Monday 6 April 2015

موت کی تیاری

تیرہ سو سال کی عمر کا بادشاہ حضرت دانیال علیہ السلام ایک دن جنگل میں چلے جا رہے تھے۔ آپ کو ایک گنبد نظر آیی۔ آواز آئی کہ اے دانیال! ادھر آ۔ دانیال علیہ السلام اس گنبد کے پاس گئے تو دیکھا بڑی عمدہ عمارت ہے اور عمارت کے بیچ ایک عالی شان تخت بچھا ہوا ہے۔ اس پر ایک بڑی لاش پڑی ہے۔ پھر آواز آئی کہ اے دانیال تخت کے اوپر آؤ۔ آپ اوپر تشریف لے گئے تو ایک لمبی چوڑی تلوار مردہ کے پہلو میں رکھی ہوئی تھی۔ اس پر یہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ میں قوم عاد سے ایک بادشاہ ہوں۔ خدا نے تیرہ سو سال کی مجھے عمر عطا فرمائی۔ بارہ ہزار میں نے شادیاں کیں۔ آٹھ ہزار بیٹے ہوئے لاتعداد خزانے میرے پاس تھے اس قدر نعمتیں لے کر بھی میرے نفس نے خدا کا شکر ادا نہ کیا۔ بلکہ الٹا کفر کرنا شروع کر دیا۔ اور خدائی دعوٰی کرنے لگا۔ خدا نے میری ہدائیت کے لئے ایک پیغمبر بھیجا ۔ ہر چند انہوں نے مجھے سمجھایا ۔ مگر میں نے کچھ نہ سنا۔ انجام کار وہ پیغمبر مجھے بد دعا دے کر چلے گئے۔ حق تعالٰی نے مجھ پر اور میرے ملک پر قحط مسلط کر دیا۔ جب میرے ملک میں کچھ پیدا نہ ہوا۔ تب میںنے دوسرے ملکوں میں حکم بھیجا کہ ہر ایک قسم کا غلہ اور میوہ میرے ملک میں بھیجا جائے۔ میرے حکم کے مطابق ہر قسم کا غلہ اور میوہ میرے ملک میں آنے لگا جسوقت وہ غلہ یا میوہ میرے شہر کی سرحد میں داخل ہوتا فوراً مٹی بن جاتا اور وہ ساری محنت بیکار ہو جاتی۔ اور کوئی دانہ مجھے نصیب نہ ہوتا۔ اسی طرح ساتھ دن گزر گئے۔ میرے قلعے سے سب خدام اور میرے بیوی بچے بھاگ گئے۔ میں قلعہ میں تنہا رہ گیا۔ سوائے فاقہ کے میری کوئی خوراک نہ تھی۔ ایک دن میں نہایت مجبور ہو کر فاقہ کی تکلیف میں قلعہ کے دروازے پر آیا۔ وہاں مجھے ایک شخص نظر آیا ۔ جس کے ہاتھ میں کچھ غلہ کے دانے تھے جن کو وہ کھاتا چلا جاتا تھا۔ میں نے اس جانے والے سے کہا کہ ایک بڑا برتن بھرا ہوا موتیوں کا مجھ سے لے لے اور یہ اناج کے دانے مجھے دے دے مگر اس نے نہ سنی اور جلدی سے ان دانوں کو کھا کر میرے سامنے سے چلا گیا۔ انجام یہ ہوا کہ اس فاقہ کی تکلیف سے میں مر گیا۔ یہ میری سر گزشت ہے۔ جو شخص میرا حال سنے۔ وہ کبھی دنیا کے قریب نہ آئے۔
(سیرۃ الصالحین ص ۷۹)
الللہ کی دی ہوئی ہر نعمت انسان کے پاس موجود ہو تو پھر بھی الللہ رب العزت کی نا شکری کرتے رہنا اور اس کا شکر نہ ادا کرنا بہت بڑی بھول اور نا عاقبت اندیشی ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انسان جتنی بھی عمر جی لے ایک دن مرنا ضرور ہےْ
#․․․تعجب ہے اس پر جسے عنقریب موت انجانی راہوں کا مسافر بنانے والی ہے ،مگر اس کے پاس توشہٴ سفر بہت کم ہے۔ 
#․․․تعجب ہے اس پر جس کی آنے والی راہیں پر پیچ ہیں، مگر اس کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ ہے۔
#․․․ تعجب ہے اس پر جسے موت کا کڑوا گھونٹ پینا ہے ،مگر اس کی زبان شیرینی کی عادی ہے۔
#․․․ تعجب ہے اس پر جو ریشم کے پھولوں پر سوتاہے، مگر وہ یہ نہیں سوچتا کہ وہ قبر کے ریتلے فرش پر کیسے سوئے گا۔ 
#․․․تعجب اس پر جس کی ہر رات کے بعد سحر آتی ہے، مگر وہ آنے والی اس رات سے بے خبر ہے جس کی کوئی سحر نہیں۔
#․․․ تعجب ہے اس پر جو رنگ برنگی سوٹ خریدنے بازاروں کا رخ کرتا ہے، مگر یہ بھول جاتاہے کہ انہی بازاروں میں اس کے کفن کی بولی لگ رہی ہے۔
#․․․ افسوس ہے اس پر کہ موت اس کے شہر سے یہ صدا بلند کئے جاتی ہے کہ تو بھی نظر میں ہے ،مگر وہ کانوں میں انگلیاں دیئے بیٹھا ہے۔
#․․․ افسوس کہ موت نے اس کے گھر کی راہ دیکھ لی اور وہ اپنی راہیں بدل رہا ہے۔
#․․․افسوس اس پر کہ موت نے جس پر اپنے پنچے گاڑھ لئے اور وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے۔
#․․․ وائے ناکامی اس کے لئے کہ موت نے جس کی روح کو سجین میں پہنچادیا‘ مبارک ہے وہ کہ موت نے جس کی روح کو علیین میں پہنچادیا۔
موت کیاہے؟
”الذی خلق الموت والحیٰوة․․․“ کی رو سے یہ ایک مستقل اطاعت گزار وجودی مخلوق ہے‘ یہ ہمیشہ خدا کے حکم سے آتی ہے، اپنی مرضی سے نہیں ‘ پابندئ وقت اس پر ختم ہے‘ مقررہ وقت پر آتی ہے، ایک ثانیہ کی تعجیل وتاخیر نہیں کرتی۔اسی طرح موت فنائے عالم کا نام نہیں‘ بلکہ ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہونے کا نام ہے‘ جیسے خلائی گاڑی کے ذریعے انسان زمین سے چاند پر پہنچ جاتا ہے‘ بقول امام غزالی:
”انسان ایک لباس اتار کر دوسرا لباس پہن لیتا ہے۔“
موت کیا ہے یہ راز کھل ہی گیا زندگی اک رخ بدلتی ہے
اس کنارے سے اس کنارے تک جیسے اک موج جانکلتی ہے 
(خزینہٴ بصیرت)
موت دیگر مخلوقات کی طرح خالق کائنات کے حکم کن سے وجود میں آئی ہے اور ہمیشہ انسانی نظروں سے اوجھل رہتی ہے‘ انسان اسے ڈھونڈتے ہوئے بھی نہیں پاسکتا‘ بلکہ اگر یوں کہا جائے تو بجا ہوگا کہ انسانی آنکھ اسے زندگی میں دیکھنے سے قاصر ہے‘ کوئی دیکھے بھی تو کیسے دیکھے‘ نہ ہی اس کا کوئی مکان ہے اور نہ ہی یہ مکین ہے اور نہ اس کا کوئی مخصوص راستہ ہے کہ انسان گھات لگاکر اسے پکڑلے‘ یہ جس گھر کا رخ کرتی ہے کہرام مچادیتی ہے‘ وہاں کے مکینوں کو رنج والم کی چادر اوڑھا دیتی ہے حتی کہ عرصہ دراز تک وہاں کی فضا سوگوار ہوجاتی ہے۔
موت حکم الٰہی کی ہمیشہ منتظر رہتی ہے ،حکم ملنے پر پلک جھپکنے کی سی دیر نہیں کرتی اور حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے ہدف کی تلاش میں نکل پڑتی ہے‘ چاہے وہ آنکھوں کو چندھیا دینے والی سورج کی شعاعوں میں (یعنی دن میں) ہو یا ظلمت شب کی تاریک راہوں میں ہو‘ شہر میں ہو یا بستی میں‘ بازاروں میں ہو یا ویرانوں میں۔ غرض یہ کہ جہاں بھی ،جس حالت میں اپنے ہدف کو پاتی ہے‘ لے کر بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوجاتی ہے۔
ذائقہ موت
اللہ تعالیٰ نے موت میں ذائقہ رکھا ہے، اب وہ کیسا ہے ،میٹھا یا کڑوا؟ اس کا دار ومدار انسانی اعمال پر منحصر ہے‘ البتہ ذائقہ چکھنے سے کوئی بھی کسی صورت میں بچ نہیں سکتا، جیساکہ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :”ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے“
الدنیا کاس وکل الناس شاربہا
الموت جسر وکل الناس مارہا
ترجمہ:․․․”دنیا کی مثال ایک پیالے کی ہے اور تمام لوگ اسے پینے والے ہیں‘ موت ایک پل ہے اور تمام لوگ اس پر گزرنے والے ہیں“۔
حضرت حسن  فرماتے ہیں کہ حضور انے ایک مرتبہ موت کی سختی کا ذکر فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا کہ: ”اتنی تکلیف ہوتی ہے جیسے کہ تین سو جگہ تلوار کے کاٹ سے ہوتی ہے“۔
کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جب وصال ہوا تو حق تعالیٰ شانہ نے دریافت کیا کہ موت کو کیسا پایا؟انہوں نے عرض کیا کہ: میں اپنی جان کو ایسا دیکھ رہا تھا جیسے زندہ چڑیا کو اس طرح آگ پر بھونا جارہا ہو کہ نہ اس کی جان نکلتی ہو، نہ اڑنے کی صورت ہو۔ 
اور ایک روایت میں ہے کہ ایسی حالت تھی جیساکہ زندہ بکری کی کھال اتاری جارہی ہو۔
حضرت شداد بن اوس  فرماتے ہیں کہ:
” موت دنیا وآخرت کی سب تکلیفوں سے سخت ہے‘ وہ قینچیوں سے کتر دینے سے زیادہ سخت ہے‘ وہ دیگ میں پکانے سے زیادہ سخت ہے۔ اگر مردے قبر سے اٹھ کر مرنے کی تکلیف بتائیں تو کوئی شخص بھی دنیا میں لذت سے وقت نہیں گزار سکتا‘ میٹھی نیند اس کو نہیں آسکتی۔“ (موت کی یاد حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا)
امام مزنی کہتے ہیں جس دن حضرت امام شافعی  نے انتقال کیا تو اس کی صبح کو میں عیادت کے لئے حاضر ہوا تھا:مزاج کیسا ہے؟ میں نے سوال کیا،انہوں نے ٹھنڈی سانس لی اور کہا:
”دنیا سے جارہا ہوں‘ دوستوں سے جدا ہورہا ہوں‘ موت کا پیالہ منہ سے لگا ہے‘ نہیں معلوم میری روح جنت میں جائے گی اسے مبارکباد دوں یا دوزخ میں جائے گی اسے تعزیت پیش کروں‘ پھر یہ شعر پڑھے:
ولما قسیٰ قلبی وضاحت مذاہبی
