Monday 1 August 2016

عقائد علمائے دیوبند کی مکمل دستاویز

علمائے حرمین شریفین کا خطاب ،علمائے دیوبند کے نام​

ائے علمائے کرام ! آپ حضرات پر چند لوگوں نے وہابی عقائد کا الزام عائد کیا ہے اور اس کے ثبوت میں آپ کی بعض کتابوں کے حوالے دیئے ہیں اور ان پر ہم سے فتویٰ طلب کیا ہے ، ہم نے خالی الذہنی میں جواب دیدیا بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دجل وفریب تھا ، چونکہ آپ کی کتابیں اردو زبان میں تھیں ، ہم حقیقت حال سے کما حقہ واقف نہ ہو سکے ، لہذا آپ حضرات سے یہ چند سوالات دریافت کرنا چاہتے ہیں واضح طور پر جواب دیں ۔

سوال 2،1 :-
مدینہ طیبہ کی زیارت کرنے والا روضہ نبوی (ﷺ) کی نیت سے سفر کرے یا مسجد نبوی شریف کی زیارت کی نیت سے سفر کرے؟ "شد رحال" کا کیا حکم ہے ؟ ( یعنی روضہ نبوی شریف کی زیارت کے لئے مستقل سفر کرنا )
جواب :-
ہمارے اور ہمارے شیوخ واکابر کے نزدیک حضرت سید المرسلین ﷺ کے روضہ انور کی زیارت اللہ تعالیٰ کی کوشنودی ، ثواب عظیم اور سعادت عظمیٰ کا ذریعہ ہے ، بلکہ زیا رت نبوی شریف کا حکم واجبات میں شمار کیا جاتا ہے کہ اس سفر میں مسجد نبوی شریف اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کی نیت شامل کر لے ۔

علامہ ابن حمام ( حنفی فقیہ ) نے سب سے اچھا فیصلہ کیا ہے، لکھتے ہیں : بوقت سفر" روضہ اقدس " کی زیارت کی نیت کرے جب وہاں حاضر ہوگا تو خود بخود مسجد نبوی شریف کی بھی زیارت ہو جایئگی ( کیونکہ روضہ مبارکہ مسجد نبوی شریف میں ہے ) اس میں صورت میں حضور ﷺ کی تعظیم وتکریم زیادہ ہو گی ۔
مزید ثبوت کیلئے " زُبدۃ المناسک " مؤلفہ مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ " احسن المقال " مؤلفہ مفتی صدر الدین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا مطالعہ کیجئے ۔

سوال 4،3:-
کیا حضور ﷺ کا توسل دعاؤں میں جائز ہے یا نہیں ؟ 
اسی طرح سلف صالحین ( صدیقین ، شہداء واولیاء اللہ ) سے توسل کے بارے میں کیا رائے ہے ؟
جواب :-
ہم اور ہمارے سارے شیوخ واکابر کے نزدیک اپنی دعاؤں میں انبیاء کرام واولیاء اللہ وشہدا وصدیقین کا تو سل جائز ہے ان کی حیات میں بھی اپنی دعاؤں میں اس طرح کہہ سکتا ہے ۔اے اللہ ! میں بوسیلہ فلاں بزرگ آپ سے دعا کی قبولیت وحاجت بر آری چاہتا ہوں یا اس جیسے دوسرے کلمات کہہ سکتا ہے ، خطاب صرف اور صرف اللہ ہی سے ہو گا ( مزید ثبوت کے لئے شاہ عبد الق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ مطالعہ کیجئے ( فتاویٰ رشیدیہ ج 1 ص 93)
اس سلسلے میں حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی " مناجات مقبول " کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔

صدقہ اپنی عزت واجلال کا * صدقہ پیغمبر کا اُن کی آل کا
اپنے پیغمبر کا صدقہ ائے خدا * نام جن کا ہے محمد مصطفیٰ
حضرت موسی کا صدقہ اے کریم * جو ہیں پیغمبر ترے اور ہیں کلیم
اور سب اصحاب وآل مصطفےٰ کے واسطے * رحم کر مجھ پر الٰہی اولیاء کے واسطے 

نوٹ :-
مذکورہ اشعار میں خطاب صرف اللہ تعالیٰ سے ہے

سوال 5 :- حیات النبی ﷺ کے بارے میں آپ حضرات کا کیا عقیدہ ہے اور کیا آپ کی حیات ِ شریفہ عام مسلمانوں کی حیاتِ برزخی کی طرح ہے ؟
جواب :-
ہم اور ہمارے سارے شیوخ واکابر کے نزدیک حضور ﷺ اپنی قبر شریف میں اپنے مبارک جسم کے ساتھ زندہ ہیں اور آپ کی یہ زندگی عام مسلمانوں کی طرح صرف برزخی روحانی نہیں بلکہ نہایت اعلیٰ وارفع زندگی ہے مزید ثبوت کے لئے "آب حیات " مؤلفہ مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ " المورد الفرسخی فی المولد البرزخی " مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ " عالم برزخ " مؤلفہ قاری محمد طیب قاسمی مہتمم دارالعلوم دیوبند مطالعہ کیجئے ۔

سوال 6:-
مسجد نبوی شریف میں دعا کرنے والے کو بوقت دعا مواجہ شریف کی جانب رخ کر کے آپ کے وسیلے سے بارگاہ الٰہی میں دعا کرنا کیسا ہے ؟
جواب :-
اس مسئلہ میں حنفی فقہاء کی دو رائے ہیں ۔ لیکن ہم اور ہمارے شیوخ واکابر کے نزدیک بہتر یہی ہے کہ مواجہ شریف کی جانب اپنا منہ کر کے کھڑا ہو اور آپ ﷺ کے وسیلے سے جناب باری تعالیٰ میں دعا کرے ۔
یہ طریق اجابت دعا کے لئے زیادہ قریب ہے اسی پر ہمارااور ہمارے شیوخ واکابر کا عمل ہے ۔
مزید ثبوت کے لئے " زبدۃ المناسک ص 6 ، مؤلفہ رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا مطالعہ کیجئے ۔

سوال 7:-
کثرت سے درود شریف پڑھنے اور دلائل الخیرات ( درود شریف کی جامع کتاب ) ودیگر اوراد کے پڑھنے پڑھانے کے بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے ؟
جواب :-
ہم اور ہمارے شیوخ واکابر کے نزدیک نبی کریم ﷺ پر کثرت سےدرود شریف پڑھنا مستحب ہی نہیں بلکہ افضل المستحبات عمل
ہے اور موجب رحمت وبرکات اور باعثِ خوشنودی الٰہی ہے ۔ خواہ دلائل الخیرات پڑھ کر ہو یا درود شریف کے دیگر رسائل کی تلاوت سے ہو لیکن افضل اور سب سے بہتر درود شریف ہے جس کے الفاظ خود نبی کریم ﷺ سے منقول ہوں جیسے درود ابراہیمی وغیرہ ، اگر چہ غیر منقول درود شریف پڑھنا بھی ثواب سے خالی نہیں ۔ ہمارے مشائخ ِطریقت اور اساتذہ کرام " دلائل الخیرات " پڑھا کرتے تھےاور اپنے مریدوں کو اجازت بھی دیا کرتے تھے اور آج بھی اسی پر ہمارا عمل ہے ( آداب النبی ) مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کا مطالعہ کیجئے۔

