Tuesday, 26 September 2017

تعزیہ کا شرعی حکم

تعزیہ کی حقیقت، تاریخ ایجاد
اور اس کا شرعی حکم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
امید قوی ہے کہ آپ بخیر وعافیت ہونگے.
حضرت، حقیقت تعزیہ کیا ہے اور تعزیہ سازی کا آغاز کب اور کس نے کیا؟ اس سلسلے میں مدلل ومفصل جواب عنايت فرمائیں، عین نوازش ہوگی.
مجتبی عزیزی سبیلی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ اور دیگر شہدائے کربلاء کی تربت، ضریح وروضے کی شبیہ، چاندی، لکڑی، کاغذ، بانس وغیرہ سے بناکر تعظیما سڑکوں پہ پھرانا یا امام باڑہوں پہ کھڑا کردینے کو تعزیہ سازی اور تعزیہ داری کہتے ہیں۔
تعزیہ سازی روافض وشیعہ کی ایجاد کردہ بدعات وخرافات ہے۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں کہیں اس کا نام ونشان تک نہ تھا۔ اس عمل بد کی سب سے پہلی ایجاد اس طرح ہوئی کہ
سنہ۳۵۲ھ 923 عیسوی کے شروع ہونے پر بغداد کےابن بویہ نے حکم دیا کہ ۱۰/محرم الحرام کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم میں تمام دکانیں بند کردی جائیں، بیع وشرا بالکل موقوف رہے، شہرودیہات کے تمام لوگ ماتمی لباس پہنیں اور علانیہ نوحہ کریں، عورتیں اپنے بال کھولے ہوئے، چہروں کوسیاہ کئے ہوئے، کپڑوں کو پھاڑے ہوئے، سڑکوں اور بازاروں میں مرثیے پڑھتی، منہ نوچتی ہوئی اور چھاتیاں پیٹتی ہوئی نکلیں، شیعوں نے اس حکم کو بہ خوشی تعمیل کی؛ مگراہلِ سنت دم بخود اور خاموش رہے؛ کیونکہ شیعوں کی حکومت تھی، آئندہ سال سنہ۳۵۳ھ میں پھر اسی حکم کا اعادہ کیا گیا اور سنیوں میں فساد برپا ہوا، بہت بڑی خوں ریزی ہوئی، اس کے بعد شیعوں نے ہر سال اس رسم کو زیرعمل لانا شروع کردیا اور آج تک اسی کا رواج ہندوستان (ہند، پاک) میں ہم دیکھ رہے ہیں، عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستان (ہند، پاک) میں بعض سنی لوگ بھی تعزیے بناتے ہیں۔(تاریخ اسلام مولانا شاہ اکبر نجیب آبادی 466/2)
اگر شہدائے کربلا کے روضے کی شبیہ (تعزیہ ) میں خدائی طاقت کے ظہور یا روح حسین کے حلول کے عقیدہ سے اس کی تعظیم کی جائے تو یہ شرک اعتقادی ہے۔ بت کی تعظیم کے مانند ہے۔ایسا عقیدہ رکھنے والا ایمان سے خارج ہوجائے گا۔ ایمان و نکاح کی تجدید لازم ہے۔
اور اگر یہ عقیدہ نہ ہو صرف تعظیم واحترام مقصود ہو اور روضہ حسین کی تشبیہ سازی مقصود ہو تو روافض وشیعہ کے تشبہ کی وجہ سے یہ بھی ناجائز وحرام ہے اور شرک عملی یعنی فسق ہے۔
وأما اتخاذہ ماتما لأجل قتل الحسین بن علي کما یفعلہ الروافض فہو من عمل الذین ضل سعیہم فی الحیوۃ الدنیا وہم یحسبون أنہم یحسنون صنعًا۔ (مجالس الأبرار ۲۵۳ بحوالہ: فتاویٰ محمودیہ ۵؍۴۸۵ میرٹھ۔ فتاوی رشیدیہ، قدیم/ ۱۳۸، فتاوی رحیمیہ، قدیم ۲/۲۷۳،جدید زکریا۲/۷۰)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
٥\١\١٤٣٩هجری

1 comment: