دماغ کو سنگین نقصان کا خطرہ
برطانوی محققین نے لمبی نیند کو فالج کےساتھ منسلک کیا ہےجن کا کہنا ہے کہ8 گھنٹے سے زیادہ کی نیند سےفالج کےامکانات میں اضافہ ہوتا ہے جس سے دماغ کو سنگین نقصان پہنچتا ہے۔
عام طور پر اپنی نیند کے بارے میں ہمیں فکر کرنے کی ضرورت کم ہی پڑتی ہے کیونکہ یہ زندگی کےمعمول کا ایک حصہ ہوتی ہے۔
تاہم طبی ماہرین بالغان کو رات میں چھ سے آٹھ گھنٹے کی نیند کا مشورہ دیتے ہیں اور نیند کی کمی کو صحت کے مسائل کے ساتھ منسلک کرتے ہیں لیکن، نئی تحقیق میں ماہرین نے نیند کی زیادتی کو جسمانی اور دماغی صحت دونوں کے لیے نقصان دہ بتایا ہے ۔
برطانوی محققین نے لمبی نیند کو فالج کے ساتھ منسلک کیا ہے اور بتایا ہے کہ 8 گھنٹے سے زیادہ سونے سےفالج کے امکانات میں اضافہ ہوتا ہےجس سے دماغ کو سنگین نقصان پہنچتا ہے۔
برطانیہ کی معروف درسگاہیں 'یونیورسٹی آف کیمبرج' اور 'واروک یونیورسٹی' کے محققین نے نیند کے دورانیہ اور اسٹروک کےخطرے کے درمیان تعلق تلاش کر لیا ہے ۔
جن کا کہنا ہے کہ لمبی نیند کے پیٹرن اور فالج کےخطرے میں اضافہ کے درمیان واضح تعلق ہے لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے اس وقت تک یہ واضح نہیں ہے۔
تحقیق بتاتی ہے کہ جو لوگ رات میں 8 گھنٹے سے زیادہ سوتے تھے ان میں 10 برس کے عرصے کے دوران 46 فی صد فالج کے خطرے میں اضافہ ہوا ایسے لوگوں کے مقابلے میں جو رات میں 6 سے 8 گھنٹے سوتے تھے ۔
یہ مطالعہ 'میڈیکل جرنل نیورولوجی' میں شائع ہوا ہے جس میں محققین نے 42 سے 81 برس کے درمیانی عمر کے تقریبا 10,000 بالغان کے معمول کے سونے کے طریقوں کا تجزیہ کیا ہے اورنیند کی مقدار اور اگلے دس برسوں کے دوران فالج کا شکار ہونے والے شرکاء کی تعدادکے درمیان تعلق تلاش کیا ہے۔
دس سالہ مطالعے کے دوران 346 شرکاء نے فالج کا سامنا کیا علاوہ ازیں ،محققین نے نیند کے پچھلے مطالعوں کےنتائج کو بھی اپنے تجزیہ میں شامل کیا، نتائج سے ظاہر ہوا کہ آٹھ گھنٹے سے زیادہ سونے سے فالج کےخطرے میں 45 فی صد اضافہ ہوا ۔
مطالعے کے شرکاء میں سے ہر 10 میں سے 7 نے بتایا کہ وہ چھ سے آٹھ گھنٹے کی نیند لیتے ہیں اسی طرح ہر 10میں سے 1 نے بتایا کہ وہ آٹھ گھنٹے سے زائد نیند پوری کرتے ہیں۔
چھ گھنٹے سے کم سونے کی عادت رکھنے والوں کی تعداد کم رہی جن میں زیادہ تر بڑی عمر کے افراد اور خواتین شامل تھیں۔
تحقیق کاروں نے فالج کے دیگر عوامل مثلاً جنس، عمر، بلند فشار خون، قلبی مسائل کو نتائج کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کے بعد بتایا کہ جو لوگ آٹھ گھنٹے سے زائد سوتے تھے ان میں فالج کا امکان بہت زیادہ تھا اور مجموعی طور پر دونوں جنس کے لیے فالج کا خطرہ 46 فی صد زیادہ تھا ۔
نتیجہ سے یہ محققین نے یہ بھی اخذ کیا کہ جو لوگ رات میں 6 گھنٹے سے کم سوتے تھے ان کے لیے فالج کا خطرہ میں 18 فی صد اضافہ ہوا ۔
نتائج کو جنس کی بنیاد پر الگ الگ تجزیہ کرنے سے پتہ چلا کہ لمبی نیند اور فالج کے خطرے کے اعداد و شمار عورتوں کے لیے زیادہ اہم تھے عورتوں میں آٹھ گھنٹے سے زائد نیند سے فالج کے خطرے میں 80فی صد اضافہ ہوا یعنی ان میں فالج کا خطرہ مجموعی خطرے سے نسبتا دوگنا ہو گیا تھا۔
جبکہ دوسری طرف مردوں کے لیے خطرے کے اعداد و شمار بہت کم تھے جس کا فالج کے ساتھ تعلق نظر نہیں آیا ۔
کیمبرج یونیورسٹی کے محقق یو لینگ نے کہا کہ بین الاقوامی اعداد و شمار اور ہمارے شرکاء دونوں سے ظاہر ہوا ہے کہ اوسط نیند کے مقابلے میں لمبی نیند سے اسٹروک کے خطرے کا تعلق ہےجو چیز اس تحقیق میں واضح نہیں ہے وہ یہ کہ کیا لمبی نیند قلبی مسائل کی ابتدائی علامات میں سے ایک سبب ہو سکتی ہے؟
تحقیق کے مصنف اور کیمبرج یونیورسٹی پبلک ہیلتھ سے وابستہ پروفیسر کے ٹی کھا نے کہا کہ ذہنی تناؤ اور فالج کے خطرے کے درمیان تعلق کو سمجھنے کی ضرورت ہے کیوں لمبی نیند پوری کرنے والوں میں زیادہ اور مختصر نیند کے ساتھ فالج کا خطرے میں معمولی اضافہ ہوتا ہے ہمارے جسم میں ایسا کیا ہوتا ہے جو اس تعلق کی وجہ بنتا ہے اور اس بنیادی نظام کی تفتیش کے لیے مزید مطالعوں کی ضرورت هی
دس سالہ لڑکی یونیورسٹی کی کم عمر ترین طالبہ
دس سالہ ایتھر اوکاڈا کی عمر یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے والے عام طالب علموں کے مقابلے میں لگ بھگ دس برس کم ہے اور نے کبھی اسکول سے تعلیم حاصل نہیں کی ہے، ریاضی کی جینئس اوکاڈا نے برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی میں ریاضی کے ڈگری کورس میں داخلہ حاصل کرلیا ہے۔
ریاضی میں خدا داد صلاحیتوں کی مالک ایتھر اوکاڈا برطانوی یونیورسٹی کی تاریخ کے کم عمر ترین طالب علموں میں سے ایک بن گئی ہیں۔
اوکاڈا نے چند ہفتوں پہلے فاصلاتی نظام کی تعلیم کی ایک اوپن یونیورسٹی میں ریاضی کے تین سالہ کورس میں پڑھائی شروع کر دی ہے اور اس نے ابھی سے آنرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پی ایچ ڈی کرنے کا منصوبہ بھی بنا لیا ہے وہ بڑے بڑے خواب دیکھتی ہے اور ارب پتی بننا چاہتی ہے جبکہ مستقبل میں اپنا ذاتی بینک کھولنے کی خواہش رکھتی ہے۔
اوکاڈا کی والدہ اومونوفا نے اخبار میل آن لائن کو بتایا کہ اگرچہ اوکاڈا کی یونیورسٹی کی پڑھائی شروع ہو چکی ہے اور وہ کلاس میں بہت اچھا کر رہی ہے بلکہ ایک حالیہ ٹیسٹ میں اس نے سو فیصد نمبر حاصل کیے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بالکل عام بچیوں جیسی ہے وہ آج بھی وہ اپنی گڑیوں کے ساتھ کھیلتی ہے، لوم بینڈز بناتی ہے اور ڈزنی کی فلم فروزن اسے بہت پسند ہے۔
اوکاڈا نے اسکول کے بجائے گھر میں اپنی والدہ سے اسکول کی تعلیم حاصل کی ہے، اس مقصد کے لیے اس کی والدہ نے تین بیڈ روم کے گھر کے بیٹھک خانے کو عارضی طور پر کلاس میں تبدیل کر دیا تھا۔
اومونو فانت نے بتایا کہ جب ایتھر4 سال کی تھی اس وقت پہلی بار اسے میں نے انگریزی کے حروف تہجی اور ریاضی میں جمع تفریق کرنا سکھائی تھی لیکن مجھے محسوس ہوا کہ وہ اشکال کے ساتھ زیادہ بہتر طریقے سے سیکھتی ہے لہذا بعد میں الجبرا بھی شروع کرائی اور اسے یہ جمع تفریق سے زیادہ پسند کرنے لگی۔
6 برس کی عمر میں اوکاڈا نےجی سی ایس ای (میٹرک) کے ریاضی کے پرچہ سی گریڈ سے پاس کیا اور گزشتہ برس' اے لیول' کا ریاضی کا پرچہ بی گریڈ میں پاس کر لیا ہے لیکن اوکاڈا کےخاندان میں ان کےعلاوہ ریاضی کا ایک اور استاد بھی موجود ہیں یہ اس کا چھوٹا بھائی ہےجو چھ سال کی عمر میں اے لیول امتحان کی تیاری کر رہا ہے۔
