Monday 22 August 2016

چائے ....اللہ بچائے!

ایس اے ساگر
یہ ان دنوں کی بات ہے جب مجھے اپنی والدہ کے علاج کے سلسلہ میں حکیم خواجہ آفتاب صاحب سے ملنا پڑا. ایک دن باتوں باتوں میں حکیم صاحب نے بتایا کہ چائے پینے سے عضو تناسل چھوٹا اور مادہ منویہ پتلا ہوجاتا ہے. گویا کہ چائے کا استعمال انگریزوں کی منظم سازش کا نتیجہ ہے تاکہ ہندوستانی نامرد ہوجائیں اور خواتین بدچلنی کی شکار ہوجائیں. لیکن اس کا کیا کیجئے کہ انٹرنیٹ پر شائع ایک پوسٹ سے پتہ چلا کہ جاپان میں ایک اساطیری داستان  زبان زد عام ہے کہ پانچویں صدی عیسوی کے وسط میں ایک ممتاز بدھ راہب ہر وقت گیان دھیان میں مصروف رہتا تھا۔ اس کا نام کیمپفر تھا۔ اس نے ہر طرح کا آرام اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ کم کھانا، کم بولنا اور کم سونا۔ وہ مسلسل کئی کئی راتیں جاگ کر گزارتا تھا، مگر ایک دفعہ وہ فطری نیند کے ہاتھوں ایسا مجبور ہوا کہ نفس کشی کا ماہر ہونے کے باوجود، وہ نیند پر قابو نہ پا سکا اور خود بخود اس کی پلکیں بند ہوتی چلی گئیں۔ جب آنکھ کھلی تو اپنے نفس کی اس عیاشی پر بہت جھنجھلایا اور اسے سزا دینے کے لیے اپنی دونوں پلکیں اکھاڑ کر زمین پر پھینک دیں۔ پلکوں کا زمین پر پھینکنا تھا کہ وہاں ایک پودا پھوٹ پڑا۔ بدھ راہب نے اس کے پتے توڑے اور چبانے کے لئے منہ میں رکھ لئے۔ اس کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب اسے ان کے چباتے ہی اپنے جسم میں ایک نئی قسم کی 'توانائی' محسوس ہوئی اور نیند اس سے کوسوں دور چلی گئی۔ بعد میں اس بودھ راہب نے نیند بھگانے کا یہ نسخہ اپنے شاگردوں کو بھی بتا دیا۔
مخزن الادویہ :
قریب دو سو سال قبل لکھی جانے والی معروف طبی کتاب مخزن الادویہ، میں پرانی عربی کتب سے حکیم مرزا قاضی کےحوالے سے ایک واقعہ درج ہے کہ زمانۂ قدیم میں چین کا ایک شہنشاہ اپنے ایک مصاحب سے ناراض ہو گیا اور اسے دیس نکالا دے دیا۔ وہ غریب مدتوں جنگلوں، ویرانوں اور پہاڑوں میں در بدر ٹھوکریں کھاتا رہا۔ کھانے پینے کی کوئی چیز اس کے پاس باقی نہ رہی۔ ایک دن بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر وہ ایک پہاڑ کے دامن میں ہمت ہار کر گر گیا۔ کچھ دیر بعد ہوش آئی تو بھوک نے پھر تڑپا کر رکھ دیا۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے وہاں پر اُگی ہوئی ایک گھاس کے پتے توڑ توڑ کر کھانا شروع کر دیئے، مگر اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب اس نے محسوس کیا کہ صرف اس کی بھوک کی تسکین ہی نہیں ہوئی بلکہ اس کے جسم میں نئی قوت بھی آ گئی ہے۔ کئی روز تک وہ دامن کوہ میں مقیم رہا اور اس گھاس کو بطور غذا استعمال کرتا رہا۔ جس سے اس کی صحت قابل رشک ہو گئی۔ وہ وہاں سے شہر لوٹ آیا اور بادشاہ کے مصاحبین اس سے عجیب و غریب گھاس کا ذکر کیا جو اس کی حیات نو کا سبب بنی۔
