Saturday, 21 October 2017

نماز تہجد

صلٰوة اللیل یعنی رات کی نفل نماز کی ایک قسم عام ہے، نمازِ عشا کے بعد جو نفل نماز پڑھی جائے وہ صلٰوة اللیل عام ہے اس کی دوسری قسم صلٰوة اللیل خاص ہے اور یہ نمازِ تہجّد ہے اور وہ یہ ہے کہ عشا کے بعد سو جائیں اور آدھی رات کے بعد اٹھیں اور نوافل پڑھیں سونے سے پہلے جو کچھ پڑھیں وہ تہجد نہیں، لیکن جو شخص سو کر اٹھنے کا عادی نہ ہو وہ سونے سے پہلے کچھ نوافل پڑھ لیا کرے تو اس کو تہجد کا ثواب مل جائے گا اگرچہ ویسا ثواب نہ ہو گا جو سو کر اٹھنے کے بعد تہجد پڑھنے سے ہوتا ہے نماز تحجد کا وقت آدھی رات کے بعد سو کر اٹھنے سے شروع ہوتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ رات کے چھ حصے کریں پہلے تین حصے میں یعنی آدھی رات تک سوئے اور چوتھے پانچویں حصے میں جاگے اور نماز تہجد پڑھے اور ذکر وغیرہ کرے اور پھر آخری چھٹے حصے میں سوئے اس کی کم سے کم دو رکعتیں ہیں اور زیادہ سے زیادہ آٹھ رکعتیں ہیں اور اوسط درجہ چار رکعت ہیں، دس اور بارہ رکعت تک کا بھی ثبوت ملتا ہے لیکن آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی اکثر عادت آٹھ رکعت پڑھنے کی تھی، اور حسب موقع کم و بیش بھی پڑھی ہیں پس یہی عادت ہونی چاہئے، جو شخص تہجد کا عادی ہو اسے بلاعذر چھوڑنا مکروہ ہے اس میں کوئی سورت پڑھنا معین نہیں ہے، حافظ کے لئے بہتر یہ ہے کہ قرآن شریف کی روزانہ کی منزل مقرر کرکے پڑھا کرے تاکہ چند دنوں میں پورا قرآن مجید ختم ہوتا رہے، جو حافظ نہ ہو لیکن بڑی سورتیں مثلاً سورة بقرہ، سورة آل عمران یا سورة یٰس وغیرہ یاد ہوں پڑھا کرے بعض مشائخ سورة یٰس کو آٹھ رکعت میں تقسیم کرکے پڑھتے رہے ہیں، بعض سورة اخلاص کو ہر رکعت میں متعدد دفعہ مختلف طریقہ سے پڑھتے رہے ہیں صحیح یہ ہے کہ کوئی پابندی نہیں، اس وقت کی ماثورہ دعائیں بھی پڑھا کرے عیدین و پندرہویں شعبان و رمضان کی آخری راتوں میں اور ذی الحجہ کی پہلی دس راتوں میں جاگنا اور عبادت کرنا مستحب ہے خواہ تنہا نفل پڑھے یا تلاوتِ قرآن پاک کرے یا ذکر و تسبیح و تحمید و تہلیل و درود شریف وغیرہ کا ورد کرے اگر ساری رات کا جاگنا میسر نہ ہو تو جس قدر بھی ہو سکے اسی قدر شب بیداری کر لے.

http://majzoob.com/1/13/133/1331250.htm
.....

یاد رکھئے؛
ابتدائے اسلام میں جب پنج گانہ نماز فرض نہیں ہوئی تھی، اس وقت تہجد کی نماز سب پر فرض تھی، بعد میں اُمت کے حق میں فرضیت منسوخ ہوگئی، لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی فرضیت منسوخ ہوگئی یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہوا۔ امام قرطبی اور علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہم اللہ نے اس کو ترجیح دی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی فرضیت باقی نہیں رہی، اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی پابندی فرماتے تھے، سفر و حضر میں تہجد فوت نہیں ہوتی تھی۔

2. تہجد پڑھنے کے لئے کسی عمر کی تخصیص نہیں، اللہ تعالیٰ توفیق دے ہر مسلمان کو پڑھنی چاہئے، اپنی طرف سے تو اہتمام یہی ہونا چاہئے کہ تہجد کبھی چھوٹنے نہ پائے، لیکن اگر کبھی نہ پڑھ سکے تب بھی کوئی گناہ نہیں، ہاں! جان بوجھ کر بے ہمتی سے نہ چھوڑے اس سے بے برکتی ہوتی ہے۔

3. سوکر اُٹھنے کے بعد رات کو جو نماز پڑھی جائے وہ تہجد کہلاتی ہے، رکعتیں خواہ زیادہ ہوں یا کم، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے چار سے بارہ تک رکعتیں منقول ہیں، اور اگر آدمی رات بھر نہ سوئے، ساری رات عبادت میں مشغول رہے تو کوئی حرج نہیں، اس کو قیامِ لیل اور تہجد کا ثواب ملے گا، مگر یہ عام لوگوں کے بس کی بات نہیں، اس لئے جن اکابر سے رات بھر جاگنے اور ذکر اور عبادت میں مشغول رہنے کا معمول منقول ہے، ان پر اعتراض تو نہ کیا جائے، اور خود اپنا معمول، اپنی ہمت و استطاعت کے مطابق رکھا جائے۔

4. تہجد کی نماز میں چار سے لے کر بارہ رکعتیں ہوتی ہیں، ان کے ادا کرنے کا کوئی الگ طریقہ نہیں، عام نفل کی طرح ادا کی جاتی ہیں۔ ہر رکعت میں تین بار سورہٴ اِخلاص پڑھنا جائز ہے، مگر لازم نہیں۔ جن لوگوں کے ذمہ قضا نمازیں ہوں، میں ان کو مشورہ دیا کرتا ہوں کہ وہ تہجد کے وقت بھی نفل کے بجائے اپنی قضا نمازیں پڑھا کریں، ان کو انشاء اللہ تہجد کا ثواب بھی ملے گا اور سر سے فرض بھی اُترے گا۔

5. جو شخص آخرِ شب میں نہ اُٹھ سکتا ہو، وہ وتر سے پہلے کم از کم چار رکعتیں تہجد کی نیت سے پڑھ لیا کرے، انشاء اللہ اس کو ثواب مل جائے گا، تاہم آخرِ شب میں اُٹھنے کا ثواب بہت زیادہ ہے، اس کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔

6. اگر جاگنے کا بھروسا ہو تو وتر، تہجد کی نماز کے بعد پڑھنا افضل ہے، اس لئے اگر صبحِ صادق سے پہلے وقت میں اتنی گنجائش نہ ہو کہ نوافل کے بعد وتر پڑھ سکے گا تو پہلے تہجد کے نفل پڑھے، اس کے بعد وتر پڑھے، اور اگر کسی دن آنکھ دیر سے کھلے اور یہ اندیشہ ہو کہ اگر نوافل میں مشغول ہوا تو کہیں وتر قضا نہ ہوجائیں تو ایسی صورت میں پہلے وتر کی تین رکعتیں پڑھ لے، پھر اگر صبحِ صادق میں کچھ وقت باقی ہو تو نفل بھی پڑھ لے، تہجد کی نماز کا ایک معمول تو مقرّر کرلینا چاہئے کہ اتنی رکعتیں پڑھا کریں گے، پھر اگر وقت کی وجہ سے کمی بیشی ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔

http://shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-03-nafal-namaazain/

No comments:

Post a Comment