بقول اومونوفا یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے کا تجربہ کافی دلچسپ تھا کیونکہ وہ بہت کم عمر ہے لہذا ہمیں یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے اس کے داخلے کے لیے بات کرنی پڑی اور ایک فون انٹرویو، مضمون ٹیسٹ اور ریاضی کے انٹری ٹیسٹ کے نتائج کی بنیاد پر یونیورسٹی نے ایتھر کو ڈگری کلاس کے مطالعے کے لیے قبول کر لیا۔
اومونوفا کہتی ہیں اس خبر کو سننے کے بعد ایتھر ہواؤں میں اڑنے لگی اور بہت زیادہ خوش ہوئی کیونکہ وہ سات برس کی عمر سے یونیورسٹی میں داخلہ حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی تھی اور بلآخر اس کا خواب پورا ہو گیا تھا۔ اور ہم بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ اپنے ریاضی کے شوق کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے بچپنے کو بھی انجوائے کرے لہذا اوپن یونیورسٹی اس مقصد کے لیے بہترین انتخاب تھی۔
ویسٹ مڈ لینڈز میں والسال کی رہائشی اوکاڈا کے والد پاول نے کہا وہ اپنے بچوں کی کامیابیوں پر بے حد خوش ہیں اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کے بچوں نے خاندان کی عزت میں اضافہ کیا ہے۔
برطانیہ کی پہلی یونیورسٹی کی کم عمر ترین طالبہ روتھ لارنس ہیں جنھوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں دس سال کی عمر میں داخلہ حاصل کیا اور 13 سال میں ریاضی کی بچلر ڈگری مکمل کر لی تھی اور اب 43 برس کی عمر میں مس روتھ عبرانی یونیورسٹی میں ریاضی کی پروفیسر ہیں .
’سیلولر نیٹ ورک‘ کا آغازجلد
گوگل کے وائس پریذیڈنٹ سندر پچائی نے کہا ہے کہ یہ معروف سرچ انجن بہت جلد موبائل فون کے حوالے سے سیلولر پلان متعارف کرائے گا۔سندر پچائی کے بقول، ’اگلے چند ماہ میں سیلولر پلان کے حوالے سے باضابطہ اعلان کر دیا جائے گا‘۔
اسپین کے شہر بارسیلونا میں ’موبائل ورلڈ کانگریس‘ سے اپنے خطاب میں مسٹر پچائی کا کہنا تھا کہ، ’ہم ایک ایسے مرحلے میں ہیں جہاں ہارڈوئیر، سوفٹ وئیر اور کونیکٹی ویٹی (انٹرنیٹ) کے بارے میں سوچنا اہم اور ضروری ہے‘۔
سندر پچائی کا کہنا ہے کہ گوگل کی جانب سے موبائل فون سروس کا آغاز ایک ’پروجیکٹ‘ ہے، اور اس سے روایتی فون اور انٹرنیٹ کی سروس مہیا کرنے والی کمپنیوں کو کوئی خطرہ محسوس نہیں ہونا چاہیئے
ہیک ہونے سے بچنے کی تدابیر
ہم اکثر انٹرنیٹ کے بارے میں ایسی خبریں پڑھتے ہیں جن میں صارفین کی کمپیوٹر میں موجود معلومات کو ہیکرز با آسانی حاصل کرکے انہیں غلط طریقے سے استعمال کرتے ہیں۔ کمپیوٹر پر شناخت کی چوری آسان ہوتی جا رہی ہے اور ہیکرز بھی نت نئے طریقوں سے دوسروں کے کمپیوٹرز میں گھس کر ان کی معلومات کو چرا لیتے ہیں۔
صدر اوباما نے حال ہی میں ’سائبر سیکورٹی‘ کو ایک اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتوں سے لے کر کاروباری اداروں اور انفرادی سطح پر ہر کسی کو سائبر سیکورٹی کے معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے۔
مگر سوال ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا پر ایسے ہیکرز سے کیسے نمٹا جائے جو جدید طریقوں کی مدد سے کسی کے بھی کمپیوٹر میں بآسانی داخل ہو کر معلومات چرا لیتے ہیں۔
مگر چند معمولی اقدامات سے ہیکرز کے ممکنہ حملے سے بچاؤ ممکن ہے۔ ایسی ہی چند ’ٹپس‘ درج ِذیل ہیں:
