صحت اقتداء کیلئے اتصال صفوف شرط ہے؟
سوال ]۲۴۸۱[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: کہ ہمارے یہاں ایک مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کے لئے لوگ صفیں بناکر کھڑے ہوتے ہیں، آخری صف کے بعد وضو کرنے کی چھوٹی سی ایک نالی ہے اس کے بعد تقریبًا چھ صفوں کی کھلی جگہ ہے، جن میں شدید دھوپ پڑتی ہے، اس کے بعد سائے دار درخت ہیں،مسجد سے باقی بچے لوگ انہیں درختوں کے نیچے اپنی صفیں بناکر نماز جمعہ ادا کرتے ہیں؛ جبکہ ان لوگوں کے اور مسجد کے درمیان میں تقریبا چھ صفوں کا فاصلہ ہے تو کیا ان لوگوں کی نماز ادا ہوجائے گی؟ (عذر دھوپ کا پیش کرتے ہیں) امید کہ جواب تفصیل سے عنایت فرمائیں گے؟
المستفتی: محمداقبال خان، مدرسہ جامعہ اسلامیہ ککرالہ بدایوں
باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق: جب وضو کی نالی کے ماوراء اور بعد کا حصہ حدود مسجد سے خارج ہے، تو اس میں کھڑے ہوکر اقتداء صحیح ہونے کے لئے اتصال صفوف شرط ہے اور جب چھ صفوں کی مقدار جگہ چھوڑ کر اقتداء کی جائیگی تو اقتداء صحیح نہ ہوگی؛ لہٰذا درختوں کے نیچے جاکر اقتداء کرنے والوں کی اقتداء درست نہ ہوگی، اگر چہ گرمی کی شدت کیوں نہ ہو۔
ولواقتدیٰ خارج المسجد بإمام في المسجد إن کانت الصفوف متصلۃ جاز وإلافلا لأن ذلک الموضع بحکم اتصال الصفوف یلتحق بالمسجد الخ (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، باب تقدم الإمام علی الماموم زکریا ۱/۳۶۲، کراچي۱/۱۴۶)
فقط والله سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا الله عنہ
۲۸؍ ذی الحجہ ۱۴۱۱ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۲۷؍۲۵۰۴)
..........
وأما تفصيل رأي الحنفية (١): فهو أن اختلاف المكان بين الإمام والمأموم مفسد للاقتداء، سواء اشتبه على المأموم حال إمامه أو لم يشتبه على الصحيح. فلو اقتدى راجل براكب، أو بالعكس، أو راكب براكب دابة أخرى، لم يصح الاقتداء لاختلاف المكان، فلو كانا على دابة واحدة صح الاقتداء لاتحاد المكان.
ومن كان بينه وبين الإمام طريق عام يمر فيه الناس، أو نهر عظيم، أو خلاء (أي فضاء) في الصحراء، أو في مسجد كبير جداً كمسجد القدس يسع صفين فأكثر، أوصف من النساء بلا حائل قدر ذراع أو بغير ارتفاعهن قدر قامة الرجل، لا يصح الاقتداء؛ لأن ذلك يوجب اختلاف المكانين عرفاً، مع اختلافهما حقيقة، فيمنع صحة الاقتداء، لقول عمر رضي الله عنه: «من كان بينه وبين الإمام نهر أو طريق أو صف من النساء، فلا صلاة له».
ومقدار الطريق العام الذي يمنع صحة الاقتداء: هو مقدار ما تمر فيه العجلة (العربة) أو تمر فيه الأحمال على الدواب. والمراد بالنهر: ما يسع زورقاً يمر فيه.
فإن كانت الصفوف متصلة على الطريق، كما يحصل في الحرمين أو في المساجد المزدحمة بالمصلين، جاز الاقتداء؛ لأن اتصال الصفوف أخرجه من أن يكون ممر الناس، فلم يبق طريقاً، بل صار مصلى في حق هذه الصلاة. وكذلك إن كان على النهر جسر وعليه صف متصل.
