Friday, 10 April 2015

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے...


تہجدکے معنی ہیں نیند کو توڑ کر اٹھنا۔ رات کے وقت تہجد کرنے کا مطلب ہے کہ رات کا ایک حصہ سونے کے بعد پھر اٹھ کر نماز پڑھی جائے۔ تہجد کی کم سے کم دور کعتیں ہیں (ابنِ حبان، ترغیب و الترہیب) اوسطاً چار اور زیادہ سے زیادہ آٹھ (یا بارہ) رکعتیں ہیں۔ یہ نماز اللہ کے ہاں بہت مقبول ہے نفل نمازوں میں سب سے زیادہ اس کا ثواب ہے۔ (مسلم، ترمذی، ابو داﺅد) قرآن میں تہجد کی فضیلت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ 
”بے شک اللہ سے ڈرنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ اور اس (نعمت) کو لیں گے جسے ان کا رب انہیں دے گا۔بے شک وہ اس سے پہلے احسان (ہر کام خیر و خوبی سے) کرنے والے تھے۔ رات کو کم سوتے تھے اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے بخشش طلب کیا کرتے تھے۔“ (سورۃ الذاریات: ۱۵ تا ۸۱) 

دوسری جگہ ارشاد ہے۔ ”اور اللہ کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں اور جب جاہل قسم کے لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ ان سے یہ کہتے ہیں کہ بھئی سلام (معاف کرو)یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے حضور قیام اور سجدہ کرتے ہوئے رات بسر کرتے ہیں“۔(سورة الفرقان:۳۶،۳۶) 

حضرت ابو امامہ(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”تم لوگوں کو چاہیے کہ رات کو قیام کرو۔ اس لیے کہ تم سے پہلے نیک بندوں کی عادت بھی یہی تھی یہ تمہارا اپنے رب سے قربت حاصل کرنا ہے، یہ عمل تمہاری برائیوں کو مٹانے والا اور تمہیں گناہوں سے بچانے والا ہے۔“ (ترمذی) 

حضرت ابو ہریرہ(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”اللہ اس شخص پر رحم کرتا ہے جو آدھی رات کو اٹھتا ہے اور تہجد کی نماز پڑھتا ہے اور اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے اور وہ بھی نماز پڑھتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے (پیار سے) پھینکتا ہے اور اللہ اس عورت پر بھی نظر کرم فرماتا ہے جو رات کو اٹھ کر تہجد پڑھتی ہے اور اپنے خاوند کو بھی تہجد کے لیے جگاتی ہے اور اگر وہ انکار کرے تو وہ عورت (پیار سے) اپنے خاوند کے منہ پر پانی کے چھینٹے پھینکتی ہے۔“ (ابو داﺅد، نسائی) 

تہجد کی نماز کے اجرو ثواب کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جاسکتا ہے جو ابو مالک اشعری(رضی اللہ عنہ) نے روایت کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایسے شفاف کمرے ہیں کہ جن کے اندر سے باہر کا سب کچھ نظر آتا ہے اور باہر سے اندر نظر آتا ہے اور وہ اللہ نے ان لوگوں کے لیے تیار فرمائے ہیں جو نرم انداز میں گفتگو کرتے ہیں، غریبوں کو کھانا کھلاتے ہیں، اکثر روزے رکھتے ہیں اور راتوں کو اٹھ کر نمازیں (تہجد) پڑھتے ہیں جب کہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں“۔(ترمذی، بیہقی فی شعب الایمان) 

توبہ کا بہترین وقت: ۔ اللہ کے حضور میں اپنے گناہوں سے مغفرت طلب کرنے کا بہترین وقت تہجد کا ہوتا ہے حضرت ابو ہریرہ(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ نبی(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے، تو ہمارا رب و برتر آسمان دنیا پر اترتا اور فرماتا ہے کہ کوئی میرے حضور دعا کرنے والا ہے، کہ میں اس کی دعا قبول کروں؟ ہے کوئی سوال کرنے والا کہ میں اس کا سوال پورا کروں؟ ہے کوئی بخشش چاہنے والاکہ میں اسے بخش دوں۔“ (بخاری ، مسلم، ابو دداﺅد، ترمذی) 

