ایک چیلنج ،ایک لمحہ فکریہ
اکیسویں صدی کی بھاگ دوڑ کی زندگی نے انسانو ں کو بھی مشین بناکر رکھ
دیا ہے ۔آج ہر شخص بے چین اور بے کل ہے ۔زندگی کی ڈکشنری میں سکون اور
آرام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔دن رات ایک عجیب سی اندھی دوڑ کی ہوڑ لگی ہوئی
ہے۔اسی کے ساتھ ہرایک کی زبان پر وقت کی کمی کاروناہے ،ہر ایک اپنے ایک
ایک منٹ کی پوری پوری قیمت وصول کرنے کیلئے چشم زدن میں گھر سے آفس ،آفسسے گھر پہنچنا چاہتاہے ، اس کے نتیجہ میں آئے دن ایکسیڈنٹ ،حادثے اور
راہ چلتے جھگڑے ہوتے رہتے ہیں ۔بائک سوار شاہنواز اور کارسوار امین وغیرہ
کے مابین جان لیواجھگڑے کی جڑ عجلت اور بے صبری کی یہی ذہنیت ہے جو آج ہر
عام وخاص راہ گیر کی عادت بنتی جارہی ہے۔ہمیں اپنی اس خراب اور پرخطر
عادت پر لگام لگاناہوگا ۔نرم مزاجی انسان کی ایک عمدہ اخلاقی صفت ہے۔اس
کے بالمقابل جبر و استبداد نہایت بری خصلت ہے ،لیکن وہ اچھی عادتیں جو
انسانیت کی پیشانی کا تاج ہیں ،ہم سے رخصت ہوتی چلی جارہی ہیں۔آج ہم اپنی
جوانی اور شہ زوری کی بے جااکڑ خوں میں راہ چلتے امن کے راستے کا پتھر بن
گئے ہیں۔
جوانی کا جوش و ترنگ مشہورہے اوریہ مثل بھی معروف ہے کہ جوانی دیوانی
ہوتی ہے ، اس دیوانگی میں لاابالی پن ضرور ہوتاہے لیکن سفاکیت نہیں ہوتی
ہے، مگر اب جوانی کے خمار میں سفاکیت اور ہٹ دھرمی کا زہر اس قدرسرایت
کرچکاہے کہ شہ زور قسم کے نوجوان کب اورکہاں خونی واردات انجام دے دیں
اور ان کی قہرسامانیوں کا کون شکار بن جائے کچھ نہیں کہاجاسکتاہے ۔اب شہ
زوری کے مظاہرے گلی کوچوں میں نہیں بلکہ سربازار ہورہے ہیں اور بلاجھجھک
قتل و غارت گری کی واردات انجام دی جارہی ہیں ۔جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح
قانون کے رکھوالوں کیلئے ایک چیلنج اور مہذب معاشرہ کیلئے لمحہ ¿ فکریہ
ہے۔
ابھی گذشتہ ۵اپریل ۵۱۰۲ءاتوار کو رات تقریبا گیارہ بجے ایک معمولی سی
بات پر ۵۳سالہ شاہنواز کو پیٹ پیٹ کر مارڈالنے کی سنگین واردات سامنے آئی
ہے ۔اس دلدوزسانحہ سے پتھر دل انسان بھی ششدر اور حیران ہیں۔یہ دل
دہلادینے والا واقعہ کسی گلی کوچے میں نہیں بلکہ دہلی کے ترکمان گیٹ کے
سامنے شاہراہ عام پر پیش آیاہے ۔اس وقت وہاں جام لگا ہواتھا اور اچھی
خاصی بھیڑ تھی،پولس کے دوجوان بھی قریب ہی کھڑے تھے ۔سب کے سامنے کچھ شہزور نوجوان موت بن کر ایک شخص پرٹوٹ پڑے تو نہ ہی قانون کے رکھ والوں نے ہی اپنا فرض اداکیااور نہ ہی وہاں موجود لوگ مظلوم کی حمایت اور بچاو ¿