قومی مشروب :
مصاحبین سے یہ بات بادشاہ تک پہنچی۔ اس معتوب درباری کو طلب کیا گیا اور بادشاہ اس کی قابل رشک صحت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شاہی طبیبوں کو اس کے ساتھ بھیجا گیا اور پہاڑوں سے وہ گھاس منگوا کر تجربہ کیا گیا تو وہی فوائد ظاہر ہوئے جو اس مصاحب نے بیان کیے تھے۔ چنانچہ اس وقت سے اس گھاس، یعنی چائے کا استعمال شروع ہو گیا۔ عرصہ دراز تک وہ بطور ٹانک شاہی خاندان اور امرائے حکومت تک محدود رہی۔ پھر عام لوگ بھی اسے استعمال کرنے لگے اور آہستہ آہستہ چین کے لوگوں کا قومی مشروب بن گئی۔
سیاحوں  کا دخل :
چائے کا پودا چین سے دوسرے تمام ملکوں میں مسلم سیاحوں کے ذریعے پہنچا۔ ایک مسلمان سیاح سلیمانی سیرانی، جس نے ابو زید سیرانی کے ساتھ کئی مرتبہ چین کا سفر کیا تھا اپنی تالیف سلسلۃ التاریخ مطبوعہ۸۵۱ء میں لکھا ہے:
’’چین میں ایک قسم کی گھاس پائی جاتی ہے۔ جسے وہاں کے لوگ جوش دے کر پیتے ہیں اور تمام شہروں میں بڑے وسیع پیمانے پر وہ گھاس بکتی ہے اس سے چینی حکومت کو بڑی آمدنی ہوتی ہے۔ وہاں کے لوگ اس گھاس کو ساخت چاہ کہتے ہیں۔ اس میں قدرے تلخی پائی جاتی ہے۔ اسے کھولتے ہوئے پانی میں ڈال کر پیتے ہیں اور بہت ہی مفید اور مقوی ٹانک سمجھتے ہیں جس کا کوئی دوسرا مشروب مقابلہ نہیں کر سکتا۔‘‘
مقبولیت کے مدارج :
ساخ دراصل چائے ہی کا بگڑا ہوا نام ہے کیونکہ عرب ’چ‘ کا تلفظ ادا نہیں کر سکتے اس لیے’چاہ‘ سے ساخ بن گیا۔ سلیمانی سیرانی مزید لکھتا ہے کہ چین کے سرکاری خزانوں میں آمدنی کے تین ذریعے تھے۔ عرب تاجروں سے وصول کیا جانے والا ٹیکس، نمک اور یہ گھاس۔ چین کے سرکاری گزٹ میں اس کا تذکرہ موجود ہے کہ۷۹۳ء میں چائے بطور ٹیکس سرکاری خزانوں میں جمع کروائی جاتی تھی۔ صدیوں تک چائے بہت مہنگے داموں بکتی رہی۔ تبت کے تاجروں کے پاس جب کوئی چائے کا گاہک آتا تھا تو سوائے کستوری کے کسی اور چیز سے اس کا تبادلہ نہیں کرتے تھے۔ وہ اسے شراب کی مضرت دور کرنے کے لیے استعمال میں لاتے تھے۔ جاپان میں اس کا باقاعدہ استعمال پندرھویں صدی عیسوی میں شروع ہوا۔ روس میں چائے پہلی بار  ۱۶۳۸ء میں وسطی منگولیا میں مقیم روسی سفیر ستارکوف کے ذریعہ ماسکو پہنچی۔ منگولیا کے حکمران التین خاں نے زار روس کو بطور تحفہ چائے کے دو سو پیکٹ ارسال کئے۔ ستارکوف اسے بیکار چیز سمجھتا تھا اور بادلِ نخواستہ اسے ماسکو لے گیا تھا، لیکن زارِ روس اور اس کے مصاحبوں کو اتنی پسند آئی کہ اسے قومی مشروب کا درجہ دے دیا گیا۔ سولہوی صدی کے آخر میں اہل پرتگال اس گھاس کو یورپ لائے۔۱۶۳۵ء میں پہلی بار پیرس پہنچی اور جلد ہی اس نے وہاں کے حکمرانوں کے دل میں گھر کر لیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کی کارستانی :
