Sunday 3 September 2017

آخر روہنگیا مسلمانوں کا قصور کیا ہے؟

ایس اے ساگر
سماجی روابط کی ویب سائٹس پر برما کے  اراکان میں مسلمانوں کے خلاف مظالم پر حساس لوگ تڑپ کر پوچھ رہے ہیں کہ،
کہاں ہے وہ بے غیرت میڈیا جو طالبان کے نام پر بننے والی بربریت والی وڈیوز دکھاتا تھا مگر اب اس ظلم پر اندھا پن کیوں؟
کہاں ہیں بے غیرت سیاستدان جو اپنی جھوٹی اناوں کے نام پر ایک دوسرے کو گالیاں دیتے نہیں تھکتے مگر اس ظلم پر انکی زبان بندی کیوں؟
کہاں ہے وہ بے غیرت موم بتی مافیا جو ایک کتے پر ہونے والے ظلم پر تو موم بتیاں جلاتا ہے مگر اس ظلم پر اندھے کیوں ہوگئے؟
کہاں ہیں روشن خیال تنظیمیں جو عورت کے پردہ کرنے کو تو استحصال کہتے ہیں مگر اس طرح کے ظلم پر اندھیر پن کیوں؟
کہاں ہیں حکمران جو بدعنوانی کے الزامات پر تو روز پریس کانفرنس کرتے ہیں مگر اس ظلم پر خاموش ہیں؟
کہاں ہیں سیاسی اپوزیشن جن کو حکمرانوں کے زمین کے اندر چھپے خزانے تو نظر آجاتے ہیں مگر اس ظلم پر ان کی آنکھوں نے دیکھنا چھوڑ دیا ہے؟
الفاظ یقینا سخت ہیں مگر اس ظلم پر بھی اگر زبان بندی رہے تو یہ موت کے مترادف ہوگا۔
لیکن اس کا کیا کیجئے کہ لوگوں کو تو عام طور پر یہ علم بھی نہیں ہے کہ روہنگیا مسلمان کون ہیں اور برما کے صوبہ اراکان کی تاریخ کیا ہے؟ برما یا میانمار کے علاقہ اراکان اور بنگلہ دیش کے علاقہ چاٹگام یاچٹاگانگ میں بسنے والے مسلمان روہنگیا کہلاتے ہیں. یہاں کے مسلمانوں نے ایسا کیا قصور کیا ہے کہ انھیں تشدد اور قتل عام کا نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے، اور اس مسئلہ کا کیا حل ہے جاننے سے قبل یہ سمجھ لیجئے کی مظالم اس طبقہ کے ہاتھوں ڈھائے جارہے ہیں جو مہاتما بدھ کے پیروکار ہے. عجیب بات تو یہ ہے کہ بودھ کو دنیا میں امن کا سب سے بڑا پیامبر اور عدم تشدد فلسفے کا داعی سمجھا جاتا ہے اور آپ کی فکر ہے کہ جس نے کسی جانور کو بھی قتل کیا تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے کسی انسان کو قتل کیا۔ دنیا بھر میں آپ کے پیروکاروں کی تعداد قریباً 35 کروڑ ہے جو زیادہ تر ایشائی ممالک میں آباد ہیں۔ ان ممالک میں جاپان، جنوبی کوریا، لائوس، منگولیا، سنگاپور، تائیوان، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، بھوٹان اور میانمار شامل ہیں۔ جنوب مشرقی ایشائی ملک میانمار، جسے برما کے پرانے نام سے بھی جانا جاتا ہے، 1937ء تک برصغیر کا ہی حصہ سمجھا جاتا تھا۔ پھر برطانیہ نے 1937ء میں اسے برصغیر سے الگ کرکے ایک علاحدہ کالونی کا درجہ دے دیا اور 1948ء تک یہ علاقہ بھی برطانوی تسلط کے زیر اثر رہا۔ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو بھی میانمار (برما) میں ہی جلاوطنی کے دن گزارنے پر مجبور کیا گیا اور آج بھی رنگون میں آپ کی قبر مغل سلطنت کے زوال اور برطانوی سفاکیت کے نوحے سناتی نظر آتی ہے۔ میانمار کی قریباً 5 کروڑ 60 لاکھ کی آبادی میں 89 فیصد بودھ، 4 فیصد مسلمان (تقریباً ساڑھے 22 لاکھ)، 4 فیصد عیسائی، 1 فیصد ہندو اور 2 فیصد دوسری قومیں آباد ہیں۔ یہاں پر اسلام کی آمد کے آثار 1050ء سے ملتے ہیں جب اسلام کے ابتدائی برسوں میں ہی عرب مسلمان تجارت کی غرض سے برما آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ سات صوبوں کے اس ملک میں مسلمانوں کی اکثریت راکھین (رخائن) میں آباد ہے اور یہاں تقریباً 6 لاکھ کے قریب مسلمان بستے ہیں جنھیں روہنگیا کہا جاتا ہے۔
وفاق المدارس کے ناظم اعلی حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری رقمطراز ہیں کہ گذشتہ کئی دہائیوں سے برما کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم کی داستانیں وقتاً فوقتاً میڈیا پر شائع ہوتی رہتی ہیں، جب سے سوشل میڈیا عام ہوا ہے، ان مظالم کے دلخراش مناظر اس پر بھی آنے لگے ہیں اور اقوام متحدہ نے اپنی ایک قرارداد میں یہ  بات بالکل بجا لکھی ہے کہ ’’روئے زمین کی سب سب سے مظلوم اقلیت اراکان برما کے مسلمان ہیں.‘‘ اراکان در حقیقت ایک آزاد مسلم ریاست تھا جو روہنگیا مسلمانوں کا آبائی وطن ہے۔ 1784 تک یہ ایک مستقل آزاد ریاست کی حیثیت سے دنیا کے نقشہ میں موجود رہا، اس کے بعد برما نے اس پر قبضہ کرکے ایک صوبے کے طور پر اسے اپنے ساتھ ضم کرلیا، ایک صدی بعد 1884 کے دوران برطانیہ نے برما پر قبضہ کیا تو اراکان بھی برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا، برطانیہ سے آزادی کی تحریکیں جب برصغیر میں چلیں تو ہند، پاک کی طرح برما بھی آزاد ہوا، برما 1884 میں آزاد ہوا ہے، آزاد ہونے کے بعد برما نے اراکان کو اپنے ایک صوبے کے طور پر بھی اپنے ساتھ ضم رکھا اور اسے ایک آزاد مسلم ریاست کی حیثیت سے دوبارہ ابھرنے نہیں دیا۔ برما کی حکومت نے اراکان پر قبضہ کرکے جب سے اپنے ساتھ ضم کیا ہے، اسی وقت سے اس نے یہ پالیسی اپنا رکھی ہے کہ اس صوبے سے مسلمانوں کا خاتمہ کیا جائے، چونکہ یہ ایک آزاد مسلم ریاست تھی اور وہاں مسلمانوں ہی کی اکثریت تھی، اس لئے اس نے مسلمانوں کے خلاف وحشت ناک آپریشن کئے اور وقفے وقفے سے مسلمانوں کے خاتمے کے لئے برما حکومت فسادات کی آگ بھڑکاتی رہی ہے۔
٭… 1942 میں بودھوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک منظم تحریک شروع کی،
مارچ 1942 سے جون 1942 تک تین ماہ میں ڈیڑھ لاکھ مسلمان شہید اور پانچ لاکھ مسلمان بے گھر ہوئے۔
٭…1950 میں دوبارہ مسلمانوں کے خلاف تحریک اٹھی، تشدد کا آغاز ہوا، ہزاروں مسلمان شہید اور بے گھر کئے گئے۔
٭…1962 میں برما کے اندر فوجی حکومت کا قبضہ ہوا، برما کی ملٹری حکومت نے اراکان کے مسلمانوں کے خلاف تشد د کا سلسلہ شروع کیا جو وقفہ وقفہ سے 1982 تک جاری رہا، اس عرصہ میں بیس لاکھ سے زیادہ مسلمان ہجرت پر مجبور ہوئے اور لاکھوں شہید ہوئے۔
٭… 1991 اور 1997 میں بھی مسلمانوں پر بڑے منظم حملے ہوئے اور ہزاروں مسلمان شہید کئے گئے۔
٭…جون 2012 سے ایک بار پھر مسلمانوں پر حملوں کا آغاز کیا گیا، یہ حملے اکتوبر 2016 تک جاری رہے، رپورٹ کے مطابق صرف ابتدائی پندرہ دن میں بیس ہزار سے زاید مسلمان شہید کئے گئے۔
٭… اور اب 25 اگست 2017 کو ایک بار پھر مسلمانوں کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا اور اطلاعات کے مطابق رواں ہفتہ کے اندر پندرہ بیس ہزار مسلمان جوان بوڑھے، بچے اور خواتین کو شہید کردیا گیا ہے … اراکان کے ان مظلوم مسلمانوں کے ساتھ بڑا المیہ یہ ہے کہ ان کو ہجرت کرنے کے لئے نہ محفوظ راستہ ملتا ہے، نہ پڑوسی ملک انھیں قبول کرنے کے لئے تیار ہیں، ان کی سرحد بنگلہ دیش سے ملتی ہے، بنگلہ دیش نے ان کے لئے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں، تھائی لینڈ سے بھی ان کی سرحد ملتی ہے لیکن وہ بھی انھیں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں، 28 مارچ 2008 کو تھائی وزیر اعظم سماک سندارواج نے کہا کہ "تھائی بحیریہ کوئی ویران جزیرہ ڈھونڈ رہی ہے تاکہ روہینگیا مسلمانوں کو وہاں رکھا جا سکے۔ دریں اثنا ہزاروں خاندان کشتیوں میں ساحلوں کے چکر کاٹ رہے ہیں اور موت کی بھیانک تصویر کے سوا ان کی دادرسی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اراکان کے مسلمانوں کے لیے ہلکی پھلکی آوازیں اٹھتی رہی ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ نے برما حکومت سے غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانے کا مطالبہ کیا ہے، 2012 میں ان عالمی اداروں کی کوششوں سے ایک کمیشن بھی تشکیل دیا گیا مگر عین وقت پر برما حکومت نے اقوام متحدہ کی زیر قیادت کمیشن کو قبول کرنے سے انکا ر کردیا، نومبر 2016میں یو این او کے اعلیٰ سطحی وفد نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور ان مظالم کی رپورٹ مرتب کی لیکن ظلم و جبر کے تسلسل میں کوئی فرق نہیں آیا۔ ہم عید الاضحی کے اس موقع پر انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں، رفاہی اداروں اور پورے عالم اسلام سے اپیل کرتے ہیں کہ انسانی مظالم کے اس کربناک المیہ کا مداوا کرنے کے لئے آگے بڑھیں ۔۔۔۔۔ ، جہاں بے یارومددگار انسانوں کی لاشیں جلتی ہیں ۔۔۔۔، خواتین کی عصمت دری کرکے ان کی ننگی لاشوں کو درختوں کے ساتھ لٹکا دیا جاتا ہے، بچوں کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دیا جاتا ہے ،۔۔۔۔۔ جوانوں، بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو ایک خندق میں جمع کرکے، اوپر سے بلڈوزر چلاکر انھیں زندہ دفن کردیا جاتا ہے، انھیں زندہ جلادیا جاتا ہے … یہ تما م مناظر، تصاویر اور ویڈیو کی شکل میں ساری دنیا دیکھ رہی ہے، ۔۔۔۔۔۔ عالم اسلام دیکھ رہا ہے، ۔۔۔۔۔ مسلمان دیکھ رہے ہیں ۔۔۔۔۔، انسانی حقوق کی تنظیمیں دیکھ رہی ہیں … لیکن نہ کوئی مؤثر آواز بلند ہوتی ہے، نہ ضمیر جاگتے ہیں … اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے، ۔۔۔۔۔ عالم اسلام کی ذمہ داری ہے ۔۔۔۔۔، میڈیا اورمنبر و محراب سے تعلق رکھنے والے صحافیوں، اہل قلم، دانشوروں اور علماء کی ذمہ داری ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے لئے آواز بلند کریں اور مؤثر طور پر بلند کریں ۔۔۔۔۔ جب تک ظالموں کے در ودیوار ہل نہ جائیں ۔۔۔۔ جب تک وہ ظلم سے باز نہ آجائیں … جب تک ان بے بسوں کے  زخموں کا مداوا نہ ہوجائے … اللہ ان بے یار و مددگار مسلمانوں پر کرم فرمائے ،۔۔۔۔۔ ان کی مدد فرمائے ۔۔۔۔۔، ہماری بے حسی اور غفلت کو دور فرمائے، ۔۔۔۔۔۔ ایک درد دل رکھنے والا مسلمان یہی کہہ سکتا ہے کہ  …
میں بلبل نالاں ہوں، اک اجڑے گلستاں کا
تاثیر کا سائل ہوں، محتاج کو داتا دے
سوال یہ پیدا ہوتا پے کہ آخر ان روہنگیا مسلمانوں کا قصور کیا ہے؟ اس کا جواب پروفیسر اسمعیل بدایونی کی دردناک تحریر سے لگایا جاسکتا ہے؛ 
"بستی میں خوف و ہراس پھیل چکا تھا، خوف کے سبب کلیجے منہ کو آگئے ۔۔۔۔ چاروں طرف سے آگ کے شعلے بلند ہو رہے تھے ۔
مائیں اپنے بیٹوں کو دیکھ رہی تھی جو کچھ ہی دیر بعد بے رحمی سے ذبح کر دئیے جائیں گے ۔۔۔۔۔۔ خوف زدہ نگاہوں نے بیٹیوں کے وجود کا طواف کیا ہزار ضبط کے باجود ماؤں کی چیخیں نکل گئیں ۔۔۔۔
کچھ ہی دیر میں سفاک درندے بستی میں پہنچ چکے تھے ۔۔۔۔ مکروہ چہروں سے چھلکتی سفاکی بے بس نوجوانوں کو ذبح کرنے کے بعد مسلم دوشیزاؤں کے جسم کو اپنی درندگی کا شکار بنانے کو تیار تھی ۔۔۔۔۔۔
نومولود بچوں کو جلتی ہوئی آگ میں پھینکا جا رہا تھا ۔۔۔۔
تم کیوں میر ی جان لینا چاہتے ہو ؟ بے بس مسلمان بہن جس نے ابھی ابھی اپنی نگاہوں کے سامنے اپنے باپ اور بھائی کو ان درندوں کے ہاتھوں ذبح ہوتے دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔برما کی مظلوم مسلمان بیٹی ،ان ظالموں سے پوچھ رہی تھی۔
تم محمد (ﷺ) کا کلمہ پڑھتی ہو ۔۔۔۔ تم مسلمان ہو ۔۔۔ تم یہ کلمہ پڑھنا چھوڑ دو ہم تمھیں چھوڑ دیں گے ۔۔۔۔۔۔
یہ دین تو مجھے جان سے بھی زیادہ پیار ا ہے اس کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں ہم نے تمھیں تو کچھ نہیں کہا ۔۔۔۔ تمھارے مذہب پر انگلی بھی نہیں اٹھائی، پھر تم کیوں ہمیں زندہ رہنے کا حق نہیں دیتے؟ ۔۔۔۔۔کیوں ہم مظلوموں کو مارتے ہو ؟ ۔۔۔۔۔ کیا بگاڑا ہے ہم نے تمھارا؟
اتنی حق گوئی ۔۔۔۔ اتنی جرأت وہ بھی بدھ مت کے سفاک پیروکارو ں کے سامنے؟
اس عورت کی عزت کو تار تار نہیں کیا گیا بلکہ اس کی وڈیو بھی بنائی گئی ۔۔۔۔۔۔ اس نے روتی ہوئی آ نکھوں، درد و الم سے چور چور وجود کے ساتھ کہا: 
تم نے میرے باپ بھائی اور ماں کو میرے سامنے قتل کیا لیکن تمھاری درندگی کی آگ نہیں بجھی، پھر تم نے میری عفت و عصمت کو تار تار کر دیا اب کم از کم اس کی ویڈیو تو مت بناؤ ۔۔۔۔۔۔
درندوں کے قہقہوں سے بستی گونج اٹھی ارے او بنتِ اسلام! اس وڈیو کو سوشیل میڈیا پر ڈالیں گے پھر ساری دنیا میں موجود تیرے مسلمان بھائی اس کو دیکھ کر تڑپیں گے اس لذت کا اپنا مزہ ہے ۔۔۔۔ مسلمانوں کی تڑپتی لاشوں کو دیکھنے میں جو مزہ ہے وہ رقصِ طوائف اور سرورِ شراب میں بھی نہیں ۔۔
اب محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی جیسی غیرت کسی مسلمان میں نہیں رہی، یہ کہہ کر ان درندوں نے تیز دھار برچھی اس لڑکی شرمگاہ میں ڈال دی اور بنت ِ اسلام کی فلک شگاف چیخوں پر قہقہے لگانے لگے۔ عالمی سطح پر ان مظلوم مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کی جائے اور مسلمانوں کے لیے اندھی بہری اقوام متحدہ کو جھنجھوڑا جائے یا پھر عام مسلمانوں کو جہاد کی عام اجازت دی جائے کیونکہ قرآن کا یہ ہی حکم ہے۔
وَ مَا لَکُمۡ لَا تُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ وَ الۡمُسۡتَضۡعَفِیۡنَ مِنَ الرِّجَالِ وَ النِّسَآءِ وَ الۡوِلۡدَانِ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا مِنۡ ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃِ الظَّالِمِ اَہۡلُہَا ۚ وَ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ وَلِیًّا ۚ ۙ وَّ اجۡعَلۡ لَّنَا مِنۡ لَّدُنۡکَ نَصِیۡرًا 75:04
اور تمہیں کیا ہوا کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مددگار دے دے،

مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ علیہ کا برما کے رنگون میں تاریخی خطاب
ﺑﺮﻣﺎ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ 1960 ﻋﯿﺴﻮی ﻣﯿﮟ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺳﯿﺪ ﺍﺑﻮﺍﻟﺤﺴﻦ ﻋﻠﯽ ﻧﺪﻭﯼ ﺭﺣﻤۃُ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺟﺐ ﺑﺮﻣﺎ ﮐﺎ ﺩﻭﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺐ ﺁﭖ ﺭﺣﻤۃُ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﻧﺼﯿﺤﺖ ﻓﺮﻣﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﮮ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮ! ﻣﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﺻﺎﻑ ﺩﯾﮑﮫ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺍﺱ ﻋﻼﻗﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﻧﮯ 300 ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﺮﺻﮧ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﯽ ﮨﮯ ‏(ﯾﻌﻨﯽ ﺑﺮﻣﺎ) ﻣﯿﮟ ﻣﻈﻠﻮﻡ ﺑﻦ ﺟﺎﺅﮔﮯ۔ ﺍﻭﺭ ﺗﻢ ﭘﺮ ﻇﺎﻟﻢ ﻭ ﺟﺎﺑﺮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻣﺴﻠﻂ ﮐﺮ ﺩﯾﺌﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺑﮩﺘﺮﯾﻦ ﻋﻼﺝ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ 
1. ﺍﭘﻨﯽ ﺗﺠﺎﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﻣﺎﻧﺖ ﺩﺍﺭﯼ ﺍﻭﺭ 
2. ﻣﯿﻞ ﺟﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺣﺴﻦ ﺳﻠﻮﮎ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ 
3. ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺳﮯ ﺁﺭﺍﺳﺘﮧ ﮐﺮﻭ۔ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﯽ ﺗﺒﻠﯿﻎ ﻣﯿﮟ ﻟﮓ ﺟﺎﺅ، ﻣﮕﺮ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﻧﮑﺎﻝ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮔﺮ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺍﮨﻤﯿﺖ ﺩﯼ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﻮ ﺁﺝ ﺷﺎﯾﺪ ﯾﮧ ﺣﺎﻻﺕ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﮯ!
https://youtu.be/ii0fxKANuD0
آج جو حالات برما میں ہیں، وہ دن دور نہیں کہ وطن عزیز میں بھی پیش آجائیں، ایسے میں
اب سوال یہ پیدا پوتا یے کہ آخر اس مسئلہ  کا حل کیا ہے؟ 
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ نے ہی اپنی ایک تقریر میں اس کی وضاحت بھی کی ہے  جو انھوں نے ۱۹۸۲ کے دوران حیدر آباد کے اندر ایسی نششت میں کی تھی جس کے اندر علمائے کرام، فضلائے مدارس، دینی اداروں اور 
تنظیموں کے سربراہ تھے؛
اقتباس ملاحظہ فرمائیے؛ 
حضرات!
علماء کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو زندگی کے حقائق، ملک کے حالات، ماحول کے تغیرات اور تقاضوں سے باخبر اور روشناس رکھیں، انکی کوشش رہنی چاہئے کہ مسلم معاشرے کا رابطہ زندگی اور ماحول سے کٹنے نہ پائے اس لئے کہ اگر دین اور مسلمانوں کا رابطہ زندگی سے کٹ گیا اور وہ خیالی دنیا میں زندگی گزارنے لگے تو پھر دین کی آواز بے اثر ہوگی اور وہ دعوت و اصلاح کا فرض انجام نہیں دے سکیں گے اور اتنا ہی نہیں ہوگا بلکہ اس دین کے حاملین کو اس ملک میں رہنا مشکل ہوجائے گا، تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جہاں علماء نے سب کچھ کیا لیکن زندگی کے حقائق سے امت کو روشناس نہیں کیا اس ماحول میں اپنے فرائض کے انجام دینے کی انھوں نے تلقین نہیں کی ایک اچھا شہری ایک مفید عنصر بننے اور اس ملک کی قیادت حاصل کرنے کی اہلیت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی وہاں اس ملک نے ان کو اس طرح اگل دیا جیسے لقمہ اگلا جاتا ہے اور ان کو اگل کر باہر پھینک دیا، اس لئے کہ انھوں نے اپنی جگہ نہیں بنائی تھی،

آج ہندوستان کے مسلمان ایک دانشمندانہ اور حقیقت پسندانہ دینی قیادت کے محتاج ہیں آپ اگر مسلمانوں کو سو فیصدی تہجد گزار بنا دیں سب کو متقی و پرہیزگار بنادیں لیکن ان کا ماحول سے کوئی تعلق نہ ہو وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ ملک کدھر جا رہا ہے، ملک ڈوب رہا ہے، ملک میں بداخلاقی وبا اور طوفان کی طرح پھیل رہی ہے ملک میں مسلمانوں سے نفرت پیدا ہو رہی ہے تو تاریخ کی شہادت ہے پھر تہجد تو تہجد پانچ وقتوں کی نمازوں کا پڑھنا بھی مشکل ہو جائے گا، اگر آپ نے دینداروں کے لیے اس ماحول میں جگہ نہیں بنائی اور ان کو ملک کا بے لوث مخلص اور شائستہ شہری ثابت نہیں کیا جو ملک کو بے راہ روی سے بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور ایک بلند کردار پیش کرتا ہے، تو آپ یاد رکھیئے کہ عبادات و نوافل اور دین کی علامتیں اور شعائر تو الگ رہے وہ وقت بھی آ سکتا ہیکہ مسجدوں کا باقی رہنا بھی مشکل ہو جائے اگر آپ نے مسلمانوں کو اجنبی بنا کر اور ماحول سے کاٹ کر رکھا، زندگی کے حقائق سے ان کی آنکھیں بند رہیں اور ملک میں ہونے والے انقلابات، نئے بننے والے قوانین، عوام کے دلوں دماغ پر حکومت کرنے والے رجحانات سے وہ بے خبر رہے تو پھر قیادت  تو الگ رہی (جو خیر امۃ کا فرض منصبی ہے ) اپنے وجود کی حفاظت بھی مشکل ہو جائے گی؛ کاروان زندگی ج ۲، ص ۳۷۳ ـ


आख़िर कौन हैं रोहिंग्या मुसलमान?
ये कहा जाता है कि दुनिया में रोहिंग्या मुसलमान ऐसा अल्पसंख्यक समुदाय है जिस पर सबसे ज़्यादा ज़ुल्म हो रहा है.
आख़िर रोहिंग्या कौन हैं? इनसे म्यांमार को क्या दिक्क़त है? ये भागकर बांग्लादेश क्यों जा रहे हैं? इन्हें अब तक नागरिकता क्यों नहीं मिली? आंग सान सू ची दुनिया भर में मानवाधिकारों की चैंपियन के रूप में जानी जाती हैं और उनके रहते यह ज़ुल्म क्यों हो रहा है? जानें सबकुछ-
रोहिंग्या कौन हैं?
म्यांमार की बहुसंख्यक आबादी बौद्ध है. म्यांमार में एक अनुमान के मुताबिक़ 10 लाख रोहिंग्या मुसलमान हैं. इन मुसलमानों के बारे में कहा जाता है कि वे मुख्य रूप से अवैध बांग्लादेशी प्रवासी हैं. सरकार ने इन्हें नागरिकता देने से इनकार कर दिया है. हालांकि ये म्यामांर में पीढ़ियों से रह रहे हैं. रखाइन स्टेट में 2012 से सांप्रदायिक हिंसा जारी है. इस हिंसा में बड़ी संख्या में लोगों की जानें गई हैं और एक लाख से ज्यादा लोग विस्थापित हुए हैं.
बड़ी संख्या में रोहिंग्या मुसलमान आज भी जर्जर कैंपो में रह रहे हैं. रोहिंग्या मुसलमानों को व्यापक पैमाने पर भेदभाव और दुर्व्यवहार का सामना करना पड़ता है. लाखों की संख्या में बिना दस्तावेज़ वाले रोहिंग्या बांग्लादेश में रह रहे हैं. इन्होंने दशकों पहले म्यांमार छोड़ दिया था.
आख़िर रखाइन राज्य में हो क्या रहा है?
म्यांमार में मौंगडोव सीमा पर 9 पुलिस अधिकारियों के मारे जाने के बाद पिछले महीने रखाइन स्टेट में सुरक्षा बलों ने बड़े पैमाने पर ऑपरेशन शुरू किया था. सरकार के कुछ अधिकारियों का दावा है कि ये हमला रोहिंग्या समुदाय के लोगों ने किया था. इसके बाद सुरक्षाबलों ने मौंगडोव ज़िला की सीमा को पूरी तरह से बंद कर दिया और एक व्यापक ऑपरेशन शुरू किया.
रोहिंग्या कार्यकर्ताओं का कहना है कि 100 से ज्यादा लोग मारे जा चुके हैं और सैकड़ों लोगों को गिरफ़्तार किया गया है. म्यामांर के सैनिकों पर मानवाधिकारों के उल्लंघन के संगीन आरोप लग रहे हैं. सैनिकों पर प्रताड़ना, बलात्कार और हत्या के आरोप लग रहे हैं. हालांकि सरकार ने इसे सिरे से खारिज कर दिया है. कहा जा रहा है कि सैनिक रोहिंग्या मुसलमानों पर हमले में हेलिकॉप्टर का भी इस्तेमाल कर रहे हैं.
क्या म्यांमार सरकार इसके लिए दोषी है?
म्यांमार में 25 वर्ष बाद पिछले साल चुनाव हुआ था. इस चुनाव में नोबेल विजेता आंग सान सू ची की पार्टी नेशनल लीग फोर डेमोक्रेसी को भारी जीत मिली थी. हालांकि संवैधानिक नियमों के कारण वह चुनाव जीतने के बाद भी राष्ट्रपति नहीं बन पाई थीं. सू ची स्टेट काउंसलर की भूमिका में हैं. हालांकि कहा जाता है कि वास्तविक कमान सू ची के हाथों में ही है. अंतरराष्ट्रीय स्तर पर सू ची निशाने पर हैं. आरोप है कि मानवाधिकारों की चैंपियन होने के बावजूद वे खामोश हैं. सरकार से सवाल पूछा जा रहा है कि आख़िर रखाइन में पत्रकारों को क्यों नहीं जाने दिया जा रहा है. राष्ट्रपति के प्रवक्ता ज़ाव हती ने कहा है कि अंतरराष्ट्रीय स्तर पर इसकी ग़लत रिपोर्टिंग हो रही है.
क्या कर रही हैं आंग सान सू ची?
आंग सान सू ची अभी अपने मुल्क की वास्तविक नेता हैं. हालांकि देश की सुरक्षा आर्म्ड फोर्सेज के हाथों में है. यदि सू ची अंतराष्ट्रीय दवाब में झुकती हैं और रखाइन स्टेट को लेकर कोई विश्वसनीय जांच कराती हैं तो उन्हें आर्मी से टकराव का जोखिम उठाना पड़ सकता है. उनकी सरकार ख़तरे में आ सकती है.
पिछले 6 हफ्तों से आंग सान सू ची पूरी तरह से चुप हैं. वह इस मामले में पत्रकारों से बात भी नहीं कर रही हैं. जब इस मामले में उन पर दबाव पड़ा तो उन्होंने कहा था कि रखाइन स्टेट में जो भी हो रहा है वह 'रूल ऑफ लॉ' के तहत है. इस मामले में अंतरराष्ट्रीय स्तर पर काफी आवाज़ उठ रही है. म्यांमार में रोहिंग्या के प्रति सहानुभूति न के बराबर है. रोहिंग्या के ख़िलाफ़ आर्मी के इस क़दम का म्यांमार में लोग जमकर समर्थन कर रहे हैं.
बांग्लादेश की आपत्ति
बांग्लादेश के विदेश मंत्रालय ने बुधवार को म्यांमार के राजदूत से इस मामले पर गहरी चिंता जताई है. बांग्लादेश ने कहा कि परेशान लोग सीमा पार कर सुरक्षित ठिकाने की तलाश में यहां आ रहे हैं.
बांग्लादेश ने कहा कि सीमा पर अनुशासन का पालन होना चाहिए. बांग्लादेश अथॉरिटी की तरफ से सीमा पार करने वालों को फिर से म्यांमार वापस भेजा जा रहा है. एमनेस्टी इंटरनेशनल ने इसकी कड़ी निंदा की है और कहा है कि यह अंतरराष्ट्रीय नियमों का उल्लंघन है.
बांग्लादेश रोहिंग्या मुसलमानों को शरणार्थी के रूप में स्वीकार नहीं कर रहा है. रोहिंग्या और शरण चाहने वाले लोग 1970 के दशक से ही म्यांमार से बांग्लादेश आ रहे हैं. इस हफ्ते की शुरुआत में ह्यूमन राइट्स वॉच ने एक सैटलाइट तस्वीर जारी की थी. इसमें बताया गया था कि पिछले 6 हफ्तों में रोहिंग्या मुसलमानों के 1,200 घरों को तोड़ दिया गया.
http://www.bbc.com/hindi/international-38101136

No comments:

Post a Comment