مشکل پاس ورڈ: اپنا پاس ورڈ مشکل بنائیں اور پاس ورڈ قطعاً ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ اس کے بارے میں اندازہ لگانا آسان ہو۔
پاس ورڈ بدلیے: اگر آپ کا پاس ورڈ آسان ہے تو اسے فوراً بدل لیجیئے۔
فری وائی فائی کے استعمال سے گریز کیجیئے: آج کل ہر جگہ پر فری وائی فائی کی سہولت دستیاب ہوتی ہے۔ جیسا کہ شاپنگ مالز، سٹورز اور کیفیز وغیرہ ۔۔۔۔ مگر کمپیوٹر ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ اپنی معلومات کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو ایسی جگہوں پر مفت کا وائی فائی استعمال کرنے سے گریز کیجیئے۔
پبلک کمپیوٹرز کے استعمال سے گریز کییجیئے: ایسے کمپیوٹرز جو شاپنگ مالز، دفاتر یا کیفیز میں سبھی کے زیر ِاستعمال رہتے ہوں انہیں استعمال کرنے سے حتی الامکان گریز کیجیئے۔
اینٹی وائرس کا استعمال: اپنے کمپیوٹر میں وائرس آنے سے بچاؤ کے لیے کسی اینٹی وائرس پروگرام کو انسٹال کیجیئے تاکہ کمپیوٹر سے وائرس کا خاتمہ کیا جا سکے۔
ہاٹ میل اور یاہو! کی فری ویب ای میل اکاﺅنٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ہر وہ شخص جو ای میل اور انٹرنیٹ سے واقف ہے ان فری ای میل سروسز سے ضرور واقف ہوگا۔ اس وقت یہ دونوں کمپنیاں انٹرنیٹ کی سب سے زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائٹس ہیں۔ خصوصاً یاہو! اپنی بے شمار اور بیش قیمت سروسز کی وجہ سے نمایاں ہے۔
جہاں ان کے ای میل اکاﺅنٹ رکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے وہیں ان کے ساتھ ایک بہت بڑا مسئلہ بھی ہے۔ ان کے اکاﺅنٹس کو ہیک کرنے والے بہت عام ہیں۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے اکثر لوگ ان کے اکاﺅنٹ کو ہیک کرنا سیکھنا چاہتے ہیں۔ مجھ سے انٹرنیٹ پر بات کرنے والے بیشتر لوگ مجھ سے یہی پوچھتے ہیں کہ ہاٹ میل اور یاہو! کو کیسے ہیک کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ ہمیں ملنے والی ڈاک میں بھی اس ہی کا تذکرہ ہوتا ہے۔ ہاٹ میل اور یاہو! کو ہیک کرنے کے لئے درکار سافٹ ویئر بھی بالکل مفت اور عام دستیاب ہیں لہٰذا لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کام میں ملوث ہے۔
پروفیشنل ہیکر کو ایسے لوگوں سے بڑیa شکایت ہے۔ دراصل انہی لوگوں کی وجہ سے ہیکنگ اور ہیکرز دونوں کو برا سمجھا جاتا ہے۔ تھوڑی سے کمپیوٹر اور پروگرامنگ کی معلومات حاصل کرنے کے بعد چھوڑے چھوڑے بچے ہیکنگ سیکھنا اور کرنا شروع کردیتے ہیں۔ برطانیہ کی ایک مشہور زمانہ کریکر کی عمر صرف چودہ سال ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ آپ اپنے ہاٹ میل اور یاہو! کاﺅنٹ کی حفاظت سے واقف ہوں۔
ہاٹ میل اور یاہو! کے ہیک ہونے میں دو وجوہات کارفرما ہوتی ہیں۔ ایک سروس میں خرابی اور دوسری اکاﺅنٹ رکھنے والے کی غلطی۔ ان دونوں کا ذکر تفصیل سے مندر جہ ذیل ہے۔
٭ سروس میں خرابی
چونکہ ہاٹ میل اور یاہو! کو استعمال کرنے والے کروڑوں کی تعداد میں ہیں لہٰذا ان کی سروس میں بھی کئی سکیوریٹی ہولز موجود ہیں۔ ہر سیکنڈ ان کی سروس میں لاکھوں یوزر سائن ان ہوتے ہیں اور سائن آﺅٹ ہوتے ہیں۔ ان یوزرز کو قابو کرنے کے لئے ان کے پاس سینکڑوں تیز رفتار سرورز ، کئی مختلف ممالک میں موجود ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں سرورز کو قابو کرنا اور ان پر چلنے والے سافٹ ویئرو ہارڈویئر کو سکیوریٹی ہولز سے پاک رکھنا ، ایک انتہائی مشکل کام ہے۔
تاہم ہاٹ میل اور یاہو! کے ماہرین کی کوششوں کے باوجود ان کی سروسز میں کئی سکیوریٹی ہولز موجود ہیں۔ انہی سکیوریٹی ہولز کو استعمال کرتے ہوئے کچھ لوگ دوسرے لوگوں کے اکاﺅنٹ ہیک کرتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم ہے۔ کیونکہ لوگ سکیوریٹی ہولز ڈھونڈنے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ یہ دونوں کمپنیاں دریافت شدہ سکیوریٹی ہولز کو بہت تیزی سے بند کردیتی ہیں۔
یاہو! اور ہاٹ میل سروسز کے سکیوریٹی ہولز کی ایک بڑی تعداد کو سکیوریٹی ماہرین نے دریافت کرکے http://invalid.invalid/ رکھ دیئے ہے۔ آپ یہاں سے ہاٹ میل اور یاہو! کے لاتعداد سکیوریٹی ہولز اور بگز کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ یہاں موجود بیشتر سکیوریٹی ہولز کو دونوں کمپنیوں نے بند کردیاہے۔
٭ یوزر کی غلطی
ہاٹ میل اور یاہو! کے اکاﺅنٹ کے ہیک ہونے کی سب سے بڑی وجہ خود یوزرکی غلطی ہے۔ ای میل اکاﺅنٹ کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط نہ کرنا دوسرے لوگوں کو اپنا اکاﺅنٹ ہیک کرنے کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔
یوزر کی غلطی میں سب سے عام پرانے ویب براﺅزر کا استعمال، آسان اور سادے پاس ورڈ کا استعمال، عام خفیہ سوال اور جواب کا استعمال شامل ہیں۔
ہاٹ میل اور یاہو ! کے اکاﺅنٹس کو ہیک کرنے والے زیادہ تر سافٹ ویئر ایک آئی ڈی کے لئے لاتعداد پاس ورڈ چیک کرتے ہیں اور اگر کوئی پاس ورڈ درست ہو تو وہ آپ کو بتادیتے ہیں۔ ایسے سافٹ ویئرکے پاس ایک ڈکشنری ہوتی ہے جس میں بہت عام استعمال ہونے والے پاس ورڈ ہوتے ہیں۔ یہ سافٹ ویئر اسی ڈکشنری میں موجود پاس ورڈ کسی آئی ڈی کے لئے چیک کرتے ہیں۔ یہ عمل Brute Forcing کہلاتا ہے۔ اس طریقہ کار میں بہت زیادہ وقت خرچ ہوتاہے۔ علاوہ ازیں یہ طریقہ زیادہ مفید بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔
جب آپ نیا ای میل اکاﺅنٹ بنا تے ہیں اس وقت آپ سے ایک خفیہ سوال منتخب کرنے کو کہا جاتا ہے اور ساتھ ہی آپ کو کوئی جواب بھی لکھنا ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ بہت عام سے خفیہ سوالات منتخب کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے جواب بھی عام ہوتے ہیں۔ مثلاً سب سے عام سوال ”پسندیدہ پالتو جانور “ ہے اور اس کا سب سے عام جواب ”روکی“ ، ”ٹونی“ اور ”ٹام“ ہیں۔ اس کے علاوہ اسکول وغیرہ کے متعلق سوالات بھی عام ہیں۔ لیکن اس طریقہ میں سوال اور جواب کسی سافٹ ویئر کے بجائے خود چیک کرنے ہوتے ہیں۔
پرانے ویب براﺅزر بھی اکاﺅنٹ ہیک ہونے کی ایک اہم وجہ ہیں۔ یہ براﺅزر SSL کو سپورٹ نہیں کرتے جبکہ ان میں https پروٹوکول بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ لہٰذا پاس ورڈ بھیجتے وقت یہ کوئی انکرپشن استعمال نہیں کرتے اور اگر کوئی راستے میں اس پاس ورڈ کو اچکنا چاہے تو وہ ایسا کرسکتاہے۔