حتیٰ کہ ۱۶۵۸ء میں شاہی باغات میں اس کی کاشت شروع کر دی گئی۔ سترھویں صدی میں ایک عیسائی مشنری جیوٹ ٹراگالٹ نے اپنے سفرنامے میں چائے کا تذکرہ کیا اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ یوروپ کو چائے چکھانے کا سہرا ولندیزی ایسٹ اینڈیا کمپنی کے سر ہے۔ ۱۶۶۶ء میں لارڈ آرلنگٹن کے ذریعے براستہ ہالینڈ انگلستان پہنچی۔ اسی سال برطانوی پارلیمنٹ نے چائے کے متعلق ایک بل پاس کیا، جس کی رو سے تیار شدہ چائے کے ایک گیلن پر آٹھ پنس ٹیکس لگا دیا گیا۔ اہل یورپ جو اپنے آپ کو عقل و دانش کا سرچشمہ سمجھتے ہیں، مدتوں اس کےطریق استعمال کو نہ سمجھ سکے۔ وہ چائے کو پانی میں پکا کر اس کا عرق پھینک دیتے اور پتیاں چبا لیتے تھے۔ سالہا سال کے بعد انہیں اپنی اس حماقت کا احساس ہوا۔ ملکہ این کے زمانہ میں وہ، اس کے تمام وزراء و امراء سب اس کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو گئے اور پھر اس کی دلنواز خوشبو اور نظر نواز رنگت نے ہر چھوٹے بڑے کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی اور پھر یہ بازار کی زینت بن گئی۔
قریہ در قریہ مفت کا چسکا :
حکیم خواجہ آفتاب صاحب کے قول تائید میں کیا گیا  ہے کہ برصغیر میں چائے کے تعارف کا تعلق ہے وہ انگریز بہادر کے ذریعہ ہوا، جو تجارت کی آڑ میں ہندوستان میں قابض ہو گئے۔ جہاں جہاں ان کے قدم پہنچے وہاںوہاں چاہے بھی پہنچی۔ ۱۸۵۷ء میں جنگ آزادی کے بعد فرنگیوں نے جب پورے ملک پر قبضہ کر لیا تو چائے نے بھی اپنا تسلط جما لیا۔ انگریز تو ۱۹۴۷ء میں رخصت ہو گیا لیکن چائے کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی۔ برصغیر والوں نے چائے نوشی میں یوروپ اور چین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ اس کے بغیر اب نہ کوئی تقریب مکمل ہوتی ہے، نہ مہمان نوازی کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔شروع شروع میں برصغیر اور خصوصاً پنجاب کے لوگوں نے چائے کی بے حد مخالفت کی، لیکن چائے کمپنیوں نے گاؤں گاؤں جا کر مفت چائے پلا کر اس کا ایسا چسکہ ڈالا کہ وہ غیر رسمی طور پر یہاں کا قومی مشروب بن کر رہ گئی۔ عام لوگوں کی تو بات ہی کیا، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے عالم بھی اس کی تعریف میں رطب اللسان نظر آتے ہیں۔
کتنے ہیں نام؟
اُردو، ترکی، چینی اور روسی میں چائے، فارسی میں چائے خطائی، پنجابی میں چاء، سندھی میں چانھ، پشتو میں ساؤ، عربی میں شائی، انگریزی میں ٹی TEA فرانسیسی میں تھائے اور لاطینی میں کوملیا تھیفرا Commllia Thefera کہتے ہیں۔ لفظ چائے، دراصل چینی زبان کا لفظ ہے، جو دو لفظوں سے مرکب ہے ’چا‘ اور ’ئے‘۔  چاء اس مشروب کو کہتے ہیں جس میں یہ بوٹی ڈال کر گرم کر کے اس کا عرق نکالا جاتا ہے اور ’ئے‘ پتی کو کہتے ہیں، جو پینے کے لیے نہیں بلکہ پھینکنے کےلیے ہوتی ہے۔ لغوی معنوں میں سبز گھاس کو کہا جاتا ہے لیکن اصطلاحاً  اسپودے کے لیے استعمال ہونے لگا جس سے ’چاء‘ بنائی جاتی ہے۔ دنیا کی تقریباً ہر زبان میں اس کے لیے بولا جانے والا لفظ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ یا من و عن چینی زبان ہی سے اخذ کیا گیا ہے۔
مقام پیدائش :
چین، تبت، نیپال، سری لنکا، انڈونیشیا، برازیل، کینیا، ارجنٹائن، زمبابوے، آسام، اور بنگال۔ انگریز کا بنیا ذہن چین کی درآمدی تجارت کو برداشت نہ کر سکا۔ اس نے انیسویں صدی کے آخر میں چائے کے باغات اپنے مقبوضات میں لگانے شروع کئے اور ۱۹۲۶ء تک آسام اور بنگال کے۲۰۳۲۰۰ مربع ایکڑ پر چائے کی کاشت کی گئی تھی۔
کیا ہے ماہیت؟
چائے، ایک جھاڑی نما پودے کی پتیاں ہیں، جس کی اونچائی ایک گز یا اس سے کچھ زیادہ ہوتی ہے۔ اس کا پودا بڑی حفاظت اور احتیاط کے ساتھ پرورش پاتا ہے۔ اس کے پودوں کو پہلے گملوں میں بویا جاتا ہے چھ ماہ بعد جب پنیری تیار ہوجاتی ہے تو بڑے بڑے قطعات زمین پر قطار اندر قطار بو دیا جاتا ہے۔ اس کی کاشت سطح سمندر سے پانچ ہزار فٹ بلند ایسی پہاڑی ڈھلوانوں پر کی جاتی ہے، جہاں بارش کی اوسط 56,60 انچ سالانہ ہو۔ اس کی پتیاں مہندی یا انار کے پتوں جیسی ہوتی ہیں، جن کے کناروں پر چھوٹے چھوٹے دندانے ہوتے ہیں۔ شروع میں ان کا رنگ بھورا ہوتا ہے جو پختہ ہونے پر سبز ہو جاتا ہے۔ اس کا پھول سفید رنگ کا ہوتا ہے اور اتنا خوشبودار کہ میلوں تک اس کی مہک جاتی ہے۔ اس کے پتوں میں تلخی ہوتی ہے لیکن ابالنے سے زائل ہو جاتی ہے۔ چائے کی پتیاں تین سال بعد چننا شروع کی جاتی ہیں اور سال میں تین بار توڑی جاتی ہیں۔
ایک ہزار سے زائد اقسام :
چائے کی ایک ہزار سے زیادہ اقسام ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر خود رو ہیں، لیکن بلحاظ رنگت تین قسمیں زیادہ مشہور ہیں۔ سفید، سبز اور سیاہ۔ سب سے بہتر وہ سفید چائے ہے جو خوشبودار ہو اور جن کی پتیاں ادھ کھلی ہوں لیکن یہ قسم کم یاب ہے۔اس کے بعد سبز چائے کا نمبر آتا ہے مگر اس میں خشکی زیادہ ہوتی ہے۔ سب سے گھٹیا قسم سیاہ رنگت والی ہے جو ہمارے ہاں زیادہ تر استعمال کی جاتی ہے۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ اور گھٹیا سے گھٹیا چائے ایک ہی پودے سے تیار کی جاتی ہے۔ سبز چائے ان پتیوں پر مشتمل ہوتی ہے جنہیں تھوڑی دیر سکھا کر فوراً ہی اکٹھا کر لیا جاتا ہے۔ اس میں چائے کی تمام خصوصیات موجود رہتی ہیں۔ کالی چائے زیادہ دیر تک پڑے رہنے والے سوکھے پتوں سے تیار ہوتی ہے۔ زیادہ دیر تک
متعدد اقسام :