کیلئے سامنے آنے کی ہمت جٹاسکے ۔زورآور اپنی زورآوری کا مظاہرہ کرتے رہے
اور ایک اکیلا شخص ان کے نرغے میں پھڑاپھڑاتارہا، اس مظلوم کے دونوں
معصوم بچے دادرسی کی فریاد کرتے رہے لیکن سب نے سنی ان سنی کردی،کسی نے
ذرا بھی جرات مندی کا مظاہرہ نہیںکیا۔شاید وہاں موجود لوگوں کا جذبہ
ترحم دم توڑ چکاتھایاشہ زوروں کے خوف سے شرافت اور جرات بالکل مغلوب
ہوگئی تھی۔ذرا سے وقت میں کیا سے کیا ہوگیا۔ایک اچھا خاصا چلتا پھرتا
وجود دیکھتے ہی دیکھتے خاک وخون میںغلطاں و پیچاں ہوکر دم توڑبیٹھا۔یہ
صرف ایک شخص کی موت نہیں بلکہ انسانی شرافت اوراحساس فرض کی موت ہے۔اگرذرا بھی حساسیت کا مظاہرہ کیا جاتاتو شاہنواز کی جان بچ سکتی تھی۔
یہ حادثہ اس طرح پیش آیا کہ شاہنواز اپنے دوچھوٹے بچوں کو موٹر
سائیکل پربیٹھاکر ترکمان گیٹ سے اپنے گھر واپس ہورہاتھا۔اس کی موٹر
سائیکل کا پچھلا حصہ ایک کارسے ٹچ ہوگیا۔اسی میں کچھ کہاسنی ہوئی،بات
بڑھی اور مارپیٹ کی نوبت آگئی ۔شاہنواز بھی کمزور نہیں تھالیکن کارسوار
کئی تھے اور آنا فانا میں کئی ایک آبھی گئے۔اب کئی لوگوں پرمشتمل ایک
جتھا ایک اکیلے کو پیٹ رہاتھا۔دونوں بچے چیخ رہے تھے۔بھیڑ خاموش تماشائی
بنی ہوئی تھی،پولیس والے بھی معاملہ بڑھتا ہوا دیکھ کر وہاں سے کھسک
گئے۔ذراسی دیر میں زندہ شاہنواز مردہ میں تبدیل ہوگیا۔اس کے با ل بچوں
،بیوی اور والدین وخویش واقارب پرغم کا پہاڑٹوٹ پڑا۔سب بے حال ہیں اور
پچھاڑے مار مار کر رورہے ہیں۔دوسرے دن علاقہ کے لوگوں کے سخت غم وغصہ اوراحتجاج کی وجہ سے امین اوروسیم وغیرہ گرفتار ہوچکے ہیں۔لیکن شاہنواز کا
قتل غمازی کرتاہے کہ ہماراسماج کس حد تک بے سمتی کا شکار ہوچکاہے اور شہ
زوروں کے زیر اثر آکر کتنا مغلوب اور بے بس ہوچکاہے کہ بروقت مددکیلئے
آگے بڑھنے سے بھی ڈرتاہے۔اسی وجہ سے شہ زوروں اور جرائم پیشہ عناصر کے
حوصلے بڑھے ہوئے ہیں۔ان پرقابو پانے کیلئے سماج کو ان کے مدمقابل پوری
طاقت سے کھڑا ہونا ہوگا،ورنہ اس طرح کی واردات ہوتی رہیں گی اور ہم صرف
لکیر پیٹتے رہیں گے۔
ہٹ دھرمی اور پراگندہ مزاج لوگ مہذب سماج کے لیے ایک وبا ل ہیں۔ایسے
لوگ اپنی بے جا حرکتوں سے آئے دن طوفان بدتمیزی برپاکئے رہتے ہیں اور
سماج کیلئے ایک مسئلہ بنے رہتے ہیں ۔اسلام کی تعلیم ہے کہ سب انسان امن و
سلامتی کے ساتھ مل جل کر رہیں، لیکن آج لڑائی جھگڑا اور گالی گلوج