والحائل كجدار كبير لا يمنع الاقتداء إن لم يشتبه حال إمامه بسماع من الإمام أو مبلِّغ عنه أو رؤية ولو لأحد المقتدين ولو من باب مشبك يمنع الوصول، ولم يختلف المكان حقيقة كمسجد، وبيت، فإن المسجد مكان واحد، إلا إذا كان المسجد كبيراً جداً، وكذا البيت حكمه حكم المسجد في ذلك لاحكم الصحراء.
.....
والخلاصة: إن اختلاف المكان يمنع صحة الاقتداء، سواء اشتبه على المأموم حال إمامه أو لم يشتبه، واتحاد المكان في المسجد أو البيت مع وجود حائل فاصل يمنع الاقتداء إن اشتبه حال الإمام. أما وجود فاصل يسع صفين أو أكثر في الصحراء أو في المسجد الكبير جداً، فيمنع الاقتداء.
....
انوار الفقھاء:
اتصال صفوف اور ان کا حکم
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان کرام اس مسئلہ کے بارہ میں کہ:
۱…امام مسجد، مسجد کے ہال یا برآمدہ میں تنہا کھڑے ہوکرامامت کرائیں اور مقتدی حضرات علیحدہ برآمدہ یا صحن میں کھڑے ہوں (امام ہال میں اور مقتدی برآمدہ میں یا امام برآمدہ میں اور مقتدی صحن میں ہوں، یا امام محراب میں اور مقتدی ہال میں ہوں) ایسی صورت میں نماز بلاکراہت درست ہے یا نہیں؟مسئلہ کا جواب حوالہ جات کے ساتھ دیا جائے، کیونکہ ہمارے ہاں علماء میں اس مسئلہ میں اختلاف ہے ،اس فتویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے عمل کیا جائے ۔ نیز اتصال صفوف کی بحث بھی مع جزئیات کے واضح فرماویں۔
سائل: محمد شفیق قریشی ٹنڈوآدم
_______________________________
الجواب ومنہ الصدق والصواب
*اتصال صفوف کی بحث نماز کے مسائل میں بہت ہی اہمیت کی حامل ہے، اس کی تفصیلات وجزئیات کے ذکر سے پہلے چند تمہیدی امور کا ذکر مناسب ہوگا*
۱…مسجد قدس: علامہ شامی نے اس کی تحدید یوں بیان کی ہے:
”وجامع القدس الشریف اعنی ما یشتمل علی المساجد الثلاثة الاقصی والصخرة والبیضاء،، (ج:۱،ص:۵۸۵)
یعنی جس کا مجموعی رقبہ مسجد اقصی، صخرہ اور مسجد بیضاء تینوں مساجد کے مجموعی رقبہ کے برابر ہو۔
۲…جامع قدیم خوارزم: علامہ شامی نے اس کا ذکر ان الفاظ سے کیا ہے:
”فان ربعہ کان علی اربعة آلاف اسطوانة،،۔ (ج:۱،ص:۵۸۵)
یعنی اس کا صرف ربع حصہ چار ہزار ستونوں پر مشتمل ہے۔
۳… صحت اقتداء کے لئے امام کا حال مقتدیوں پر مشتبہ نہیں ہونا چاہئے اوردونوں کا مکان نماز میں حقیقتاَ یا حکماَ متحد ہونا چاہئے۔ حقیقتاَ جیسے عام مساجد، حکماَ جیسے درمیان میں خلا یعنی راستہ یا نہر وغیرہ ہونے کی صورت میں صفوں کے متصل ہوجانے سے مکان متحد ہوجاتا ہے، ان تمہیدی باتوں کے بعد اب اصل مسئلہ کی طرف آتے ہیں۔صحت اقتداء کے لئے ان امور کی رعایت ضروری ہے:
۱:۔صحت اقتداء کے لئے ضروری ہے کہ امام اور مقتدی کے درمیان کوئی راستہ یا شاہراہ وغیرہ نہ ہو بلکہ امام اور مقتدی کے کھڑے ہونے کی جگہ حقیقتاَ یا حکماَ متحد ہو، چنانچہ ایسا راستہ جس پر بیل گاڑی یابار برداری کے لئے متعین سواریاں جیسے اونٹ، خچر یا موجودہ زمانے کی متعارف ٹیکسیاں، بس اور رکشے گزر سکیں۔ اگر امام اور مقتدی کے درمیان ایسا راستہ حائل ہوگا تو امام کی اقتدا درست نہیں ہوگی۔
واضح رہے کہ یہ حکم اس وقت ہے جبکہ اس راستہ پر صفیں ملی ہوئی نہ ہوں اگر صفیں ملی ہوئی ہوں یا راستہ اس سے تنگ ہو یعنی کم چوڑا ہو تو اقتداء درست ہے۔
۲:۔یہ بھی ذہن میں رہے کہ راستہ میں ایک آدمی کے کھڑے ہونے سے بالاتفاق صفیں ملی ہوئی یعنی متصل شمار نہ ہوں گی کیونکہ جماعت میں اکیلا کھڑا ہونا مکروہ ہے، اس لئے اس کا وجود پیچھے والوں کے لئے بمنزلہ عدم کے ہوگا، اور تین آدمیوں کے کھڑے ہونے سے بالاتفاق صفیں متصل سمجھی جائیں گی، دو آدمیوں کے کھڑے ہونے سے صفیں متصل ہونے کے حکم میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک دو آدمیوں سے اتصال ثابت نہیں ہوگا اور یہی قول صحیح ومختار ہے۔
۳:۔یہ ہی حکم پچھلی صفوں کا ہے لہذا اگر پہلی صف امام کے ساتھ ہے اور درمیان میں اتنا راستہ نہیں کہ گاڑی گذر سکے لیکن پہلی اور دوسری صف کے درمیان اتنا راستہ ہے تو پہلی صف کی نماز اور اقتدا صحیح ہو گی اور دوسری صف کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
۴:۔اگر امام اکیلا سڑک کے ایک طرف ہے اور سب مقتدی سڑک کی دوسری طرف ہیں،تو امام کی نماز جائز ہے اور مقتدیوں کی نماز فاسد ہے۔
۵:۔ بڑی نہر جس میں کشتیاں چل سکیں چاہے چھوٹی ہی کشتیاں کیوں نہ ہوں اور اس پر بغیر کسی تدبیریعنی پل وکشتی کے عبور ممکن نہ ہو تو ایسی نہر کا حکم عام راستہ کی طرح ہے۔
۶:۔ البتہ اگر نہر اتنی چھوٹی ہے کہ اس میں چھوٹی کشتیاں بھی نہ گزرسکیں تو وہ اقتداء کے لئے مانع نہیں ہے۔
___________________________
اب ان چیزوں کا ذکر کیا جائے گا جو حقیقتاَ مکان واحد شمار ہوتی ہیں یا مکان واحد شمار نہیں ہوتی۔مندرجہ ذیل چیزیں حقیقتاَ مکان واحد کا حکم رکھتی ہیں؛
۱:۔ عام مساجد اگرچہ بڑی ہوں مکان واحد کا حکم رکھتی ہیں اور ان میں خالی جگہ کے فاصلہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے اگرچہ بقدر دو صفوں یا زیادہ کا فاصلہ ہو تو ایسا فاصلہ مانع اقتداء نہیں ہے، پس اگر امام محراب میں اس طرح ہو کہ اس کے پاؤں محراب سے باہر ہوں اور کسی شخص نے مسجد کے کنارے پر کھڑے ہوکر اقتداء کی اور درمیان میں دو صف یا زیادہ فاصلہ خالی رہ گیا تو اقتداء جائز ہے مگر بلاضرورت فاصلہ رکھنا مناسب نہیں ہے۔
۲:۔ عیدگاہ بھی عام مساجد کی طرح مکان واحد کے حکم میں ہے یعنی اس میں دو یا زیادہ صفوں کا فاصلہ مانع اقتداء نہیں ہے اگرچہ وہ عیدگاہ بڑی ہو۔
۳:۔ فنائے مسجد بھی مسجد کے حکم میں ہے اور فنائے مسجد وہ ہے جو مسجد سے متصل ہو اور ان د ونوں کے درمیان راستہ نہ ہو ، یہ بھی مکان واحد کے حکم میں ہے۔
۴:۔چھوٹا مکان (گھر) بھی مسجد کے حکم میں ہے، اس میں بھی صفوں کے اتصال کے بغیر اقتداء صحیح ہے، چھوٹا مکان وہ ہے جو چالیس گز شرعی سے کم ہو، یہ ہی صحیح اور مختار قول ہے۔
۵:۔ جس مکان کی چھت مسجد سے بالکل متصل ہو، اس طرح کے بیچ میں راستہ نہ ہو تو اس چھت پر سے اقتداء درست ہے۔
۶:۔ مسجد کے متصل کوئی دالان ہو اس میں بھی اقتداء درست ہے جبکہ امام کا حال مخفی نہ ہو۔
۷:۔ مسجد کے پڑوس میں رہنے والا اپنے گھر میں سے مسجد کے امام کی اقتداء کر سکتا ہے جبکہ اس کے اور مسجد کے درمیان کوئی عام راستہ نہ ہو۔
۸:۔اگر امام مسجد میں ہو اور مقتدی مسجد کی چھت پر تو بھی اقتداء درست ہے جبکہ امام کا حال مشتبہ نہ ہوتا ہو۔
۹:۔اذان کے مینار پر کھڑے ہوکر امام مسجد کی اقتداء کرے تب بھی جائز ہے بشرطیکہ امام کا حال مشتبہ نہ ہوتا ہو۔
*وہ چیزیں جو حقیقتاََ مکان واحد کے حکم میں نہیں ہیں حسب ذیل ہیں*
۱:۔کوئی بڑا میدان یعنی اگر میدان میں جماعت قائم ہوئی اور امام ومقتدی کے درمیان اتنی جگہ خالی ہے کہ اس میں دو صفیں یا زیادہ صفیں قائم ہوسکتی ہیں تو اقتدا صحیح نہیں ہے، اسی طرح میدان میں امام ومقتدی کی صفوف میں تو کوئی فاصلہ نہیں، البتہ پچھلی صفوں میں اتصال نہیں، مثلاَ: دوسری اور تیسری صفوں کے درمیان دو صفوں یا زیادہ کا فاصلہ ہو تو تیسری صف والوں کا اقتداء کرنا درست نہیں ہوگا۔
۲:۔بہت ہی بڑی مسجد مثلاَ مسجد قدس اور جامع مسجد خوارزم اور ان جیسی مساجد کا بھی و ہی حکم ہے جو میدان کا ہے یعنی دو یا زیادہ صفوں کا فاصلہ مانع اقتداء ہے اگرچہ امام کا حال مشتبہ نہ ہوتا ہو۔
۳:۔بڑا مکان بھی میدان کے حکم میں ہے ، یعنی دو یا زیادہ صفوں کا فاصلہ مانع اقتداء ہے، بڑا مکان وہ ہے جو چالیس گز شرعی یا اس سے زیادہ کا ہو، یہی صحیح اور مختار قول ہے۔
۴:۔جس مکان کی چھت مسجد سے متصل نہ ہو بلکہ بیچ میں راستہ ہو تو اقتداء درست نہیں مگر جب راستہ میں صفیں کھڑی ہوکر مسجد کی صفوں سے متصل ہو جائیں تو اس مکان کی چھت پر سے اقتداء درست ہے۔خلاصہ ان سب کا یہ ہے کہ صحت اقتداء کے لئے امام کا حال بھی مشتبہ نہیں ہونا چاہئے اور مکان بھی حقیقتاَ یا حکماَ متحد ہونا چاہئے۔
الدر المختار میں ہے:
”ویمنع من الاقتداء… طریق تجری فیہ عجلة او نہر تجری فیہ السفن او خلاء فی الصحراء او فی مسجد کبیر جدا کمسجد القدس یسع صفین فاکثر الا اذا اتصلت الصفوف فیصح مطلقا کان قام فی الطریق ثلاثا وکذا اثنان عند الثانی لا واحد اتفاقا لانہ لکراہة صلاتہ صار وجودہ کعدمہ فی حق من خلفہ،،۔
رد المحتار میں ہے:
قولہ او فی مسجد کبیر جدا الخ قال: فی الامداد والفاضل فی مصلی العید لایمنع… والمسجد وان کبر لایمنع الفاصل الا فی الجامع القدیم بخوارزم فان ربعہ کان علی اربعة آلاف اسطوانة وجامع القدس الشریف اعنی ما یشتمل علی المساجد الثلاثة الاقصی والصخرة والبیضاء کذا فی البزازیة الخ ومثلہ فی شرح المنیة… تتمة فی القہستانی: البیت کالصحراء والاصح انہ کالمسجد… ولم یذکر حکم الدار… اختلفوا فیہ… وبعضہم قال ان کانت اربعین ذراعا فہی کبیرة والا فصیغرة ہذا ہو المختار الخ وذکر فی البحر ان فناء المسجد ہو ما اتصل بہ ولیس بینہ وبین طریق…،، (قولہ یسع صفین) نعت لقولہ خلاء والتقبیید بالصفین صرح بہ فی الخلاصة والفیض والمبتغی وفی الواقعات الحسامیة وخزانة الفتاویٰ وبہ یفتی اسمعیل… (قولہ وکذا اثنان عند الثانی) والاصح قولہما کما فی السراج… وحاصلہ انہ اشترط عدم الاشتباہ وعدم اختلاف المکان … فان المسجد مکان واحد ولذا لم یعتبر فیہ الفصل بالخلاء الا اذا کان المسجد کبیراَ جداَ… فقد تحرر بما تقرر ان اختلاف المکان مانع من صحة الاقتداء ولو بلااشتباہ وانہ عند الاشتباہ لایصح الاقتداء وان اتحد المکان ثم رأیت الرحمتی قرر کذلک فاغتنم ذلک،،۔ (فتاوی شامی: ج:۱،ص:۵۸۸۔۵۸۵)
الدرالمختار میں ہے:
”وکرہ… قیام الامام فی المحراب لاسجودہ فیہ وقدماہ خارجة لان العبرة للقدم مطلقا وان لم یشتبہ حال الامام،،۔
رد المحتار میں ہے
”(قولہ مطلقا)… وکذا سواء کان المحراب من المسجد کما ہو العادة المستمرة اولا کما فی البحر … فاختلف المشائخ فی سببہا فقیل کونہ یصیر ممتازا عنہم فی المکان لان المحراب فی معنی بیت آخر وذلک صنیع اہل الکتاب واقتصر علیہ الہدایة واختارہ الامام السرخسی وقال انہ الاوجة،،۔ (فتاوی شامی:ج:۱،ص:۶۴۶۔۶۴۵)
حاشیة الطحاوی میں ہے
”(نہر فیہ العجلة) والمراد ان تکون صالحة لذلک لامرورہا بالفعل والعجلة بالتحریک آلة یجرہا الثور والمراد بالطریق ہو النافذ ذکرہ السید… ولو کان علی الطریق ثلاث جازت صلاة من خلفہم لان الثلاثة صف فی بعض الروایات وعند اتصال الصفوف لایکون الطریق حائلا ولو کان علی الطریق اثنان فعلی قیاس قول ابی یوسف تجوز صلاة من خلفہا، لانہ جعل المثنی کالجمع، وعلی قیاس قول محمد لاتجوز(یسع فیہ صفین) والفرجة بین الصفین… والظاہر ان ہذا یعتبر من محل السجود ومحل قیام الآخرین من کل صف… (علی المفتی بہ)… والفضاء والواسع فی المسجد لایمنع وان وسع صفوفا،لان لہ حکم بقعة واحدة کذا فی الاشباہ من الفن الثانی فلو اقتدی بالامام فی اقصی المسجد والامام فی المحراب جاز کما فی الہندیة۔ قال البزازی: المسجد وان کبر لایمنع الفاصل فیہ الا فی الجامع القدیم بخوارزم فان ربعہ علی اربعة آلاف اسطوانة وجامع القدس الشریف یعنی ما یشتمل علی المساجد الثلاثة الاقصی والصخراء والبیضاء کما فی الحلبی والشرح … ومصلی العید کالمسجد وجعل فی النوازل والخلاصة والخانیة مصلی الجنازة مثل المسجد ایضا۔ وفناء المسجد لہ حکم المسجد یجوز الاقتداء فیہ وان لم تکن الصفوف متصلة… فلو اقتدی من بمنزلة بمن فی المسجد وان انفصل عنہ صح ان لم یوجد مانع من نحو طریق ولم یشتبہ حال الامام، وافاد السید جواز الاقتداء فی بیت بامام فیہ ولو مع وجود فاصل یسع صفین فان البیت فی ہذا کالمسجد،،۔ (باب الامامة:ص:۱۵۹۰۶)
