Saturday 6 August 2016

نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ

اپنی بیوی کے ساتھ oral sex (اعضائے تناسل کو چومنا، چاٹنا یا اس کے ساتھ دوسری حرکات کرنا) کا کیا حکم ہے؟ (انتہائی معذرت کے ساتھ) بعض لوگ قرآنِ پاک کی آیت "نساءکم حرث الکم فاءتوبھا" اس کے جواز میں بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ اس کے بارے میں آگاہ کریں؟
جواب: بسم اللہ الرحمن الرحیم
نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّى شِئْتُمْ(223)
"تمھاری بیویاں تمھاری فصل ہیں۔ پس جسطرح تمھارا جی چاہے اپنی فصل میں تصرف کرو۔"
مطلب یہ کہ جس طرف سے تمھارا جی چاہتا ہے اسی طرف سے آؤ جیسے آگے کی طرف سے، پہلو سے، نیچھے سے یا اوپر کی طرف سے فرج میں جنسی مقاربت کر سکتے ہیں۔ (جگہ ایک ہی ہوگا یعنی فُرج لیکن کیفیت مختلف ہو سکتی ہے جیسے نیچے سے، اوپر سے، پہلو وغیرہ سے آنا) لیکن پیچھے دبر میں جماع کرنا حرام اور ایسے شخص پر لعنت برستی ہے۔
جماع سے پہلے بیوی کے ساتھ جماع کی باتیں (رفث)، چھونا اور بوسے لینا بعض علماء کے نزدیک مستحب اور بعض کے ہاں مباح ہیں۔ تاکہ بیوی بھی جماع کرنے کیلئے تیار ہو جائے اور اس کا حق ضائع نہ ہو جائے
عورت کی فُرج (شرمگاہ) کو چومنے، چاٹنے وغیرہ کے متعلق فقہائے کرام کے نظریات درج زیل ہیں:
شیخ صالح اللحیدان (رئیس القضاء الشرعی و عضو ھیئۃ کبار علماء عربستان) اس بارے میں فرماتے ہیں:
1۔ یہ عمل جانوروں کے ساتھ مشابہ ہے۔ بعض جانوروں میں یہ عادت پائی جاتی ہیں کہ مادہ کی شرمگاہ کو زبان سے چاٹتے ہیں۔ ہم اشرف المخلوقات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حیوانوں پر برتری اور شرف عطا فرمایا ہے۔
2۔ مزی (شرم گاہ کی نجاستیں) حرام اور ناپاک ہیں۔ تو کس طرح یہ حلال ہو جاتا ہے ایک حرام اور ناپاک چیز کو چاٹتے ہوئے؟
3۔ ساری بھلائی خیرالقرون ائماء اور سلف الصالحین میں ہیں۔ خیرالقرون میں اس عمل کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ ائماء اور سلف الصالحین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پر عمل کیا ہیں اور سیرت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ (یعنی سیرت میں تو اسکا بالکل ثبوت نہیں ہے لیکن ائماء کے دور میں بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں)
4۔ دراصل یہ عمل مغرب کے فسادی معاشرے کی تقلید ہے جو ٹی وی، فلم، کیبل اور انٹرنیٹ کے زریعے سے لوگوں تک پہنچا ہے۔ اور یہ جب ان لوگوں کے فاسد اعمال دیکھیں تو ان میں بھی اس کام کی خواہش پیدا جاتی ہیں۔
جید عالمِ دین ابن جبرین لکھتے ہیں کہ:
یہ عمل مکروہ ہے اس لئے کہ یہ ادب، اخلاق اور فطرتِ سلیمہ کے خلاف ہے۔
اس بارے میں بعض طبی ماہرین نے ریسرچ کے بعد یہ بات ثابت کی ہیں کہ اس عمل میں بہت سے صحت کیلئے مضر اثرات موجود ہیں۔ منہ
کا شرمگاہ سے تعلق کے نتیجے میں امراض اور وائرسز کے انتقال کا سبب بنتا ہے۔ جیسے herpes اور HPV وائرس جو بلآخر منہ کے کینسر کا سبب بنتا ہے۔
اپنی بیوی سے صحبت(جماع) کے آداب
جس طرح اسلام کے روشن اور پر نور انقلاب نے ایک ہی وار میں جاہلیت کے دور کی تمام بے حیائی اور بے راہ روی کو مٹا دیا اور اُس کی جگہ دنیا میں شرعی نکاح کو پیش کر دیا۔