تہجد کا وقت اپنی ماضی کی زندگی کا محاسبہ کرنے اور اپنے کیے ہوئے گناہوں پر ندامت کا بہترین وقت ہوتا ہے اس وقت انسان کی یادداشت کی صلاحیت (Ability To Recall)اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ 1990ءکی دہائی میں امریکہ کے سائنسی جریدے (Scientif American) میں ایک ریسرچ چھپی تھی جو امریکہ کی یونیورسٹی آف پنسلو ینیا (University Of Pennsyluania) اور اسرائیل کی ایک یونیورسٹی دو جگہوں پر کی گئی تھی جس میں انسانوں اور جانوروں کے دماغوں پر برقی ایلیکٹروڈ (Electrodes)لگا کر نیند کے دوران ان کے دماغوں کا تجزیہ کیا گیا اس تحقیق کا نتیجہ یہ تھا کہ نیند لینے کے بعد انسانی یاد داشت کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے (Enhancement Of Memory Process)اس لحاظ سے رات کی آخری گھڑیوں میں جب بندہ نیند سے بیدار ہو کر تہجد کی نماز ادا کرتا ہے تو دعا کے دوران اپنی ماضی کی کوتاہیوں کو رات کی خاموشی میں بآسانی یاد کر سکتا ہے ان پر ندامت کے آنسوبہا کر اللہ کے حضور گڑ گڑا کر معافی مانگ سکتا ہے آئندہ کے لیے اپنے گناہوں سے صدقِ دل سے توبہ کر سکتا ہے اسی قسم کے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورہ آلِ عمران میں فرمایا ہے۔ 

یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ”مالک! ہم ایمان لائے، ہماری خطاﺅں سے درگزر فرما اور ہمیں آتشِ دوزخ سے بچا لے۔یہ لوگ صبر کرنے والے ہیں، راست باز ہیں، فرمانبردار اور فیاض ہیں اور رات کی آخری گھڑیوں میں اللہ سے مغفرت کی دعائیں مانگا کرتے ہیں (سورة آلِ عمران:۶۱،۷۱)

البتہ ایک چیز کا خیال رہے کہ حرام کی کمائی سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا کہ: ”جس شخص کی کمائی اور آمدنی حرام ہو اور اس کی خوراک، مشروب اور لباس حرام کی کمائی سے آئے ہوں تو ایسے شخص کی دعا اللہ تعالیٰ کیسے قبول کر سکتا ہے؟(صحیح مسلم) 

تہجد کی نماز اور گریہ و زاری تبھی نفع بخش ہو سکتے ہیں جب انسان رزقِ حلال کا اہتمام کرتا ہو اور اس کے گھر میں سب لوگ حلال رزق کماتے ہوں۔ مثال کے طور پر آج کل کے دور میں جو والدین ساری زندگی حلال کمائی کرنے کے بعد اپنے نوجوان لڑکوں کو ویڈیوفلم سٹورز یا دیگر شرعی لحاظ سے ممنوعہ بزنس کھول کر دے دیتے ہیں وہ اپنی تمام زندگی کی کمائی کو جہنم کی آگ میں جھونک دیتے ہیں اور اپنے بچوں کو حرام کی کمائی میں غرق کر دیتے ہیں۔ 

