اقرارنامہ کیخلاف ورزی
ہبہ نامہ کسے کہتے ہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا فرماتے ہیں علماء دین درج ذیل مسئلہ میں ۔۔1۔۔۔۔ ”الف“ کے تین بیٹے ۔١۔ ”ب“۔۔٢۔۔ ”ش“ ۔۔۔۔٣۔۔ ”ص“ ہیں۔ الف نے اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کے متعلق ایک اقرارنامہ تحریر کیا جس پر کچھ گواہان کے ساتھ سبھی فریقوں کے دستخط ہیں، اس اقرارنامہ میں ایک خاص نکتہ یہ ہےکہ تمام لوگ اس کو ماننے پر پابند ہوں گے۔ کچھ عرصہ بعد باپ [الف] نے اپنے ایک بیٹے”ص“ کے ساتھ مل کر اقرارنامہ کی ایک شق [دفعہ] کی خلاف ورزی کردی جس پر ۔ب۔ اور ۔ش۔ نے اعتراض بھی کیا اس کے بعد کوئی دوسرا اقرار نامہ تیار نہیں ہوا۔ سوال یہ دریافت کرنا ہے کہ خلاف ورزی کے بعد بھی تمام فریقین اقرارنامہ کو ماننے پر پابند ہوں گے یا یہ کالعدم ماناجاۓ گا۔ ۔۔۔2۔۔ اقرارنامہ اور ہبہ نامہ میں کیا فرق ہے؟
المستفتی ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔
شاہ گنج جون پور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
وعدہ اور اقرار کرکے اسے پورا کرنا در اصل سچ کی ایک قسم ہے،
وعدہ اور اقرار کی خلاف ورزی کرنا عملی جھوٹ ہے۔
اس لئے اسلام نے وعدہ خلافی کو ناجائز اور منافق کی علامت قرار دیا ہے؛
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لاََتُمَارِا خَاکَ وَلاََ تُمَازِحْہٗ وَلاََ تَعَدْہُ مَوْعِدًا فَتُخْلِفَہٗ۔
(رواہ الترمذی و قال ہذا حدیث غریب) (شمائل ترمذی)
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کر، اور اس سے مذاق نہ کر، اور اس سے کوئی ایسا وعدہ نہ کر جس کی تو خلاف ورزی کرے۔‘‘
(مشکوٰۃ المصابیح ص ۴۱۷، از ترمذی)
جب انسان کسی سے کوئی وعدہ کرے تو وعدہ کرنے سے پہلے اپنے حالات اور اوقات کے اعتبار سے خوب غور کرے کہ یہ وعدہ مجھ سے پورا ہوسکے گا یا نہیں اور اپنی بات کو نباہ سکوں گا یا نہیں، اگر وعدہ پورا کرسکتا ہو تو وعدہ کرے ورنہ معذرت کردے، جھوٹا وعدہ کرنا حرام ہے، جب وعدہ کرلے تو حتی الوسع پوری طرح انجام دینے کی کوشش کرے، بہت سے لوگ ٹالنے کے لئے یا دفع الوقتی کے خیال سے وعدہ کرلیتے ہیں، پھر اس کو پورا نہیں کرتے اور یہ نہیں سمجھتے کہ جھوٹا وعدہ سخت گناہ ہے اور
وعدہ کرنے کے بعد خلاف ورزی بہت سخت گناہ ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے بیان فرمایا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا ہو اور یہ نہ فرمایا ہو کہ:
لاََاِیْمَانَ لِمَنْ لَّااَمَانَۃَ لَہٗ وَلاََدِیْنَ لِمَنْ لاََعَھْدَ لَہٗ۔
(مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ۱۵)
’’یعنی اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہیں اور اس کا کوئی دین نہیں جو عہد کا پورا کرنے والا نہیں ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں، چاہے روزہ رکھے اور نماز پڑھے اور اپنے بارے میں یہ سمجھے کہ میں مسلمان ہوں (اس کے بعدآپ نے وہ تینوں نشانیاں ذکر فرمائیں:
(۱) جب بات کرے توجھوٹ بولے۔
(۲) جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے۔
(۳) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔ (مشکوٰۃ از بخاری و مسلم)
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص میں چار خصلتیں ہوں گی، خالص منافق ہوگا، اورجس میں ان میں سے ایک خصلت ہوگی تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی جب تک اس کو چھوڑ نہ دے:
(۱) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔
(۲) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔
(۳)عہد کرے تو دھوکہ دے۔
(۴) جھگڑا کرے تو گالی بکے۔ (بخاری و مسلم)
اقرار نامہ تحریری وعدہ ہے۔
اگر اس تحریری وعدہ (اقرار نامہ ) میں اس طرح کی شرط نہ ہو کہ کسی فریق کی خلاف ورزی کرنے سے اقرار نامہ منسوخ سمجھا جائے گا تو الف یا با کی خلاف ورزی کرنے سے اقرار نامہ معطل نہیں ہوگا ۔ہاں اگر اس طرح کی کوئی شق موجود ہو تو پھر خلاف ورزی کرنے سے اقرار نامہ منسوخ سمجھا جائے گا۔
لما قال العلامۃ المرغینانیؒ: واذا اقر الحرا لعاقل البالغ بحقٍ لزمہ اقرارہ مجہولاً کان ما اقر بہ او معلوماً۔ (الھدایۃ:ج؍۳،ص؍۲۳۱، کتاب الاقرار)
وقال العلامۃ سلیم رستم باز اللبنانی ؒ: المرأ مؤاخذ باقرارہ۔ (شرح مجلۃ الاحکام، المادۃ:۷۹، ص؍۵۳، المقالۃ الاولٰیٰ)
ومثلہٗ فی جامع الفصولین:ج؍۲،ص؍۴۴، الفصل الثالث والعشرون۔
بالغ، صحیح الحواس اور رضاء ورغبت سے کئے گئے وعدہ کو اقرار کہتے ہیں۔ اگر یہ تحریر میں محفوظ ہوجائے تو اقرارنامہ کہا جائے گا۔
بلا کسی بدل کے کسی کو کچھ (زمین وغیرہ ) دے کے قبضہ دلادے تو اسے "ھبہ" کہتے ہیں۔
اگر تحریر میں محفوظ کردیا جائے تو اسے "ہبہ نامہ " کہتے ہیں۔
حین حیات جب کوئی اپنی جائداد وغیرہ فارغ کرکے کسی کے نام کردے اور موہوب لہ کا اس پہ قبضہ ہوجائے تو اب واہب کی ملکیت سے وہ جائداد نکل جاتی ہے۔ اس کے انتقال کی صورت میں اس کے وارثین اس ہبہ شدہ جائداد میں حصہ دار نہیں ہونگے ۔
الهبة تنعقد بالإيجاب والقبول .وتتم بالقبض الكامل. لانها من التبرعات .والتبرع لايتم إلا بالقبض .
شرح المجلہ 462/1 ۔رقم المادہ 837 ۔الباب الاول۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
http://video.genfb.com/787040674795372
No comments:
Post a Comment