مسلمانوں کی خاص پہچان بنتی جارہی ہے۔جب کہ گالی دینا بداخلاقی ہی نہیں
بلکہ نہایت نچلے درجہ کی بدتمیزی ہے اور بدزبانی کی انتہائی مکروہ شکل
ہے۔اصلاح معاشرہ اور سماج سدھار کا کام کرنے والوں کو اس طرح کے نوجوانوں
کی اصلاح کیلئے ان کے درمیان کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔تاکہ انہیں معلوم
ہو کہ ایک مسلمان کو کس طرح رہنا سہنا چاہئے۔ آج ہمارے کتنے نوجوان ایسے
ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ لڑائی جھگڑے میں میدان مارلینا اور صحیح وغلط
کسی بھی طرح سے اپنا مقصد حاصل کرلینا ہی سب سے بڑی جیت ہے۔اگر کوئی
مسلمان بدوضع اور بدزبان ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی رنگ اس پرنہیں
چڑھا ہے۔ ایسے لوگوں کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ برائی اور
سرکشی کے راستے پر چلنے والے ہمیشہ بدنام اور ناکام ہوتے ہیں۔بدمزاجی سے
بنتے کام بھی بگڑجاتے ہیں جب کہ نرم مزاجی سے الجھے ہوئے معاملات بھی
آسانی سے سلجھ سکتے ہیں۔اگر شاہنواز اور امین اور اس کے ساتھی ایک دوسرے
پربڑائی جتانے کی بے مقصد جنگ نہ کرتے تو ایک کی جان نہ جاتی اوردوسرے
جیل میں نہ ہوتے۔
عبدالمعید قاسمی،
اکیسویں صدی کی بھاگ دوڑ کی زندگی نے انسانو ں کو بھی مشین بناکر رکھ
دیا ہے ۔آج ہر شخص بے چین اور بے کل ہے ۔زندگی کی ڈکشنری میں سکون اور
آرام کی کوئی چیز نہیں ہے ۔دن رات ایک عجیب سی اندھی دوڑ کی ہوڑ لگی ہوئی
ہے۔اسی کے ساتھ ہرایک کی زبان پر وقت کی کمی کاروناہے ،ہر ایک اپنے ایک
ایک منٹ کی پوری پوری قیمت وصول کرنے کیلئے چشم زدن میں گھر سے آفس ،آفسسے گھر پہنچنا چاہتاہے ، اس کے نتیجہ میں آئے دن ایکسیڈنٹ ،حادثے اور
راہ چلتے جھگڑے ہوتے رہتے ہیں ۔بائک سوار شاہنواز اور کارسوار امین وغیرہ
کے مابین جان لیواجھگڑے کی جڑ عجلت اور بے صبری کی یہی ذہنیت ہے جو آج ہر
عام وخاص راہ گیر کی عادت بنتی جارہی ہے۔ہمیں اپنی اس خراب اور پرخطر
عادت پر لگام لگاناہوگا ۔نرم مزاجی انسان کی ایک عمدہ اخلاقی صفت ہے۔اس
کے بالمقابل جبر و استبداد نہایت بری خصلت ہے ،لیکن وہ اچھی عادتیں جو
انسانیت کی پیشانی کا تاج ہیں ،ہم سے رخصت ہوتی چلی جارہی ہیں۔آج ہم اپنی
جوانی اور شہ زوری کی بے جااکڑ خوں میں راہ چلتے امن کے راستے کا پتھر بن
گئے ہیں۔
جوانی کا جوش و ترنگ مشہورہے اوریہ مثل بھی معروف ہے کہ جوانی دیوانی
ہوتی ہے ، اس دیوانگی میں لاابالی پن ضرور ہوتاہے لیکن سفاکیت نہیں ہوتی
ہے، مگر اب جوانی کے خمار میں سفاکیت اور ہٹ دھرمی کا زہر اس قدرسرایت
کرچکاہے کہ شہ زور قسم کے نوجوان کب اورکہاں خونی واردات انجام دے دیں
اور ان کی قہرسامانیوں کا کون شکار بن جائے کچھ نہیں کہاجاسکتاہے ۔اب شہ
زوری کے مظاہرے گلی کوچوں میں نہیں بلکہ سربازار ہورہے ہیں اور بلاجھجھک
قتل و غارت گری کی واردات انجام دی جارہی ہیں ۔جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح
قانون کے رکھوالوں کیلئے ایک چیلنج اور مہذب معاشرہ کیلئے لمحہ ¿ فکریہ
ہے۔
ابھی گذشتہ ۵اپریل ۵۱۰۲ءاتوار کو رات تقریبا گیارہ بجے ایک معمولی سی
بات پر ۵۳سالہ شاہنواز کو پیٹ پیٹ کر مارڈالنے کی سنگین واردات سامنے آئی
ہے ۔اس دلدوزسانحہ سے پتھر دل انسان بھی ششدر اور حیران ہیں۔یہ دل
دہلادینے والا واقعہ کسی گلی کوچے میں نہیں بلکہ دہلی کے ترکمان گیٹ کے
سامنے شاہراہ عام پر پیش آیاہے ۔اس وقت وہاں جام لگا ہواتھا اور اچھی
خاصی بھیڑ تھی،پولس کے دوجوان بھی قریب ہی کھڑے تھے ۔سب کے سامنے کچھ شہزور نوجوان موت بن کر ایک شخص پرٹوٹ پڑے تو نہ ہی قانون کے رکھ والوں نے ہی اپنا فرض اداکیااور نہ ہی وہاں موجود لوگ مظلوم کی حمایت اور بچاو ¿
کیلئے سامنے آنے کی ہمت جٹاسکے ۔زورآور اپنی زورآوری کا مظاہرہ کرتے رہے
اور ایک اکیلا شخص ان کے نرغے میں پھڑاپھڑاتارہا، اس مظلوم کے دونوں
معصوم بچے دادرسی کی فریاد کرتے رہے لیکن سب نے سنی ان سنی کردی،کسی نے
ذرا بھی جرات مندی کا مظاہرہ نہیںکیا۔شاید وہاں موجود لوگوں کا جذبہ
ترحم دم توڑ چکاتھایاشہ زوروں کے خوف سے شرافت اور جرات بالکل مغلوب
ہوگئی تھی۔ذرا سے وقت میں کیا سے کیا ہوگیا۔ایک اچھا خاصا چلتا پھرتا
وجود دیکھتے ہی دیکھتے خاک وخون میںغلطاں و پیچاں ہوکر دم توڑبیٹھا۔یہ
صرف ایک شخص کی موت نہیں بلکہ انسانی شرافت اوراحساس فرض کی موت ہے۔اگرذرا بھی حساسیت کا مظاہرہ کیا جاتاتو شاہنواز کی جان بچ سکتی تھی۔
یہ حادثہ اس طرح پیش آیا کہ شاہنواز اپنے دوچھوٹے بچوں کو موٹر
سائیکل پربیٹھاکر ترکمان گیٹ سے اپنے گھر واپس ہورہاتھا۔اس کی موٹر
سائیکل کا پچھلا حصہ ایک کارسے ٹچ ہوگیا۔اسی میں کچھ کہاسنی ہوئی،بات
بڑھی اور مارپیٹ کی نوبت آگئی ۔شاہنواز بھی کمزور نہیں تھالیکن کارسوار
کئی تھے اور آنا فانا میں کئی ایک آبھی گئے۔اب کئی لوگوں پرمشتمل ایک
جتھا ایک اکیلے کو پیٹ رہاتھا۔دونوں بچے چیخ رہے تھے۔بھیڑ خاموش تماشائی