تہجد کے وقت اٹھنے کے طبی فوائد 

رات کی آخری گھڑیوں میں اٹھ کر تہجد ادا کرنے سے ویسے تو وہ تمام میڈیکل فوائد حاصل ہوتے ہیں جو ہر نماز سے حاصل ہوتے ہیں۔ مثلاً جسم کے پٹھوں اور جوڑوں کی ورزش، سجدہ کی وجہ سے چہرے کے مساموں (Tissues)میں خون کی مزید گردش، انسان کے Sinusesمیں جمع شدہ بلغم کا اخراج، رات کو تنفس (Breathing)کی رفتار آہستہ ہونے کی وجہ سے پھیپھڑوں کے مکمل طور پر کھل نہ سکنے کی وجہ سے جو ایک تہائی ہوا ( Residual Air)جمع ہوتی ہے اسے بھی پھیپھڑوں سے نکلنے اور داخل ہونے کا موقع مل جاتا ہے سجدے کی حالت میں دماغ کو زائد خون پہنچتا ہے جو اس کی نشوو نما کے لیے اہم کر دیتا ہے اس کے علاوہ سحر خیزی کے مزید بھی بے شمار فوائد ہیں جو نمازِ تہجد کے اٹھنے کے ساتھ مخصوص ہیں۔ حضرت سلمان الفارسی(رضی اللہ عنہ) رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )سے حدیث روایت کرتے ہیں۔ ”تہجد کے وقت اٹھ کر نماز پڑھنے کی عادت بنا لو کیونکہ تم سے پہلی قوموں کے صالح لوگوں کی یہ عادت تھی، یہ تمہیں خدا سے قریب کرتی ہے، تمہارے گناہوں کا کفارہ ہے، تمہارے گناہوں کو مٹاتی ہے اور جسم سے بیماری کو دور کرتی ہے“۔(فقہ السنہ ازسید الثاقب) 

اس حدیث میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حدیث جس صحابی نے روایت کی ہے یعنی سلمان الفارسی(رضی اللہ عنہ) ان کا اس حدیث پر خود اتنا عمل تھا کہ انہوں نے بہت لمبی عمر پائی بعض روایات کے مطابق 150سال اور بعض کے مطابق 250سال۔ امام ابن حجر نے ”الاصابہ فی تمیز الصحابہ(رضی اللہ عنہ) “ میں لکھا ہے کہ سلمان فارسی نے 250سال کی عمر میں وفات پائی۔ 

اسی طرح ایک دوسری صحیح حدیث میں رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا: ”بورک لامتی فی بکورھا“۔(الحدیث)”میری امت کے لیے صبح اٹھنے میں برکت رکھی گئی ہے“۔ اس میں شک نہیں کہ تہجد کے وقت اٹھنا جسم میں بیماریوں کو دور کرتا ہے صبح جلدی بیدار ہونے سے جسم میں جمع شدہ فضلا ت (پیشاب و پاخانہ وغیرہ) کو جسم سے جلدی نکلنے کا موقع مل جاتا ہے جو کہ بصورتِ دیگر جسم میں رہ کر فساد پیدا کرتے ہیں اور گردوں پر زائد بوجھ پڑتا ہے اس کے علاوہ آکسیجن سے بھر پور صبح کی تازہ ہوا میں سانس لینے سے پھیپھڑوں اور دماغ کو تقویت ملتی ہے امریکہ کے نامور مفکر، سیاستدان او رسائنسدان بینجمن فریکلن (Benjamin Franklin)۔(المتوفی:۰۹۷۱ئ) نے سحر خیزی کے انہی فوائد کے پیشِ نظر اپنی کتاب (Poor Richards Almand)میں یہ قول زریں رقم کیا تھا۔ (Early To Bed And Early To Rises. Makes The Man Healthy, Wealthy and wire) ”رات کو جلدی سونا اور صبح جلدی اٹھنا انسان کو صحت مند، مالدار اور عقلمند بناتا ہے“۔ 

امریکہ کے ڈاکٹر ڈینیل کریبک (Daniel F Kipke, mi)اوران کے معاون سائنسدانوں نے امریکن کینسر سوسائٹی کی چھ سالہ تحقیق (1982سے 1988تک) میں ایک ملین سے زیادہ امریکیوں کے سونے کے معمول اور صحت کے بارے میں سائنسی سروے کیا۔ اس تحقیق کے مطابق جو لوگ روزانہ 8گھنٹے سے زیادہ سوتے ہیں ان کی شرح اموات ان لوگوںکے مقابلے میں جو روزانہ 8گھنٹے یا اس سے کچھ کم سوتے ہیں، تین گنا زیادہ ہوتی ہےں۔ مزید برآں، جو لوگ روزانہ 10گھنٹے سوتے ہیں (چھوٹے بچوں کے علاوہ) ان کے مرنے کے امکانات (Death Risk) اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے موٹے لوگوں کے ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کے سربراہ سائنسدان ڈاکٹر کربک نے بتایا: ”ہمیں روزانہ لازمی 8گھنٹے سونا ضروری نہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ رات کو4 سے 6گھنٹے سونا بھی صحت کے لیے محفوظ ہے۔“

