Friday, 8 September 2017

بودھوں کا 969 نمبر بمقابلہ 786

بدھ بھکشوؤں کی طرح‌ سر کے بال منڈوائے، گیروے رنگ کے ان سلے کپڑے پہنے، 20 جون 2013 ء کو ٹائم میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا،
“آپ میں محبت اور شفقت کوٹ کوٹ کر بھری ہو پھر بھی آپ ایک پاگل کتے کے ساتھ نہیں‌ سوسکتے. اگر ہم کمزور ہوگئے تو ہماری زمین تک مسلمان ہوجائے گی.‌ آشن وراتھ Ashin Wirathu یہ وہ شخص ہے جو برما کی بدھ قومی تحریک 969 کا سربراہ ہے. اس تحریک کا مقصد برما میں‌ مسلمانوں کی آبادی کوبڑھنے سے روکنا ہے. اس تحریک کا نام مہاتما بدھ کے بتائے گئے اصولوں پر رکھا ہے. 9 کا ہندسہ ان نو صفات کی جانب اشارہ کرتا ہے جو بدھ کے ساتھ منسوب ہیں، 6 کا ہندسہ بدھ دھرم کے چھ اصول ہیں اور پھر 9 کا ہندسہ بدھا سنگھا یعنی بدھ بھکشوؤں کے اوصاف کی جانب اشارہ کرتا ہے. اس تحریک کے خدوخال 1990ء کے آس پاس لکھی جانے والی کتاب میں ملتے ہیں جس برما کی وزارتِ مذہبی امورکے آفیسر کاؤلیون Kywo Luin نے تحریر کیا. اس نے علم الاعداد کی بنیاد پر اس تحریک کو مسلمانوں کے مقابل تحریک قرار دیا. اس نے لکھا کہ چونکہ مسلمان بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے اعداد 786 لکھتے ہیں اور پورے برِصغیر میں‌ وہ انہی اعداد کو اپنی تحریروں سے پہلے اور کاروباری اداروں کے باہر تحریر کرتے ہیں اس لئے ہمیں ان کے مقابلے میں‌ زیادہ طاقتور اعداد کا سہارا لینا چاہئے اور اعداد کی دنیا میں 9 سے طاقتور کوئی عدد نہیں بنتا اور اگر 9 اور 6 کوملا کر رکھا جائے تو یہ ایک پورا دائرہ بن جاتا ہے (69) یعنی آپ کو ان اعداد کی موجودگی میں شکست نہیں ہوسکتی. 969 عالمی تکوینی نظام میں 786 کا مخالف ہے. (Cosmological opposite) آشن وراتھونے سب سے پہلے مسلمانوں کی دوکانوں اور کاروبار کے بائیکاٹ کی مہم چلائی جو کامیاب ہوگئی. یہ تحریک اس قدر زورشور سے مسلمانوں کے خلاف چلائی گئی کہ پورے برما میں ایک شدت پسند گروہ منظم ہوگیا. برما ابھی تک فوجی مارشل لا کے زیرِ اثر تھا، مغرب کی لاڈلی اور نوبل انعال یافتہ آنگ سانگ سوچی ضمیر کی قیدی تھی اور برسرِ اقتدار نہیں آئی تھی لیکن جیسے ہی جمہوریت نے برما میں‌ قدم رکھا 16 مارچ 1997ء کو دوپہر ساڑھے تین بجے 969 موومنٹ کے بدھ بھکشو مسلمانوں‌ کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ان کی آبادیوں میں‌ داخل ہوئے، مسجدوں پر حملہ کیا، قرآن پاک نذرآتش کئے، گھروں‌ اور دوکانوں کو لوٹا اور مسلمان اپنے قصبہ مندالہ سے دوسرے شہر ہجرت کرگئے. چار سال بعد 2001ء میں ایسے ہی حملے تانگو شہر میں ہوئے لیکن 2012ء کے قتل عام نے دنیا بھر میں سنسنی کی لہردوڑا دی. تین جون کو 969 کے بدھ بھکشوؤں‌ نے گیارہ مسلمانوں کو بسوں سے اتارکر قتل کیا اور پھر پچاس دن تک ان کے خون کی ہولی کھیلی جاتی رہی. ٹھیک ایک سال بعد جون 2013ء‌ میں ٹائم میگزین نے اپنے سرورق پر آرشن واتھو کی ایک تصویر چھاپی اور مضمون کا نام رکھا The face of Buddhist terror، بدھ ازم