Monday 16 October 2017

سونے کا فن: تحقیق The Art of Sleeping

سونے کا فن: تحقیق The Art of Sleeping
#ایس_اے_ساگر
دارالعلوم کشن گنج کے طلبہ واساتذہ کے درمیان 14 اکتوبر 2017 کو بعد نماز فجر وعظ ونصیحت کرتے ہوئے سرزمین سیمانچل کے معروف مقرر اور دارالعلوم بہادرگنج کے موقر استاذ مفتی محمد جسیم اختر قاسمی  مدظلہم نے فرمایا کہ صحت مند انسانی زندگی کے لئے بلاشبہ نیند سب سے عظیم نعمت ہے۔ چناچہ جب نیند انسان سے قریب ہوتی ہے تو اس وقت انسان سب سے لذیذ قسم کا کھانا، پھل، میوے بلکہ سب سے محبوب ترین رشتہ دار ماں باپ، بیوی بچے بھی سامنے رہیں توان سے بھی منہ موڑلیتا ہے اور نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔۔ حتی کہ ماں یا باپ کا جنازہ بھی گھر میں رکھاہو، تب بھی نیند کے آنے سے کوئی روک نہیں سکتا۔۔ پتہ چلاکہ نیند خدا کی دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن اس کا کیا کیجئے کہ اپنی بے اعتدالیوں کے سبب انسان نے اس نعمت کو مصیبت بنا رکھا ہے. غنیمت ہے کہ ڈاکٹر حمزة الحمزاوی Dr. Hamza Al-Hamzawi نے اپنے لیکچر "The Art of Sleeping" یعنی 'سونے کا فن' میں خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے. اس خطاب کے مطابق:
1⃣: عشاء کے بعد 9 سے 12 بجے رات تک سونا:
ان اوقات کے دوران سونا سب سے زیادہ فائدہ مند ہے.
ایک انسان اپنی نیند کا 80% ان اوقات میں پوری کر سکتا ہے۔ کیونکہ ان اوقات میں نیند کے لیے برکت ہے، سو اس وقت کی نیند۔۔۔۔۔
1گھنٹہ کی نیند=3 گھنٹے کی نیند
اس وقت کے دوران
pineal gland (دماغ کا گلینڈ)
ایک ہارمون پیدا کرتا ہے جس کا  نام 'melatonin ہے۔۔۔
یہ صرف اسی صورت میں پیدا ہوتا ہے اگر
1. سونے کے دوران کمرے میں تاریکی ہو۔
2. اگر نیند نہیں آ رہی تب بھی  انسان سکون سے لیٹ جائے۔
Melatonin)
ہارمون ہمیں سونے میں مدد کرتا ہے ۔۔۔)
2⃣: 12 سے 2 بجے رات کو سونا۔۔
ان اوقات کے دوران سونے سے انسان کی 20% کی گہری نیند پوری ہوجاتی ہے۔۔
اس کے بعد کا سونا ..نیند کے لیے فائدہ مند نہیں ۔۔۔۔ (چونکہ انسان اپنی 100% نیند پوری کرچکا ہوتا ہے)
ان اوقات میں سونا
1 گھنٹہ نیند= 1 گھنٹہ نیند
3⃣: 2 بجے سے 5 بجے تک یعنی فجر سے پہلے کے اوقات:
یہ ایک بہترین وقت ہے کچھ یاد کرنے کے لیے،
اللہ کو یاد کرنے کے لیے ذکر اور استغفار کرنے کے لیے  اور ذہنی ارتکاز ۔۔۔ مراقبے کے لیے
4⃣: دن کو سونا  (فجر کے بعد):
یہ بالکل بھی فائدہ مند نہیں
3: گھنٹےکی نیند= 1 گھنٹے کی نیند
(اس وقت سونے میں کوئی برکت نہیں یہ بلکہ یہ سارا دن کاہلی سستی اور توجہ میں کمی کا باعث بنتی ہے)
5⃣: فجر کی نماز سے طلوع آفتاب تک سونا:
ان اوقات میں
Pineal gland
دوسرا ہارمون خارج کرتا ہے جس کا نام ہے 'seretonium'.
یہ ہارمون ان اوقات میں صرف اسی صورت خارج ہو تا ہے۔۔
1۔ انسان جاگ رہا ہو،
2. روشنی کے ساتھ ساتھ ہلکی پھلکی ذہنی ورزش بھی ہو۔
(فجر کی نماز وقت پر ادا کرنا اور اللہ کا ذکر کرنا)۔ یہ وقت ہے ذکر و ازکار کا۔۔۔ اور غور و فکر کرنے اور دن کو ہونے والے کاموں کی منصوبہ بندی اور ترجیحات طے کرنے کا۔۔۔۔
6⃣:  ورزش، اور واک وغیرہ کو طلوع آفتاب کے بعد ہی کرنا چاہیے۔
7⃣ انسانی دماغ میں
Pineal gland سے melatonin ہارمون
کا خارج ہونا.... 40 سال بعد کم ہوتا جاتا ہے۔۔۔ اور 50 سال کی عمر میں یہ اخراج رک جاتا ہے
، اس وقت انسان کا جسم اس ہارمون کو ہی استعمال کرتا ہے جو گزشتہ برسوں میں جسم میں محفوظ ہوا تھا، 
اب اگر کوئی انسان الزائمر اور  شیزوفرینیا جیسے دماغی امراض کاشکار ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ  زندگی بھر  دیر سے سویا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔!

قَیلولہ، حَیلولہ، عَیلولہ، فَیلولہ، غَیلولہ، لَیلولہ

'لُغات واصطِلاحات' کے تحت ڈاکٹر شیخ ولی خان المظفر رقمطراز ہیں؛
سوال: قیلولہ کا لغوی معنی کیاہے، اس کی مدت کتنی ہے اور قرآن وحدیث میں اس کا ثبوت کیا ہے، کیونکہ اس معاملے کا تعلق بھی ہے؟ (عباس حبیب، لی مارکیٹ)۔
جواب: (قَیلُولَۃ) عربی زبان سے ثلاثی مجرد کے باب ضرب سے مشتق اسم مصدر نکرہ ہے، عربی سے اردو میں حقیقی معنی و ساخت کے ساتھ داخل ہوا، اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ جمع: قَیلُولے (قَے (ی لین) + لُو + لے)، قائلہ: قیلولہ کرنے کا و قت مَقِیل: قیلولہ کرنا۔ اصطلاح میں؛
نصف النہار کو کھانا کھانے کے بعد قدرے لیٹنا، 
دوپہر کو کھانے کے بعد آرام کرنا، 
دوپہر کا سونا، 
ظہر کی نماز کے بعد یا بعض محققین کے یہاں نمازِ ظہر سے پہلےتھوڑا سا آرام کرنا، 
وقفہ کرنا، 
سکون حاصل کرنے کے لئے استرخاء واستراحت کرنا، 
اس کی کم از کم مدت 5 سے 10 منٹ ہیں، کمی بیشی بھی ممکن ہے، سونا ضروری بھی نہیں، بتکلف اپنے آپ کو سویا ہوا ظاہر کرنا بھی قیلولہ کی ایک قسم ہے۔ اسلام میں قیلولہ مسنون و مستحب عمل ہے، کئی احادیث میں قیلولہ کا تذکرہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بھی قیلولہ فرماتے تھے۔ مثلاً: صحیح البخاری: 6281 میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سیدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر میں جاکر قیلولہ کا تذکرہ ہے۔ اس کے علاوہ فرمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: 
قیلولہ کیا کرو کیونکہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے۔ (سلسلہ صحیحہ للالبانی: 1647)۔ نیز قیلولہ سے یادداشت اچھی ہوتی ہے اور فرد کی کارکردگی میں اچھا خاصااضافہ بھی ہوتاہے۔ اب جاکر امریکی سائنسدانوں نے پتہ چلایا ہے کہ تین سے پانچ سال کی عمر کے بچوں میں لنچ کے بعد ایک گھنٹے کی نیند ان کی ذہنی قوت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ محقیقین کے مطابق قیلولہ کرنے والے بچوں نے شکل و حجم کو پرکھنے کے ٹیسٹ میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ تحقیق کے دوران بچوں کے ذہنی معائنے سے پتہ چلا ہے کہ قیلولہ کرنے والے بچوں کے ذہن کے سیکھنے والے حصوں میں زیادہ سرگرمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تحقیقاتی ٹیم نے پہلی بار ایسی شہادت پیش کی ہے کہ قیلولہ بچوں کی پڑھائی اور ذہنی قوت کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بچوں کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ان میں قیلولہ کی عادت ختم ہوجاتی ہے لیکن کم عمر بچوں میں اس کی ایسی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے کہ بڑے ہوکر بھی وہ قیلولہ کے عادی ہوں۔ برطانیہ کے رائل کالج کے مطابق سائنسدانوں کو گزشتہ کئی دہائیوں سے یہ معلوم ہے کہ مختصر نیند سے بالغ لوگوں کی ذہنی کارکردگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے، لیکن اب تک ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ قیلولہ کم عمر بچوں کی یادداشت کے لئے بھی مفید ہے۔ انھو ں نے کہا کہ یہ تحقیق انتہائی اہم ہے، کیونکہ ابھی تک بچوں کی تربیت کرنے والے اداروں کی دن کو بچوں کی نیند کے بارے میں رائے بٹی ہوئی تھی لیکن اب ہمیں پتہ چلا ہے کہ دن کی نیند بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی رات کی۔چین، جاپان اور اسپین میں بھی کام اور پڑھائی کے دوران قیلولے پر تجربات کے بعد کئی مقامات پر اس کا اہتمام ہونے لگا ہے، ہمارے یہاں دینی مدارس میں قیلولہ باقاعدہ معمولات میں سے ہے، اگلے دن تہجد اور فجر کے لئے اٹھنے میں پچھلے دن کے قیلولے کو بڑی اہمیت حاصل ہے، کمپیوٹر پر کام کرنے والوں کے لئے تو تقریباً صحت کے اصولوں کے مطابق ضروری بتایا گیاہے، اسی سے باب افعال میں إقالہ ہے، جو فسخِ عقد کو کہاجاتاہے۔ 
(حَیلُولَۃ): باب نصر سے اسم مصدر نکرہ ہے،حائل بننا، رکاؤٹ ہونا، طلوعِ آفتاب سے قبل نمازِفجر کے متصلاً بعد سونا، یہ وقت رزق میں برکت کا ہے، اس وقت سونا روزی میں رکاؤٹ اور حائل ہوتا ہے اس لئے اسے حیلولہ کہتے ہیں، حَولٌ:سال، طاقت، استطاعت، قدرت، لاحَول ولا قُوّۃَ اِلاّ باللہ میں حَول اسی معنی میں ہے، البتہ اس پورے کلمے کو مختصراً حَوقَلہ کہاجاتا ہے، جیسے بَسمَلہ وحَمَدَلَہ۔ حَولَ، ج حَوالَی: لگ بھگ، آس پاس، اریب قریب، تقریباً، حَوَل: بھینگا پن۔ حال، ج احوال بھی اسی مادّہ سے ہے۔ تحوّل: موڑ، تبدیلی، انتقال۔ الإِحالہ والتحویل: حوالہ کرنا، پے آرڈر یا: ڈرافٹ بنانا۔ محاوَلہ: کوشش، ٹرائی، تجربہ۔
(عَیلُولَۃ): علت، بیماری، اصطلاح میں عصر کے بعد سونا، جو بوریت، ضیقِ قلب اور دیگر جسمانی امراض کا سبب بنتا ہے۔ عِلَّۃ: بیماری، عیب، سبب، حجت، دلیل، عُذر، سر چشمہ، ج عِلِل، علات۔ الاِعلال والتعلیل: علت نکالنا، بِھلانا، علم صرف ونحو کی ایک مشہور اصطلاح، باب کرُم اور افتعال سے: بیمار ہونا، عَلّۃ: سوکن ،ج عَلّات، اسی سے عَلاتی بھائی کی اصطلاح ہے، یعنی باپ شریک کئی ماؤوں کی اولاد۔ ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے: (العیلولۃنوم قبل طلوع الشمس وقبل العشاء ،ہويورث الفقر وشتات الامر).
(فَيلولة): یہ وہ نیند ہے جو طلوعِ آفتاب کے فوراً بعد ہوتی ہے، اس میں پختہ نیند نہیں ہوتی، جس سے طبیعت ناساز ہوجاتی ہے، چڑچڑاپن اور کمزوری کی باعث ہوتی ہے، تکثیر بلغم کی سبب بھی بنتی ہے، (فَلّ) کُند ہونے کے معنی میں ہے، (وهو نوم بعد طلوع الشمس في صدر النهار، و يحدث الفتور لان حرارة الشمس تدارك البرودة الا انّ البرودة غالبة من جهة عدم اشتداد الحرارة وبرودة النوم ، فلا يحصل النضج التام فيحصل الفتور والضعف الناشئان عن عدم نضج البنية وزيادة المادة البلغمية) . 
(غَيلولة): ہلاک ہونا، تباہ ہونا، (غَلّ): خیانت، فراڈ، غروبِ آفتاب کے وقت سونا، یہ نیند مہلک بیماریوں کی باعث بنتی ہے، (وهو النوم في آخر النهار، و هذا النوم يورث الامراض المهلكة في الظاهر والباطن، ووقت انبساط الشيطان وجنوده .وفي مجمع البحرين في الحديث : والغيلولة تورث السقم ، وفُرِّرت بالنوم آخر النهار)، اسی سے اغتیال ہے جس کا معنی ہے: ٹارگٹ کلنگ، جان سے مارنا. 
(لَیلُولَۃٌ): رات کی طرح نیند کا ماحول بنانا، یہ (لیلٌ، ج لَیَال: رات) سے صبح کی نیند کے عادیوں نے ایک اصطلاح بنانے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال عربی میں اس وزن کے اور بھی مصادر ہیں، مثلاًٍٍ: کینونۃٌ، صیرورۃ وغیرہ۔
نیند کی 7 قسمیں:
1۔ غفلت کی نیند: مجلس میں بیٹھ کر سونا،
2 ۔ بدبختی کی نیند: اوقات نماز میں سونا،
3۔ لعنت کی نیند: فجر کی نماز واوقاتِ برکت سے محرومی کی،
4۔عقاب کی نیند: فجر کے بعد متصلاً سونا،
5۔ راحت کی نیند: قیلولہ والی،
6۔ اجازت کی نیند: عشاء کے بعد،
7۔ حسرت وافسوس کی نیند: شبِ جمعہ میں عبادت کئے بغیر سونا۔ (اما نوم الغفلة ففي مجلس الذكر، ونوم الشقاوة في وقت الصلاة، ونوم اللعنة في وقت الصبح ، ونوم العقوبة بعد صلاة الفجر ، ونوم الراحة في وقت القيلولة . ونوم الرخصة بعد صلاة العشاء ، ونوم الحسرة في ليلة الجمعة). 
عمومی طور پر نیند کی یہ مراتب ومراحل ہیں:
1۔ النُّعَاس؛ اونگنا،
2۔ الوَسَن، اونگھ کا غلبہ ہوجانا،
3۔ التَّرْنِيق، اونگھتے ہوئے نیند میں چلاجانا،
4۔ الكَرَى 
5۔ الغُمْض، ان دونوں میں بیداری اور نیند کی کشمکش ہوتی ہے،
6۔ التَّغْفِيق، ایسا سونا جس میں پاس والے کی گفتگو بھی سنی جاسکتی ہے،
7۔ الإغْفَاءوالغفوۃ، ہلکی نیند،
8۔ التَّهْوِيم والغِرَاروالتَّهْجَاع، تھوڑی دیر کی نیند،
9۔ الرُّقَاد، دیر تک کے لئے نیند،
10۔ الهُجُودوالهُجُوع والهُبُوع، گہری نیند،
11۔ التَّسْبِيخ، بہت شدت سے آئی ہوئی نیند۔ (قرآن کریم میں درج ذیل مقامات نیند کی مختلف اقسام کا تذکرہ ہے: البقرہ: 255۔ آل عمران: 154۔الأنفال: 11۔الفرقان: 47۔ النبإ: 9۔الكهف: 18۔ یس: 52۔الأنفال: 43۔الروم: 23۔ الصافات: 102۔ الزمر: 42۔)
کس طر ح سونا چاہئے؟
حضرت براء بن عاذب رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم جب بستر پر آتے تو داہنی کروٹ پر سوتے تھے (بخاری شریف و ترمذی)۔ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم عام طور پر دائیں کروٹ پر آرام فرماتے تھے اور دایاں ہاتھ داہنے رخسار کے نیچے ہوتا۔ یہ تھا طریقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے کا اور اسی کی ترغیب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دی تھی۔ آئیے اب جانتے ہیں کہ اس انداز سے سونے کی سائنسی اہمیت کیا ہے ؟
نیند کا قلب پر اثر
دائیں کروٹ پر سونے سے قلب (دل) پر زیادہ زور نہیں پڑتا، کیونکہ دوران خون کے عمل کے وقت، قلب کے بائیں طرف کا حصہ دائیں کروٹ ہونےکی حالت میں، بائیں طرف اوپر ہوتا ہے، اسے خون کو پمپ کرنے میں زور نہیں لگانا پڑتا جس سے قلب پر کم دباؤ پڑتا ہےا ور خون قلب سے نکل کر جسم میں آسانی سے گردش کرتا ہے۔
معدہ پر اثر:
ہم جب کھانا کھاتے ہیں تو وہ غذا، منہ سے کھانے کی نالی (Esophagus) سے معدہ (Stomach) میں آجاتی ہے ۔معدہ سے لگ کر ایک آنت کا حصہ (Duodenum) اور ساتھ میں پتہ (Gallbladder)، جگر سے ملتا ہے۔ دائیں طرف یہ اعضاء ہونے کی وجہ سے ہم داہنی کروٹ لیٹتے ہیں تو معدہ کے اندر کی غذا آسانی سے آنت میں آجائے گی۔اس کے بعد نظام ہضم کے عمل میں جگر ،پتہ اور دوسری آنتیں حصہ لے گی، یہ تمام کام دائیں جانب کروٹ لینے کی وجہ سے آسانی سے سرانجام پاتا ہے۔ غرض کہ دائیں کروٹ پر لیٹنے سے نہ تو نظام ہضم پر زور پڑتا ہے اور نہ ہی قلب پر دباؤ پڑتا ہے۔ یہ دونوں عمل ٹھیک ہونے کی وجہ سے پھیپھڑے بھی صحیح طریقے سے عمل تنفس کا کام سرانجام دیں گے اورا س کے ساتھ ہی ساتھ انسانی جسم کے باقی اعضاء بھی صحیح کام کریں گے۔
کس طرح لیٹنا نہیں چاہئے:
آئیے اب دیکھتے ہیں کہ ہمیں کس طرح لیٹنا نہیں چاہئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو پیٹ کے بل لیٹتے دیکھا تو فرمایا: 
”اس طرح لیٹنا اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں ہے“۔ (ترمذی)۔ 
میڈیکل سائنس ہمیں یہ معلومات فراہم کرتی ہے کہ منہ کے بل اوندھے لیٹنے سے دل وگردہ پر برا اثر پڑتا ہے۔ نیز نظام ہضم پر بھی دباؤ پڑتا ہے۔
قیلولہ کی سائنسی اہمیت:
سائب بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ جب دوپہر کو ہمارے پاس سے گزرتے تو فرماتے، “جاؤ قیلولہ کرو”۔ (شعیب الایمان 182، جلد5)۔ اسی طرح حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ قیلولہ کرو کیونکہ شیطان قیلولہ نہیں کرتا (طبرانی، ابو نعیم، دیلمی)۔ ایک اور حدیث کے راوی حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جمعہ کے دن جمعہ کے بعد کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے۔ (بخاری، ترمذی)
پروفیسر جم ہارن، ڈائریکٹر سلیپ ریسرچ لیبارٹری انگلینڈ کا کہنا ہے کہ
Our Body Rhythms Takes a Dip Between 2pm to 4pm .Hence Most
People Feel Sleepy
یعنی؛ ”دوپہر 2 سے 4 بجے تک انسانی جسم میں اتار چڑھاؤ (تغیریات) کا گہرا عمل ہوتا ہے، اس لئے زیادہ تر لوگوں پراس وقت نیند کا غلبہ ہوتا ہے ۔” چناچہ پروفیسر جم ہارن تجویز کرتے ہیں کہ اگردوپہر 20 منٹ تک سویا جا ئے تو کام کرنے کی قوت بڑھ جائے گی اور جسم میں چستی اور راحت محسوس ہوگی ۔
مندرجہ بالا رپورٹ سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ 1400 سال قبل جو طریقہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے ہمیں بتایا وہ کتنا جدید سائنسی عمل ہے، جسے آج ماہرین فن سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر سونے کے وقت کا صحیح تعین کیا جائے اور صحیح طریقہ اپنایا جائے جو سنت رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم کے مطابق ہوتو یہ انسانی جسم کے لئے فائدہ کا سبب بنے گا۔
حضرت باقر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے کسی نے پوچھا کہ آپ کے یہاں حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کا بستر کیسا تھا؟ 
انھوں نے کہا کہ،
چمڑہ کا تھا، جس کے اندر کھجور کے درخت کی چھال بھری ہوئی تھی (شمائل ترمذی)، حضرت حفصہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر آپ ﷺ کا بستر ٹاٹ کا تھا جس کو دوہرا کرکے نیچے بچھا دیا کرتے تھے۔
أنواع النووووم
معلومه صدمتني!!
سبع انواع للنوم
1. نوم الغافلين:
هم ينامون في مجلس فيه ذكر الله
عز وجل وذكر رسوله الكريم.
2. نوم الاشقياء:
هم ينامون وقت الصلاة.
3. نوم الملعونين:
هم ينامون عند صلاة الصبح ، احدى الروايات " من فاتته ليالي الصبح 3 أيام حشر مع المنافقين"
4. نوم المعذبين:
هم ينامون بين الطلوعين يعني أذان الصبح وطلوع الشمس ، والمقصود ان الشخص سيعذب العذاب الفعلي لأن في هذا الوقت تتوزع الأرزاق والبركة يوميا على البشر وهو وقت استجابة الدعاء.
5. نوم الراحة:
الذي يريح الانسان وأي رؤيا يراها تكون حتما صادقة.
6. النوم المرخوص:
النوم بعد العشائين، أي لا بأس به.
7. نوم الحسرة :
النوم ليلة الجمعه ، ففي احيائها الخير الكثير لأنها الليلة التي ينظر بها الله الى عبده.
‏​‏​‏​‏​‏​‏​‏​‏​‏​‏​؟!لماذا نمسح الرسائل التي تتحدث عن الأمور الدينية!ونقوم بإعادة إرسال (الرسائل العادية)؟ يقول صلى الله عليه وآله وسلم ”بلغوا عني ولو آية“ وقد تكون بإرسالك هذه الرسالة لغيرك قد بلغت آية تقف لك شفيعةً يوم القيامة.
خمسة معلومات:
1- هل تعلم:
عندما ينتهي الأذان لا تحرم نفسك من دعوه مستجابه بعد ترديدك الأذان وقول الدعاء المأثور، انشر فغيرك لا يعلم، اللهم قد بلغت اللهم فاشهد . .
.....
2- هل تعلم:
اين توضع ذنوبك و أنت في صلاتك؟
قال رسول الله صلى الله عليه وعلى اله (ان العبد اذا قام يصلي اتى بذنوبه كلها فوضعت على راسه وعاتقيه فكلما ركع او سجد تساقطت عنه)
يامن تتعجل في الركوع والسجود أطل سجودك و ركوعك بقدر ماتستطيع لتتساقط عنك الذنوب فلاتفوت هذا الاجر " من گتم علما لجمہ اللہ بلجام من نار يوم القيآمه " . .
........
3- هل تعلم:
ماتت امرأه صالحه فكانوا كلما زاروا قبرها وجدوا رائحة تراب القبر (ورداً) فقال زوجها إنها كانت لاتترك قراءة سورة الملك قبل نومها . فهنيئا لمن جعل قراءتها عادة له فإحرص عليها لأنها تنجي من عذآب القبر"آخبر بها من تحب" ولأني أحبك آخبرتك . . 
.........
4- هل تعلم:
عند قرآءة آية الكرسي بعد كل صلآة يصبح بينك وبين الجنه الموت فقط!
...........
5- هل ..تعلم:
عند الانتهاء من الصلاة لا تستعجل وأبقى جالسا مدة لأن الملائكة تدعي لك عند ربك،
..أما أنا ... فأرسلتها لمن أحببت  في الله وحده
_ لا تكتم علماً خيراً تجزى به
في 20 ثانيه
-----------
احادیث مشہورہ کی تحقیق:
فجر کے بعد سونے کی ممانعت کی روایات
سوال: فجر کے بعد سونے سے مفلسی آتی ہے، کیا یہ بات کسی حدیث سے ثابت ہے؟
اگر ہے تو کیا پوری رات ذکر تلاوت میں مشغول رہنے کے بعد تھوڑی دیر سونے والے پر بھی یہ حکم لاگو ہوگا؟
اور کیا صبح کے وقت سونا شرعا ناجائز ہے؟ 
الجواب: دن کے اوقات میں سونا کئی طرح کا ہوتا ہے، اوقات کی بناء پر اس کا حکم بھی مختلف ہوگا:
۱۔ طلوع فجر کے بعد نماز فجر سے پہلے سونا۔
۲۔ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک سونا۔
۳۔ طلوع آفتاب کے بعد سے اشراق وچاشت کے اوقات میں قبیل ظہر تک سونا۔
۴۔ ظہر کے وقت قیلولہ کرنا۔
۵۔ ظہر وعصر کے درمیان سونا۔
۶۔ عصر سے مغرب کے درمیان سونا۔
سائل کے سوال کا تعلق پہلی تین اقسام سے ہے، بقیہ اقسام من باب الاحاطہ بالشیء و تتمۃ القسمہ ذکر کی گئی ہیں، قصد یہ تھا کہ مذکورہ بالا تمام اقسام کی تفصیل عرض کروں، مگر مضمون طویل ہوجائے گا، اگرچہ فائدہ سے خالی نہیں ہوگا، لہذا مذکورہ سوال اور اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں پر صرف پہلی تین قسموں کے بارے میں وارد روایات، ان کا حدیثی مرتبہ، اور حکم ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، وباللہ العون۔
۱۔ طلوع فجر کے بعد نماز فجر سے پہلے سونا:
روایت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مشہور روایت ہے: فَإِذَا سَکَتَ الْمُؤَذِّنُ مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَتَبَيَّنَ لَهُ الْفَجْرُ وَجَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ قَامَ فَرَکَعَ رَکْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَی شِقِّهِ الْأَيْمَنِ حَتَّی يَأْتِيَهُ الْمُؤَذِّنُ لِلْإِقَامَةِ۔ (صحیح البخاری وصحیح مسلم)
ترجمہ: پھر جب مؤذن فجر کی اذان دے کر خاموش ہوجاتا اور فجر طلوع ہوجاتی یعنی صبح کی روشنی پھیلنے لگتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے اور دو رکعتیں ہلکی (یعنی فجر کی سنتیں) پڑھتے اور اس کے بعد اپنی داہنی کروٹ پر لیٹ جاتے تھے یہاں تک کہ مؤذن اقامت کہنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے (مسجد) تشریف لے جاتے۔
روایت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک دوسری روایت میں ہے: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَكَعَ رَكْعَتَيْ الْفَجْرِ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ (زوائد عبد اللہ علی مسند احمد)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح ہوجاتی تو دو رکعتیں پڑھتے، پھر دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔
روایت: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے قولی روایت بھی منقول ہے: إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ رَکْعَتَيْ الْفَجْرِ فَلْيَضْطَجِعْ عَلَی يَمِينِهِ (جامع ترمذی)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی فجر کی دو سنتیں پڑھ لے تو دائیں کروٹ پر لیٹ جائے.
حدیث کا مرتبہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی قولی حدیث کی ابن تیمیہ نے تضعیف کی ہے، کیونکہ اس کا مدار عبدالواحد بن زیاد پر ہے، جس کے حفظ میں کلام ہے، ابن تیمیہ نے کہا کہ: فعلی حدیث ثابت ہے، اور قولی غلط ہے۔ (زادالمعاد لابن القیم)۔
اس وقت میں سونے کا حکم: مباح ہے بغرض استراحت
(شرح مشکوہ) میں ہے: فجر کی سنتیں پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے لیٹ جاتے تھے تاکہ تمام رات عبادت الٰہی اور نماز میں مشغول رہنے کی وجہ سے جو تکان وغیرہ پیدا ہوجاتی تھی وہ تھوڑی دیر آرام کرلینے سے ختم ہوجائے اور فرض پوری چستی اور بشاشت کے ساتھ ادا ہوں، لہٰذا مختار یہ ہے کہ جو آدمی رات کو عبادت الہٰی اور ذکر اللہ وغیرہ میں مشغول رہے اس کے لئے فجر کی سنتیں پڑھ کر تھوڑی دیر کے لئے بغرض استراحت لیٹ جانا مستحب ہے۔
درس ترمذی (2/185): فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کے لئے لیٹ جانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، لیکن حنفیہ اور جمہور کے نزدیک یہ لیٹنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سُنن عادیہ میں سے تھا، نہ کہ سُنن تشریعیہ میں سے، یعنی صلوۃ اللیل سے تعب کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر آرام فرمالیتے تھے، لہذا اگر کوئی شخص اس سُنّتِ عادیہ پر عمل نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں، اور اگر سُنّتِ عادیہ کی اتباع کے پیشِ نظر لیٹ جایا کرے تو موجبِ ثواب ہے، بشرطیکہ وہ رات کے وقت تہجد میں مشغول رہا ہو، لیکن اس کو سُنن تشریعیہ میں سے سمجھنا، لوگوں کو اس کی دعوت دینا اور اس کے ترک پر نکیر کرنا ہمارے نزدیک جائز نہیں۔
الدالمنضود (2/533) میں لکھا ہے: حنفیہ کہتے ہیں نہ مکروہ ہے نہ مستحب۔ حضور سے یہ ثابت ضرور ہے، لیکن گھر میں نہ کہ مسجد میں ، برائے استراحت نہ برائے تشریع وترغیب۔
تحفۃ الالمعی (2/265) میں ہے: بعض حضرات کے نزدیک گھر میں لیٹنا سنت ہے اور مسجد میں لیٹنا بدعت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر ہی میں لیٹتے تھے، مسجد میں کبھی نہیں لیٹے. مگر یہ قول صحیح نہیں ہے، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی میں تہجد پڑھنے والوں سے فرمایا کہ: جب تم فجر کی سنت پڑھ چکو تو دائیں کروٹ پر لیٹ جاؤ۔ ظاہر ہے یہ حضرات مسجد ہی میں لیٹیں گے، لیٹنے کے لئے گھر نہیں جائیں گے  ـــــــ اور ایک قول یہ ہے کہ: یہ لیٹنا تہجد گزاروں کے لئے سنت ہے، سب مسلمانوں کے لئے سنت نہیں، یہ فرق معقول ہے، اور احناف نے جو مباح کہا ہے اس میں سب شامل ہیں تہجد گذار بھی اور عام مسلمان بھی۔
۲۔ فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک سونا:
روایات: اس باب میں روایات دو طرح کی ہیں: ایک وہ جن میں مذکورہ وقت کی صراحت ہے، دوسری وہ ہیں جن میں (صُبحہ یا تصبُّح) کا لفظ وارد ہے، جس کا اطلاق دن کے ابتدائی حصہ میں سونے پر ہوتا ہے، اس معنی کے اعتبار سے مذکورہ بالا اقسام میں سے دوسری اور تیسری قسم کا سونا دونوں اقسام اس طرح کی روایات میں مراد ہوسکتیں ہیں، لیکن چاشت کا وقت اظہر ہے، جیساکہ ابن ابی شیبہ نے ذکر کیا ہے، اس لئے یہاں پر صرف صریح روایات ذکر کی جائیں گی، اور (صُبحہ یا تصبُّح) والی روایات اگلی قسم میں ملاحظہ فرمائیں۔
فجر کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک سونے کی صریح روایات:
۱۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی روایت:
روایت: عن عثمان بن عفان قال: قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-: "الثابت في مُصَلَّاهُ بعد صلاة الصُّبح يذكرُ اللَّه عز وجل حتى تطلُع الشمسُ أبلغُ في طَلَب الرزق من الضَّربِ في الآفاق"۔ (مسند الفردوس رقم 6309)۔
ترجمہ : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک ذکر خدامیں لگے رہنا رزق کے حصول میں زیادہ باعثِ نفع ہے اس بات سے کہ طلب رزق میں دنیا کے کونے کونے میں پھرتا رہے۔
حدیث کا مرتبہ: موضوع، سند میں ابوداود سلیمان بن عمرو نخعی ہے، جو کذاب ہے. (میزان 2/216)۔
۲۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
روایت: عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: مَرَّ بِيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مُضْطَجِعَةٌ مُتَصبِّحَةٌ، فَحَرَّكَنِي بِرِجْلِهِ، ثُمَّ قَالَ: "يَا بُنَيَّةُ قُومِي اشْهَدِي رِزْقَ رَبِّكِ، وَلَا تَكُونِي مِنَ الْغَافِلِينَ، فَإِنَّ اللهَ يَقْسِمُ أَرْزَاقَ النَّاسِ مَا بَيْنَ طُلُوعِ الْفَجْرِ إِلَى طُلُوعِ الشَّمْسِ."
ترجمہ: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: 'میں صبح کے وقت سوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور آپ نے مجھے پاؤں سے ہلایا پھر فرمایا: بیٹی! اٹھو! اپنے رب کی طرف سے رزق کی تقسیم میں شامل ہو جاؤ اور غفلت شعار لوگوں کی عادت اختیار نہ کرو، اللہ تعالٰی طلوع فجر سے طلوع آفتاب تک لوگوں کا رزق تقسیم کرتے ہیں۔ (شعب الایمان، حدیث نمبر 4405)۔
حدیث کا مرتبہ: موضوع، حدیث کی سند میں عبدالملک بن ہارون بن عنترہ راوی کذاب اور جھوٹی احادیث بیان کرنے والا ہے، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف کہا ہے۔ امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ نے اسے کذاب کہا ہے۔ امام ابوحاتم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے متروک قراردیاہے۔ دیکھئے: (میزان الاعتدال، ص 666، ج 2)۔
۳۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت:
روایت: عن أنس قال: قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-: "لا تَنَامُوا عن طَلَب أرزاقكم فيما بينَ صلاةِ الفجر إلى طُلوع الشمس" قال: فسُئل أنسٌ عن معنى هذا الحديثِ؟ قال: يسبِّح ويكبّر ويستغفر سبعينَ مرةً فعند ذلك ينزلُ الرزق. (مسند الفردوس للدیلمی رقم 3868)۔
ترجمہ: تلاشِ رزق کی خاطر نماز فجر سے طلوع آفتاب تک مت سویا کرو۔ حضرت انس سے اس کی وضاحت طلب کی گئی تو فرمایا کہ: اس وقت ستر مرتبہ تسبیح تکبیر واستغفار کرنے سے روزی میں برکت ہوتی ہے۔
حدیث کا مرتبہ: اسناد ضعيف جداً؛ سند میں اصبغ بن نباتہ راوی کے بارے میں ذہبی نے (المغنی) میں کہا: "واهٍ غالٍ في تَشَيُّعه، تركه النسائي، وقال ابن معين: ليس بثقة. وقال الحافظ: متروك، رُمي بالرفض.
