Saturday, 9 September 2017

فرقہ ناجیہ اور بہتر فرقے

فرقہ ناجیہ کے جنتی اور بہتر گمراہ فرقے کے جہنمی ہونے کے معنی ؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے اس ارشاد میں امت سے کیامراد ہے۔ جس میں آپ یہ فرماتے ہیں کہ؛
''ایک کے سوا میری ا ُمت کے تمام فرقے جہنم رسید ہوں گے۔''
تو کیا یہ  بہتر فرقے مشرکوں کی طرح ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے یا نہیں؟
اور جب ہم ''نبی کی اُمت'' کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ تو کیا اس سے مراد آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے فرمانبردار اور نافرمان سب مراہوتے ہیں۔ یا اس سے صرف آپ کے فرمانبردار مراد ہوتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
2641 حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ الْأَفْرِيقِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَأْتِيَنَّ عَلَى أُمَّتِي مَا أَتَى عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ حَتَّى إِنْ كَانَ مِنْهُمْ مَنْ أَتَى أُمَّهُ عَلَانِيَةً لَكَانَ فِي أُمَّتِي مَنْ يَصْنَعُ ذَلِكَ وَإِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَفَرَّقَتْ عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ مِلَّةً وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً كُلُّهُمْ فِي النَّارِ إِلَّا مِلَّةً وَاحِدَةً قَالُوا وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مُفَسَّرٌ لَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ
سنن الترمذی. كتاب الإيمان. ماجاء في افتراق هذه الأمة
المعجم الأوسط، دارالفکر ۳/ ۳۸۰، رقم: ۴۸۸۶، ۷۸۴، المعجم الکبیر، دار إحیاء التراث العربي ۱۴/ ۵۲، رقم: ۱۴۶۴۶، المستدرک للحاکم، کتاب العلم، فصل في توقیر العالم، مکتبہ نزار مصطفی الباز ۱/ ۱۸۹، رقم: ۴۴۴)
وفي أبي داؤد وابن ماجۃ: کلہا في النار إلا واحدۃ، وہي الجماعۃ۔ (ابن ماجۃ، أبواب الفتن، باب إفتراق الأمم، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۲۹۶، رقم: ۳۹۹۳، أبوداؤد، کتاب السنۃ، باب شرح السنۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۲۷۵، دارالسلام رقم: ۴۵۹۷، المستدرک قدیم ۱/ ۲۱۸، مکتبہ نزار مصطفی الباز ۱/ ۱۸۹، رقم: ۴۴۴، مشکوۃ ۱/
۳۰)
امت محمدیہ کا تہتر فرقوں میں افتراق عقائد واصول میں ہوگا۔
فرعیات واعمال کا اختلاف مراد حدیث نہیں۔
عقائد کے اعتبار سے گمراہ فرقے کا دخول جہنم ابدی نہیں ہوگا بلکہ اپنی گمراہی کی سزا کاٹ لینے کے بعد ایک دن کلمہ کی بنیاد پہ جہنم سے نکل کر جنت میں جائیں گے بشرطیکہ ان کے عقائد کفریہ وشرکیہ نہ ہوں، ورنہ تو دخول جہنم علی سبیل الخلود ہوگا۔
اسی طرح ایک فرقہ ناجیہ کا دخول جنت صحت عقائد کی بنیاد پہ ہوگا۔ ورنہ یہ فرقہ ناجیہ کے گنہگار افراد بھی تو اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے !!!
ہاں دونوں کی سزاؤں میں تفاوت ضرور ہوگا۔
حضرت مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی نے "عقائد الاسلام " میں امام ربانی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے کہ جن بہتر فرقوں کے بارے میں "کلھم فی النار" آیا ہے اس سے دوزخ کا دائمی عذاب مراد نہیں ہے۔ اس لئے کہ دوزخ کا دائمی عذاب ایمان کے منافی ہے۔ دائمی عذاب کفار کے ساتھ مخصوص یے۔ اور چونکہ یہ بدعتی فرقے سب اہل قبلہ ہیں اس لئے ان کی تکفیر میں جرات نہ کرنی چاہئے۔ جب تک کہ دینی ضروریات کا انکار اور احکام شرعیہ کو رد نہ کریں۔ اور ان احکام کے جو دین سے ضروری اور بدیہی طور پر ثابت ہوں منکر نہ ہوں۔
(عقائد الاسلام صفحہ 233۔ ادارہ اسلامیات لاہور ۔۔۔۔۔ مکتوب نمبر 38 دفتر سوم)
صاحب مذہب امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کے یہاں کسی کلمہ گو  کو کافر کہنے میں جو حزم واحتیاط تھا وہ کہیں اور نظر نہیں آتاہے۔
امام صاحب حتی الامکان مومن کی تکفیر سے احتراز کرتے تھے، امام صاحب کا مسلک تھا کہ اگر کسی مسلمان میں کفر کے ننانوے وجوہات ہوں اور صرف ایک وجہ ایمان کی موجود ہوں تو اسی کو ترجیح دی جائیگی اور ممکن حد تک مومن کے فعل کی تاویل کی جائیگی۔
حنفی کتابوں میں درج ہے کہ جس شخص کے اندر ۹۹؍ احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال بھی مسلمان ہونے کا ہو تو اس کو مسلمان ہی کہنا بہتر ہے، اسے کافر نہیں کہا جائے گا۔
أن المسئلۃ المتعلقۃ بالکفر إذا کان لہا تسع وتسعون احتمالا للکفر، واحتمال واحد في نفیہ، فالأولیٰ للمفتي والقاضي أن یعمل بالاحتمال النافي۔ (شرح فقہ أکبر، أشرفی بکڈپو ۱۹۹)
الکفر شيء عظیم فلا أجعل المؤمن کافرا متی وجدت روایۃ أنہ لا یکفر انتہی، ثم قال: والذي تحرر أنہ لا یفتي بکفر مسلم إن أمکن حمل کلامہ علی محمل حسن أو کان في کفرہ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ۔ (رسم المفتي، قدیم ۸۳، دارالکتاب ۱۳۲-۱۳۳، رسائل ابن عابدین، ثاقب بکڈپو ۱/ ۳۶)
(اِذاکان فی المسئلۃ وجوہ توجب الکفر و وجہ واحد یمنع فعلی المفتی أن یمیل الی ذلک الوجہ۔ عالمگیری ج۲ ص۸۹۹ فی آخر کتاب السِیَر )
معمولی معمولی باتوں تکفیر کا دہانہ کھول دینے والے کے لئے مقام غور ہے۔ بلا وجہ تکفیر کا وبال بھی حدیث میں بہت سخت آیا ہے۔
جب امت کا لفظ بولا جائے تو ہر کلمہ گو مراد ہوتا ہے خواہ نیک ہو یا بد۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment