غلو کا لفظی مطلب ہے انتہا پسندی (extremism) ، یعنی کسی شرعی حکم میں مطلوب حد سے تجاوز کرنا - حد سے تجاوز کرنے کی یہ سوچ کب پیدا هوتی ہے - یہ دراصل شفٹ آف ایمفیسس (shift of embhasis) کا نتیجہ هوتا ہے ، یعنی جس چیز پر جتنا زور دینا چاہئے ، اس پر اس سے زیاده زور دینا - مثلا اسلام میں سیاست کا مقام صرف جزئی یا اضافی ہے ، مگر اس کو اتنا بڑهانا کہ سیاست ہی کی بنیاد پر پورے دین کی تعبیر و تشریح کی جائے ، یہ حد سے تجاوز کرنا ہے اور اس تجاوز کو غلو کہا جائے گا -
اس موضوع پر گفتگو کرتے هوئے ایک صاحب نے کہا کہ آپ دعوت اور متعلقات دعوت پر اتنا زور دیتے ہیں ، وه بهی غلو کی تعریف میں آتا ہے - میں نے کہا کہ ہر گز نہیں - دعوت الی اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ وه پیغمبر کی اهم ترین سنت ہے - حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر کی بعثت ہی اس کے لئے هوئی - مگر موجوده زمانے میں یہ هوا کہ مدعو قوموں کو مسلمانوں نے اپنا رقیب یا حریف (rival) سمجهہ لیا - اس بنا پر ان کے اندر دعوت کا محرک (incentive) ختم هو گیا - اس لئے هم اس سنت نبوی کو زنده کرنے کے لئے اس پر بہت زیاده زور دیتے ہیں - اس کو ایمفیسس (emphasis) کہا جائے گا ، نہ کہ شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) -
غلو کبهی اصل دین میں نہیں هوتا ، غلو جب بهی هوتا ہے ، وه ظواہر دین میں هوتا ہے - اصل دین میں شدت بیان ہمیشہ مطلوب هوتی ہے - اصل دین میں یہ شدت بیان خود قرآنی اسلوب ہے ، اور یہی اسلوب هم کو احادیث میں ملتا ہے -
اصل دین میں شدت بیان کا یہ فائده ہے کہ اس سے آدمی کے اندر روح دین زنده هوتی ہے ، اور روح دین کے زنده هونے سے دین کے تمام پہلو اپنے آپ زنده هو جاتے ہیں - روح دین میں شدت کا طریقہ ہی مطلوب طریقہ ہے ، البتہ جو ظواہر دین ہیں ، ان میں شدت کی بجائے نرمی کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے - اسی فرق کو جاننے کا نام حکمت دین ہے -
No comments:
Post a Comment