کا دہشت گرد چہرہ. مضمون کے چھپتے ہی اس پر برما میں پابندی لگا دی گئی اور برما کی حکومت نے سرکاری سطح پر ٹائم میگزین سے احتجاج کیا. آشن وارتھو نے ایک بڑے جلوس سے خطاب کیا اور کہا مسلمان شدت پسند اس مضمون کے پیچھے ہیں اور برما میں جہاد کو پھیلانا چاہتے ہیں. لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکلے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈ تھے جن پرلکھا ہوا تھا وارتھونسل، زبان اور مذہب کا محافظ ہے. اس تحریک نے پوری دنیا کے بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں کو اکھٹا کرنا شروع کیا. ستمبر 2014ء میں کولمبو سری لنکا میں بدھ بھکشوؤں کی عالمی کانفرنس ہوئی جسے سری لنکا کی شدت پسند تنظیم بود بالاسینا Bodu Bala Sena نے منظم کیا. یہ تنظیم 2012 میں‌ قائم ہوئی. اپنے قیام کے فوراً بعد فروری 2013ء‌ میں اس نے حلال ذبیحہ کے سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے خلاف تحریک شروع کی. سری لنکا کے مسلمانوں کے لیے حلال گوشت فراہم کرنے کے سرٹیفیکیٹ جاری کئے جاتے تھے جسے آل سیلون جمیعت العلماء جاری کرتی تھی. بودبالاسینا نے کہا حلال گوشت کے کاروبار کرنے والوں سے فیس لی جاتی ہے جسے اسلام کی اشاعت و تبلیغ پر خرچ کیا جاتا ہے. اس طرح مسلمان سری لنکا میں ایک مذہبی خوراک کے نظام کو ترویج دے رہے ہیں. بودبالاسینا نے تمام حلال گوشت کی دوکانوں کو 17 فروری 2013ء تک وقت دیا کہ یہ سرٹیفیکیٹ سسٹم بند کرو ورنہ ہم زبردستی یہ کاروباربند کردیں‌ گے. دنگے فساد شروع ہوئے. گیارہ مارچ 2013ء کو ‌حکومت اور چیمبرآف کامرس کے افراد نے مسلمانوں کو راضی کیا کہ وہ حلال گوشت پر حلال کا سرٹیفیکیٹ چسپاں نہیں کریں گے. بود بالاسینا نے ان تمام لوگوں کو خوفزدہ کیا جو اس معاہدے میں شامل تھے اور کہا کہ حلال گوشت کے سرٹیفیکیٹ چسپاں کرنے کی بات نہیں، یہ سسٹم ہی ختم ہونا چاہئے اور 13 مارچ 2013ء‌ کو سری لنکا کی حکومت نے یہ کہہ کر جمیعت العلماء سے یہ اختیار واپس لے لیا کہ اس پر نیا قانون بنایا جائے گا جو آج تک نہیں بن سکا. 12 جون 2014ء کو مسلمانوں کے خلاف قتل و غارت شروع ہوا “دھرگہ” کے قصبے میں‌ مسلمانوں کے گھروں اور دوکانوں کو لوٹا گیا، آگ لگائی گئی، پورے قصبے کے لوگوں نے مسجد میں پناہ لی. دس ہزار بے گھر ہوگئے اور بے سروسامان بھی. آشن وارتھواس بودبالاسینا کی کانفرنس میں شریک ہوا اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا،
“مسلمان بنیادی طور پر برے ہیں. ان کا مذہب انھیں‌ ہر مخلوق کو قتل کرنے کی اجازت دیتا ہے. اسلام ایک چوروں کا مذہب ہے اور ان کی موجودگی میں زمین پر امن نہیں ہوسکتا.”
اس نے قانون کے وہ مسودے پیش کئے کہ کوئی بدھ عورت کسی غیربدھ مرد سے شادی نہیں کرسکتی اور کہا کہ یہ ہم اس لئے کررہے ہیں کہ تمام مذاہب میں امن قائم ہو. راتھو نے اپنی اس تحریک کو دنیا بھرکے بدھوں میں پھیلایا جبکہ برما اس کے نظریات کا مکمل طور پر اسیر ہوگیا. برمی پولیس، فوج اور دیگر ادارے 969 کے بھکشوؤں کے مسلمانوں کو لوٹنے آگ لگانے، قتل کرنے، خواتین سے جنسی زیادتی کرنے، بچیوں کو ہلاک کرنے میں شروع دن سے مدد دیتے رہے ہیں.
