Tuesday, 12 September 2017

بالغ مردہ کی طرف سے عقیقہ؟

بالغ مردہ کی طرف سے عقیقہ؟
-------------------------------
--------------------------------
سوال: کوئی مسلمان بغیر عقیقہ کے مرگیا تو اسکے وارثین اسکا عقیقہ کر سکتے ہیں یا نہیں.....؟
محمد اسعد اللہ بیگوسرائے
دارالعلوم دیوبند

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق: 
عقیقہ مستحب ہے. ابتدائی وقت 'ولادت' ہے. انتہائی وقت 'بلوغ' ہے. بلوغ کے بعد استحباب ساقط ہوجاتا ہے۔ بعض روایتوں میں موت آخری وقت ہے۔یعنی موت تک بھی عقیقہ کیا جاسکتا یے۔یعنی مستحب ہے۔ موت کے بعد استحباب عقیقہ ثابت نہیں۔ ہاں اگر شیرخوار بچہ بلاعقیقہ فوت ہوگیا ہو اور اس کے بروز قیامت سفارشی بننے کی نیت سے اس فوت شدہ بچہ کی طرف سے عقیقہ کردیا جائے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے۔ امام شافعی کے یہاں تو اس صورت میں بھی استحباب کی تصریح ہے۔
مالکیہ اور حنابلہ کے یہاں نہیں۔ تاہم عام فوت شدہ بالغین کی طرف سے عقیقہ کا استحباب عندالاحناف ثابت نہیں ہے۔۔
اگر کوئی 
پھر بھی کردے تو ذبیحہ ماکول الاکل ہوگا۔ ہاں خلاف استحباب اور غیرثابت شدہ کام کا ارتکاب ضرور ہوا ہے!
فی ’’ فتح الباری‘‘: فنقل الرافعی أنہ یدخل وقتہا بالولادۃ ، قال : وذکر السابع فی الخبر بمعنی أن لا تؤخر، ثم قال: والإختیار أن لا تؤخر عن البلوغ ، فإن أخرت عن البلوغ سقطت عمن کان یرید أن یعق عنہ، لکن إن أراد أن یعق عن نفسہ فعل ۔ (۹/۵۹۶، باب إماطۃ الأذی عن الصبی فی العقیقۃ)
في ’’اعلاء السنن‘‘: عن بریدۃ أن النبي ﷺ قال: ’’العقیقۃ لسبع أو أربع عشرۃ أو إحدی وعشرین‘‘۔ رواہ الطبراني ۔ (۱۷/۱۳۱)
و في ’’فیض الباري‘‘: ان الغلام إذا لم یعق عنہ، فمات لم یشفع لوالدیہ، ثم أن الترمذي أجاز بہا إلی یوم إحدی وعشرین، قلت : بل یجوز إلی أن یموت لما رأیت في بعض الروایات أن النبي ﷺ عقّ عن نفسہ بنفسہ ۔ (۵/۶۴۸)
- قَال الشَّافِعِيَّةُ: لَوْ مَاتَ الْمَوْلُودُ قَبْل السَّابِعِ اسْتُحِبَّتِ الْعَقِيقَةُ عَنْهُ كَمَا تُسْتَحَبُّ عَنِ الْحَيِّ.
وَقَال الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ وَمَالِكٌ: لاَ تُسْتَحَبُّ الْعَقِيقَةُ عَنْهُ
(المجموع للنووي 8 / 448.)
کذا فی  فتاوی محمودیہ قدیم ۱۱/ ۳۵۰، ۵/ ۳۸۰، جدید ڈابھیل ۱۷/ ۵۲۹، ۵۳۲احسن الفتاوی ۷/ ۵۳۶)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
١٢\٩\٢٠١٧م
http://saagartimes.blogspot.com/2017/09/blog-post_12.html?m=1

No comments:

Post a Comment