Monday, 23 October 2017

وضو کے پانی کی شرعی مقدار

وضو کے پانی کی شرعی مقدار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا کوئی صحیح حدیث ہے؟ جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ وضو میں کتنا پانی خرچ کرنا چاہئے ؟
ایس اے ساگر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
وضو کے پانی میں جہاں اسراف کرنا منع ہے وہیں اتنا کم پانی استعمال کرنا بھی صحیح نہیں کہ اعضا سے تقاطر نہ ہو اور وضو صحیح ہونے میں شک ہونے لگے۔۔۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بابت عام معمول یہ تھا کہ آپ ایک مد تقریبا ایک سیر پانی جو عموما ایک لوٹا کے مساوی ہوتا ہے سے وضو فرماتے تھے ۔
صحیحین کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد پانی سے وضو اور ایک صاع سے پانچ صاع یعنی ساڑھے چار سیر پانی سے غسل فرماتے تھے،

بَاب الْوُضُوءِ بِالْمُدِّ

198 حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ جَبْرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ أَوْ كَانَ يَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ إِلَى خَمْسَةِ أَمْدَادٍ وَيَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ
صحيح البخارى

325 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ مِسْعَرٍ عَنْ ابْنِ جَبْرٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ بِالْمُدِّ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ إِلَى خَمْسَةِ أَمْدَادٍ .صحيح مسلم

حنفیہ کے یہاں وضو کی واجبی اور کفایتی مقدار کے لئے پانی  کی کوئی تحدید نہیں ہے۔صحیحین کی  مذکورہ حدیث میں وضو کے لئے جو ایک مد کی بات آئی ہے وہ کفایت شعاری کو اختیار کرنے اور اسراف سے بچنے کے لئے ہے ۔یعنی استحباب پہ محمول ہے۔۔۔حسب ضرورت ومزاج اس مقدار سے کمی بیشی کی اجازت ہے۔دیگر ائمہ متبوعین مثلا مالکیہ کے یہاں یہ مقدار واجب کے بیان کے لئے ہے۔
وضو کے لئے بیجا پانی کا اسراف بھی ممنوع ہے
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہ قال: رأی رسول اللّٰہ رجلا یتوضأ فقال: ’’لاتسرف، لا تسرف‘‘۔ (سنن ابن ماجۃ / کتاب الطہارۃ وسننہا حدیث: ۴۲۴)
عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضي اللّٰہ عنہما أن رسول اللّٰہ مر بسعد، وہو یتوضأ، فقال: ’’ما ہذا السرف؟‘‘ فقال: أفي الوضوء إسراف؟ قال: ’’نعم، وإن کنت علی نہر جار‘‘۔ (سنن ابن ماجۃ / کتاب الطہارۃ وسننہا حدیث: ۴۲۵)

''حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن اَبی وقاص وضو کر رہے تھے (اور پانی کے استعمال میں فضول خرچی سے کام لے رہے تھے) رسول اللہ ۖ ان کے پاس سے گزرے توآپ نے ان سے فرمایا سعد ! یہ کیسا اسراف ہے ؟ (یعنی پانی بے ضرورت کیوں بہایا جارہا ہے ) انہوں نے عرض کیا حضور ! کیاوضو کے پانی میں بھی اسراف ہوتاہے (یعنی کیا وضو میں پانی زیادہ خرچ کرنا بھی اسراف میں داخل ہے ) آپ نے فرمایا ہاں یہ بھی اسراف میں داخل ہے اگرچہ تم کسی جاری نہر کے کنارے ہی پر کیوں نہ ہو۔

مد ایک پیمانے کا نام ہے جس میں تقریباً ایک سیر اناج آتا ہے اور صاع پیمانہ کا نام ہے جس میں تقریبا چار مد یعنی چار سیر کے قریب اناج آتا ہے۔ یہاں مد اور صاع سے پیمانہ مراد نہیں ہے بلکہ وزن مراد ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً ایک سیر پانی سے وضو فرماتے تھے اور چار سیر اور زیادہ سے زیادہ پانچ سیر غسل پر صرف فرماتے تھے، لہٰذا مناسب یہ ہے کہ تقریباً ایک سیر پانی سے وضو اور تقریباً چار سیر پانی سے غسل کیا جائے لیکن اتنی بات سمجھ لینی چاہئے کہ وضو اور غسل کے لئے پانی کی یہ مقدار اور وزن واجب کے درجہ میں نہیں ہے لیکن یہ سنت ہے کہ وضو اور غسل کے لئے پانی اس مقدار سے کم نہ ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے پانی کی مقدار بعض روایتوں میں دو تہائی مد اور بعض روایتوں میں آدھا مد منقول ہے لہٰذا اس حدیث صحیح البخاری و صحیح مسلم کا محل یہ قرار دیا جائے گا کہ آپ اکثر و بیشتر ایک ہی مد سے وضو فرماتے تھے مگر کبھی کبھی اس سے کم مقدار پانی میں بھی وضو فرما لیتے تھے، جیسا کہ ان بعض روایتوں میں منقول ہے۔۔
(مستفاد مظاہر حق جدید )

في ’’بدائع الصنائع‘‘ : وأما بیان مقدار الماء الذي یغتسل بہ : فقد ذکر في ظاہر الروایۃ وقال : أدنی ما یکفي في الغسل من الماء صاع ، وفي الوضوء مد ، لما روي عن جابر رضي اللہ عنہ : ’’ أن النبي ﷺ کان یتوضأ بالمُدّ ویغتسل بالصّاع ‘‘ فقیل لہ : إن لم یکفنا ؟ فغضب وقال : ’’ لقد کفی من ہو خیر منکم وأکثر شعرًا ‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ثم ہذا التقدیر الذي ذکرہ محمد من الصاع والمد في الغسل والوضوء ، لیس بتقدیر لازم ، بحیث لا یجوز النقصان عنہ أو الزیادۃ علیہ ، بل ہو بیان مقدار أدنی الکفایۃ عادۃ ، حتی أن من أسبغ الوضوء والغسل بدون ذلک أجزاہ ، وإن لم یکفہ زاد علیہ ، لأن طباع الناس وأحوالہم تختلف ، والدلیل علیہ ما روي : ’’ أن رسول اللہ ﷺ کان یتوضأ بثلثي مدّ ‘‘ لکن ینبغي أن یزید علیہ بقدر ما لا إسراف فیہ ۔ (۱/۲۷۰ ، ۲۷۱، ۲۷۲، کتاب الطہارۃ ، فصل في أحکام الغسل ، المبسوط للسرخسي :۱/۱۴۹، ۱۵۰، کتاب الطہارۃ ، باب الوضوء والغسل ، الفتاوی الہندیۃ :۱/۱۶، کتاب الطہارۃ ، الباب الثاني في الغسل ، الفصل الثالث في المعاني الموجب للغسل ومما یتصل بذلک مسائل)

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے /سیدپور

No comments:

Post a Comment