۴۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت:
روایت: عن على مرفوعًا: "ما عَجَّت الأرضُ من شيءٍ كعَجِيجِها من ثلاثة: من دمٍ حرامٍ يُسفَك عليها، أو غُسْلٍ من زِنى، أو نوم قبلَ طلوع الشمس". (دیلمی)
ترجمہ: زمین کی سطح پر کئے جانے والے تین کاموں کی وجہ سے زمین اپنی تکلیف کا اظہار کرتی  ہے: ناحق خون بہنے سے، وہ غسل جو زنا کے ارتکاب کے بعد کیا جائے، اور طلوع آفتاب سے پہلے سونے سے۔
حدیث کا مرتبہ: سخاوی نے مقاصد حسنہ (1/418) میں ضعیف کہا ہے۔ 
۵۔ وفي حديث "إن ما بين طلوع الفجر وطلوع الشمس ساعة تقسم فيها الأرزاق وليس مَن حَضَر القِسمةَ كمن غابَ". التنوير شرح الجامع الصغير (3/ 495)۔ ولم یسندہ۔
ترجمہ: ایک حدیث میں ہے کہ طلوع فجر اور طلوع آفتاب کے مابین ایک گھڑی ہے، جس میں بندوں کی روزی تقسیم کی جاتی ہے، اور جو تقسیم کے وقت حاضر رہا وہ غائب کی مانند نہیں ہوسکتا۔
۶۔ اثر ابن مسعود رضی اللہ عنہ: عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: غَدَوْنَا عَلَى عَبْدِ اللهِ بْنِ مَسْعُودٍ يَوْمًا بَعْدَ مَا صَلَّيْنَا الْغَدَاةَ، فَسَلَّمْنَا بِالْبَابِ، فَأَذِنَ لَنَا، قَالَ: فَمَكَثْنَا بِالْبَابِ هُنَيَّةً، قَالَ: فَخَرَجَتِ الْجَارِيَةُ، فَقَالَتْ: أَلَا تَدْخُلُونَ، فَدَخَلْنَا، فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ يُسَبِّحُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا وَقَدْ أُذِنَ لَكُمْ؟ فَقُلْنَا: لَا، إِلَّا أَنَّا ظَنَنَّا أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْبَيْتِ نَائِمٌ، قَالَ: ظَنَنْتُمْ بِآلِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ غَفْلَةً، قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ يُسَبِّحُ حَتَّى ظَنَّ أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ طَلَعَتْ، فَقَالَ: يَا جَارِيَةُ انْظُرِي هَلْ طَلَعَتْ؟ ... الحديث! (صحیح مسلم)
ترجمہ: حضرت ابووائل فرماتے ہیں کہ ہم صبح کی نماز پڑھنے کے بعد حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی طرف گئے اور دروازے سے سلام کیا تو انہوں نے ہمیں اجازت دیدی، مگر ہم تھوڑی دیر دروازے کے ساتھ ٹھہرے رہے تو ایک باندی آئی اور اس نے کہا کہ تم اندر کیوں نہیں داخل ہورہے ہو؟ تو پھر ہم اندر داخل ہوئے تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیٹھے تسبیح پڑھ رہے ہیں، انہوں نے فرمایا کہ: تمہیں کس چیز نے اندر داخل ہونے سے روکا ہے جبکہ تمہیں اجازت دیدی گئی تھی؟ تو ہم نے کہا کہ: کوئی بات نہیں سوائے اس کے کہ ہم نے خیال کیا کہ گھر والوں میں سے کوئی سورہا ہو۔ تو عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم نے ابن ام عبد کے گھر والوں کے بارے میں غفلت کا گمان کیا؟ راوی نے کہا کہ :پھر حضرت عبداللہ نے تسبیح پڑھنی شروع کردی یہاں تک کہ پھر خیال ہوا کہ سورج نکل گیا ہے تو باندی سے فرمایا: دیکھو کیا سورج نکل آیا ہے۔ الحدیث
اس وقت میں سونے کا حکم: 
احادیث مرفوعہ اس باب میں سب ضعیف ہیں، اس لئے شرعا کوئی قباحت تو نہیں ہے، لیکن بلاحاجت شدیدہ سونا سخت مکروہ اور ناپسندیدہ ہے، چونکہ رزق کی تقسیم کا وقت ہے، متعدد روایات میں  ہے کہ: اللہ تبارک وتعالی صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک مخلوق کے لیے رزق تقسیم کرتے ہیں، یعنی جو لوگ اس پورے وقت میں غافل رہتے ہیں وہ رزق کی برکت سے محروم رہتے ہیں، اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ: یہ ممانعت صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک پورے درمیانی وقت میں سونے میں ہے، اور اس وقت سونا غفلت شعار لوگوں کا رویہ ہے، اسی طرح سلف کے تعامل کے بھی خلاف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ جب فجر کی نماز پڑھ لیتے تو سورج طلوع ہونے تک اپنی نماز کی جگہ ہی بیٹھے رہتے تھے، اور ذکر واذکار میں مشغول رہتے، اس وقت میں ذکر خدامیں لگے رہنا رزق کے حصول میں زیادہ باعثِ نفع ہے.
قرآن کریم میں بھی دو جگہ طلوع آفتاب سے پہلے تسبیح وذکر میں مشغول رہنے کا امر ہے:
﴿وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِھَا، وَمِنْ اٰنَآئِ الَّیْلِ فَسَبِّحْ، وَاَطْرَافَ النَّھَارِ، لَعَلَّکَ تَرْضٰی﴾ (طہٰ ۲۰: ۱۳۰) ''اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو سورج کے طلوع وغروب سے پہلے، اور (اسی طرح) رات میں بھی تسبیح کرو اور دن کے کناروں پر بھی تاکہ تم نہال ہوجاؤ۔''
﴿وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ، وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ، وَاَدْبَارَالسُّجُوْدِ﴾. (ق ۵۰: ۳۹۔۴۰) ''اور اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اُس کی تسبیح کرو، سورج کے طلوع وغروب سے پہلے، اور رات کے کچھ حصے میں بھی اُس کی تسبیح کرو، اور سورج کی سجدہ ریزیوں کے بعد بھی''۔
بالخصوص ہمارے دیار میں فجر کی نماز اسفار کے وقت ہوتی ہے، اس کے بعد طلوع آفتاب تک کا وقت بہت مختصر ہوتا ہے، جس میں بیدار رہنا کوئی دشوار نہیں۔
البتہ تہجد گزاروں، معتکفین، مسافرین، اور دیگر اصحاب اعذار کے لئے کوئی قباحت نہیں۔ (مزید تفصیل تیسری قسم کے حکم میں ملاحظہ فرمائیں)۔
۳۔ طلوع آفتاب کے بعد سے اشراق وچاشت (دن چڑھے) قبیل ظہر تک سونا:
اس باب میں دونوں طرح کی روایات ملتی ہیں، مانعہ ومجیزہ، پہلے مانعہ ذکر کی جاتی ہے، پھر جواز پر دلالت کرنے والی۔
ممانعت کی روایات ِ مرفوعہ:
۱۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی روایت:
روایت: عن عثمان بن عفان قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم:- "الصُّبْحة تَمنعُ الرزق". (مسند احمد1/547)۔
ترجمہ: حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: صبح کے وقت سوتے رہنے سے انسان رزق سے محروم ہو جاتا ہے۔
حدیث کا مرتبہ: ضعیف جدا، شبہ موضوع، اس لئے کہ اس کی بعض اسانید میں اسحاق بن ابی فروہ راوی ہے جو متہم بالکذب متروک الروایت ہے، اور بعض اسانید میں سلیمان بن ارقم ہے جو متروک ہے ایضا۔
طحاوی نے کہا: أهل الإسناد يُضَعِّفُونَ هَذَا الْإِسْنَادَ۔ شرح مشكل الآثار (3/104) ۔
ابن الجوزی نے کہا: هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔ الموضوعات (3/68)۔
ذہبی نے کہا: هَذَا حديث منكر۔ (میزان الاعتدال 1/193)۔
زرکشی نے کہا: حَدِيث ضَعِيف لأنه من رِوَايَة إسماعيل بن عَيَّاش عَن إسحاق بن عبد الله بن أبي فَرْوَة، وَابْن أبي فَرْوَة هَذَا مَتْرُوك ثمَّ هُوَ حجازي وَرِوَايَة إسماعيل بن عَيَّاش عَن الْحِجَازِيِّينَ لَا يُحْتَجّ بهَا ۔ التذكرة في الأحاديث المشتهرة (ص: 55)۔
۲۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت:
روایت: عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يُنْجِي حَذَرٌ مِنْ قَدَرٍ، وَإِنْ كَانَ شَيْءٌ يَقْطَعُ الرِّزْقَ فَإِنَّ التَّصَبُّحَ يَقْطَعُهُ، وَإِنَّ الدُّعَاءَ يَنْفَعُ مِنَ الْبَلَاءِ» (مسند الشہاب 2/49)۔
ترجمہ: تقدیر کے آگے تدبیر واحتیاط کچھ فائدہ نہیں دے سکتی، اور کوئی چیز اگر رزق کو روکتی ہے تو وہ دن کے اول حصہ میں سوتے رہنا ہے، اور دعا بلاء کو دفع کرتی ہے۔
حدیث کا مرتبہ: سند میں حکم بن مروان کا شیخ (محمد بن عبد اللہ) مجہول ہے۔
۳۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت:
روایت: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "كُرِهَ لَكُمْ ثَلَاثَةٌ: الصُّبْحَةُ، وَأَنْ يَبْرَأَ الرَّجُلُ مِنْ أَخِيهِ، وَفَخْرُهُ عَلَى أَخِيهِ." (أبونعيم في تاريخ أصبهان 1/ 179)۔
ترجمہ: تین باتیں ناپسندیدہ ہیں: دن کے شروع میں سونا، اپنے بھائی سے براءت ظاہر کرنا، اس پر عجب وفخر کرنا۔
حدیث کا مرتبہ: ضعیف ہے، سند میں يحيى بن عبيدالله بن موهب تيمی ہے، جس پر ابن معین، امام احمد، یحیی القطان، نسائی، دارقطنی وغیرہم نے جرح کی ہے، اور غیرمعتبر روایات نقل کرنا ذکر کیا ہے، اور اس کے والد کا حال بھی غیرمعروف ہے۔ (تہذیب الکمال 31/451)۔
ممانعت پر دلالت کرنے والے آثار ِصحابہ وتابعین:
۱۔ اثر حضرت خوات بن جبير رضی اللہ عنہ: عَنْ خَوَّاتِ بْنِ جُبَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ مِنَ الصحَابَةِ، قَالَ: "النَّوْمُ أَوَّلَ النَّهَارِ خُرْقٌ، وَأَوْسَطَهُ خُلُقٌ، وَآخِرَهُ حُمْقٌ "۔ (شرح مشکل الآثار 3/102)۔
ترجمہ: حضرت جبیر بن خوات فرماتے ہیں: ’’دن کے اول حصہ (نمازِفجر کے بعد) کی نیند جہالت‘ درمیانی حصہ (نمازِظہر کے وقت قیلولہ) کی نیند اچھی عادت، اور آخری حصہ (نمازِعصر کے بعد) کی نیند حماقت (بے وقوفی) کا باعث ہے۔‘‘۔
۲۔ اثر عبداللہ بن عمرو  رضی اللہ عنہ: عن عبد الله بن عمرو بن العاص أنه كان يقول: النَّوْمُ ثَلَاثَةٌ: فَنَوْمٌ خُرْقٌ وَنَوْمٌ خُلُقٌ وَنَوْمٌ حُمْقٌ ، فَأَمَّا نَوْمَةُ الْخُرْقِ فَنَوْمَةُ الضُّحَى، يَقْضِي النَّاسُ حَوَائِجَهُمْ وَهُوَ نَائِمٌ، وَأَمَّا نَوْمَةُ خُلُقٍ فَنَوْمَةُ الْقَائِلَةِ نِصْفَ النَّهَارِ، وَأَمَّا نَوْمَةُ حُمْقٍ فَنَوْمَةٌ حِينَ تَحْضُرُ الصَّلَوَاتُ۔ (شرح مشکل الآثار 3/101)۔
۳۔ آل زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے آثار:
حضرت زبیر: عن عروة قال: كان الزبير يَنهى بنيهِ عن التصبُّح.
ترجمہ: زبیر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹوں کو صبح کے وقت سونے سے منع کیا کرتے تھے۔
ابن الزبیر: عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَ: "يَاعُبَيْدُ بْنَ عُمَيْرٍ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْأَرْضَ عَجَّتْ إِلَى رَبِّهَا عَزَّ وَجَلَّ مِنْ نَوْمَةِ الْعُلَمَاءِ بِالضُّحَى مَخَافَةَ الْغَفْلَةِ عَلَيْهِمْ "۔۔ (شرح مشکل الآثار 3/104)۔
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن زبیر نے عبید بن عمیر سے کہا: آپ کو معلوم نہیں کہ زمین خدا کی بارگاہ میں فریاد کرتی ہے علماء کے چاشت کے اوقات میں سوتے پڑے رہنے سے، دینی ذمہ داریوں سے غفلت واقع ہونے کے اندیشہ کی وجہ سے۔
عروۃ بن الزبیر: قال عروة: إنى لأسمع بالرجل يتصبَّح فأزهدُ فيه۔
ترجمہ: عروہ کہتے ہیں کہ: "میں جس کسی کے بارے میں یہ سنتا ہوں کہ وہ صبح کے وقت سوتا ہے تو میری اس میں دلچسپی ختم ہوجاتی ہے"۔
۴۔ اثر عمر رضی اللہ عنہ: اِيَّاكُمْ ونَوْمَةَ الْغَدَاةِ فَإِنَّهَا مَبْخَرَة مَجْفَرَة مَجْعَرَة۔ النهایہ فی غريب الحديث والأثر (1/ 101)۔
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نیند سے منع فرماتے تھے کہ یہ نیند جسمانی بخار کو بڑھاتی ہے، انسان کو سست کرتی ہے اور طبیعت میں خشکی پیدا کرتی ہے.
۵۔ اثر ابن عباس رضی اللہ عنہ: مَرَّ عَبْدُ اللهِ بْنُ الْعَبَّاسِ بِالْفَضْلِ ابْنِهِ وَهُوَ نَائِمٌ نَوْمَةَ الضُّحَى، فَرَكَلَهُ بِرِجْلِهِ وَقَالَ لَهُ: قُمْ؛ إِنَّكَ لَنَائِمُ السَّاعَةِ الَّتِي يُقَسِّمُ اللهُ فِيهَا الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ، أَمَا سَمِعْتَ مَا قَالَتِ الْعَرَبُ فِيهَا؟ قَالَ: وَمَا قَالَتِ الْعَرَبُ فِيهَا يَا أَبَتِ؟ قَالَ: زَعَمَتْ أَنَّهَا مُكْسِلَةٌ مُهْرِمَةٌ مُنْسِأَةٌ لِلْحَاجَةِ، ثُمَّ قَالَ: يَا بُنَيَّ! نَوْمُ النَّهَارِ عَلَى ثَلَاثَةٍ؛ نَوْمُ حُمْقٍ؛ وَهِيَ نَوْمَةُ الضُّحَى، وَنَوْمَةُ الْخُلُقِ؛ وَهِيَ الَّتِي رُوِيَ: قِيلُوا فَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَا تَقِيلُ، وَنَوْمَةُ الْخُرْقِ؛ وَهِيَ نَوْمَةٌ بَعْدَ الْعَصْرِ لَا يَنَامُهَا إِلَّا سَكْرَانُ أَوْ مَجْنُونٌ. (المجالسۃ وجواهر العلم 5/221)۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے بیٹے فضل کو چاشت کے وقت سوتے ہوئے پایا، تو پیر سے ان کو ہلاکر کہا: اٹھ جاؤ، تم ایسے وقت سورہے ہو جس میں خدا اپنے بندوں پر روزی بانٹتا ہے۔ تم نے  نہیں سنا عرب اس وقت سونے کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟ فضل نے کہا: کیا کہتے ہیں بتائیے؟ فرمایا: عرب کہتے ہیں کہ یہ وقت سونا سستی پیدا کرتا ہے، بڑھاپے کو جلدی لاتا ہے، اور ضروریات کے پورا ہونے میں تاخیر کا باعث ہے. پھر کہا: بیٹے دن میں نیند تین طرح کی ہے: ’’دن کے اول حصہ (چاشت) کی نیند جہالت‘ درمیانی حصہ کی نیند اچھی عادت، جس کے بارے میں وارد ہے: قیلولہ کرو چونکہ شیاطین قیلولہ نہیں کرتے۔ اور آخری حصہ (عصر کے بعد) کی نیند حماقت کا باعث ہے، اس وقت مجنون یا شرابی لوگ سوتے ہیں۔
۶۔ اثر ابن عباس: الطبراني في "الكبير" عن ابن عباس بلفظ: "إذا صليتم الفجر؛ فلا تناموا عن طلب رزقكم". (ولم نجده في الطبراني).
ترجمہ: جب تم فجر کی نماز پڑھ لو، تو روزی تلاش کرنے سے غافل ہوتے ہوئے سوتے مت رہو۔
۷۔ اثر طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ: عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِاللَّهِ: "أَنَّهُ مَرَّ بِابْنٍ لَهُ تَصَبَّحَ، فَذَكَرَ أَنَّهُ فَقَدَهُ، وَنَهَاهُ عَنْ ذَلِكَ. مصنف ابن ابی شيبہ (5/ 222)۔
ترجمہ: حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا  گذر اپنے ایک بیٹے پر ہوا جبکہ وہ صبح کے وقت لیٹا ہوا تھا، تو اس کو کہا کہ: میں تمہاری خبر گیری کے لئے آیا، پھر ان کو سونے سے منع فرمایا۔
۸۔ اثر عمر بن عبدالعزيز تابعی: وكتب عمر بن عبدالعزيز رحمه الله إلى مؤدّب وَلده: خُذهم بالجَفاء، فهو أمنع لاقدامهم، وترك الصُّبحة، فإن عادتَها تُكسِب الغفلة۔ حياة السلف بين القول والعمل (ص: 546)۔
ترجمہ: حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے اولاد کی تربیت کرنے والے استاذ کو لکھ کر تحریر فرمایا کہ: ان کے ساتھ سنجیدگی سے پیش آئیں تاکہ وہ جریء نہ ہوں، اور صبح کے وقت سونے سے منع کریں، کیونکہ اس کی عادت لاپروائی کو جنم دیتی ہے۔
۹۔ اثر علقمہ بن قیس تابعی: عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: بَلَغَنَا "أَنَّ الْأَرْضَ تَعُجُّ إِلَى اللهِ مِنْ نَوْمَةِ الْعَالِمِ بَعْدَ صلَاةِ الصُّبْحِ" شعب الإيمان (6/ 406)۔
اجازت پر دلالت کرنے والی روایات:
۱۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا: حدیث ام زرع میں بروایت حضرت عائشہ ہے: (فَعِنْدَهُ أَقُولُ فَلَا أُقَبَّحُ، وَأَرْقُدُ فَأَتَصَبَّحُ) صحيح مسلم (4/ 1899)
أَيْ: أَنَام الصُّبْحَة، وَهِيَ بَعْدَ الصَّبَاح، أَيْ: أَنَّهَا مَكْفِيَّةٌ بِمَنْ يَخْدُمُهَا  فَتَنَامُ. شرح النووي ( 8 / ص 198).
