Monday, 11 September 2017

مالی جرمانہ اسکول کی لیٹ فیس؟

محترم المقام حضرت مفتی شکیل منصور القاسمی صاحب!
السلام  علیکم ورحمۃاللہ برکاتہ                            
جناب عالی!                 
خدمت عالیہ میں عرض ھے کہ میں انگلش میڈیم اسکول بطرز اسلامی چلانے کی کوشش کررھا ھوں جس میں کامیابی بھی حاصل ھو رھی ھے، اصولی طور پر پابندی کے ساتھ ھر ماہ متعینہ تاریخ میں تمام عملہ کی تنخواھیں ادا کر دیتا ھوں لیکن دشواری درپیش یہ ھیکہ گارجین وقت پر فیس ادا نھیں کرتے، میں نے دشواری کم سے کم پیش آئے اس لئے تاخیر سے فیس ادا کرنے پر لیٹ فیس یا جرمانہ طے کر دیا ھے اس سے کچھ سہولت تو ھے، مگر طلبا کے سرپرست اسے سود تعبیر کررھے ھیں، اس لئے واضح فرماکر مشکورھوں کہ کیا ھمارا گارجینوں سے لیٹ فیس یا تاخیر ادائگی پر جرمانہ وصول کرنا سود ھے؟
بینوا توجروا ان شآء اللہ اجرا جزیلا۔                     
والسلام                                
المستفتی:
ابو انس، بیگوسرائے
10 /09/2017