سوال 8:-
کیا صوفیہ کرام کے اشغال واوراد اور ان سے بیعت ( پیری مریدی) آپ حضرات ے ہاں جائز ہے یا نہیں ؟
اسی طرح اولیاء اللہ کے سینوں اور ان کی قبوں سے باطنی فیوض اور اہل طریقت کی رُوحانیت سے مریدوں کو نفع ملتا ہے یا نہیں ؟
جواب:-
ہمارے نزدیک یہ بات پسندیدہ ہے کہ جب مسلمان عقائد ضروریہ کی درستی کرلے اور مسائل ضروریہ کی تحصیل سے فارغ ہو جائے تو کسی ایسے شیخ طریقت سے بیعت ہو جائے جو شریعت میں راسخ القدم ہو آخرت کا طالب ہو ، دنیا سے بے رغبت ہو ، اپنی اصلاحِ نفس کر چکا ہو ، اعمال ضروریہ کا خوگر ہو ( یعنی فرائض وواجبات طبیعت ثانیہ ہو چکی ہو ) گناہوں سے اجتناب کرتا ہو، خود بھی کامل ہو اور دوسروں کو بھی دین کا کامل بنانے کی اہلیت رکھتا ہو تو ایسے مُرشد کامل کو اپنا رہنما بنالے اور اس کی ہدایات وتعلیمات پر استقامت سے عمل شروع کر دے اور اس کے بتائے ہوئے ذکر وفکر سے اُس نسبت ( تعلق مع اللہ ) کو حاصل کرے جو نعمتِ عظمیٰ وغنیمت کبریٰ ہے اور جس کو احادیث صحیحہ میں لفظ " احسان " سے تعبیر کیا گیا ہے ۔
اور جس شخص کو ریاضت ومجاہدہ کے بعد یہ نعمت حاصل نہ ہو اُس کو مایوس نہ ہو نا چاہئے ایسے شخص کا بھی سلسلہ میں شامل رہنا
ان شاء اللہ تعالیٰ فائدے سے خالی نہ ہوگا ۔
بحمد للہ ہم اور ہمارے مشائخ واساتذہ ایسے مرشدین کاملین میں داخل ہیں اور خود بھی منصبِ ارشاد وتلقین کے حامل رہے ہیں ۔اور 
بحمد للہ آج بھی ہیں ، ہمارے خانقاہیں وشجرے وکتب تصوف مشہور ومعروف ہیں۔
اب رہا اہل طریقت کی رُوحانیت سے استفادہ اور ان کے قلوب سے باطنی فیوض کا حصول سو یہ بات درست ہے اور عملاً یہ طریقہ رائج ہے لیکن اس کے حاصل کر نے کا وہ طریقہ نہیں جو عوام میں رائج ہے بلکہ ہے جو خواص اہل ِدل میں پا یا جاتا ہے ۔
(واضح رہے کہ یہ مسئلہ تصوف سے ونیز ذوقِ وجدان سے متعلق ہے )
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوں " التکشف فی مہمات التصوف " مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی " امداد السلوک " مؤلفہ مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی " ارشاد ومرشد " مؤلفہ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی

سوال9: کیا آپ حضرات کا خیال ہے کہ حضور ﷺ سے اور کوئی افضل ہے ۔
جواب : ہم اور ہمارے سارے شیوخ واساتذہ کا عقیدہ اس مسئلے میں بالکل واضح ہے کہ حضور ﷺ تمام مخلوقات سے افضل واعلیٰ ہیں ، اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے بہتر اور برتر ہیں اور وہ قُربِ الٰہی جو آپ ﷺ کو حاصل ہے کوئی شخص برابر تو کیا اُس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا ،آپ ﷺ سید الاولین وآخرین ہیں ، نبوت ورسالت کے سارے کمالات آپ ﷺ پر ہی ختم کر دیئے گئے ہیں 
لایمکن الثناء کماکان حقہ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
یعنی ہمارا عقیدہ ہے اور یہی دین دین وایمان کا تقاضہ ہے اس کے خلاف بے دینی اور گمراہی ہے ۔
بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نا نوتوئی رحمۃ اللہ علیہ نبی اکرم ﷺ کی شان وعظمت میں لکھتے ہیں۔

امیر لشکرِ پیغمبراں شہِ ابرار 
ترے کمال کسی میں نہیں مگر دو چار
کہ ہو سگانِ مدینہ میں میرا شمار 
کرے حضور کے روضہ کے آس پاس نثار 
کہ جائے کوچہ اطہر میں تری بن کے غُبار
بنے گا کون ہمارا ترے سوا غمخوار تو فخرِ کون ومکاں زُبدہ زمین وزماں 
جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں 
بڑی امید ہے یہ اُمید لاکھوں ہیں لیکن 
اُڑا کے باد مری مُشتِ خاک کو پسِ مرگ
ولے یہ رتبہ کہاں مشتِ خاک قاسم کا 
جو توہی ہمکو نہ پوچھے تو کون پو چھے گا 
نوٹ:- 
سرکارِ دو عالم ﷺ کی شان ومنقبت میں علمائے دیوبند وسہارن پور کی بے شمار نعتیں وقصائد ہیں اور اس سلسلے میں مستقل رسالے اور کتابیں شائع ہوتی رہی ہیں ۔فجز اللہ عنا نبینا صلی اللہ علیہ وسلم بما ھو اھلہ



سوال 10:-
کیا آپ حضرات حضور اکرم ﷺ کے بعد کسی نبی ورسول کے وجود کو جائز سمجھتے ہیں در احالانکہ حضور اکرم خاتم النبیین ہیں اور آنحوکر کا ارشاد ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ، اس کے علاوہ ایسے شخص کے بارے میں آپ حضرات کا کیا خیال ہے جو امکانِ نبوت کو ظاہر کرتا ہو ؟
جواب: ہم اور ہمارے مشائخ کرام کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں جیساکہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین الآیۃ ۔ اور یہی بات احادیث سے ثابت ہے ۔
لہذ حاشا وکلا ہم میں سے کوئی اس کے خلاف کہے ( نعوذ با اللہ ) اور جو کوئی ختم نبوت کا انکار کرے وہ کافر ہے ۔ ختم نبوت اسلام کے بنیادی عقائد میں شمار کیا جاتا ہے ، حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نا نوتوی( بانی دارالعلوم دیو بند) نے اپنے رسالہ " تحذیر الناس " میں نہایت واضح طور پر حضور اکرم ﷺ کی خاتمیت کو ثابت کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ زمانہ کے لحاظ سے بھی خاتم النبیین ہیں اور ذات کے لحاظ سے بھی خاتم النبیین ہیں آپ ہی فرد اکمل ویگانہ اور دائرہ رسالت ونبوت کے مر کز بھی ہیں ۔ لہذا آپ ﷺ خاتم النبیین ہیں ذاتاً بھی اور زماناً بھی ۔
نوٹ: مسئلہ ختم نبوت پر جیسی ہمارے علماء نے علمی خدمات انجام دی ہیں اس کی نظیر شائد وبائد ہی کہیں اور طبقات میں ملے ۔
تحذیر الناس مؤلفہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ۔" ختم نبوت " مؤلفہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان ،یہ کتاب تین جلدوں میں ایسی مدلل ومکمل کتاب ہے جس نے قادیانیت پر قیامت ڈھادی ۔

سوال 11:-
کیا آپ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کو ہم پر ایسی فضیلت حاصل ہے جیسے بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی پر ہوتی ہے ؟ اور کیا آپ حضرات میں سے کسی نے اپنی کتاب میں ایسا لکھا ہے ؟
جواب:-
ہم اور ہمارے شیوخ میں سے کسی کا بھی ایسا عقیدہ نہیں ہے اور نہ کسی مسلمان کا ہو سکتا ہے ہم نہیں سمجھ سکتے کہ کوئی بھی ضعیف الایمان شخص ایسی خرافات اپنی زبان سے نکالتا ہو اور جو شخص ایسا خیال رکھتا ہو وہ حدود اسلام سے خارج ہو گیا ۔ ہماری اور ہمارے سارے بزرگوں کی کتابیں ایسے واہی تباہی عقیدےبیزار ہیں اور جو شخص ایسے واہیات وخرافات کا ہم پر یا ہمارے بزرگوں پر الزام لگاتا ہے وہ جھوٹا مفتری کذاب ہے ، نبی کریم ﷺ کا افضل البشر ہونا ایسا قطعی اور واضح عقیددہ ہے جس میں کسی مسلمان کو شک نہیں ۔ حاسدوں نے ہم پر الزام لگایا ہے جو بدترین جھوٹ ہے۔



سوال 12:-
کیا آپ حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حضور اکرم ﷺکو صرف احکام شرعیہ کا علم تھا ؟ یا آپ کو وہ علوم واسرار عطاء ہوئے تھے جو مخلوق میں کسی بھی نہیں دیئے گئے تھے ؟
جواب:-
ہم اور ہمارے شیوخ واکابر قلب وزبان سے اس بات کے قائل ہیں کہ حضور اکرم ﷺ ساری مخلوق میں سب سے زیادہ علم والے ہیں آپ کے علوم ومعارف میں کوئی بھی آپ کے برابر نہیں نہ کوئی نبی مرسل نہ مقرب فرشتہ ۔آپ کو اولین وآخرین کا علم عطا کیا گیا مخلوق میں علمی خزائن آپ ہی کو دیئے گئے ، آپ پر اس بارے میں اللہ کا فضل عظیم ہوا ہے ۔

