Wednesday 13 September 2017

بڑی عمر میں عقیقہ ؟

بڑی عمر میں عقیقہ ؟

السلام علیکم
ایک سوال یہ ہیکہ لڑکی کی طرف سے عقیقہ کے لیے ایک بکرا اور لڑکے کے لیے دو بکرے سنت ہیں
کیا لڑکی کی طرف سے ایک کے بجائے دو بکرے دیے جاسکتے ہیں ؟

دوسری بات یہ ہیکہ عقیقہ کی سنت ساتویں یا چودھویں یا اکیسویں دن کے علاوہ کبھی بھی کرنے سے اداء ہوجائیگی اور عقیقہ ہی کہلائے گا ؟

براہ کرم جواب سے نوازیں تو کرم ہوگا
ديني بھائی

الجواب وباللہ التوفیق
جمہور علماء کے نزدیک عقیقہ کرنا مستحب ہے۔
عقیقہ ولادت کے ساتویں دن تک ہوجانا چاہئے ۔اگر ساتویں دن تک نہ کرپائے تو امام مالک کے یہاں اب عقیقہ کی گنجائش نہیں۔امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک بالغ ہونے کے پہلے تک کیا جاسکتا ہے۔سبل السلام 1426/4۔باب العقیقہ ۔
حنفیہ کے یہاں بھی مستحب یہی ہے کہ ساتویں دن بچہ کا نام رکھا جائے۔ عقیقہ کیا جائے اور اترے ہوئے بالوں کے ہم وزن چاندی  یا سونا صدقہ کردیا جائے جس کا عمومی وزن چار گرام کے قریب ہوتا ہے۔
طبرانی کی معجم اوسط میں ہے؛
سبعة من السنة في الصبي.يوم السابع يسمى ويختن ويماط عنه الأذى وينقب أذنه ويعق عنه ويحلق رأسه ويتصدق بزنة وزن شعره ذهبا اوفضا .معجم الأوسط للطبراني. فتح الباري 735/9..هكذا في رد المحتار 213/5...
بشرط سہولت  والدین پر نومولود کی طرف سے عقیقہ کرنا سنت ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک لڑکے کی طرف سے دو بکڑے اور لڑکی کی طرف سے ایک۔ مالکیہ کے یہاں دونوں کی طرف سے ایک۔
جمہور کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث ہے؛
أمرنا رسول الله أن نعق عن الجارية شاة وعن الغلام شاتين. ترمذی 1513۔ ابن ماجہ 3163۔ سنن ابی دائود 2842۔۔
حدیث مذکور میں زیادہ حصہ کی تحدید کردی گئی ہے۔ لہذا لڑکی کی طرف سے ایک سے زیادہ اور لڑکے کی طرف سے دو سے زیادہ بکڑے بحیثیت عقیقہ کرنے کی اجازت نہیں ہے، ہاں بحیثیت شکرانہ دن تاریخ بدل  کر مزید بکڑے کردیئے جائیں تو کوئی حرج نہیں لیکن اس کو دم عقیقہ نہیں کہا جاسکتا۔ لڑکے کی طرف سے دو بکڑے نہ کرسکتے ہوں تو ایک بھی کرنے کی گنجائش ہے۔ آپ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے ایک بکڑی ذبح فرمایا تھا۔ ترمذی حدیث نمبر 1507۔
اگر ساتویں دن عقیقہ نہ کیا جائے تو ایک قول کے مطابق بعد میں سنت کا درجہ باقی نہیں رہتا۔ لیکن چونکہ عقیقہ کی حقیقت دم شکر کی ہے اس لئے بعد میں کرنا چاہے تو اباحت پھر بھی باقی رہے گی اور باعث ثواب پہر بھی ہوگا ۔ کتاب الفتاوی 174/4۔۔
اب ایسی صورت میں ساتویں دن کی رعایت کی جائے یعنی جب بھی کرے پیدائش کے دن سے ایک دن پہلے کرلے تو ساتویں دن کی ظاہری رعایت ہوجائے گی۔ مثلا پیدائش کا دن جمعرات تھا تو عقیقہ بدھ کو کرلے؛
وھلم جرا ۔۔۔ عن الحسن البصري إذا لم يعق عنك فعق عن نفسك وإن كنت رجلا.إعلاء السنن 121/17..الفقه الإسلامي وادلته 638/3...
بڑی عمر میں عقیقہ کیا جائے تو بال کاٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

No comments:

Post a Comment