الجواب وباللہ التوفیق:
اسلام نے کسی بھی شخص کے مال کو اس کی رضامندی اور خوش دلی کے بغیر استعمال کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے.
قال اللہ تعالیٰ: ولا تأکلو أموالکم بينکم بالباطل إلاأن تکون تجارۃ عن تراض منکم.الآيۃ(النساء:۲۹)وقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: لايحل مال امریٔ مسلم إلا بطيب نفس منہ،(مسند الإمام أحمد:۳۴؍۳۹۹ ،رقم:۲۰۶۹۵، ت:شعیب أرناؤط، ط: مؤسسۃ الرسالۃ عام ۱۴۲۱ھـ٭ومسند أبويعلیٰ:۳؍۱۰۴، رقم:۱۵۰۷، ت:حسین سلیم، ط: دارالمأمون للتراث- دمشق عام۱۴۰۴ھ)
قال المظہري في تفسير’’الباطل‘‘أي بوجہ ممنوع شرعاً، کالغصب، و السرقۃ، و الخيانۃ، والقمار، والرباء، والعقود الفاسدۃ.(التفسير المظہري:۲؍۲۹۸،ت:أحمد عزو عنايۃ، ط:زکريا-ديوبند)
ارشاد نبوی ہے :
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ الْمَكِّيُّ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ حَسَنٍ الْجَارِيِّ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَارِثَةَ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَثْرِبِيٍّ قَالَ خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَلَا وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ مِنْ مَالِ أَخِيهِ شَيْءٌ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ غَنَمَ ابْنِ عَمِّي أَجْتَزِرُ مِنْهَا شَاةً فَقَالَ إِنْ لَقِيتَهَا نَعْجَةً تَحْمِلُ شَفْرَةً وَأَزْنَادًا بِخَبْتِ الْجَمِيشِ فَلَا تَهِجْهَا قَالَ يَعْنِي خَبْتَ الْجَمِيشِ أَرْضًا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْجَارِ لَيْسَ بِهَا أَنِيسٌ
مسند احمد بن حنبل 20695۔
(حضرت عمرو بن یثربی ضمری سے مروی ہے کہ میں نبی ﷺ کے اس خطبے میں شریک تھا جو نبی ﷺ نے میدان منیٰ میں دیا تھا آپ نے منجملہ دیگر باتوں کے اس خطبے میں یہ ارشاد فرمایا تھا کہ کسی شخص کے لئے اپنے بھائی کا مال اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک وہ اپنے دل کی خوشی سے اس کی اجازت نہ دے میں نے یہ سن کر بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ یہ بتائیے کہ اگر مجھے اپنے چچا زاد بھائی کا ریوڑ ملے اور میں اس میں سے ایک بکری لے کر چلاجاؤں تو کیا اس میں مجھے گناہ ہوگا۔ نبی ﷺ نے فرمایا اگر تمہیں ایسی بھیڑ ملے جو چھری اور چقماق کا تحمل کرسکتی ہو تو اسے ہاتھ بھی نہ لگانا۔)
ان نصوص کے پیش نظر احناف کا معتمد اور ائمہ ثلاثہ کا مذہب یہ ہے کہ مالی جرمانہ جائز نہیں ہے۔جس سے وصول کیا گیا ہے اس کو واپس لوٹانا ضروری ہے۔
اسکول یا مدرسہ کے نظام  (وسیع تر معنی ومفہوم میں )توڑنے کی پاداش میں جو
مالی فیس : لیٹ فیس کے نام سے یا جرمانہ کے نام سے وصول کی جاتی ہے وہ بھی اسی تعزیر مالی میں داخل ہوکر ناجائز ہے۔اگر وہ شخص جس سے فیس وصول کی گئی ہے (مثلا گارجین ) خود استعمال کی اجازت دیدیں اور واپس لینے کی بجائے اسکول میں لگادینے کی اجازت دیدیں تب تو اسکول میں لگائی جاسکتی ہے ورنہ اسے واپس کیا جائے یا ان کی رضا  کے مصارف میں خرچ کی جائے۔
ولا یکون التعزیر بأخذ المال من الجاني في المذہب۔ (مجمع الأنہر ، کتاب الحدود / باب التعزیر ۱؍۶۰۹ بیروت)
وفي شرح الآثار: التعزیر بأخذ المال کانت في ابتداء الإسلام ثم نسخ۔ (البحر الرائق /باب التعزیر41/5 )
والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال۔ (شامي / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶ زکریا)
لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي۔ (شامي / باب التعزیر، مطلب في التعزیر بأخذ المال ۶؍۱۰۶ زکریا)
’’در مختار‘‘ میں ہے: 
’’لا بأخذ مال في المذہب ۔ بحر ۔ وفیہ عن بزازیۃ ، وقیل : یجوز ، ومعناہ أن یمسکہ مدۃ لینزجر ثم یعیدہ لہ ، فإن أیس من توبتہ یصرفہا إلی ما یری ۔ وفي المجتبی : انہ کان في ابتداء الإسلام ثم نسخ ‘‘ ۔ (الدر المختار مع الشامیۃ : ۱/۳۲۶)
’’البحر الرائق‘‘ میں ہے کہ مالی جرمانہ جائز نہیں، بحر ہی میں بزازیہ کے حوالے سے یہ بھی لکھا ہے کہ بعض لوگ اس کے جواز کے قائل ہیں (جو لوگ جواز کے قائل ہیں) اُن کا مطلب یہ ہے کہ جرمانہ کے مال کو ایک مدت تک روک کر رکھا جائے، پھر صاحبِ مال کو واپس کردیا جائے، اگر جرم سے باز رہنے کی اُمید نہ ہو،تو اس کو حاکم اپنی صواب دید کے مطابق خرچ کرے۔ مجتبیٰ میں ہے کہ ابتدائے اسلام میں جائز تھا، پھر منسوخ ہوگیا۔
علامہ شامی رحمہ اللہ نے بھی اس کی وضاحت کی ہے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ کے علاوہ اور تمام أئمہ کے نزدیک تعزیر بأخذ المال ناجائز ہے، علامہ کی عبارت یہ ہے:
’’ قولہ : (لا بأخذ مال في المذہب) قال في الفتح : وعن أبي یوسف یجوز التعزیر للسلطان بأخذ المال ، وعندہما وباقي الأئمۃ لا یجوز ، ومثلہ في المعراج ، وظاہرہ أن ذلک روایۃ ضعیفۃ عند أبي یوسف ، قال في الشرنبلالیۃ : ولا یفتی بہذا لما فیہ من تسلیط الظلمۃ علی أخذ مال الناس فیأکلونہ ، ومثلہ في شرح الوہبانیۃ عن ابن وہبان ‘‘ ۔ ’’فتح القدیر‘‘میں ہے کہ امام ابو یوسف رحمہ اللہ مالی جرمانہ کو جائز سمجھتے ہیں، امام ابو حنیفہ او رامام محمد کے ساتھ بقیہ تینوں اماموں کے نزدیک جائز نہیں ہے، ’’معراج‘‘ میں بھی ایسا لکھا ہے، ظاہر یہ ہے کہ امام ابو یوسف سے جواز کی جو روایت ہے وہ ضعیف ہے ۔
اگر اسکول کا نظام فیس متاثر ہوتا ہو تو جواز کی شکل یہ ہوسکتی ہے کہ تاخیر سے فیس جمع کرنے والے طلبہ گارجین سے جو زائد رقم "تاخیر فیس" کے نام سے وصولی گئی ہے، اسے کچھ مدت کے لئے انتظامیہ اپنے پاس روکےرہے۔تاکہ دوسرے بچوں  پہ نفسیاتی دباؤ رہے۔ پھر انزجار کے بعد اس مال کو واپس کردیا جائے۔ امام ابویوسف سے جواز کی جو ضعیف روایت ہے اس کا مطلب بھی یہی ہے جیساکہ اوپر مذکور ہوا۔
وعند ابی یوسف ؒ یجوز التعزیر للسلطان باخذ المال‘ وعندہا و باقی الائمہ الثلاثہ لا یجوز کذافی فتح القدیر و معنی التعزیر باخذ المال علی القول بہ امساک شئی من مالہ عندہ مدۃ لینز جرثم یعیدہ الحاکم الیہ (عالمگیریہ‘ فصل فی التعزیر‘ ۲/۱۶۷ ط ماجدیہ کوئٹہ)
ہند-پاک کے تمام ہی مفتیوں کا فتوی بھی عدم جواز ہی کا ہے!
(تفصیل دیکھیں: فتاوی دارالعلوم دیوبند 154/12۔۔ فتاوی محمودیہ 571/22 ،347/14۔۔ کفایت المفتی 209 /2۔)۔۔۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
دس ستمبر ٢٠١٧ء

No comments:

Post a Comment