سوال 13:-
کیا آپ حضرات کی یہ رائے ہےکہ شیطان ملعون کا علم نبی اکرم ﷺ سے ذیادہ وسیع تر ہے ۔اور کیا آپ نے کسی مضمون یا کتاب میں یہ خبیث بات لکھی ہے ؟ اور جس کا یہ عقیدہ ہو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب :-
اس بارے میں ہم لکھ چکے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ کے علوم ومعارف واسرار الٰہیہ علیٰ الاطلاق اللہ سبحانہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات سے زیادہ ہیں اور ہمارا یہ ایمان ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ فلاں فلاں شخص آنحضور ﷺ سے زیادہ یا برابر علم والا ہے وہ کافر ہے ایسے شخص کے بارے میں ہمارے مشائخ نے کفر کا فتویٰ دیا ہے ۔ 

بھلا ہماری کسی تصنیف میں یہ خبیث مضمون کیونکر آسکتا ہے ، ذرا غور فر مایئے ادنیٰ مسلمان کو شیطان مردود پر ہر طرح شرف وفضیلت
حاصل ہے چہ جائیکہ نبی مرسل خاتم النبیین ﷺ کی فضیلت وبزرگی ؟
چہ نسبت خاک رَا با عالم پاک اس کی صراحت ایک نہیں ہمارے سینکڑوں علماء ومشائخ نے بارہا کی ہے اس کے باوجود ہم پر بہتان لگایا جاتا ہے ایسے لوگ یوم جزا سے بے خوف ہو گئے ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ کے علم مبارک کو شیطان مردود کے علم سے تشبیہ دینا یا اس
جیسا عنوان بیان کرنا سراسر بے دینی وگستاخی ہے ۔ نعوذ با للہ منہ ۔
مزید ثبوت کے براہین قاطعہ "مؤلفہ حضرت مولانا محدث خلیل احمد صاحب اور " بسط البنان " مؤلفہ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی اسکے علاوہ کتاب " السحاب المدار : ص 48 ملاحظہ فر مایئے۔



سوال 14:-
کیا آپ حضرات کا عقیدہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا علم زید وبکر اور جانوروں کے علم جیسا ہے ؟ یا پھر اس خرافات سے آپ حضرات بری ہیں ؟ اور کیا مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنے رسالہ " حفظ الایمان " میں ایسا مضمون لکھا ہے ؟ اور جو یہ 
عقیدہ رکھے اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب :-
میں کہتا ہوں یہ بھی ان لوگوں کا افتراء وکذب ہے انہوں نے مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کے معنیٰ کو بدلا اور اُن کی مُراد کے خلاف ظاہر کیا ۔ خود حضرت تھانوی نےا س عقیدے کی تردید تحریراً اور تقریراً کی ہے اور ایسے مضمون سے بیزارگی ظاہر کی ہے لیکن یہ جھوٹے لوگ برابر یہی اَلاپتے رہے کہ تھانوی نے ایسا ہی لکھا ہے اور اس کا یہی مطلب ہے ۔نعوذ با اللہ منہ ۔
خود مولانا تھانوی نے اپنی کتاب بسط البنان ص 45 پر صراحت کر دی ہے کہ میں نے یہ خبیث مضمون ( جو میری منسوب کیا گیا ہے ) کسی کتاب میں نہیں لکھا ہے اور لکھنا تو در کنار میرے قلب میں اس مضمون کا کبھی وسوسہ بھی نہیں گزرا ، جو شخص ایسا اعتقاد صراحۃً 
یا اشارۃً یہ بات کہے اس شخص کو خارج اسلام سمجھتا ہوں۔
در اصل علامہ تھانوی نے اپنے مختصر رسالہ "حفظ الایمان " میں سوال کر نے والے کے تین سوالات کا جواب لکھا ہے جو اُن سے 
پو چھے گئے تھے ۔