ہمارے جسم کے نظاموں پر مصنوعی روشنی کافی گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ رات کو دیر سے سونا خصوصًا جب ٹی وی یا کمپیوٹر کی سکرین سے نکلنے والی مصنوعی روشنیوں کے سامنے بیٹھا جائے اور صبح دیر سے اٹھنا انسان کی صحت پر برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ سورج کے غروب ہو جانے کے بعد انسان کے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ کی لگائی فطری گھڑی (Circadian Rhythm) جسم کو یہ پیغام دیتی ہے کہ جسم میں خارج ہونے والے دباﺅ (Stress)کے ہارمون یعنی (Cortisol)کی مقدار کم ہو جائے اور اس کے مقابلے میں رات کے اندھیرے میں خارج ہونے والے ہارمون (Melatonin)کی مقدار خون سے زیادہ ہو۔ (Cortisol)ہارمون کے جہاں فوائد ہیں وہاں اس کا ایک نقصان یہ ہے کہ یہ انسان کو بوڑھا جلدی کرتا ہے۔ اس کے برعکس (Melatonin) ہارمون جو دماغ کے پائینیل غدود (Pineal Glands) وغیرہ کے عمل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ (بحوالہ The Merck Index,مطبوعہ امریکہ2003ئ) جب انسان تیز مصنوعی روشنیوں کے سامنے رات کو بیٹھا رہے اور پھر سورج نکل آنے کے بعد بھی سوتا رہے تو جسم کے اندر ہارمونز کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے اور جسم کے دباﺅ (Tissues) کی مرمت، وغیرہ کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور انسان کی صحت پر وقت گزرنے کے ساتھ برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 
تہجد کے وقت اٹھنے سے دماغی قوتوں کو بھی تقویت ملتی ہے۔ 2000ءمیں امریکہ کے موقر میڈیکل جریدے جرنل آف امریکن کالج آف ہیلتھ (Health Journal Of American College Of )(Vol.4, Pg125,130) میں ایک بریگھیم ینگ یونیورسٹی (Brigham Young Univorsity) کے طالب علموں پر کی گئی یہ ریسرچ جو وہاں کے سالِ اول کے 184طلباءو طالبات پر کی گئی اس کا نتیجہ یہ تھا کہ جو طالبعلم جتنی دیر سے صبح بیدار ہوتے تھے۔ امتحانات میں ان کے نمبر (Grades) اتنے ہی کم آئے تھے۔ امتحانات میں بری کارکردگی اور کم مارکس حاصل کرنے کا انطباق ان طالبعلموں پر بھی ہوتا تھا جو ویک اینڈ (Weekend) کی صبح کو دیر سے بیدار ہوتے تھے۔ اس کے برخلاف سحر خیزی کی عادت رکھنے والے طالبعلموں کی امتحانات میں کارکردگی بہت اچھی تھی۔ اس تحقیق پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر جوزف مرکولا (Joseph Mercola) نے کہا کہ ہمارے اعضاءبالخصوص ایڈرنل غدود (Adrenal Glands)ہمارے جسم میں مرمت اور تعمیر کا کام رات کے اوائل میں کرتے ہیں اور اس وقت انسان کا سویا ہوا ہونا مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ 

