Thursday, 9 April 2015

وقار الدین انکاﺅنٹر کی سی بی آئی انکوائری ضروری !

بغیر جرم ثابت ہوئے پولیس کو کس نے دیا انکاﺅنٹر کا فرمان ، کب سے پولیس بنی جوڈیشیری ؟ مولانا معظم 
فتح پوری مسجد کے نائب شاہی امام اور دہلی وقف بورڈ و سنٹرل حج کمیٹی کے سابق رکن مولانا محمد معظم احمد نے آج میڈیا کو جاری ایک بیان میں تلنگانہ میں ہوئے وقار الدین سمیت 5لوگوں کے انکاﺅنٹر پر اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ خبروں کے مطابق ’ حیدرآباد کے پرانے شہر میں پولیس پر حملہ کرنے کا وقار الدین پر الزام تھا‘ ۔مولانا معظم نے کہا کہ کیا وقار الدین کا جرم ثابت ہوا تھا؟ اگر ہاں ! تو کیا عدلیہ نے اسکے انکاﺅنٹر کا حکم جاری کیا تھا ؟ اگر نہیں ! تو پولیس کو انکاﺅنٹر کرنے کا حکم کس نے دیا ؟ ان سوالات کے جواب پولیس کو دینے ہی ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کسی کا قتل پولس سمیت انتظامیہ کے کردار پر سوالیہ نشان کھڑا کرتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ الزامات کو جب تک سچ نہیں پایا جا تا تب تک سزا کا تعین کیسے ہوسکتاہے ؟ مولانا معظم نے کہا کہ وقار الدین کے والد نے اس انکاﺅنٹر پر جو سوالات کھڑے کئے ہیں ،انکو انتظامیہ کو سنجیدگی سے لینا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ وقار الدین کے والد کی جانب سے یہ کہا جا نا کہ جب تک سی بی آئی انکوائری کا اعلان نہیں ہوتا ہے تب وہ بچہ کے تدفین نہیں کریں گے بالکل درست معلوم ہوتا ہے ۔ مولانا معظم نے اس معاملہ میں میڈیا سے غیر جانبدار انہ رویہ اختیار کرنے کی اپیل کی ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا کیلئے ضروری ہے کہ وہ ظلم کیخلاف آواز اٹھائے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر وقار الدین کو پولیس پر حملہ کا مجرم مان بھی لیا جائے تو اسکے انکاﺅنٹر کا کیا مطلب ہوتا ہے ، جرم ثابت ہونے کی صورت میں عدالت اسے سزا دیتی ۔ پولیس کب سے عدلیہ کا کردار ادا کرنے لگی ۔ مولانا معظم نے کہا کہ اس طرح کے انکاﺅنٹر ہمارے ملک کے سیکولر کردارپر ایک سوالیہ نشان ہیں ۔ ان کو ہلکے میں نہیں لیا جا نا چاہئے ۔ 

No comments:

Post a Comment