وقولها: "وأرقد فأتصبح": أى أنام الصُّبحة، وهى نوم أول النهار، تريد أنها مُرفَّهة، عندها من يخدُمها ويكفيها مؤونة بيتها، إذ لا ينام الصبحة إلا من هو بهذه الصفة. إكمال المعلم بفوائد مسلم (7/ 465).
(فعنده أقول فلا أقبَّح) أي: لا يقبح قولي ولا يرد عليّ لإكرامه لها.(وأرقد فأتصبح) أي: أنام الصبحة، وهي نوم أول النهار فلا أوقَظ إكرامًا لها أيضًا. التوشيح شرح الجامع الصحيح (7/ 3272).
ترجمہ: ان کے ہاں میں بولتی تو میری نکتہ چینی کوئی نہ کرتا، میں دن چڑھے تک سوتی رہتی اور کوئی مجھے جگا نہیں سکتا تھا۔
تفہیم المسلم (3/708): اور سوتی ہوں تو صبح کردیتی ہوں، یا صبح کے بعد سوتی ہوں، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ گھر کے کام سب نوکر کرتے ہیں، نیند پر کوئی پابندی نہیں. 
خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اور دیگر صحابہ تابعین کاطلوع آفتاب کے بعد سونے کا معمول تھا، جیساکہ (مصنف ابن ابی شیبہ) میں مستقل ایک باب بعنوان (من رخص فی التصبح) کے ماتحت منقول ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ کی روایات ملاحظہ فرمائیں:
25449 - عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ: «أَنَّهَا كَانَتْ تُصَبِّحُ» حضرت قاسم فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صبح کے وقت سوتی تھیں۔
25451 - عَنْ مُجَاهِدٍ: «أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ إِذَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ نَامَتْ نَوْمَةَ الضُّحَى» مجاہد نے کہا کہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا جب سورج طلوع ہوجاتا تو اس کے بعد آرام فرماتی تھیں.
25450 - عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشَّمَّاسِ، قَالَ: "أَتَيْتُ أُمَّ سَلَمَةَ فَوَجَدْتُهَا نَائِمَةً - يَعْنِي: بَعْدَ الصُّبْحِ" حضرت عبداللہ بن شماس فرماتے ہیں کہ: حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا تو ان کو سویا ہوا پایا صبح کی نماز کے بعد۔
25452 - عَنْ عَبْدِالْأَعْلَى، قَالَ: «أَتَيْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ فَوَجَدْتُهُ نَائِمًا نَوْمَةَ الضُّحَى» عبدالاعلی فرماتے ہیں کہ: میں حضرت سعید بن جبیر کے پاس آیا تو میں نے ان کو صبح کی نیند کرتے ہوئے پایا۔
25453 - حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ: «أَنَّهُ كَانَ يَتَصَبَّحُ» حضرت ابن سیرین صبح کے وقت سویا کرتے تھے۔
25454 - غَدَا عُمَرُ عَلَى صُهَيْبٍ فَوَجَدَهُ مُتَصَبِّحًا، فَقَعَدَ حَتَّى اسْتَيْقَظَ، فَقَالَ صُهَيْبٌ: أَمِيرُالْمُؤْمِنِينَ قَاعِدٌ عَلَى مَقْعَدَتِهِ وَصُهَيْبٌ نَائِمٌ مُتَصَبِّحٌ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: «مَا كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ تَدَعَ نَوْمَةً تُرْفِقُ بِكَ» 
حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کے پاس صبح کے وقت آئے تو انہیں سویا ہوا پایا، آپ رضی اللہ عنہ نے انتظار کیا جب تک کے وہ بیدار ہوگئے، تو حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: امیرالمؤمنین اپنی جگہ بیٹھے ہوئے ہیں اور صہیب ہے کہ وہ صبح کی نیند سویا ہوا ہے! حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان سے فرمایا: میں نے یہ بات پسند نہیں کی کہ میں تمہیں بغرض استراحت کی نیند سے بیدار کروں۔
اس وقت سونے کا حکم: 
جیساکہ شروع میں عرض کیا گیا ہے کہ روایتیں ممانعت اور اجازت دونوں طرح کی ہیں، جس سے اجمالا حکم معلوم ہوتا ہے، یعنی چند وجوہات کی بناء پر مکروہ، اور دیگر وجوہات کی بناء پر مباح، لیکن وجوہِ ممانعت واجازت کی نشاندہی کرنے سے بات واضح ہوگی.
وجوہ ممانعت وکراہت:
۱۔ رزق کی برکت سے محرومی ہوتی ہے (حضرت عثمان)۔
۲۔ دن کے اول حصہ کی نیند جہالت ہے (حضرت خوات بن جبير)۔
۳۔ کسب معاش اور قضاء حوائج میں تاخیر ہوتی ہے (حضرت عبداللہ بن عمرو)۔
۴۔ دینی ذمہ داریوں کے ضائع ہونے کا اندیشہ ہے (حضرت ابن زبیر)
۵۔ زمین بھی نا پسند کرتی ہے، اور تکلیف کا اظہار کرتی ہے (حضرت ابن زبیر، علقمہ)۔
۶۔ جسمانی بخار کو بڑھاتی ہے، انسان کو سست کرتی ہے اور طبیعت میں خشکی پیدا کرتی ہے (حضرت عمر)۔
۷۔ بڑھاپے کو جلدی لاتی ہے (حضرت ابن عباس)۔
۸۔ اس کی عادت لاپروائی کو جنم دیتی ہے (حضرت عمر بن عبدالعزیز)۔
۹۔ فرشتوں کو صبح سویرے بندوں کی روزیوں کی تقسیم پر مامور کیا جاتا ہے، تووہ  سوئے ہوئے کو مستغنی سمجھ کر طالبِ رزق کی طرف توجہ کرتے ہیں (التنویر شرح الجامع الصغیر)۔
۱۰۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے صبح سویرے طلب معاش میں برکت کی دعاء سے محرومی ہوتی ہے۔ (ابوداود 2606) شریعت کے اس حکم پر عمل کرنے سے کم وقت میں زیادہ رزق (یعنی جو آپ کی ضروریات کو کفایت کرسکتا ہے) کمایا جاسکتا ہے۔
ممانعت کی وجوہات کا خلاصہ یہ ہے کہ: رزق کی برکت سے محرومی، ذمہ داریوں کا ضیاع، کسب معاش میں تنگی، اور مضر صحت ہونے کی بناء پر نا پسندیدہ ہے، خصوصا اس کی عادت بنالینا بہت سارے مفاسد کا سبب ہے۔
اقوال فقہاء المذاہب:
الحنفية  
قال في الہندیة: ویکرہ في أول النہار وفیما بین المغرب والعشاء (۵/۳۷۶، دار الکتاب دیوبند)۔
وَأَمَّا التَّصَبُّحُ مِنْ غَيْرِ سَهَرٍ. يَعْنِي النَّوْمَ فِي أَوَّلَ النَّهَارِ، مِنْ غَيْرِ أَنْ يَكُونَ سَاهِرًا بِاللَّيْلِ. فَإِنَّ ذَلِكَ نَوْعٌ مِنَ الْحُمْقِ. تنبیہالغافلين باحاديث سيد الانبياء والمرسلين للسمرقندي (ص: 195)۔
فتوی دار العلوم دیوبند: Fatwa ID: 487-452/Sn=7/1436-U
اگر کوئی شخص نمازفجر کے بعد تھوڑی دیر تسبیحات وغیرہ میں لگارہے اور سورج طلوع ہونے کے بعد سوئے تو اس کے حق میں کوئی قباحت وکراہت نہیں رہے گی، بعض بزرگوں کا اس طرح کا معمول رہا ہے۔
المالكية  
[مسألة: الرجل ينام بعدالمغرب وبعد الصبح]
مسألة: وسئل مالك عن الرجل ينام بعد المغرب، قال: ذلك يكره، قيل له :فالنوم بعد الصبح؟ قال: ما أعلمه حراما. البيان والتحصيل (1/ 352)۔
وَقَالَ الْجُزُولِيُّ: وَيُكْرَهُ النَّوْمُ إذْ ذَاكَ؛ لِأَنَّهُ أَحْرَمَ نَفْسَهُ مِنْ الْفَضِيلَةِ؛ لِأَنَّهُ جَاءَ فِي الْحَدِيثِ :«الصُّبْحَةُ تَمْنَعُ الرِّزْقَ» وَاخْتُلِفَ فِي مَعْنَاهُ، فَقِيلَ: الرِّزْقُ الْمُرَادُ هُنَا الْفَضْلُ، وَقِيلَ: مَعْنَاهُ كِتَابُ الرِّزْقِ۔ انْتَهَى. مواهب الجليل في شرح مختصر خليل (2/ 74)۔
وَفِي الِاسْتِغْنَاءِ: لَا يُكْرَهُ نَوْمُ مَنْ اتَّصَلَ سَهَرُهُ وَقِيَامُهُ مِنْ اللَّيْلِ بِهِ۔ انْتَهَى.