جس طرح اجتماعی سطح پر نکاح کی پاک سنت ایک طریقہ ٹھہرا۔ اسی طرح نکاح کے بعد ہمبستری یا جماع کے آداب بھی پیش کئے گئے۔ ان آداب کا سیکھنا ہر مسلمان کیلئے ضروری ہے۔
صحبت کے آداب:
1۔ پہلی بار جب دلہن اپنے دلہا کے ساتھ یکجا ہوتی ہے تو مسنون طریقہ یہ ہے کہ پہلے شوہر اپنی بیوی کے پیشانی کے بال پکڑے، بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر یہ دعا کریں:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَمِنْ شَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ
("اے اللہ میں تجھ سے اس کی بھلائی اور اس چیز کی بھلائی چاہتا ہوں جس پر تو نے اس کو پیدا کیا , اور تجھ سے اس کی برائی ,اور اس چیز کی برائی سے پناہ مانگتا ہوں جس پر تو نے اس کو پیدا کیا ")
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ،
" قیامت کے دن اللہ کے نزدیک وہ شخص بدترین درجے میں ہوگا جو بیوی سے جماع كرنى كے بعد راز افشان كرے."
2۔ دولہا کو چاہئے کہ شب زفاف میں اپنی بیوی کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھے۔ ایسا کرنے سے دونوں کی ازدواجی زندگی ہر نا پسند یدہ چیز سے محفوظ رہے گی .
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ کا بیان ہے کہ" جب تمھاری بیوی تمہارے پاس آئے تو تم اُسے کہو کہ وہ تمھارے پیچھے دو رکعت نماز پڑھے، اور یہ دعا کرو
(اللهم بارك لي في أهلي ,وبارك لهم فِيَّ ,اللهم اجمع بَيننا ما جمعت َبِخير ,وفرِّق بيننا إذا فرَّقت إلي الخير)
" اے اللہ میرے لئے میرے اہل میں برکت عطا فرما . اور ان کے لئے مجھ میں برکت عطا فرما , اے اللہ! جب تک ہمیں اکھٹا رکھے خیر پر اکھٹا رکھ, اورجب ہمارے اندر جدائی ہو تو خیر ہی پر جدائی کر " (طبرانی ,علامع البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس اثرکوحسن کہا ہے )
3۔ مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ ہمبستری کی دعاؤں کا اہتمام کرے , ایسا کرنے سے صحبت سے پیدا ہونے والا بچہ شیطان کے اثر سے محفوظ رہے گا , حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا
( لو أن أحدکم إذا أتی أھلہ قال: بسم الله ,اللهم جنبنا الشيطان , وجنب الشيطان ما رزقتنا , فقضى بينهما ولد , لم يضره الشيطان أبدا )
"اگر تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے
( بِسْمِ اللَّهِ ، اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا ) "
اے اللہ !تو ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ, اور تو ہمیں جو اولاد عطا کر اسے بھی
شیطان سے بچانا " تو اُن کے یہاں جو بچہ پیدا ہوگا شیطان اُسے کبھی ضرر نہیں پھنچا سکے گا " (صحیح بخاری وصحیح مسلم )
4۔ جماع کے شروع میں بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا ضروری ہے۔ اس میں بہت زیادہ برکت ہے۔(اور یا اوپر زکر شدہ دعا)
5۔ جماع کے وقت بالکل ننگا ہونا ممنوع ہے۔ اس سے میاں، بیوی اور بچے کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ میاں بیوی اپنے اوپر کوئی پردہ وغیرہ ڈال کر صحبت کریں۔ اپنی انسانی کرامت کا خیال رکھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ
" جانوروں کی طرح اپنے آپکو برہنہ نہ کر

فقہ حنفی پہ ایک اعتراض کا جواب

غیر مقلدین نے فقہ حنفی پہ ایک اعتراض کیا ہے کہ فقہ حنفی میں عورت کے لئے مرد کا آلہ تناسل منہ میں ڈالنا جائز ہے لیکن ہمیشہ کی طرح یہاں بھی غیر مقلدین نے دھوکہ دیا ہے۔ غیر مقلدین نے جو حوالہ دیا ہے فتاوی عالمگیری کا اس میں کہیں بھی اس عمل جو جائز نہیں کہا گیا بلکہ اس میں لکھا ہے کہ ''اگرمرد نے اپنی بیوی کے منہ میں اپنا آلہ تناسل داخل کیا تو بعض نے فرمایا کہ مکروہ ہے اور بعض نے اس کے برخلاف کہا ہے.''( فتاوی عالمگیری،جلد 9 صفحہ 110) اس حوالہ میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ یہ عمل جائز ہےبلکہ واضح لکھا ہے کہ یہ عمل مکروہ ہے اور بعض نے اس کے برخلاف کہا ہے تو اس سے یہ کہیں بھی ثابت نہیں ہوتا کہ کسی عمل کو صرف برخلاف کہہ دینے سے وہ جائز ہو جاتا ہے۔۔
غیر مقلدین نے یہ حوالہ بیان کرتے ہوئے جھوٹ کہا ہے کہ فقہ حنفی میں یہ عمل جائز ہے۔ دراصل یہ مسئلہ خود غیر مقلدین کا ہے۔۔ ان کے نزدیک عورت کے لئے مرد کا آلہ تناسل منہ میں ڈالنا جائز ہے۔
ان کے فتاوی کی مشہور ویب سائٹ محدث فتاوی میں اس بارے میں فتوی دیا گیا ہے۔کسی نے فتاوی میں اورل سیکس کے بارے میں فتوی پوچھا تو اس کا جواب دیا گیا کہ
''شریعت کا اصول ہے یہ کہ "ہر عمل جائز ہے سوائے اس کے جس کے بارے میں شریعت میں واضح ممانعت آگئی ہو۔" یہی اصول سیکس پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ شریعت نے میاں بیوی کے سیکس کے معاملے میں صرف دو امور کی ممانعت کی ہے:
1. ایک دوران حیض سیکس اور
2. دوسرے پیچھے کے مقام (دبر) میں سیکس۔
اس کے علاوہ باقی سب جائز ہے اورل سیکس کے بارے میں اختلاف اس وجہ سے ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کی کوئی واضح ممانعت نہیں آئی۔ فقہاء کے سامنے جب یہ صورت آئی تو انہوں نے قرآن و حدیث کے عمومی مزاج سے استدلال کیا ہے۔ بعض کے نزدیک چونکہ ممانعت نہیں آئی، اس لیے یہ جائز ہے اور بعض کے نزدیک چونکہ اس میں گندگی ہوتی ہے، اس وجہ سے ناجائز ہے۔ اس میں جواز کے قائلین میں ڈاکٹر یوسف القرضاوی صاحب کا نام آتا ہے۔ نیز جو لوگ جواز کے قائل ہیں، وہ بھی مطلق جواز کے نہیں بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو تیار کرتے ہوئے اگر منہ سے شرم گاہ وغیرہ کو چوم لیں تو اس میں حرج نہیں۔ تاہم مادہ منویہ کے منہ میں ڈسچارج کرنے کو وہ بھی غلط سمجھتے ہیں۔''

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/2336/0/

ایک دوسرے فتوی میں کہا گیا ہے کہ '' میاں بیوی ایک دوسرے کے جسم کے ہر حصے کا بوسہ لے سکتے ہیں۔کیونکہ اس حوالے سے کسی نص میں کوئی ممانعت وارد نہیں ہے۔''

http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/6877/0/

اب ہر حصے میں شرمگاہ اور آلہ تناسل بھی آتا ہے جس کو بوسہ دینے کے لئے غیر مقلد جائز کہہ رہے ہیں۔ دراصل یہ فتوی خود غیر مقلدین کا تھا لیکن انھوں نے احناف پہ جھوٹا الزام لگا دیا۔

No comments:

Post a Comment