پڑے رہنے سے ان کا قدرتی سبز رنگ سیاہی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ کالی چائے کے جن برانڈوں نے عالمی شہرت حاصل کی ہے ان میں ہائی سن، ہائی سن سکن، ینگ ہائی سن، ٹوانکی، امپیریل اور گن پاؤڈر شامل ہیں۔ بہت سے برانڈوں میں مختلف پھولوں اور پھلوں کی خوشبو شامل کر دی جاتی ہے۔ مثلاً گلاب،چنبیلی، زیتون، سنگترہ وغیرہ۔ بعض چائے کمپنیاں اپنی برانڈ کو کسی ایسے نشے کی پٹھ دے دیتی ہیں جس سے پینے والا اسی کا عادی بن جاتا ہے۔ بازاروں میں بکنے والی سبز چائے کا بیشتر حصہ عموماً مصنوعی طور پر رنگا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے جپسم، نیل اور ہلدی وغیرہ استعمال کی جاتی ہے۔
کیسی ہوتی ہے عمدہ چائے؟
عمدہ چائے کے بارے میں پرانی طبی کتب میں بے شمار واقعات ملتے ہیں۔ ایک واقعہ کچھ اس طرح سے ہے۔ ’’خطا‘‘ کے علاقہ میں کچھ لوگوں نے شکار کیا اور اس کا گوشت چائے کی پتیوں سے ڈھانپ کر رکھ دیا۔ چند گھنٹوں بعد جب اسے نکالا گیا تو سارا گوشت گل چکا تھا۔ چنانچہ اس سے یہ نتیجہ برآمد کیا گیا کہ عمدہ چائے کھانے کو، خصوصاً گوشت کو بہت جلد ہضم کر دیتی ہے۔کیمیائی تجزیہ امریکہ میں کیمیا دانوں نے چائے کی اڑھائی ہزار کے مختلف برانڈوں کا تجزیہ کر کے جو رپورٹ دی ہے اس کے مطابق اس کے اجزاء کی تفصیل درج ذیل ہے :
تھی این کیفین سے ملتا جلتا ایک مرکب ہے، جسے ۱۸۳۸ء کے دوران دریافت کیا گیا تھا۔ کیفین کافی میں ہوتی ہے اور تھی این چائے میں۔ جس طرح کیفین کی وجہ سے کافی نے مقبولیت حاصل کی اسی طرح تھی این چائے کو مقبول بنانے کا سبب بنی۔ اس کیموجودگی اعصابی تھکن کو دور کرنے کا کام کرتی ہے۔ ٹے نین چائے کا انتہائی ضرر رساں جزو ہے۔جس کی وجہ سے عادی چائے نوش دائمی قبض، خشکی، بے خوابی اور فم معدہ کے درد میں مبتلا ہو جاتےہیں۔ چائے کی پتی کو جتنا زیادہ جوش دیا جائے ٹے نین اتنی ہی زیادہ مقدار میں نکل کر نقصان پہنچاتا ہے۔ ان کے علاوہ ایک اور مرکب زینتھین بھی موجود ہوتا ہے جو معدہ میں فساد برپا کرنے کا سبب بنتا ہے۔
طبیعت کی رعایت :
دوسرے درجہ میں گرم خشک ہے۔ اسی لئے گرم مزاج لوگوں کو نقصان دیتی ہے۔
تیار کرنے کا طریقہ :
چائے کے شائقین نے بڑے بڑے مشکل طریقے لکھے ہیں۔ چین کے مشہور ادیب لن یوتانگ نے اپنی تالیف ’جینے کی اہمیت‘ میں یہاں تک لکھا ہے کہ پینے والا خود ہی اپنے لیے چائے بنائے اور ایک وقت میں ایک برتن میں دو سے زائد کپ نہ بنائے جائیں، لیکن اس مصروف دور میں ہر شخص تو اس شغل چائے نوشی کے لیےوقت نہیں نکال سکتا۔ اس لیے ایک ایسی ترکیب درج کی جا رہی ہے جس پر ہر شخص عمل کر سکتا ہے۔چائے کی پتی کا ایک چمچ چائے دانی میں ڈالیں اور ایک دفعہ جوش دیا ہوا، کھولتا ہوا پانی جو چار پیالی کے لگ بھگ ہوا اس میں ڈال کر چائے دانی کو سرپوش سے بندکر کے ٹی کوزی سے ڈھانپ دیں یا کوئی موٹا کپڑا لپیٹ دیں۔ پانچ منٹ بعد مناسب مقدار میں دودھ اور چینی شامل کر کے نوش فرمائیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ پتی کو جوش نہ دیا جائے، یہ نقصان دہ ہے۔ دودھ اور بالائی کا زیادہ استعمال کیا جائے، یہ مضر اثرات کی اصلاح کرتی ہے۔
