Wednesday, 6 September 2017

اعضاء انسانی کا عطیہ و خرید وفروخت

اعضاء انسانی کا عطیہ و خرید وفروخت، بلڈ بینک کی شرعی حیثیت ؟
سوال: السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ دریافت طلب یہ ہے کہ کیا وہ جسمانی اعضاء جو دوسرے کے کام آسکنے والے ھون ھدیہ کئے جاسکتے/ بیچے جاسکتے ہیں یا بالکل ھی اجازت نھی ھے
2. اسی طرح اپنے ھی کسی خاص فرد کی جان کا خطرہ ھو اور گردہ وغیرہ دینے سے جان بچنے کا امکان ھو تو کیا حکم ھوگا
3 غیرمسلم کو خون، آنکھ یا گردے کی ضرورت ھو تو کیا حکم ھوگا؟
براہ کرم تشفی بخش جواب عنایت فرمادیں
محمد خالد الندوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
پوری کائنات میں سب سے افضل واشرف مخلوق انسان ہے۔
خواہ زندہ ہو یا مردہ، مسلم ہو یا کافر بحیثیت انسان اس کی تکریم واحترام کو اسلام میں واجب قرار دیا گیا ہے، اس کی یا اس کے کسی عضو جسمانی کی توہین اسلام میں جائز نہیں ہے۔
اس کے کسی بھی جزء سے انتفاع کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ اسی لئے مدت رضاعت سے زائد مدت دودھ پلانا بھی ممنوع ہے۔
ہر اس عمل سے اسلام نے روکا ہے جو انسان کی اشرفیت وافضلیت کے منافی ہو۔ اگر اسلام انسان کی تکریم واحترام کی اتنی موکد تعلیم نہیں دیتا تو انسان قابل تکریم اور اشرف المخلوقات کی بجائے متاع بازار بن کے رہ جاتا اور لوگ اس کے گوشت پوست سے سربازار بھوک مٹاتے نظر آتے!
پھر انسان اپنے جسم کا خود مالک بھی نہیں ہے بلکہ وہ صرف امین ہے۔ جسم کا مالک اللہ ہے۔ جب جسم انسان کا مملوک نہیں تو پھر غیر مملوک شئے میں کسی بھی قسم کا تصرف کیسے درست ہوسکتا ہے ؟ ۔۔اس لئے خواہ زندگی میں یا مرنے کے بعد اپنے جسم کے حصہ کی بیع یا ہبہ ملک غیر میں تصرف کے باعث ناجائز ہے۔
قال العلامۃ کمال الدین ابن الہمام ؒ: والانتفاع بہ لان الآدمی مکرم غیر مبتذل فلایجوز ان یکون شی من اجزائہ مھانا ومبتذلا وفی بیعہ اھانۃ لہٗ وکذا فی امتھانہ باالانتفاع۔ (فتح القدیر:ج؍۶،ص؍۶۳، باب البیع الفاسد)
قال العلامۃالکاسانیؒ:والاآدمی بجمیع اجزائہ محترم مکرم ولیس من الکرامۃ والاحترام ابتذالہ بالبیع والشراء۔(البدائع والصنائع:ج؍۵،ص؍۱۴۵،کتاب،البیوع،فصل واماالذی یرجع الی المقصود۔۔۔۔۔الخ
ومثلہ فی ردالمحتار:ج؍۶،ص؍۳۷۲،فصل فی النظر والمس۔کتاب الخطر والاباحۃ۔
والآدمي مکرم شرعًا، والمراد تکریم صورتہ وخلقتہ، وکذا لم یجز کسر عظام میت۔ (شامي ۷؍۲۴۵ زکریا، البحر الرائق ۶؍۸۱)
الانتفاع بأجزاء الآدمي لم یجز۔ (الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات ۵؍۳۵۴)
الاٰدمي مکرمٌ شرعًا وإن کان کافرًا، فإیراد العقد علیہ وإبتذالہ بہ، وإلحاقہ بالجمادات إذلالٌ لہ أي وہو غیر جائز، … وصرح في فتح القدیر ببطلانہ۔ (رد المحتار، کتاب البیوع / باب البیع الفاسد، مطلب: الآدمي مکرم شرعًا ولو کافرًا ۵؍۵۸ دار الفکر بیروت، ۷؍۲۴۵ زکریا، فتح القدیر، کتاب البیوع / باب البیع الفاسد ۶؍۳۹۰ زکریا، ۶؍۴۲۵ مصطفیٰ البابي الحلبي مصر، البحر الرائق ۶؍۸۱، الفتاویٰ الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات ۵؍۳۵۴ زکریا)
الانتفاع بأجزاء الآدمي لم یجز۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات ۵؍۳۵۴)
مضطر لم یجد میتۃ وخاف الہلاک، فقال لہ رجل: إقطع یدي وکلہا، أو قال: اقطع مني قطعۃ وکلہا لا یسعہ أن یفعل ذٰلک، ولا یصح أمرہ بہ کما لا یسع للمضطر أن یقطع قطعۃ من نفسہ فیأکل۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الحادي عشر في الکراہۃ في الأکل الخ ۵؍۳۳۸، الفتاویٰ البزازیۃ مع الہندیۃ ۳؍۴۰۴) ۔
اس لئے اعضاء انسانی کی خرید وفروخت یا ہبہ وعطیہ اسلام کے  بنیادی تصور کے خلاف ہے اور ناجائز ہے۔
ہاں اگر کوئی مریض ایسی حالت میں پہنچ جائے کہ اس کا کوئی عضو اس طرح بے کار ہوکر رہ گیا ہے کہ اگر اس عضو کی جگہ کسی دوسرے انسان کا عضو اُس کے جسم میں پیوند نہ کیا جائے، تو قوی خطرہ ہے کہ اس کی جان چلی جائے گی، اور سوائے انسانی عضو کے کوئی دوسرا متبادل اس کمی کو پورا نہیں کرسکتا، اور ماہر قابلِ اعتماد اطباء کو یقین ہے کہ سوائے عضو انسانی کی پیوندکاری کے کوئی راستہ اس کی جان بچانے کا نہیں ہے، اور عضو انسانی کی پیوندکاری کی صورت میں ماہر اطباء کو ظنِ غالب ہے کہ اس کی جان بچ جائے گی، اور متبادل عضو انسانی بلاقیمت  اس مریض کے لئے فراہم ہے، تو ایسی ضرورت، مجبوری اور بے کسی کے عالَم میں عضو انسانی کی پیوندکاری کرواکے اپنی جان بچانے کی تدبیر کرنا مریض کے لئے مباح ہوگا۔
اسی طرح اگر کوئی تندرست شخص ماہر اطباء کی رائے کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ اگر اس کے دو گُردوں میں سے ایک گُردہ نکال لیا جائے، تو بظاہر اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، اور وہ اپنے رشتہ دار مریض کو اس حال میں دیکھتا ہے کہ اس کا خراب گُردہ اگر نہیں بدلا گیا، تو بظاہرِ حال اس کی موت یقینی ہے، اور اس کا کوئی متبادل موجود نہیں ہے، تو ایسی حالت میں اس کے لئے جائز ہوگا کہ وہ بلاقیمت اپنا ایک گُردہ اس مریض کو دے کر اس کی جان بچالے۔ یہ انسانی ہمدردی اور خدمت انسانیت ہے۔
لیکن اگر کسی شخص نے ہدایت کی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کے اعضاء پیوندکاری کے لئے استعمال کئے جائیں، جسے عرفِ عام میں وصیت کہا جاتا ہے، از روئے شرع اسے اصطلاحی طور پروصیت نہیں کہا جاسکتا، (کیونکہ وصیت کا تعلق اپنی مملوک چیز سے ہوتا ہے اور انساب اپنے جسم کا مالک ہی نہیں ہے تو وصیت کیسی؟) اور ایسی وصیت اور خواہش شرعاً قابلِ اعتبار نہیں۔
تفصیلات کے لئے اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے اہم فقہی فیصلے صفحہ 12 ملاحظہ ہو ۔
خون بھی انسانی جسم کا ایک اہم جزو ہے ۔جس سے انسانی زندگی کا بقاء مربوط ہے۔اس لئے عام اور معتدل حالات میں اختیاری طور پہ اس کا عطیہ بھی ناجائز ہے۔
الانتفاع بأجزاء الآدمي لم یجز۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / الباب الثامن عشر في التداوي والمعالجات ۵؍۳۵۴ دار إحیاء التراث العربي بیروت)
الضرورات تبیح المحظورات۔ (الأشباہ والنظائر ۱۴۰ قدیم)
مضطر لم یجد میتۃ وخاف الہلاک، فقال لہ رجل: إقطع یدي وکلہا، أو قال: اقطع مني قطعۃ وکلہا لا یسعہ أن یفعل ذٰلک، ولا یصح أمرہ بہ کما لا یسع للمضطر أن یقطع قطعۃ من نفسہ فیأکل۔ (الفتاوی الہندیۃ، کتاب الکراہیۃ / )
لیکن  اگر کسی اِنسان کو خون کی ضرورت پڑجائے اور ماہر ڈاکٹر کی تجویز ہو کہ اس کے لئے خون ناگزیر ہے، تو اِنسانی جان بچانے کے لئے ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان یا غیرمسلم کو عطیہ کرنا جائز ہے، اِسی طرح کسی مسلمان کے لئے اس سے لینا بھی جائز ہے۔ اور یہ اضطراری حالت ہے اختیاری نہیں!
ایسے بلڈبینک جہاں لوگ رضاکارانہ طور پر خون کا عطیہ دیتے ہیں، اور وہ بینک ضرورت مندوں کو مفت خون فراہم کرتے ہیں، وہاں مسلمان کے لئے خون کا عطیہ کرنا جائز ہے۔
رضاکارانہ بلڈ کیمپ لگانا اور بلڈ بینک قائم کرنا بھی اِنسانی ضرورت کے پیش نظر جائز ہے، اور یہ اِنسانی خدمت میں شامل ہے۔
ایسے نازک موقع پر جہاں خون کا عطیہ نہ کرنے کی صورت میں جان کا خطرہ ہے، وہاں مطلوبہ گروپ کے حامل موجود شخص کے لئے اپنا خون عطیہ کرنا ایک اَہم اِنسانی فریضہ اور شرعاً پسندیدہ عمل ہے۔ (الفقہ الاسلامی وادلتہ 2608/4، اہم فقہی فیصلے، فتاوی محمودیہ 328/18،ڈابھیل)۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
سیدپور /بیگوسرائے ۔بہار

