Tuesday 5 September 2017

بنی اسرائیل کے عابد کی پانچ سو سال عبادت

بنی اسرائیل کے ایک عابد و زاہد کی پانچ سو سال عبادت کا عجیب واقعہ

حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللّٰہ (م1403ھ/1983ء) فرماتے ہیں؛
حدیث پاک میں ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے. بنی اسرائیل کے ایک عابدو زاہد شخص کا.....
اور یہ حدیث علّامہ جلال الدین سیُوطی رحمہ اللّٰہ نے نقل کی ہے ....
بنی اسرائیل میں ایک بہت بڑا عابدو زاہد شخص تھا، رات دن اللّٰہ کی عبادت کرتا تھا. چونکہ صاحب ِعیال تھا، اس لئے کمانے کا بھی کچھ دھندا تھا، دُکان کی صورت میں تھوڑی سی تجارت تھی مگر اس کا دل اس سے اُلجھا تھا اور چاہتا تھا کہ یہ سب کچھ نہ ہو. بس ہر وقت عبادت میں ہی لگارہوں مگر سوچتا کہ بیوی بچوں کا کیا کرے بہرحال ایک دن اسے جذبہ آیا اور ساری تجارت و دولت کو اس نے بیوی بچوں کے نام کیا اور خود فارغ ہوگیا اور سب سے رخصت ہوکر سمندر کے بیچ میں پہنچ گیا. وہاں ایک ٹیلہ تھا، اس میں ایک چھوٹی سی جھونپڑی باندھی کہ اب ہر وقت اس میں بیٹھ کر اللّٰہ کی عبادت میں مصروف رہوں گا (ان مذاہب میں رہبانیّت جائز تھی یعنی ساری دنیا کو آدمی چھوڑچھاڑکر ایک کونے میں جابیٹھے. اسلام نے اس کی اجازت نہیں دی) یہ شخص اپنے مذہب کے مطابق جاکر بیٹھ گیا گویا اس نے بڑی بھاری عبادت کی چونکہ مخلص تھا اور صاحبِ دل تھا اس لئے سمندر کے بیچ والے ٹیلے پر جہاں کوئی جہاز کشتی وغیرہ نہ آجاسکے .....
حق تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے ایک میٹھا چشمہ جاری کردیا. اور اُسی ٹیلہ پر ایک انار کا درخت اُگا دیا. اس عابد کا کام یہ تھا کہ روزانہ ایک انار کھالیا اور ایک کٹورہ پانی لیا اور چوبیس گھنٹے عبادت میں مصروف...
دن رات اسی طرح گزرتے گئے اس کی عمر پانچ سو برس ہوئی اور یہ پانچ سو برس اسی شان سے گُزرے، اب اس کے انتقال کا وقت آیا. اس نے حق تعالٰی سے درخواست کی کہ اے اللّٰہ تیرا فضل تھا کہ تو نے مجھے عبادت میں لگایا، اب میری خواہش ہے کہ مجھے سجدے کی حالت میں موت دیجئے تاکہ میرا خاتمہ عبادت کے اُوپر ہو اور دوسری درخواست یہ ہے کہ سجدے کی حالت میں میرے بدن کو قیامت تک محفوظ رکھئے گا، نہ زمین کھائے اور نہ کیڑے مکوڑے کھائیں تاکہ قیامت تک میں تیرا عبادت گزار بندہ ہی سمجھا جاؤں حق تعالٰی نے اسکی دونوں دعائیں قبول فرمائیں.
عین نماز کے اندر سجدے کی حالت میں انتقال ہوا اور اس کا بدن محفوظ ہے. حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آج تک محفوظ ہے لیکن حق تعالٰی نے اس ٹیلے کے اوپر بڑے بڑے گنجان درخت ایسے اگا دیئے ہیں کہ وہاں تک جاتے ہوئے ہیبت کھاتے ہیں اس لئے وہاں کوئی نہیں جاتا ہے. مگر بدن آج تک محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا. وہاں نہ کوئی جانور جاتا اور نہ کوئی انسان جاتا ہے۔ اسی حالت حق تعالٰی کے سامنے اس کی پیشی ہوگی. حق تعالی ارشاد فرمائیں گے کہ اے بندے میں نے اپنے فضل و کرم سے تجھے بخشا اور تجھے بڑے مقامات دیئے جنت میں جا، آرام کر،  وہ بندہ عرض کرےگا کہ اے اللہ میں نے تو ساری عمر تیری عبادت میں گزاری پھر بھی تیرے فضل سے جنت میں جاؤں گا؟ میں تو اپنی عبادت کے بدلے جنت میں جارہا ہوں.  اللہ فرمائیں گے کہ نہیں ہم اپنے فضل سے جنت میں بھیج رہے ہیں. وہ پھر کہے گا کہ نہیں اے اللہ پھر میری عبادت کس کام آئے گی میں تو اپنی عبادت کے بدلے جنت میں جا رہا ہوں ... اللہ حکم دیں گے اسے جہنم کے قریب لے جاکر کھڑا کردو. جہنم میں داخل نہ کرنا اسے اتنی دور رکھو کہ جہنم کا راستہ وہاں سے پانچ سو برس کا ہو ملائکہ اسے لے جائیں گے اور لے جا کر کھڑا کردیں گے. جہنم کی طرف سے ایک گرم ہوا اور آگ کی لپٹ آئے گی اس کی وجہ سے وہ سر اے پاؤں تک خشک ہوجائے گا اور اسکی زبان پر کانٹے کھڑے ہوجائیں گے اور پیاس پیاس چلانا شروع کر دے گا اس وقت غیبی ہاتھ ظاہر ہوگا جس میں ٹھنڈے پانی کا کٹورا ہوگا، یہ عابد دوڑے گا اور کہے گا کہ اے خدا کے بندے یہ پانی مجھےدے دے میں بالکل مرنے کے حال میں ہوں- آواز آئے گی کہ پانی کا کٹورا تو تجھے ملے گا لیکن اس پانی کے کٹورے کی قیمت ہے مفت نہیں ملے گا. وہ پوچھے گا اس کی کیا قیمت ہے؟
کہا جائے گا اس کی قیمت خالص پانچ سو سال کی عبادت ہے وہ اگر کوئی پیش کردے تو یہ پانی کا کٹورا اسے مل جائے گا.
وہ عابد کہےگا کہ میرے پاس ہے پانچ سو برس کی عبادت.
وہ عبادت دے کر پانی کا کٹورا لے لے گا. پانی پی کر کچھ جان میں جان آئے گی.
حق تعالٰی فرمائیں گے اسے واپس لاؤ پھر اس کی پیشی ہوگی. حق تعالٰی دریافت فرمائیں گے کہ اے بندے تیری پانچ سو سال کی عبادت کے صلے میں تو ہم آزاد ہوگئے پانچ سو برس کی عبادت کے بدلہ ایک کٹورا پانی لے لیا اور یی قیمت تو نے خود تجویز کی لہٰذا اب تو برابر سرابر ہوگیا تیری عبادت کا صلہ تجھے مل گیا.
اب وہ جو تو نے لاکھوں دانے انار کے کھائے اس ایک ایک دانے کا حساب دے اس کے بدلے میں کتنی نمازیں پڑھی ہیں؟ کتنے سجدے کئے ہیں اور وہ جو ہزاروں کٹورے پانی کے پئے ہیں ایک ایک قطرے کا حساب دے.  اُس پانی کے بدلہ کتنی عبادات کی ہیں؟  اور وہ جو ٹھنڈا سانس لیتا، جس سے زندگی قائم تھی، ایک ایک سانس کا حساب دے کہ اُس کے بدلہ کیا عبادات لیکر آیا ہے؟ اور وہ جو تیری آنکھوں میں ہم نے روشنی دی تھی تو تا حدِنگاہ ایک ایک چیز  کو دیکھتا تھا. ایک ایک تارِ نگاہ کا حساب دے اس کے بدلے کتنی نیکیاں لایا ہے؟ پانچ سو برس کی عبادت کا صلہ تو ایک کٹورا پانی ہوگیا. اب جو دوسری نعمتیں استعمال کی ہیں، ان کا حساب دے. یہ عابد پتھرا جائے گا اور کہے گا کہ بیشک اے اللہ نجات آپ ہی کے فضل سے ہوگی. کسی کا عمل کسی کو بھی نجات نہیں دلائے گا. حقیقت یہ ہے کہ اگر لاکھوں برس عبادت کرے گا تو وہ بھی ذریعہ نجات نہیں بن سکے گی جب تک کہ فضلِ خدا وندی نہ ہو.......
#جواہرپارےجلداوّل ص 29
بحوالہ فضائلِ تقویٰ ص31
.................

