف اور ماہرِ اقتصادیات بیبیک ڈیب رائے کا کہنا ہے کہ اس بات کا اندازہ لگانا ناممکن ہے کہ آیا اس منصوبے سے پیسہ آئے گا یا نہیں۔
اس رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ انڈین ریلوے کو لاتعداد اسکول، ہسپتال ، پولیس فورس چلانے اور غیر متعلقہ سرگرمیوں سے روکنا ہو گا۔
بھارت کی سب سے بڑی ریلوے یونین کا اس رپورٹ کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ ریلوے کی نجکاری کرنے کی کوشش ہے۔ تاہم وزیر اعظم نریندر مودی نے ریلوے یونین کے اس الزام کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ریلوے کی نجکاری نہیں کر رہے ہیں۔ آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، یہ نہ تو ہماری خواہش ہے اور نہ ہی ہماری ایسی سوچ ہے۔‘
کمیٹی کے ایک رکن گُرچرن داس نے اس بارے میں کہا کہ ’نجکاری اور مقابلے میں فرق ہوتا ہے۔ ہم ریلوے کو بیچنا نہیں چاہتے جو ہم کرنا چاہتے ہیں وہ یہ کہ ہم مسابقت لانا چاہتے ہیں۔ اس سے قیمتیں کم اور معیار بہتر ہو گا۔‘
ریلوے یونین کے ارکان کو نجکاری کے بارے میں برہم ہونے پر الزام بھی نہیں دیا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے کہ اس وقت ریلوے کو فروخت کرنے کا ان کا کو ئی ارادہ نہ ہو لیکن شاید مستقبل میں اسے بیچ دیا جائے۔
ٹرینوں کے شوقین افراد کو زیادہ فکر مند نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ٹرینیں چلانے والی نئی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کے لیے طرح طرح کی خوبصورت اور رنگین وردیاں بنانے کا سوچ رکھا ہے۔
No comments:
Post a Comment