جعلت الرجاء فی عفوک سلما
ترجمہ:․․․”اپنے دل کی سختی اور اپنی بے چارگی کے بعد میں نے تیری عفو پر اپنی امید کو سہارا بنالیا ہے“۔
تعظمی ذنبی فلما قرنتہ
بعفوک ربی کان عفوک اعظما
ترجمہ:․․․”میرا گناہ میری نظر میں بہت ہی بڑا ہے مگر جب تیری عفو کے مقابلے میں اسے رکھا تو اے رب! تیرا عفو زیادہ نکلا“۔ (انسانیت موت کے دروازے پر)
موت رحمت یا زحمت؟
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانیت کو زندگی بخشی ہے‘ اس زندگی کی ابتداء بھی ہے اور انتہاء بھی۔ دنیا میں اس زندگی کی انتہاء موت ہے‘ انسان پر موت طاری کرنے کا مقصد انسان کو جانچنا ہے کہ اس نے چند روزہ دنیاوی زندگانی میں اپنے اعمال واقوال کے ذریعے اپنے لئے جنت کو سنوارا ہے یا جہنم کی آگ کو بھڑکایا ہے تو اب پہلی صورت میں موت اس کے لئے رحمت ہے ‘جب کہ دوسری صورت میں اس پر موت کا آنا زحمت ہے۔
موت رحمت ہے ،اس طفلِ شیر خوار کے لئے کہ جس نے زمانہٴ طفولیت میں ہی زندگی کو الوداع کہہ کر موت کی آغوش میں چلا گیا اور اپنے والدین کے لئے امید شفاعت بن گیا۔
موت رحمت ہے ،اس نوجوان کے لئے جو داغ دار دنیا سے اپنا دامن بچاکر بے داغ جوانی لے کر جنت کی حوروں کا مہمان بن گیا ۔
موت رحمت ہے، اس بزرگ کے لئے جس کو دنیا کے حوادثات نے لاغر وکمزور کر کے اپنے ہاتھوں سے دبوچا اور خوب ستایا اور اب موت نے اپنی آغوش میں لے کر تمام تکالیف سے نجات بخش دی۔
انسان دنیا میں جتنی دیر تک رہے گا تو اس کی امیدوں اور تمناؤں کا پودا بڑھتا رہے گا‘پھر ان امیدوں کو پورا کرنے کے لئے اسے حلال و حرام کی کسوٹی کو پس پشت پھینکنا پڑے گا‘پھر گناہوں کا بار گراں بڑھتا رہے گا اور جس پر جتنا زیادہ بوجھ ہوگا وہ آخرت میں اتنا ہی پریشان ہوگا اور کم بوجھ والے کی پریشانی وملامت ذرا ہلکی ہوگی ،اس کی مثال کچھ اس طرح ہے کہ اگر کسی کا ایک روپیہ چوری ہوجائے اور دوسرے آدمی کے دس روپے چوری ہوجائیں تو اول کا حال بنسبت دوسرے کے ہلکا ہوگا۔
موت کو یاد رکھا جائے
حضرت ابن عمر  فرماتے ہیں کہ: ہم دس آدمی جن میں ایک میں بھی تھا‘ حضور ا کی خدمت میں حاضر ہوئے‘ ایک انصاری نے حضور علیہ السلام سے عرض کیا کہ: سب سے زیادہ سمجھدار اور سب سے زیادہ محتاط آدمی کون ہے؟ آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
” جو لوگ موت کو سب سے زیادہ یاد کرنے والے ہوں اور موت کے لئے سب سے زیادہ تیاری کرنے والے ہوں‘ یہی لوگ ہیں جو دنیا کی شرافت اور آخرت کا اعزاز لے اڑے“۔
حضرت ابوذر  فرماتے ہیں کہ حضور ا نے مجھ سے ارشاد فرمایا کہ:
” قبرستان جایا کرو‘ اس سے تم کو آخرت یاد آئے گی اور مردوں کو غسل دیا کرو کہ یہ (نیکیوں سے)خالی بدن کا علاج ہے اور اس سے بڑی نعمت حاصل ہوتی ہے اور جنازہ کی نماز میں شرکت کیا کرو ،شاید اس سے کچھ رنج وغم تم میں پیدا ہوجائے کہ غمگین آدمی (جس کو آخرت کا غم ہو) اللہ کے سایہٴ میں رہتا ہے اور ہر خیر کا طالب رہتا ہے“۔
ایک حکیم کسی جنازے کے ساتھ جارہے تھے‘ راستہ میں لوگ اس میت پر افسوس اور رنج کررہے تھے وہ صاحب فرمانے لگے کہ: تم اپنے اوپر رنج اور افسوس کرو تو زیادہ مفید ہوگا‘ یہ تو چلا گیا اور تین آفتوں سے نجات پاگیا :
۱- آئندہ ملک الموت کو دیکھنے کا خوف اس کو نہیں رہا ۔
۲- موت کی سختی جھیلنے کی اب اس کو نوبت نہیں آئے گی۔
۳- برے خاتمہ کا خوف ختم ہوگیا۔ (اپنی فکر کرو کہ یہ تینوں مرحلے تمہارے لئے باقی ہیں)
موت کو کیسے یاد رکھا جائے؟
امام غزالی فرماتے ہیں کہ موت کا معاملہ زیادہ خطرناک ہے اور لوگ اس سے بہت غافل ہیں۔ اول تو اپنے مشاغل کی وجہ سے اس کا تذکرہ ہی نہیں کرتے اور اگر کرتے ہیں تب بھی چونکہ دل دوسری طرف مشغول ہوتا ہے اس لئے محض زبانی تذکرہ مفید نہیں‘ بلکہ ضرورت اس کی ہے کہ سب طرف سے بالکل فارغ ہوکر موت کو اس طرح سوچے کہ گویا وہ سامنے ہے جس کی صورت یہ ہے کہ: اپنے عزیز واقارب اور جانے والے احباب کا حال سوچے کہ کیونکر ان کو چار پائی پر لے جاکر مٹی کے نیچے دبا دیا ۔ان کی صورتوں کا‘ ان کے اعلیٰ منصبوں کا خیال کرے اور یہ غور کرے کہ اب مٹی نے کس طرح ان کی صورتوں کو پلٹ دیا ہوگا‘ ان کے بدن کے ٹکڑے الگ الگ ہوگئے ہوں گے‘ کس طرح بچوں کو یتیم‘ بیوی کو بیوہ اور عزیز واقارب کو روتا چھوڑ کر چل دئے‘ ان کے سامان‘ ان کے کپڑے پڑے رہ گئے‘ یہی حشر ایک دن میرا بھی ہوگا۔ کس طرح وہ مجلسوں میں بیٹھ کر قہقہے لگاتے تھے آج خاموش پڑے ہیں‘ کس طرح دنیا کی لذتوں میں مشغول تھے آج مٹی میں ملے پڑے ہیں‘ کیسا موت کو بھلارکھا تھا آج اس کا شکار ہوگئے۔ کس طرح جوانی کے نشہ میں تھے آج کوئی پوچھنے والا نہیں‘ کیسے دنیا کے دھندوں میں ہر وقت مشغول رہتے تھے آج ہاتھ الگ پڑا ہے‘ پاؤں الگ ہے‘ زبان کو کیڑے چاٹ رہے ہیں‘ بدن میں کیڑے پڑ گئے ہوں گے۔ کیسا کھل کھلا کر ہنستے تھے آج دانت گرے پڑے ہوں گے۔ کیسی کیسی تدبیر یں سوچتے تھے برسوں کے انتظام سوچتے تھے حالانکہ موت سر پر تھی‘ مرنے کا دن قریب تھا‘ مگر انہیں معلوم نہیں تھا کہ آج رات کو میں نہیں رہوں گا اور آج یہی حال میرا ہے۔ آج میں اتنے انتظامات کررہا ہوں مگر کل کی خبر نہیں کہ کل کیا ہوگا۔
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں

No comments:

Post a Comment