بنی ہوئی تھی،پولیس والے بھی معاملہ بڑھتا ہوا دیکھ کر وہاں سے کھسک
گئے۔ذراسی دیر میں زندہ شاہنواز مردہ میں تبدیل ہوگیا۔اس کے با ل بچوں
،بیوی اور والدین وخویش واقارب پرغم کا پہاڑٹوٹ پڑا۔سب بے حال ہیں اور
پچھاڑے مار مار کر رورہے ہیں۔دوسرے دن علاقہ کے لوگوں کے سخت غم وغصہ اوراحتجاج کی وجہ سے امین اوروسیم وغیرہ گرفتار ہوچکے ہیں۔لیکن شاہنواز کا
قتل غمازی کرتاہے کہ ہماراسماج کس حد تک بے سمتی کا شکار ہوچکاہے اور شہ
زوروں کے زیر اثر آکر کتنا مغلوب اور بے بس ہوچکاہے کہ بروقت مددکیلئے
آگے بڑھنے سے بھی ڈرتاہے۔اسی وجہ سے شہ زوروں اور جرائم پیشہ عناصر کے
حوصلے بڑھے ہوئے ہیں۔ان پرقابو پانے کیلئے سماج کو ان کے مدمقابل پوری
طاقت سے کھڑا ہونا ہوگا،ورنہ اس طرح کی واردات ہوتی رہیں گی اور ہم صرف
لکیر پیٹتے رہیں گے۔
ہٹ دھرمی اور پراگندہ مزاج لوگ مہذب سماج کے لیے ایک وبا ل ہیں۔ایسے
لوگ اپنی بے جا حرکتوں سے آئے دن طوفان بدتمیزی برپاکئے رہتے ہیں اور
سماج کیلئے ایک مسئلہ بنے رہتے ہیں ۔اسلام کی تعلیم ہے کہ سب انسان امن و
سلامتی کے ساتھ مل جل کر رہیں، لیکن آج لڑائی جھگڑا اور گالی گلوج
مسلمانوں کی خاص پہچان بنتی جارہی ہے۔جب کہ گالی دینا بداخلاقی ہی نہیں
بلکہ نہایت نچلے درجہ کی بدتمیزی ہے اور بدزبانی کی انتہائی مکروہ شکل
ہے۔اصلاح معاشرہ اور سماج سدھار کا کام کرنے والوں کو اس طرح کے نوجوانوں
کی اصلاح کیلئے ان کے درمیان کام کرنے کی سخت ضرورت ہے۔تاکہ انہیں معلوم
ہو کہ ایک مسلمان کو کس طرح رہنا سہنا چاہئے۔ آج ہمارے کتنے نوجوان ایسے
ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ لڑائی جھگڑے میں میدان مارلینا اور صحیح وغلط
کسی بھی طرح سے اپنا مقصد حاصل کرلینا ہی سب سے بڑی جیت ہے۔اگر کوئی
مسلمان بدوضع اور بدزبان ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی رنگ اس پرنہیں
چڑھا ہے۔ ایسے لوگوں کو بتانے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ برائی اور
سرکشی کے راستے پر چلنے والے ہمیشہ بدنام اور ناکام ہوتے ہیں۔بدمزاجی سے
بنتے کام بھی بگڑجاتے ہیں جب کہ نرم مزاجی سے الجھے ہوئے معاملات بھی
آسانی سے سلجھ سکتے ہیں۔اگر شاہنواز اور امین اور اس کے ساتھی ایک دوسرے
پربڑائی جتانے کی بے مقصد جنگ نہ کرتے تو ایک کی جان نہ جاتی اوردوسرے
جیل میں نہ ہوتے۔
عبدالمعید قاسمی،
تنظیمی سکریٹری جمعیة علماءہند،
۱بہادرشاہ ظفر مارگ نئی دہلی
No comments:
Post a Comment