ہاٹ میل اور یاہو! کے ای میل اکاﺅنٹ رکھنے والے ان کے فراہم کردہ مسینجر بھی استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت مسینجرز کی دنیا میں یاہو! اور ہاٹ میل ہی کا راج ہے۔ ان مسینجرز میں آپ جب سائن ان ہوتے ہیں تو آپ کا پاس ورڈ رجسٹری میں یا پھر میموری میں محفوظ ہوتا ہے۔ بعض سافٹ ویئر رجسٹری یا میموری میں موجود اسی پاس ورڈ کو حاصل کرلیتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھیج دیتے ہیں۔
ان سروسز کو ہیک کرنے کا ایک اور طریقہ بھی استعمال کیاجاتا ہے مگر یہ غیر معروف ہے۔ آپ جب کسی کمپیوٹر سے ان دونوں سروسز کو استعمال کرتے ہیں اور یہ دونوں آپ کے کمپیوٹر میں کئی کوکیز بناتے ہیں۔ آپ جب بغیر سائن آﺅٹ ہوئے، ویب براﺅزر کو بند کردیتے ہیں تو ان کوکیز میں آپ کے بارے میں کئی ایسی معلومات موجود ہوتی ہیں جو آپ کے ای میل اکاﺅنٹ کو ہیک کرنے میں بہت آسانی پیدا کردیتی ہیں۔ ان کوکیز کو کسی سافٹ ویئر جیسے ”کوکی پال“ کی مدد سے بہ آسانی پڑھا جاسکتا ہے۔
٭ اپنے ای میل اکاﺅنٹ کی حفاظت کیسے کی جائے؟
اگر آپ اپنا اکاﺅنٹ ہیکرز سے بچانا چاہتے ہیںتو مندرجہ ذیل اصولوں کو اپنا لیں۔
٭ ویب براﺅزر
ہمیشہ ایسا ویب براﺅزر استعمال کریں جو مکمل طو رپر محفوظ اور نیا ہو۔ اس وقت مائیکروسافٹ انٹر نیٹ ایکسپلورر 6 سب سے محفوظ ویب براﺅزر ہے۔ آپ کوئی بھی ونڈوز استعمال کرتے ہوں، انٹرنیٹ ایکسپلورر 6 استعمال کرسکتے ہیں۔ ایک بات یاد رکھئے کہ ونڈوز آپریٹنگ سسٹم پر کوئی بھی دوسرا ویب براﺅزر استعمال کرنا ایک سکیوریٹی رسک ہے۔ انٹرنیٹ پر ایسے بے شمار ویب براﺅزر موجود ہیں جو بالکل مفت دستیاب ہیں۔ ایسا کوئی بھی ویب براﺅزر استعمال نہ کریں۔ حتیٰ کہ اگر آپ کوئی بہت ہی حساس ای میل اکاﺅنٹ چیک کررہے ہیں تو اوپرا یا نیٹ اسکیپ بھی استعمال نہ کریں۔
٭ فائر وال
فائر وال آپ کو سیشن ہائی جیکنگ اور آئی پی اسپوفنگ سے بچاتی ہے۔ آپ تو سافٹ ویئر کی جنت میں رہتے ہیں۔ لہٰذا مارکیٹ سے نورٹن، میکیفی اور زون الارم حاصل کرنے میں آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ اس وقت نورٹن کی بنائی ہوئی فائر وال سب سے محفوظ اور قابل بھروسہ ہے۔
٭ پاس ورڈ
آپ کا پاس ورڈ ایسا ہونا چاہیے جس میں نمبر اور حروف دونوں شامل ہوں۔ یعنی الفا نیومیرک ہونا چاہئے۔ مثلاً a5k2jz0iq۔
کسی مشہور شخصیت کا نام، شہر، ملک، کسی پراڈکٹ کا نام اور انگلش کے سادہ الفاظ انتہائی غیر محفوظ پاس ورڈ سمجھے جاتے ہیں۔ آپ کوشش کریں کہ پاس ورڈ ایسا استعمال کریںجس میں زیادہ سے زیادہ حروف اور نمبر ہوں۔ آپ کا پاس ورڈ جتنا مشکل ہوگا اسے ہیک کرنا بھی اتنا ہی مشکل ہوگا۔ الفا نیومیرک پاس ورڈ کو ہیک کرنا بروٹ فورس کے بس سے تقریباً باہر ہے۔
اپنے ای میل اکاﺅنٹ کا پاس ورڈ تبدیل کرتے رہنا ایک مفید کام ہے۔ مہینے میں ایک بار ضرور اپنا پاس ورڈ تبدیل کرلیں۔
٭ خفیہ سوال
آپ کا خفیہ سوال بہت مختلف ہونا چاہیے اور جواب بھی۔ ایک سکیوریٹی ماہر کے مطابق اگر آپ اپنے خفیہ سوال کے جواب میں انتہائی غلط اور غیر متوقع جواب لکھیں گے تو کوئی بھی آپ کے اکاﺅنٹ کو خفیہ سوال کی مدد سے ہیک نہیں کرسکے گا۔ آپ اکاﺅنٹ سیٹنگ کی مدد سے اپنا خفیہ سوال تبدیل کرسکتے ہیں۔
٭ مسینجرز
اگر ضروری نہ ہو تو اپنے ذاتی ای میل اکاﺅنٹ سے مسینجر استعمال نہ کریں۔ مسینجر استعمال کرنے سے آپ کے اکاﺅنٹ کے ہیک ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔
مسینجر استعمال کرتے وقت کسی بھی شخص سے کوئی فائل وصول نہ کریں کیونکہ ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ فائل آپ کا پاس ورڈ معلوم کرنے کے لئے ہو۔
٭ اسپائی ویئر اور ایڈ انز
بعض اسپائی ویئر آپ کے ٹائپ کردہ ہر لفظ پر نظر رکھتے ہیں اور پاس ورڈ وغیرہ ہیکرز کو بھیج دیتے ہیں۔ لہٰذا آپ کاکمپیوٹر اسپائی ویئرسے پاک ہونا چاہیے۔ ویب براﺅزر میں بھی اگر ایڈ انز شامل نہ کریں تو بہتر ہوگا۔
٭ جعلی مسینجر
مسینجر استعمال کرنے سے پہلے یہ دھیان میں رکھیں کہ آج کل جعلی مسینجرز بہت عام ہیں۔ یہ جعلی مسینجر دیکھنے اور استعمال کرنے میں بالکل عام مسینجر جیسے ہیں مگر جب آپ ان کے ذریعے سائن ان ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ آپ کی آئی ڈی اور پاس ورڈ ہیکرز کو بھیج دیتے ہیں جو آپ کے اکاﺅنٹ کا کئی غیر قانونی کاموں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ ایسے مسینجر کو پہچاننے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے کمپیوٹر میں indian Hacker نامی فائل تلاش کریں۔ اگر یہ فائل مل جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے کمپیوٹر میں جعلی مسینجر انسٹال ہے۔
صرف یاہو! اور ایم ایس این کی آفیشل ویب سائٹ سے ان کا مسینجر ڈاﺅن لوڈ کرکے استعمال کریں۔ سی ڈیز جعلی مسینجرز کے پھیلاﺅ کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔
٭ کوکیز
یہ دونوں سروسز کوکیز کو ڈس ایبل کرنے پر نہیں چلتیں۔ لہٰذا کوکیز کوانیبل رکھنا آپ کی مجبوری ہے۔ تاہم اگر آپ درست طریقے سے ان سروسز سے سائن آﺅٹ ہوں تو یہ کوکیز زیادہ نقصان دہ نہیں ہیں۔ اگر آپ کسی سائبر کیفے میں بیٹھے اپنا ای میل اکاﺅنٹ چیک کررہے ہیں تو کمپیوٹر چھوڑنے سے پہلے ایک کام اور کریں۔ اسٹارٹ میں سے رن پر کلک کریں اور اس میں Cookies لکھ کر انٹر کریں۔ کوکیز کی ونڈو کھلے گی۔ آپ Ctrl + Aدبائیں۔ تمام فائلیں سلیکٹ ہوجائیں گی۔ شفٹ کی دبا کر رکھیں اور Del دبا دیں۔ تمام کوکیز ڈیلیٹ ہوجائیں گی۔
٭ Backorffice
اگر آپ کے کمپیوٹر میں Back Orffice سرور موجود ہے تو اس سے خطر ناک بات اور کوئی نہیں۔ بیک اورفیس کو عام طریقے سے تلاش کرنا آسان نہیں۔ لہٰذا نورٹن یا میکیفی اینٹی وائرس کی مدد سے اپنا کمپیوٹر اسکین کریں۔ یہ دونوں بیک اورفیس کو ختم کرسکتے ہیں۔
اسی طرح آپ کے کمپیوٹر میں Sub 7 بھی نہیں ہونا چاہیے۔ یہ دونوں سافٹ ویئر ہیکرز کو آپ کے کمپیوٹر پر مکمل کنٹرول فراہم کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ آپ کا ماﺅس بھی ہیکرز کے احکامات کا طابع ہوتا ہے۔ ان دونوں کو ختم کرنے کے لیے اینٹی وائرس استعمال کریں۔
ان سب باتوں سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے Contacts میں صرف انہی لوگوں کو رکھیں جن کو آپ جانتے ہیں۔ پاس ورڈ تبدیل کرتے رہیں اور پاس ورڈ جتنا طویل ممکن ہو، استعمال کریں۔
اگر آپ ان باتوں پر عمل کریں گے تو آپ کا ای میل اکاﺅنٹ ہیک کرنا بیحد مشکل ہوجائے گا۔ لیکن یاد رہے کہ سروسز کے سکیوریٹی ہولز کے بارے میں آپ کچھ نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس کا کوئی حل ہی
ٹیلی وژن دیکھنے سے ہائی بلڈ پریشر
ایک نئے مطالعے میں سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ دن بھر میں دوگھنٹے سے زیادہ اسکرین ٹائم سے بچوں کے خون کے دباؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے اور بچپن میں ہائی بلڈ پریشر سے بچوں کی بعد کی زندگی میں صحت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔
ایک بڑے مطالعے سے وابستہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دن بھر میں 2 گھنٹے سے زیادہ ٹیلی وژن دیکھنے سے بچوں میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
دنیا کے کئی تعلیمی مراکز کے محققین کی جانب سے کی جانے والی تحقیق میں یورپی یونین کے 8 ممالک کے تقریبا 5,000 بچوں کی دو برس تک نگرانی کی گئی اور نتیجے میں اسکرین کے سامنے بیٹھنے اور ہائی بلڈ پریشر کے درمیان ایک تعلق مل گیا ہے۔
نتیجے سے محققین نے اخذ کیا کہ جو بچے ہر دن دو گھنٹے سے زیادہ اسکرین کے سامنے گزارتے تھے، دو سال بعد ہائی بلڈ پریشر کے خطرے میں تھے جبکہ جن بچوں میں ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کے ساتھ جسمانی سرگرمیاں کم تھیں ان کے لیے یہ خطرہ اور بھی زیادہ تھا۔
مطالعے کے دوران ہر 10 میں سے ایک بچے میں ہائی بلڈ پریشر نوٹ کیا گیا جو قلبی امراض کی ایک بڑی وجہ ہے اور یہ 'سی وی ڈی ایس' بیماری کا سبب بنتا ہے ، یہ ایک دل کی حالت ہے جس سے دل کی وریدوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
بچوں میں غیر فعال طرز زندگی یا بیٹھے رہنے والی سرگرمیوں کی درجہ بندی والدین کی طرف سے فراہم کردہ معلومات پر کی گئی، جس میں بچوں کا ٹی وی ٹائم،کمپیوٹر، ویڈیو گیمز اور کمپیوٹر گیمز کھیلنے کے اوقات کار شامل تھے اور مطالعے کی سرگرمی بھی شامل تھی۔
اگرچہ بچوں میں خون کے دباؤ کی مخصوص پیمائش نہیں ہے لیکن اگر یہ ایک ہی عمر، قد اور جنس کے 95 فی صد بچوں کے فشار خون سے زیادہ ہے تو اسے ہائی بلڈ پریشر کہا جاتا ہے۔
سائنسی رسالے 'انٹرنشنل کارڈیالوجی جرنل' میں شائع ہونے والی تحقیق سے ظاہر ہوا کہ 2 سے 10 برس کے بچے جو ٹیلی وژن کے سامنے دن میں دو گھنٹے سے زیادہ بیٹھتے تھے ان میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ 30 فیصد زیادہ تھا اپنے ان ہم عمر بچوں کے مقابلے میں اس سے کم وقت کے لیے ٹی وی دیکھتے تھے ۔
محققین نے بتایا کہ دو گھنٹے سے زیادہ اسکرین ٹائم کے ساتھ غیر فعال طرز زندگی رکھنے والے بچوں میں ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ 50 فی صد زیادہ تھا۔
تحقیق کے سربراہ اوگسٹو سیزر ڈی موریسس جو ساؤ پالو یونیورسٹی برازیل سے منسلک ہیں، نے کہا کہ بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد، جسمانی سرگرمی اور طرز زندگی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ مطالعے کے دوران ہائی بلڈ پریشر کے اعلی واقعات بچوں میں دیکھے گئے اور ہر 1,000 ہزار بچوں میں سے 110 بچوں میں ہائی بلڈ پریشر کا پتا چلا ہے۔
محقق سیزر ڈی موریسس نے مزید کہا کہ ''یہ اعداد و شمار پریشان کن ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بیٹھے رہنے کا طرز عمل بچپن میں عام ہے اور اس کے بعد کی زندگی میں بھی عام ہے
No comments:
Post a Comment