قصة و عبرة (عابد بني اسرائيل و خطوات الشَّيْطَان)
القصة مذكورة و منقولة من كتاب "ذم الهوى" للإمام ابن الجوزي -رحمه الله-: (في باب التحذير من فتنة النساء)

بِسْم الله الرحمان الرحيم:

(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ نَاصِرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ خَيْرُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو عَلِيِّ بْنِ شَاذَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو عَلِيٍّ الطُّومَارِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ الْبَرَاءِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمُنْعِمِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ :
ذَكَرَ وَهْبُ بْنُ مُنَبِّهٍ أَنَّ " عَابِدًا كَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، وَكَانَ مِنْ أَعْبَدِ أَهْلِ زَمَانِهِ ، وَكَانَ فِي زَمَانِهِ ثَلاثَةُ إِخْوَةٌ لَهُمْ أُخْتٌ ، وَكَانَتْ بِكْرًا ،

فَخَرَجَ الْبَعْثُ عَلَيْهِمْ ، فَلَمْ يَدْرُوا عِنْدَ مَنْ يُخَلِّفُونَ أُخْتَهُمْ ، وَلا مَنْ يَأْمَنُونَ عَلَيْهَا ، وَلا عِنْدَ مَنْ يَضَعُونَهَا ، فَأَجْمَعَ رَأْيُهُمْ عَلَى أَنْ يُخَلِّفُوهَا عِنْدَ عَابِدِ بَنِي إِسْرَائِيلَ ، فَأَتَوْهُ فَسَأَلُوهُ أَنْ يَخَلِّفُوهَا عِنْدَهُ ، فَتَكُونَ فِي كَنَفِهِ ، وَجِوَارِهِ حَتَّى يَرْجِعُوا ، فَأَبَى ذَلِكَ ، وَتَعَوَّذَ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْهُمْ ، وَمِنْ أُخْتِهِمْ ، فَلَمْ يَزَالُوا بِهِ حَتَّى أَطَاعَهُمْ ، فَقَالَ : أَنْزِلُوهَا فِي بَيْتٍ حِذَاءَ صَوْمَعَتِي ،

فَأَنْزَلُوهَا فِي ذَلِكَ الْبَيْتِ ، ثُمَّ انْطَلَقُوا ، وَتَرَكُوهَا ، فَمَكَثَتْ فِي جِوَارِ ذَلِكَ الْعَابِدِ زَمَانًا يَنْزِلُ إِلَيْهَا بِالطَّعَامِ مِنْ صَوْمَعَتِهِ ، فَيَضَعَهُ عِنْدَ بَابِ الصَّوْمَعَةِ ، ثُمَّ يُغْلِقُ بَابَهُ ، وَيَصْعَدُ فِي صَوْمَعَتِهِ ، ثُمَّ يَأْمُرُهَا فَتَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهَا فَتَأْخُذْ مَا وَضَعَ لَهَا مِنَ الطَّعَامِ ، قَالَ : فَتَلَطَّفَ لَهُ الشَّيْطَانُ ، فَلَمْ يَزَلْ يُرَغِّبُهُ فِي الْخَيْرِ ، وَيُعَظِّمُ عِنْدَهُ خُرُوجَ الْجَارِيَةِ مِنْ بَيْتِهَا نَهَارًا ، وَيُخَوِّفُهُ أَنْ يَرَاهَا أَحَدٌ فَيَعْلَقُهَا ، فَلَوْ مَشَيْتَ بِطَعَامِهَا حَتَّى تَضَعَهُ عَلَى بَابِ بَيْتِهَا كَانَ أَعْظَمَ لأَجْرِكَ ، فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى مَشَى بِطَعَامِهَا حَتَّى وَضَعَهُ عَلَى بَابِ بَيْتِهَا وَلا يُكَلِّمُهَا ،

قَالَ : فَلَبِثَ بِذَلِكَ زَمَانًا ، ثُمَّ جَاءَهُ إِبْلِيسُ فَرَغَّبَهُ فِي الْخَيْرِ وَالأَجْرِ وَحَضَّهُ عَلَيْهِ ، وَقَالَ لَهُ لَوْ كُنْتَ تَمْشِي إِلَيْهَا بِطَعَامِهَا حَتَّى تَضَعَهُ فِي بَيْتِهَا كَانَ أَعْظَمُ لأَجْرِكَ ،
قَالَ : فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى مَشَى إِلَيْهَا بِطَعَامِهَا فَوَضَعَهُ فِي بَيْتِهَا ،

قَالَ : فَلَبِثَ بِذَلِكَ زَمَانًا ، ثُمَّ جَاءَهُ إِبْلِيسُ فَرَغَّبَهُ فِي الْخَيْرِ ، وَحَضَّهُ عَلَيْهِ ، وَقَالَ لَهُ ، لَوْ كُنْتَ تُكَلِّمُهَا وَتُحَدِّثُهَا فَتَأْنَسَ بِحَدِيثِكَ ، فَإِنَّهَا قَدِ اسْتَوْحَشَتْ وَحْشَةً شَدِيدَةً ،
قَالَ : فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى حَدَّثَهَا زَمَانًا يَطَّلِعُ إِلَيْهَا مِنْ فَوْقِ صَوْمَعَتِهِ ،

قَالَ : ثُمَّ أَتَاهُ إِبْلِيسُ بَعْدَ ذَلِكَ ، فَقَالَ لَوْ كُنْتَ تَنْزِلُ إِلَيْهَا فَتَقْعُدُ عَلَى بَابِ صَوْمَعَتِكَ ، وَتَقْعُدُ هِيَ عَلَى بَابِ بَيْتِهَا ، فَتُحَدِّثُكَ كَانَ آنَسَ لَهَا ، فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى أَنْزَلَهُ فَأَجْلَسَهُ عَلَى بَابِ صَوْمَعَتِهِ ، يُحَدِّثُهَا وَتَخْرُجُ الْجَارِيَةُ مِنْ بَيْتِهَا حَتَّى تَقْعُدَ عَلَى بَابِ بَيْتِهَا ، قَالَ : فَلَبِثَا زَمَانًا يَتَحَدَّثَانِ : ثُمَّ جَاءَهُ إِبْلِيسُ فَرَغَّبَهُ فِي الْخَيْرِ وَالثَّوَابِ ، فِيمَا يَصْنَعُ بِهَا ، فَقَالَ لَوْ خَرَجْتَ مِنْ بَابِ صَوْمَعَتِكَ ، فَجَلَسْتَ قَرِيبًا مِنْ بَابِ بَيْتِهَا فَحَدَّثْتَهَا ، كَانَ آنَسَ لَهَا ، فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى فَعَلَ ، فَلَبِثَا بِذَلِكَ زَمَانًا ثُمَّ جَاءَهُ إِبْلِيسُ ، فَقَالَ لَوْ دَنَوْتَ مِنْ بَابِ بَيْتِهَا ، ثُمَّ قَالَ : لَوْ دَخَلْتَ الْبَيْتَ فَحَدَّثَتْهَا ، وَلَمْ تَتْرُكْهَا تُبْرِزُ وَجْهَهَا لأَحَدٍ كَانَ أَحْسَنَ ،

فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حَتَّى دَخَلَ الْبَيْتَ ، فَجَعَلَ يُحَدِّثُهَا نَهَارَهُ كُلَّهُ ، فَإِذَا أَمْسَى صَعَدَ فِي صَوْمَعَتِهِ ، قَالَ : ثُمَّ أَتَاهُ إِبْلِيسُ بَعْدَ ذَلِكَ ، فَلَمْ يَزَلْ يُزَيِّنُهَا لَهُ حَتَّى ضَرَبَ الْعَابِدُ عَلَى فَخْذِهَا ، وَقَبَّلَهَا فَلَمْ يَزَلْ بِهِ إِبْلِيسُ يُحَسِّنُهَا فِي عَيْنِهِ ، وَيُسَوِّلُ لَهُ حَتَّى وَقَعَ عَلَيْهَا ، فَأَحْبَلَهَا فَوَلَدَتْ غُلامًا ، فَجَاءَهُ إِبْلِيسُ ، فَقَالَ لَهُ : أَرَأَيْتَ إِنْ جَاءَ إِخْوَةُ هَذِهِ الْجَارِيَةِ ، وَقَدْ وَلَدَتْ مِنْكَ كَيْفَ تَصْنَعُ ، لا آمَنُ أَنْ تَفْتَضِحَ ، أَوْ يَفْضَحُوكَ ، فَاعْمَدْ إِلَى ابْنِهَا فَاذْبَحْهُ وَادْفِنْهُ ، فَإِنَّهَا سَتَكْتُمُ ذَلِكَ عَلَيْكَ مَخَافَةَ إِخْوَتِهَا ، أَنْ يَطَّلِعُوا عَلَى مَا صَنَعْتَ بِهَا ، فَفَعَلَ ، فَقَالَ لَهُ : أَتَرَاهَا تَكْتُمُ إِخْوَتَهَا مَا صَنَعْتَ بِهَا ، خُذْهَا فَاذْبَحْهَا وَادْفِنْهَا مَعَ ابْنِهَا ، فَذَبَحَهَا ، وَأَلْقَاهَا فِي الْحُفَيْرَةِ مَعَ ابْنِهَا ، وَأَطْبَقَ عَلَيْهَا صَخْرَةً عَظِيمَةً ، وَسَوَّى عَلَيْهِمَا ، وَصَعَدَ إِلَى صَوْمَعَتِهِ يَتَعَبَّدُ ،

فَمَكَثَ بِذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ ، حَتَّى قَفَلَ إِخْوَتُهَا مِنَ الْغَزْوِ فَجَاءُوهُ فَسَأَلُوهُ عَنْ أُخْتِهِمْ ، فَنَعَاهَا لَهُمْ ، وَتَرَحَّمَ عَلَيْهَا ، وَبَكَاهَا ، وَقَالَ : كَانَتْ خَيْرَ امْرَأَةٍ ، وَهَذَا قَبْرُهَا ، فَانْظُرُوا إِلَيْهِ ، فَأَتَى إِخْوَتُهَا الْقَبْرَ ، فَبَكَوْا أُخْتَهُمْ وَتَرَحَّمُوا عَلَيْهَا ، وَأَقَامُوا عَلَى قَبْرِهَا أَيَّامًا ، ثُمَّ انْصَرَفُوا إِلَى أَهَالِيهِمْ ،

قَالَ : فَلَمَّا جَنَّهُمُ اللَّيْلُ ، وَأَخَذُوا مَضَاجِعَهُمْ أَتَاهُمُ الشَّيْطَانُ فِي النَّوْمِ فَبَدَأَ بِأَكْبَرِهِمْ ، فَسَأَلَهُ عَنْ أُخْتِهِمْ فَأَخْبَرَهُ بِقَوْلِ الْعَابِدِ : وَبِمَوْتِهَا ، فَكَذَّبَهُ الشَّيْطَانُ ، وَقَالَ : لَمْ يَصْدُقَكُمْ أَمْرَ أُخْتِكُمْ إِنَّهُ أَحْبَلَ أُخْتَكُمْ ، وَوَلَدَتْ مِنْهُ غُلامًا فَذَبَحَهُ ، وَذَبَحَهَا مَعَهُ فَرَقًا مِنْكُمْ ، فَأَلْقَاهَا فِي حُفَيْرَةٍ خَلْفَ بَابِ الْبَيْتِ ، وَأَتَى الأَوْسَطَ فِي مَنَامِهِ ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ ، ثُمَّ أَتَى الأَصْغَرَ ، فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ ،

فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ الْقَوْمُ اسْتَيْقَظُوا مُتَعَجِّبِينَ لِمَا رَأَى كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمْ ، فَأَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ ، يَقُولُ : رَأَيْتُ عَجَبًا ، فَأَخْبَرَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا بِمَا رَأَى ، فَقَالَ كَبِيرُهُمْ : هَذَا حُلْمٌ ، لَيْسَ هَذَا بِشَيْءٍ ، فَامْضُوا بِنَا ، وَدَعُوا هَذَا ، قَالَ أَصْغَرُهُمْ لا أَمْضِي حَتَّى آتِيَ ذَلِكَ الْمَكَانَ فَأَنْظُرَ إِلَيْهِ ، فَانْطَلَقُوا وَبَحَثُوا الْمَوْضِعَ ، فَوَجَدُوا أُخْتَهُمْ وَابْنَهَا مَذْبُوحَيْنِ ، فَسَأَلُوا عَنْهَا الْعَابِدَ ، فَصَدَّقَ قَوْلَ إِبْلِيسَ فِيمَا صَنَعَ بِهَا ، فَاسْتَعْدَوْا عَلَيْهِ مَلِكَهُمْ ، فَأُنْزِلَ مِنْ صَوْمَعَتِهِ ، وَقَدَّمُوهُ لِيُصْلَبَ ، فَلَمَّا أَوْقَفُوهُ عَلَى الْخَشَبَةِ ، أَتَاهُ الشَّيْطَانُ ، فَقَالَ : قَدْ عَلِمْتَ أَنِّي صَاحِبُكَ الَّذِي قَدْ فَتَنْتُكَ فِي الْمَرْأَةِ حَتَّى أَحْبَلْتَهَا وَذَبَحْتَهَا وَابْنَهَا ، فَإِنْ أَنْتَ أطَعْتَنِي الْيَوْمَ وَكَفَرْتَ بِاللَّهِ الَّذِي خَلَقَكَ خَلَّصْتُكَ مِمَّا أَنْتَ فِيهِ ، فَكَفَرَ الْعَابِدُ بِاللَّهِ ، فَلَمَّا كَفَرَ خَلَّى الشَّيْطَانُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَصْحَابِهِ فَصَلَبُوهُ ،

قَالَ : فَعِنْدَ ذَلِكَ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ{ كَمَثَلِ الشَّيْطَانِ إِذْ قَالَ لِلإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ رَبَّ الْعَالَمِينَ, فَكَانَ عَاقِبَتَهُمَا أَنَّهُمَا فِي النَّارِ خَالِدَيْنِ فِيهَا وَذَلِكَ جَزَاءُ الظَّالِمِينَ } سورة الحشر آية 16-17 " .

وَقَدْ ذُكِرَتْ قِصَّةُ هَذَا الرَّجُلِ عَلَى خِلافِ هَذِهِ الْحَالِ فِي التَّفْسِيرِ ، إِلا أَنَّ الْمَقْصُودَ وُجُودُ فِتْنَةٍ بِالْقَتْلِ وَالزِّنَا وَالْكُفْرِ ، وَذَلِكَ مَذْكُورٌ فِي جَمِيعِ الرِّوَايَاتِ ، فَتَلَمَّحْ وَفَّقَكَ اللَّهُ سَبَبَ وُقُوعِهِ فِي هَذَا الشَّرِّ ، وَهُوَ أَنَّهُ فَسَحَ لِنَفْسِهِ فِيمَا قَدْ نُهِيَ عَنْهُ مِنَ الْكَلامِ لِلأَجْنَبِيَّةِ ، وَالْخُلْوَةِ بِهَا ، وَكَانَ كَمَأْمُورٍ بِالْحِمْيَةِ أَقْبَلَ عَلَى التَّخْلِيطِ ثِقَةً بِعَافِيَتِهِ ، فَأَدَّاهُ ذَلِكَ إِلَى تَلَفِ نَفْسِهِ ، وَلَوْ أَنَّهُ اسْتَعْمَلَ قَوْلَ طَبِيبِهِ ، لَسَلِمَ مِنْ شَرِّ مَا وَقَعَ فِيهِ ، نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْخُذْلانِ .

المصدر: كتاب "ذم الهوى" للإمام ابن الجوزي -رحمه الله- (باب التحذير من فتنة النساء) ! لم أفرغه أنا،و لكن نقلته من إحدى المواقع على الن!
و الصلاة و السلام على رسول الله!
...............

[https://www.google.co.in/url?q=http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php%3Ft%3D359482&sa=U&ved=0ahUKEwispODHgZLWAhWLPI8KHd1cDdYQFggfMAE&usg=AFQjCNHUNXfrlB2ho2Gr3vjUgX3vU-6Jow] is good,have a look at it!

No comments:

Post a Comment