مراقی الفلاح میں ہے:
”والمانع فی الصلاة فاصل یسع فیہ صفین علی المفتی بہ، ویشترط أن لایفصل بینہما حائط کبیر یشتبہ معہ العلم بانتقالات الامام فان لم یشتبہ العلم بانتقالات الامام لسماع او رؤیة لم یمکن الوصول الیہ صح الاقتداء بہ فی الصحیح وہواختیار شمس الائمة الحلوانی…وعلی ہذا الاقتداء فی المساکن المتصلة بالمسجد الحرام وابوابہا من خارجہ صحیح اذا لم یشتبہ حال الامام علیہم لسماع او رؤیة ولم یتخلل الا الجدار کما ذکرہ شمس الائمة فیمن صلی علی سطح بیتہ المتصل بالمسجد او فی منزلہ بجنب المسجد وبینہ وبین المسجد حائط مقتدیا بامام فی المسجد وہو یسمع التکبیر من الامام او من المکبر تجوز صلاتہ کذا فی التجنیس والمزید ویصح اقتداء الواقف علی السطح بمن ہو فی البیت ولایخفی علیہ حالہ،،۔
(حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح:ص:۱۶۰)
مذکورہ بالا تمہید وتفصیل کے پیش نظر صورت مسئولہ میں پوری مسجد مکان واحد کے حکم میں ہے، پوری مسجد سے مراد مسجد کا ہال، برآمدہ اور صحن جس میں باقاعدہ نماز ہوتی ہے تو یہ کل مسجد مکان واحد کے حکم میں ہے۔
لہذا اگر امام مسجد، مسجد کے ہال میں کھڑے ہوکر امامت کرائے اور مقتدی برآمدہ سے متصل صحن مسجد میں اقتداء کریں، اسی طرح امام اگر مسجدکے محراب میں کھڑا ہو اور مقتدی مسجد کے ہال میں امام کی اقتدا کرے تو بہر صورت اقتدا بلاکرہت جائز اور درست ہے اور اگر کسی ضرورت اور عذر کی بناء پر امام اور مقتدیوں کے درمیان دو صفوں یا اس سے زائد مقدار کا بھی فاصلہ ہو تو ضرورت کی وجہ سے یہ فاصلہ بھی مانع اقتداء نہیں ہے، بلکہ بلاکراہت اقتداء درست ہے اور عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ امام اگر محراب میں امامت کرائے اور مقتدی ہال میں ہوں یا امام ہال میں ہو مقتدی برآمدہ میں ہوں یا امام برآمدہ میں ہو اور مقتدی صحن میں ہوں تو امام اور مقتدیوں کے درمیان ایک فٹ کے علاوہ زیادہ فاصلہ نہیں ہوتا، لہذا بلاکراہت ان صورتوں میں اقتدا درست اور صحیح ہے۔
البتہ ان صورتوں میں بھی بلاضرورت امام اور مقتدیوں کے درمیان زیادہ فاصلہ نہ رکھا جائے۔ بہرحال یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں کہ اس مسئلہ کو بنیاد بناکر اہل علم آپس میں اختلاف کا شکار ہوں بلکہ آپس میں مل بیٹھ کر شرعی ضابطہ کے مطابق باہمی اتفاق سے اس مسئلہ کو حل کریں۔
فقط
الجواب صحیح
محمد عبد السلام عفا اللہ عنہ،، محمد داؤد
کتبہ میر حارث
متخصص فی الفقہ اسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
============================
ناقل محمد مصروف مظاہری
No comments:
Post a Comment