پہلا سوال :-
قبروں کو تعظیمی سجدہ کرنا کیسا ہے ؟

دوسرا سوال :-
مزارات کا طواف کرنا کیسا ہے ؟

تیسرا سوال :-
حضور ﷺ کو عالم الغیب کہنا درست ہے یا نہیں ؟



مولانا تھانوی نے عالم الغیب کے بارے میں جواب دیتے ہوئے یہ فرمایا کہ قرآن وحدیث میں لفظ غیب کا استعمال ایسے علم کے لئے آیا جو ذاتی ہویعنی بغیر کسی ذریعہ وسیلہ کے حاصل ہو ۔( جیسے اللہ تبارک وتعالیٰ کا علم ) اور رسولوں ونبیوں کو جو علم دیا جاتا ہے وہ وحی یا الہام کے ذریعہ دیا جاتا ہے لہذا ایسے علم کو غیب نہیں کہا جائے گا اگر نبیوں کے علم کو بھی غیب کہا جائے تو علم الٰہی سے التباس پیدا ہوگا ۔یعنی اللہ اور نبیوں کا علم یکساں ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ علم غیب صرف خاصہ خدا وندی ہے ۔ لہذا رسولوں کو علم دیئے
جانے کی بنیاد پر انھیں عالم الغیب کہنا مناسب نہیں ۔قرآن حکیم میں علم غیب کو اللہ نے خاص اپنے لئے فر مایا ہے۔
قل لا یعلم من فی السمٰوٰۃ والارض الغیب الا اللہ ۔الآیہ ( سورۃ النمل آیت 65)
ترجمہ:- زمین وآسمانوں میں کوئی بھی غیب نہیں جانتا سوائے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ۔
ولو کنت اعلم الغیب لاستکثرتم من الخیر ۔
ترجمہ:- اور اگر میں ( محمد ﷺ ) عالم الغیب ہوتا تو بہت سارا خیر جمع کر لیتا اور مجھ کو کوئی برائی نہیں پہنچ سکتی ۔

اس مضمون کی کئی آیات ہیں جن میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ غیب صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کے لئے خاص ہے یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی صفت ہے جیسے موت وحیات وغیرہ کی صفت صرف اللہ کے لئے خاص ہیں اس صفت میں کوئی بھی شریک نہیں ۔
البتہ اللہ تبارک وتعالیٰ جو علم اپنے نبیوں ورسولوں کو عطا فر ماتے ہیں وہ " اطلاع علیٰ الغیب " ہے علم غیب نہیں ، الغیب اللہ تعالیٰ کی خاص ذاتی صفت ہے ۔ قرآن حکیم نے نبیوں کے علم کی یہی حقیقت بیان کی ہے کہ انہیں جو علم دیا جاتا ہے وہ علم غیب نہیں اطلاع 
علیٰ الغیب ہے ( یعنی بعض غیب کی باتیں ان پر کھول دی جاتی ہیں ) وہ آیت شریفہ یہ ہے۔
وماکان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللّٰہ یجتبی من رسلہ من یشاء ۔
ترجمہ: اور نہ اللہ تمہیں غیب پر مطلع کر نے والا ہے البتہ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے رسولوں میں سے انتخاب کر لیتا ہے۔
( یعن بعض اُمور غیب کی اطلاع کے لئے )
یہی حقیقت دوسری آیت میں بیان کی گئی ہے
عالم الغیب فلا یظھر علیٰ غیبہ احدا ( سورہ الجن )
یہاں اظہار علیٰ الغیب کہا گیا دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے ۔ اطلاع علیٰ الغیب اظہار علیٰ الغیب (اطلاع یا اظہار غیب صرف نبیوں کو دیا جاتا ہے )
اب رہا حضور اکرم ﷺ کے علم شریف کو زید ، عمر بکر یا حیوانات کے علم کے جیسا قرار دینا حاشا وکلا کوئی بھی مسلمان ایسی جرات نہیں کر سکتا چہ جائیکہ مولانا تھانوی جیسا عالم وفاضل زمانہ ( ایسی بکواس کرے نعوذ با اللہ منہ ) ہمارے سارے علماء ومشائخ اس تصور سے بری ہیں اور خود حضرت تھانوی نے اپنے رسالہ " بسط البنان " میں صراحتاً لکھ دیا ہے کہ جو شخص فخر بنی آدم حضور اکرم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے علم شریف کو کسی مخلوق کے برابر یا مماثل بتاتے ہوئے وہ شخص اسلام سے خارج ہے ۔ مگر با وجود ان تصریحات کے یہ بریلی کا طبقہ وہی الزام لگائے جارہا ہے ۔اللہ ان کو ہدایت دے ( گمراہی میں بہت دور چلے گئے )۔

1 comment:

  1. اس میں نجدی کے بارے جو علمائے دیو بند کا عقیدہ تھا وہ آپ نے نہیں لکھا

    ReplyDelete