الحنابلة  
ظَاهِرُ مَا ذَكَرَهُ الْأَصْحَابُ: أَنَّ نَوْمَ النَّهَارِ لَا يُكْرَهُ شَرْعًا لِعَدَمِ دَلِيلِ الْكَرَاهَةِ ،إلَّا بَعْدَ الْعَصْرِ، وَإِنَّهُ تُسْتَحَبُّ الْقَائِلَةُ. الآداب الشرعیہ والمنح المرعیہ (3/ 161)۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب "زاد المعاد" میں تحریر فرماتے ہیں کہ: صبح کے وقت سونا بہت گھٹیا عمل ہے، اور یہ بہت ساری بیماریوں کا سبب ہے، مثلا سستی، رنگ کا پھیکا ہوجانا، جگر کی بیماریوں کا سبب وغیرہ...
وجوہ جواز و اباحت:
۱۔ اپنے کام کاج میں بھرپور توجہ حاصل کرنے کیلئے کوئی آرام کرلے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، خصوصاً اگر اسے دن میں سونے کا وقت ہی اسی وقت ملتا ہو (حضرت صہیب)۔
۲۔ شب بیداروں، تہجد گزاروں، اور جن کی رات کی ڈیوٹی ہو، یا نملازمت میں رات کی شفٹنگ ہو، اور استراحت کے لئے دوسرا وقت میسر نہ ہو۔
۳۔ طلب معاش، ملازمت، باقی ذمہ داریوں، اور تکسب کے اوقات دن چڑھے  تاخیرسے ہونے کی وجہ سے کوئی خلل نہ ہوتا ہو۔
۴۔ مسافرین کے لئے دوران سفر، خصوصا جب سواری میں ہوں، اور اس وقت کوئی مشغلہ ممکن نہ ہو۔
۵۔ جن کے لئے ان کی ذمہ داریوں کی کفایت کرنے والے ہوں، جیسے خواتین کے لئے گھر کے کام کاج لئے نوکر چاکر۔ (حضرت عائشہ)۔
۶۔ دیگر اصحابِ اعذار کے لئے عموما.
۷۔ اتفاقا کبھی بغیر اعتیاد کے سونا، بغرض استراحت وازالۃ  تکان۔
خلاصہ کلام:  
صبح  کی نیند کے ممنوع ہونے کے بارے میں صراحتا جو روایات وارد ہیں وہ اگرچہ سند کے اعتبار سے بہت ضعیف ہیں، لیکن عمومی روایات اور تعامل سلف سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صبح کی نیند ناپسندیدہ عمل ہے، لہذا اس سے اجتناب کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہئے، البتہ خاص حالات، اور عذر کی حالت اس سےمستثنی ہے، اور اس کے متعلق اباحت کی صحیح  روایات اور صحابہ کرام کا عمل موجود ہے۔ اشخاص اور حالات کے اعتبار سے بھی حکم مختلف ہوگا۔
لیکن افسوس ہے کہ امت کے بعض افراد نے صبح کے بعد سونا زندگی کا لازمی حصہ بنایا ہوا ہے۔ آج معاشرے کا ہر فرد رزق کے بارے میں پریشان ہے، کما کما کے تھک جانے کے بعد بھی دلی سکون کے نہ ہونے اور ضروریات کے پورا نہ ہونے نے دل دماغ کو بوجھل کردیا ہے۔ معاشیات کی نظر سے اس کا ذمہ افراط وتفریط زر کو بھی بنایا جاسکتا ہے، لیکن سوچئے تو سہی اور کیا کمی ہے؟ وہ کمی نبی کی تعلیم پر عمل نہ کرنا ہے۔ پھر ایسی غفلت پر اگر رزق کی پریشانی ہو تو اس کا کیا علاج ہے؟َ
یہ بات ٹھیک ہے کہ ہمارے ہاں مارکیٹوں کا مزاج ہی رات گئے تک کاروبار کرنا اور صبح دیر سے کھولنا بن گیا ہے، لیکن کیا اس کا حل صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنا ہے۔ یقیناً جواب نفی میں ہے تو اس دعوت کو عام کیجیے، مارکیٹ کلچر تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کیجیے۔ سو مایوسی کی کوئی بات نہیں۔ بس ذرا ہمت کی ضرورت ہے۔
کہا جاتا ہے کہ: فجر کے بعد کے چھ گھنٹے استعمال کرنیوالے شخص کے دن روشن، پرسکون ہوتے ہیں، جب کہ دیر سے اُٹھنے والے کے بوجھل اور ناکامیوں سے عبارت۔اللہ نے کائنات کو ایک فطرت، ایک قانون کے تحت خلق کیا ہے، سورج صبح طلوع ہوتا ہے، تاریکی کو روشنی میں بدل دیتا ہے، اس کی کرنوں سے پھول کھلتے، فضائیں مہکتی ہیں، سبزہ چرند پرند قوت و افزائش حاصل کرتے ہیں۔ جس طرح سورج دوپہر کو طلوع نہیں ہوسکتا، انسان بھی دوپہر کو جاگ کر کامیابی و سکون حاصل نہیں کرسکتا۔
فجر کے بعد کے چھ گھنٹوں کی مثال ہماری نوجوانی کی ہے، جس طرح نوجوانی کا دور ہماری زندگی کا بہترین صلاحیتوں سے بھرا خوابوں کو حقیقت بنانے کا دور ہوتا ہے، اسی طرح چوبیس گھنٹوں کی نوجوانی صبح کے یہ چھ سات گھنٹے ہیں، جن کے استعمال سے ہم اپنے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔
اس وقت انسان کو فطرت کی سپورٹ حاصل ہوتی ہے، اس لئے وہ بہتر فیصلے کرتا ہے، جبکہ صبح کے گھنٹوں کو سوکر برباد کرنا ایسے ہی ہے جیسے انسان نوجوانی کو سوکر ضائع کر ڈالے۔ طلوع ِ آفتاب کے وقت جاگنے میں ہی صحت، سکون، ترقی کا راز پوشیدہ ہے۔
دنیا کی کامیاب قومیں فطرت کے اسی اصول ’’جلدی سونا، منہ اندھیرے جاگنا‘‘ کے تحت ہی ترقی و ایجادات کی منازل طے کر سکیں۔ چین، جاپان، امریکہ، یوروپ ہر جگہ لوگ صبح سویرے دن کا آغاز کرتے ہیں۔
جو قومیں خندہ پیشانی سے جاگتے ہوئے صبح کا استقبال کرتی ہیں، وہی اس سے بیش بہا فوائد حاصل کرتی ہیں۔ ہمارا دھیان ابھی تک اس باریک اور انتہائی اہم نقطے کی جانب نہیں گیا کہ رات کے اندھیروں میں بلاوجہ جاگنا ہمیں سوائے اندھیروں کے کہیں نہیں پہنچائے گا۔ روشن مستقبل کے لئے ہمیں روشن صبح کا انتخاب کرنا ہوگا، جو کہ ترقی یافتہ اقوام کا طرزِحیات ہے۔
مگرجو لوگ دن کا بہترین وقت سو کرگزار دیں وہ کبھی ترقی کرسکتے، نہ ہی نفسیاتی جسمانی الجھنوں سے آزاد خوشگوار زندگی گزارسکتے ہیں۔
بحیثیت  والدین بھی ہمارا یہ فرض ہے کہ اپنی اولاد کو صبح جلد اُٹھنے کے اس بہترین ہتھیار سے ابھی سے لیس کریں، جو کہ انھیں اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے کل شدت سے درکار ہوگا۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں موجود غلط روایات کو مثبت طرز ِزندگی میں بدلنے کے لئے اقدامات کریں، تاکہ ہم بھی فطرت سے ہم آہنگ ہوکر بھرپور، پُرسکون اور کامیاب زندگی بسر کرسکیں۔
جمعہ ورتبہ: محمد طلحہ بلال احمد منیار، عفا عنہ الرحیم  الغفار: #ایس_اے_ساگر  
.....
https://saagartimes.blogspot.com/2017/10/blog-post_86.html


The Art of Sleeping: Dr. Hamza Al-Hamzawi

1 comment:

  1. جامع بالعلم المفيد، ماشاءالله. ف جزاكم الله خير الجزاء

    ReplyDelete