ماہرین نفسیات ہمیں بتاتے ہیں کہ جسم میں مرمت اور تعمیر کا کام گہری نیند کے مرحلہ 3اور 4 (Dreamless Sleep)یعنی غیر خواب کے نیند، میں ہوتا ہے۔ اسی مرحلے میں یادداشت کے لیے خلیے دماغ کے (Hippocampus)میں بنائے جاتے ہیں۔ پھر مرحلہ 5میں جسے ریم نیند Repid Eye Movement Sleep(Rem) کہتے ہیں۔ خواب آتے ہیں یہ مراحل رات کو چار یا پانچ مرتبہ دہرائے جاتے ہیں۔ تجربات بتاتے ہیں کہ رات کے آخری حصے میں آئے ہوئے خواب انسان کو رات کے پہلے حصے کے خوابوںکے مقابلے میں زیادہ اچھی طرح یاد رہتے ہیں کیونکہ رات کے آخری حصے تک یادداشت کے نئے خلیے تیار ہو چکے ہوتے ہیں۔ یاد داشت کی تقویت کے اس عمل کے بعد جاگ کر انسان جب نمازِ تہجد میں قرآن پڑھتے ہوئے اس پر تدبر کرتا ہے اور اللہ کے ہاں گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا ہے تو اس کے وہ الفاظ اس کے حافظے کی لوح پرمرتسم ہو جاتے ہیں اور اس کے کردار کا حصہ بن جاتے ہیں۔ 

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی​

دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والوں کے لیے تہجد 

عموماً یہ سمجھا گیا ہے کہ انبیائے کرام پر تہجد کی نماز فرض ہوتی ہے جبکہ عام لوگوں کے لیے یہ نفل نماز ہے۔ لیکن یہ بات جان لینا ضروری ہے کہ اسلامی تحریکوں کے کارکنوں اور اسلام کی دعوت و تبلیغ کرنے والوں کے لیے تہجد کی نماز بہت ضروری ہے اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اسلام کی دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والے نبوی مشن سر انجام دے رہے ہوتے ہیں جن کے متعلق حضور(صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا:”ان العلماءورثة الانبیاء“۔ (سنن ابی داود، ابنِ ماجہ) 
”علماءنبیوں کے وارث ہوتے ہیں“۔ 

رات کے آخری پہر کی میٹھی نیند کی قربانی دے کر اٹھنے سے اسلام کا کام کرنے والوں کی قوتِ ارادی میں مضبوطی آتی ہے سورۃ المزمل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ”درحقیقت رات کا اٹھنا نفس پر قابو پانے کے لیے بہت کارگر اور قرآن کو ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے“۔ 

نیند انسان کے اندر ایک انتہائی قوی محرک ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انسان کی فطرت بھی آرام طلب واقع ہوئی ہے۔ اس لیے اللہ نے فرمایا ہے کہ رات کو عبادت کے لیے اٹھنا اور دیر تک کھڑے رہنا چونکہ طبیعت کے خلاف ہے اور نفس اس وقت آرام کا مطالبہ کرتا ہے اس لیے یہ فعل ایسا مجاہدہ ہے کہ جو نفس کو دبانے اور اس پر قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے۔ یہ عبادت چونکہ دن کی عبادت کی نسبت آدمی پر زیادہ گراں ہوتی ہے۔ اس لیے اس کے التزام کرنے سے آدمی میں بڑی ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے۔ وہ خدا کی راہ میں زیادہ مضبوطی کے ساتھ چل سکتا ہے اور دینِ حق کی دعوت کو دنیا میں غالب کرنے کے لیے کام کر سکتا ہے۔ 

تہجد کی نماز دعوتِ دین کا کام کرنے والوں کے ظاہر و باطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کارگر ذریعہ ہے۔ کیونکہ رات کی تنہائی میں جو شخص اپنا آرام چھوڑ کر اٹھے گا تو وہ اخلاص ہی کی بناءپر ہو گا، اس میں ریاکاری کا سرے سے کوئی موقع نہیں۔ 
رات کی خاموشی میں یہ نماز ادا کرنے سے انسان کو عبادت میں خشوع و خضوع پیدا کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ کیونکہ اس وقت ذہن کو یکسوئی میسر ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کے ایمان کی تربیت کس حد تک ہوئی ہے۔ کہیں انسان کا وہ حال تو نہیں جس کے متعلق اقبالhنے اللہ کا انسان کو پیغام، اپنی نظم ”جوابِ شکوہ“ میں دیا تھا۔ 

کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے 
ہم سے کب پیار ہے، ہاں نیند تمہیں پیاری ہے​

No comments:

Post a Comment