1 comment:

  1. کیا آپ گردہ، جسمانی اعضاء خریدنا چاہتے ہیں یا اپنا بیچنا چاہتے ہیں۔
    گردے یا جسمانی اعضاء؟ کیا آپ بیچنے کا موقع ڈھونڈ رہے ہیں؟
    مالی خرابی کی وجہ سے آپ کا گردہ پیسے کے لیے ہے اور آپ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے، تو آج ہی ہم سے رابطہ کریں اور ہم آپ کو آپ کے گردے کے لیے $500,000 ڈالر کی اچھی رقم پیش کریں گے۔ میرا نام ڈاکٹر پیٹریسیا میری ہے اور میں MAX HEALTH CARE میں نیورولوجسٹ ہوں ہمارا ہسپتال گردے کی سرجری میں مہارت رکھتا ہے اور ہم ایک زندہ اور متعلقہ عطیہ دہندہ کے ساتھ گردوں کی خریداری اور پیوند کاری کا بھی نمٹتے ہیں۔ ہم ہندوستان، امریکہ، ملائیشیا، سنگاپور میں واقع ہیں۔ جاپان۔

    اگر آپ گردہ بیچنے یا خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو برائے مہربانی ہمیں بتائیں
    آرگنز برائے مہربانی ہم سے ای میل پر اور بذریعہ رابطہ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔

    ای میل: patriciamariemooremariemoore@gmail.com

    نیک تمنائیں
    چیف میڈیکل ڈائریکٹر

    ReplyDelete