کیا ہیں فوائد؟
طبیعت میں فرحت و انبساط پیدا کرتی ہے۔ مقوی اعصاب ہے۔ پیاس کو بجھاتی ہے۔ درد سر کو دور کرتی ہے۔ پسینہ آور ہے، اس لیے بخار کو بھی اتارتی ہے۔ مصفی خون ہے۔ جسم اور رخساروں کی رنگت نکھارتی ہے۔ ریاح اور ورموں کو تحلیل کرتی ہے۔ چائے کی پتی کو گرم کر کے سخت پھوڑوں پر باندھیں تو انہیں نرم کرتی اور پھوڑتی ہے۔ بواسیر کا درد رفع کرتی ہے۔ کھانا کھانے کے بعد استعمال کرنا اکثر حالتوں میں ہاضم اثر رکھتی ہے۔ ایسی خواتین جنہیں ایام کی بندش ہو مفید ہے۔ اعصاب رحم کو تحریک دے کر اس شکایت کا ازالہ کرتی ہے۔ زکام کے مریض کے لیے نافع ہے۔ ضعفِ قلب کی وجہ سے ہونے والی حالت نزع میں اگر چائے کی ایک پیالی میں لونگ اور تھوڑی سی دار چینی ڈال کر دیں تو آب حیات کا کام کرتی ہے۔ دم کشی کی ایسی صورت میں جب بلغم پتلی ہو گئی ہو چائے کا قہوہ پینے سے خارج ہو جاتی ہے۔ آنکھیں دکھتی ہوں تو چائے کی پتی گرم کر کے پوٹلی بنا کر آنکھوں پر باندھنے سے درد دور ہو جاتاہے اور تڑپتا ہوا مریض سکون سے سو جاتاہے۔ سرد بلغمی مزاج والے افراد کے لیے ہر موسم میں اور گرم مزاج والوں کے لیے کسی حد تک موسم سرما میں مفید ہے۔
کیا ہیں نقصانات؟
چائے کا بکثرت استعمال جدید طبی تحقیقات کی رُو سے بے شمار نقصانات کا باعث بھی بنتا ہے۔ یہ طبیعت میں گرمی پیدا کر کے گرم امراض پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ بہت گرم چائے پینا یا چائے نوشوں کی لغت میں لب سوز چائے، پینا یا نہار منہ استعمال کرنا مضر صحت ہے۔ اس کی زیادتی سے بعض افراد کو رعشہ کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔ بلڈ پریشر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ نیند اُڑ جاتی ہے۔ پیشاب زیادہ لاتی ہے۔ دانت کمزور ہو جاتے ہیں۔ معدہ میں خراش پیدا کرتی اور بعض حالتوں میں ہاضمہ کو خراب کر دیتی ہے۔ قبض کی شکایت  کا سبب بھی بنتی ہے۔ جگر خراب ہونے سے خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ یہ خون کو فاسد کرتی ہے۔ بعض مردانہ امراض بھی اس کے کثرت استعمال سے لاحق ہو جاتے ہیں۔ خونی بواسیر کے مریضوں کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ دیر تک استعمال کرنے سے نظر کو کمزور دیتی ہے۔ اس لیے چائے کو صرف ضرورت کے وقت استعمال کیا جائے،کیونکہ اس میں غذائیت بالکل نہیں ہوتی۔ صرف تازیانے کا کام کر کے وقتی طور پر چاق و چوبند کرتی ہے۔ کسی کو تردد ہو تو وہ قدرتی غذاؤں کا انسائیکلوپیڈیا، صفحہ نمبر 254 سے رجوع کر سکتا ہے.

No comments:

Post a Comment