کیا روہنگیا کا مسئلہ صرف اور صرف مسلم اقلیت کا مسئلہ ہے جو وہاں‌ انادرتھ نامی بادشاہ کے زمانے 1055 عیسوی سے آباد ہے. یہ اچانک چند برسوں سے ان مسلمانوں کا خون کیوں ارزاں کردیا گیا ہے اورتمام عالمی ضمیر چپ ہے. یہاں تک کہ کوئی پڑوسی ملک بھی ان مظلوم لوگوں کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں‌ ہے. وہ زمین جس پر مسلمان آباد ہیں، اپنی زراعت خصوصاً چاول اور اپنی معدنیات خصوصاً قیمتی پتھر Jade کے لیے مشہور ہے. یہ سرزمین جو مسلمان روہنگیائی کی ملکیت ہے، وہاں والمی استعماری کنسلٹنٹ پہنچ چکے ہیں، یہ وہ Economic hitman یعنی معاشی غارت گرہیں‌ جو وہاں فیکٹریاں لگانا چاہتے ہیں اور قیمتی پتھر وہاں‌ سے لے جانا چاہتے ہیں. یہ سبز دودھیا پتھر شنگہائی اور ہانگ کانگ کے سناروں کو ارب پتی بنا سکتا ہے. گلوبل وٹنس Global Witness نے برما میں اس پتھر کی کل مالیت 31 ارب ڈالر بتائی ہے. دنیا بھر کے تاجر جن میں خصوصاً چینی تاجر شامل ہیں برما میں موجود ہیں اور اس پتھر کی اسمگلنگ کا کاروبار کرتے ہیں. مسلمان چونکہ چاول بوتے تھے تو پہلے چاول کی ایک ضلع سے دوسرے ضلع لے جانے پر پابندی لگائی گئی، پھر مسلمانوں کے کاروبار کا بائیکاٹ کیا گیا اور ‌آخر میں ان کا قتل عام! اب دہشت گرد بدھ بھکشو ان خالی کئے گئے علاقوں سے اسمگلنگ کا کاروبار کرتے ہیں. گزشتہ دنوں مئی میں جب ان مظلوم روہنگیا مسلمانوں نے ہتھیار اٹھانے کا فیصلہ کیا تو پوری دنیا کو جہاد کا خطرہ لاحق ہوگیا. یکم مئی 2017ء کو چین نے برما اور بنگلہ دیش کو اس مسئلہ میں ثالثی کی پیشکش کی. چین بنگلہ دیش میں سڑکیں اور بجلی کے منصوبے بنانے اور اسلحہ سازی میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کرچکا ہے، اسی طرح اس نے برما میں بھی ایسے منصوبوں پر سرمایہ کاری کی ہے. برما کا اراکان، بنگلہ دیش کا کاکس بازار اور چین کا یونان صوبہ وہ علاقہ ہے جو مسلمانوں پر ظلم وتشدد کے مزید دور دیکھنے والا ہے. امریکہ نے ڈیڑھ ارب ڈالر کے خرچے سے ارکان کے علاقے سے ایک پائپ لائن بچھائی ہے جو خلیج بنگال کے پانیوں سے ہوتی چین کے صوبے یونان تک جاتی ہے جہاں سے برما کے تیل کی سپلائی چین کو مہیا ہوگی اور امریکہ اس میں منافع کمائے گا. ابھی تک اس کی سپلائی شروع نہیں ہوسکی کیونکہ وہاں مسلم آبادی کا انخلاء مکمل نہیں ہوا. مسلمان نکلیں گے تو امن ہوگا اور تجارت شروع ہوگی.
سرمایہ داری کے بدمست ہاتھی اپنے مفادات کے لئے روہنگیا مسلمانوں کا خون کروارہے ہیں. عالمی ضمیر کے یہ ٹھیکیدار لوٹ مار میں متحد ہیں پوری دنیا میں رنگ ونسل، زبان بلکہ کسی اورمذہب کے نام پر بھی آپ قتل عام کریں، آپ دہشت گرد نہیں. لیکن امریکہ کا ڈونلڈ ٹرمپ بھی اور چین، روس سمیت برکس کے ممالک بھی مسلمانوں کو دہشت گرد کہیں گے. کیا یہ امت خطرہ بھانپ رہی ہے؟
اوریا مقبول جان
ستمبر 6, 2017

Full Text Of The Banned Time Story – “The Face Of Buddhist Terror”

Sri Lanka on Tuesday banned the sale of the latest issue of Time magazine because of the newsweekly’s feature article on terrorism, describing recent clashes between Buddhists and Muslims.

We publish below the Full text of the cover story “The Face of Buddhist Terror” in July 01, 2013 TIME magazine;

The Face of Buddhist Terror
It’s a faith famous for its pacifism and tolerance. But in several of Asia’s Buddhist-majority nations, monks are inciting bigotry and violence — mostly against Muslims

By Hannah Beech / Meikhtila, Burma, And Pattani, Thailand 

His face as still and serene as a statue’s, the Buddhist monk who has taken the title “the Burmese bin Laden” begins his sermon. Hundreds of worshippers sit before him, palms pressed together, sweat trickling down their sticky backs. On cue, the crowd chants with the man in burgundy robes, the mantras drifting through the sultry air of a temple in Mandalay, Burma’s second biggest city after Rangoon. It seems a peaceful scene, but Wirathu’s message crackles with hate. “Now is not the time for calm,” the monk intones, as he spends 90 minutes describing the many ways in which he detests the minority Muslims in this Buddhist-majority land. “Now is the time to rise up, to make your blood boil.”

Buddhist blood is boiling in Burma, also known as Myanmar–and plenty of Muslim blood is being spilled. Over the past year, Buddhist mobs have targeted members of the minority faith, and incendiary rhetoric from Wirathu–he goes by one name–and other hard-line monks is fanning the flames of religious chauvinism. Scores of Muslims have been killed, according to government statistics, although international human-rights workers put the number in the hundreds. Much of the violence is directed at the Rohingya, a largely stateless Muslim group in Burma’s far west that the U.N. calls one of the world’s most persecuted people. The communal bloodshed has spread to central Burma, where Wirathu, 46, lives and preaches his virulent sermons. The radical monk sees Muslims, who make up at least 5% of Burma’s estimated 60 million people, as a threat to the country and its culture. “[Muslims] are breeding so fast, and they are stealing our women, raping them,” he tells me. “They would like to occupy our country, but I won’t let them. We must keep Myanmar Buddhist.”

Such hate speech threatens the delicate political ecosystem in a country peopled by at least 135 ethnic groups that has only recently been unshackled from nearly half a century of military rule. Already some government officials are calling for implementation of a ban, rarely enforced during the military era, on Rohingya women’s bearing more than two children. And many Christians in the country’s north say recent fighting between the Burmese military and Kachin insurgents, who are mostly Christian, was exacerbated by the widening religious divide.

Radical Buddhism is thriving in other parts of Asia too. This year in Sri Lanka, Buddhist nationalist groups with links to high-ranking officialdom have gained prominence, with monks helping orchestrate the destruction of Muslim and Christian property. And in Thailand’s deep south, where a Muslim insurgency has claimed some 5,000 lives since 2004, the Thai army trains civilian militias and often accompanies Buddhist monks when they leave their temples. The commingling of soldiers and monks–some of whom have armed themselves–only heightens the alienation felt by Thailand’s minority Muslims.

Although each nation’s history dictates the course radical Buddhism has taken within its borders, growing access to the Internet means that prejudice and rumors are instantly inflamed with each Facebook post or tweet. Violence can easily spill across borders. In Malaysia, where hundreds of thousands of Burmese migrants work, several Buddhist Burmese were killed in June–likely in retribution, Malaysian authorities say, for the deaths of Muslims back in Burma.

In the reckoning of religious extremism–Hindu nationalists, Muslim militants, fundamentalist Christians, ultra-Orthodox Jews–Buddhism has largely escaped trial. To much of the world, it is synonymous with nonviolence and loving kindness, concepts propagated by Siddhartha Gautama, the Buddha, 2,500 years ago. But like adherents of any other religion, Buddhists and their holy men are not immune to politics and, on occasion, the lure of sectarian chauvinism. When Asia rose up against empire and oppression, Buddhist monks, with their moral command and plentiful numbers, led anticolonial movements. Some starved themselves for their cause, their sunken flesh and protruding ribs underlining their sacrifice for the laity. Perhaps most iconic is the image of Thich Quang Duc, a Vietnamese monk sitting in the lotus position, wrapped in flames, as he burned to death in Saigon while protesting the repressive South Vietnamese regime 50 years ago. In 2007, Buddhist monks led a foiled democratic uprising in Burma: images of columns of clerics bearing upturned alms bowls, marching peacefully in protest against the junta, earned sympathy around the world, if not from the soldiers who slaughtered them. But where does political activism end and political militancy begin? Every religion can be twisted into a destructive force poisoned by ideas that are antithetical to its foundations. Now it’s Buddhism’s turn.

Mantra of Hate

Sitting cross-legged on a raised platform at the New Masoeyein monastery in Mandalay, next to a wall covered by life-size portraits of himself, the Burmese bin Laden expounds on his worldview. U.S. President Barack Obama has “been tainted by black Muslim blood.” Arabs have hijacked the U.N., he believes, although he sees no irony in linking his name to that of an Arab terrorist. About 90% of Muslims in Burma are “radical, bad people,” says Wirathu, who was jailed for seven years for his role in inciting anti-Muslim pogroms in 2003. He now leads a movement called 969–the figure represents various attributes of the Buddha–which calls on Buddhists to fraternize only among themselves and shun people of other faiths. “Taking care of our own religion and race is more important than democracy,” says Wirathu.

It would be easy to dismiss Wirathu as an outlier with little doctrinal basis for his bigotry. But he is charismatic and powerful, and his message resonates. Among the country’s majority Bamar ethnic group, as well as across Buddhist parts of Asia, there’s a vague sense that their religion is under siege–that Islam, having centuries ago conquered the Buddhist lands of Indonesia, Malaysia, Pakistan and Afghanistan, now seeks new territory. Even without proof, Buddhist nationalists stoke fears that local Muslim populations are increasing faster than their own, and they worry about Middle Eastern money pouring in to build new mosques.

In Burma, the democratization process that began in 2011 with the junta’s giving way to a quasi-civilian government has also allowed extremist voices to proliferate. The trouble began last year in the far west, where machete-wielding Buddhist hordes attacked Rohingya villages; 70 Muslims were slaughtered in a daylong massacre in one hamlet, according to Human Rights Watch. The government has done little to check the violence, which has since migrated to other parts of the country. In late March, the central town of Meikhtila burned for days, with entire Muslim quarters razed by Buddhist mobs after a monk was killed by Muslims. (The official death toll: two Buddhists and at least 40 Muslims.) Thousands of Muslims are still crammed into refugee camps that journalists are forbidden to enter. In the shadow of a burned-down mosque, I was able to meet the family of Abdul Razak Shahban, one of at least 20 students at a local Islamic school who were killed. “My son was killed because he was Muslim, nothing else,” Razak’s mother Rahamabi told me.

Temple and State

In the deep south of Burma’s neighbor Thailand, it is the Buddhists who complain of being targeted for their faith. This part of the country used to be part of a Malay sultanate before staunchly Buddhist Thailand annexed it early last century, and Muslims make up at least 80% of the population. Since a separatist insurgency intensified in 2004, many Buddhists have been targeted because their positions–such as teachers, soldiers and government workers–are linked with the Thai state. Dozens of monks have been attacked too. Now the Buddhists have overwhelming superiority in arms: the Thai military and other security forces have moved into the wat, as Thai Buddhist temples are known.

If Buddhists feel more protected by the presence of soldiers in their temples, it sends quite another signal to the Muslim population. “[The] state is wedding religion to the military,” says Michael Jerryson, an assistant professor of religious studies at Youngstown State University in Ohio and author of a book about Buddhism’s role in the southern-Thailand conflict. Muslims too are scared: more of them have perished in the violence than Buddhists. (By proportion of population, more Buddhists have died, however.) Yet Buddhists are the ones who receive the greater state protection, and I listen to monk after monk heighten tensions by telling me that Muslims are using mosques to store weapons or that every imam carries a gun. “Islam is a religion of violence,” says Phratong Jiratamo, a former marine turned monk in the town of Pattani. “Everyone knows this.”

It’s a sentiment the Burmese bin Laden would endorse. I ask Wirathu how he reconciles the peaceful sutras of his faith with the anti-Muslim violence spreading across his Bamar-majority homeland. “In Buddhism, we are not allowed to go on the offensive,” he tells me, as if he is lecturing a child. “But we have every right to protect and defend our community.” Later, as he preaches to an evening crowd, I listen to him compel smiling housewives, students, teachers, grandmothers and others to repeat after him, “I will sacrifice myself for the Bamar race.” It’s hard to imagine that the Buddha would have approved.

– Time-

Related stories;

The Face Of Buddhist Terror: Sri Lanka To Ban Time Magazin

https://www.colombotelegraph.com/index.php/full-text-of-the-banned-time-story-the-face-of-buddhist-terror/
.........................



How Israel is helping Myanmar army against Rohingya


http://m.timesofindia.com/articleshow_comments/60404954.cms
............
How Israel is helping Myanmar army against Rohingya
Israel has refused to stop supplying arms to the Myanmar army, which human rights groups say is involved in the ethnic cleansing of Rohingya Muslims+ , saying, "the matter is clearly diplomatic", reported online news portal Middle East Eye (MEE).
Not just that, Israeli arms companies like TAR Ideal Concepts have even trained Myanmar's special forces in Rakhine state where most of the violence against the Rohingya has taken place, added MEE.
The weapons Israel has sold Myanmar include more than a 100 tanks, and weapons and boats used to police its border, said human rights groups and Burmese officials.

Notably, the US and the European Union (EU) have an arms embargo on Myanmar. The US cites the International Religious Freedom Act and uses the embargo on countries that have "engaged in or tolerated particularly severe violations of religious freedom".
The EU's embargo on Myanmar refers to the ban on sales of "equipment which might be used for internal repression".
In the latest bout of violence that began August 25, and that was triggered by an attack on Myanmar police posts, at least 400 Rohingya have been killed, and as many as 146,000 have made their way, starving and terrified, to Bangladesh, reported the Associated Press. Satellite images show dozens of Rohingya villages burned to the ground by the Myanmar army, agencies reported. On Tuesday, even the UN Secretary-General, Antonio Guterres, expressed concern the violence could spiral into a "humanitarian catastrophe".
Last December, Israeli lawyers and human rights activists wrote to their country's defence ministry urging it to suspend a military shipment ordered by the Myanmar Army. They said Myanmar still commits human rights abuses against minority groups, reported The Irrawaddy, a website run by exiles from Myanmar in Thailand.
"It is surprising that the State of Israel, while struggling for continued sanctions against Iran, has no qualms about ignoring the US and EU sanctions against Burma for the most severe crimes being committed there," read the letter.
In January this year, following visits by Israeli officials to Myanmar and vice versa, to discuss arms deals, activists in Israel filed a petition urging their government to stop arms exports to Myanmar.
The petition is expected to be heard later this month, but in March, in a preliminary reply, the Israeli defence ministry said the court had no jurisdiction over the issue. The ministry said arms sales to Myanmar were "clearly diplomatic", reported MEE.
Myanmar-Israel ties
In fact, diplomatic and military ties between Israel and Myanmar flourished even during the military dictatorship in the latter, said Ofer Neiman, an Israeli human rights activist, to MEE.
In September 2015, two months before the country's first election in 25 years, one of the heads of the then Myanmar junta, General Min Aung Hlaing, who's now chief of the armed forces, visited Israel on a "shopping trip" of Israeli military manufacturers, reported Israel's Haaretz. His delegation met President Reuven Rivlin and other military officials including the army's chief of staff. Hlaing also visited military bases and defense contractors Elbit Systems and Elta Systems, added Haaretz
In June 2015, the head of Israel's defence export department Gen Michel Ben Baruch visited Burma and met with leaders of the Burma Army, reported The Irawaddy.
Israel's relationship to Myanmar is linked to Israel's ongoing occupation of Palestinian territory in the West Bank, said Neiman, Neiman, the Israeli human rights activist, to MEE.


"It's not at all surprising that the latest escalation in Myanmar's genocide of the Rohingya has not moved the Israeli state to cease its supply of weapons to Myanmar's military," said Penny Green, director of the International State Crime Initiative at London's Queen Mary University, to MEE.
"Its own record of violence and terror against the Palestinian people of Gaza is clear enough evidence that the Israeli government is unmoved by ethical concerns and human rights," added Green.



http://timesofindia.indiatimes.com/world/south-asia/how-israel-is-helping-myanmar-army-against-rohingya/articleshow/60404954.cms
......................


Whither India: Good Terrorism Of December 1992 Vs Bad Terrorism Of January 1993 | ummid.com
Click below to read more 
http://ummid.com/news/2017/September/08.09.2017/good-terrorism-of-dec-1992-and-bad-terrorism-of-jan-bombay-blast.html#.WbLN9SUFm9w.whatsapp
htt

No comments:

Post a Comment