ایس اے ساگر
والدین کے لئے نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے. اہل علم حضرات نے اس کی دلیل بھی پیش کی ہے،
إن الله ليرفع الدرجة للعبد الصالح في الجنة : فيقول : يا رب أنى لي هذه ؟ فيقول: باستغفار ولدك لك
الراوي: أبو هريرة المحدث: ابن كثير - المصدر: نهاية البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 2/340
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح وله شاهد في صحيح مسلم
جس کا مطلب ہے کہ اللہ ایک شخص کا جنت میں درجے بلند کرتاہے تو وہ اللہ سے اس کا سبب پوچھتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تیری اولاد کی تیرے لیے دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے (مسند احمد)
(اذا مات الاسنان انقطع عنه عمله الا من ثلاثة: الا من صدقة جارية‘ او علم ينفع به‘ او والد صالح يدعو له) (صحيح مسلم‘ الوصية‘ باب ما يحلق الانسان من الثواب بعد وفاته‘ ح: 1631)
"انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے ہاں البتہ تین طرح کا عمل باقی رہتا ہے
(1)صدقہ جاریہ
(2) وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہو اور
(3) وہ نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی ہو۔"
لیکن اس کا کیا کیجئے کہ دور حاضر میں سرپرستوں اور ان کے بچوں کے مابین ذہنی فاصلے بڑھتے ہی جارہے ہیں. عجیب بات تو یہ ہے کہ اچھے خاصے ذی شعور والدین اپنی بگڑی ہوئی اولاد کو ان کے حال پر چھوڑ کر نہ صرف مطمئن ہیں بلکہ اپنی نجی مجلسوں میں بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ پچھلے کئی سال سے میں نے اس سے بات تک کرنی چھوڑ دی ہے. غنیمت ہے کہ معاشرہ میں تیزی سے پھیلنے والی اس وبا کیخلاف سماجی روابط کی ویب سائٹس پر گردش کر رہی ہے. مصنف کا نام تو غائب ہے تاہم اس پرمغز اور مدلل تحریر میں سرپرستوں کے لئے اہم رہبری ملتی ہے :
قربت کی ضرورت :
عربی کے چند کلمات ایک جگہ پڑھے تو ان کی جامعیت نے حیران کر دیا۔ چار کلمات پر مشتمل یہ نہایت قیمتی نصیحتیں گویا والدین کے بچوں کے ساتھ خوشگوار تعلقات کی کلید ہیں…
ذرا ملاحظہ فرمائیں:
اقتربوا من ابناکم… وشاوروھم… وحاوروھم…واکسبوھم… قبل ان تخسروھم…!
ترجمہ:
🔸 اپنے بچوں کے قریب رہا کرو …
🔸انُ سے مشورے کیا کرو…
🔸تبادلۂ خیال کیا کرو…
🔸انُ کے دل جیت لو…
🔸قبل اس کے کہ تم انہیں ہمیشہ کے لئےکھو دو…
والدین کی سب سے اول اور بڑی ذمے داری، بچوں کی صحیح تعلیم وتربیت ہوتی ہے۔ بچپن اور لڑکپن کا زمانہ بے شعوری وبے خیالی کا دور ہوتا ہے۔
⚡اس وقت بچے بڑوں کے رحم وکرم کے محتاج ہوتے ہیں۔ بچے انہی کو اپنا محسن سمجھتے ہیں جو انہیں اپنے قریب رکھتے ہیں، ان سے پیار کرتے ہیں۔
حکمت عملی :
بہترین تربیت جو قربت وانسیت سے ممکن ہے، ڈانٹ ڈپٹ اور مار دھاڑ سے ہرگز ویسی ممکن ہی نہیں…
سیرت النبی میں بچوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسنِ سلوک کا جائزہ لیں تو آپ بہترین مربّیاور بچوں پر رحم کرنے والے نظر آئیں گے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بچوں کے ساتھ نرمی، محبت، عاطفت، ملاطفت کا درس نہ صرف اپنی تعلیمات ہی کے ذریعہ دیا، بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کا ثبوت پیش فرمایا۔
آپﷺ نے بچوں کے بچپنے کا ہر لحاظ سے خیال رکھا۔ اپنی تمام تر رفعت شان کے باوجود ان کے ساتھ کھیلے بھی اور کبھی ان پر سختی نہیں فرمائی۔
اپنے پیارے نواسوں سے آپﷺ کی محبت و شفقت کے کئی واقعات ہم سنتے پڑھتے رہتے ہیں کہ کیسے وہ عین نماز کی حالت میں بھی لاڈ سے آپ ﷺ پر سوار ہوجاتے تھے اور آپﷺ ناراض تو کیا ہوتے، ان کے لیے سجدے کو طویل فرما لیتے۔
ایک بار آپﷺ حضرت حسن کو چوم رہے تھے۔ ایک دیہاتی نے اعتراض کرتے ہوئے گویا حیرت کا اظہار کیا آپﷺ نے فرمایا:
اگر اللّہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں!
ایک بار ایک اور ایسے ہی موقع پر جب ایک صحابی نے حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا کہ جو شخص رحم نہیں کرتا، اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا۔
مسلمان تو مسلمان ،حضور نے تو کفار کے بچوں کے ساتھ بھی نرمی کی تلقین فرمائی۔ ایک یہودی کا لڑکا آپ علیہ السلام کی خدمت میں آیا کرتا تھا۔ وہ ایک دفعہ بیمار ہوگیا۔ آپﷺ نے از خود تشریف لے جا کر اس کی عیادت فرمائی۔ اس بچے کے سر ہانے بیٹھے، پھر اس بچے سے فرمایا: اسلام قبول کرو، اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی۔ والد نے بھی کہا:ابوالقاسم (ﷺ) کی اطاعت کرو، لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہوگیا۔ آپﷺ یہ کہتے ہوئے نکلے:
"تمام تعریفیں اسی اللّہ کے لئے ہیں جس نے اس کو آگ سے بچالیا۔"
آج اس اسوہ حسنہ کی روشنی میں ہم اپنے سلوک کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ کفار اور غیر کے بچے تو الگ، ہم اپنے بچوں، اپنے خون کے ساتھ کیسا بیگانے کا سا سلوک کرتے ہیں؟
🔶باپ کی درشت مزاجی کی وجہ سے بچہ پڑوسی انکل کے زیادہ قریب، باپ سے دور ہوتا ہے…
🔸بات بات پہ مارنا، چلانا، برا بھلا کہنا بچوں کو نہ صرف ڈھیٹ بنا دیتا ہے بلکہ ان کو ماں باپ سے دور بھی کر دیتا ہے…
🔸پھرہوتا یہ ہے کہ بچے اس جذباتی خلا کو باہر والوں سے پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں… 🔸باہر پھرتے سفاک درندے ایسے ہی معصوموں کا شکار کرنے گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں… سو وہ انہیں جھوٹی محبت کے جال میں پھانس کر ان کا جذباتی و جنسی استحصال تک کر بیٹھتے ہیں۔
🔸گھر میں خود بچے سے متعلق امور میں بھی اس سے کوئی مشورہ نہیں ہوتا، نہ اس سے رائے لی جاتی ہے اور نہ اس کی پسند ناپسند کا خیال رکھا جاتا ہے…
🔸ہر وقت، ہر بات میں بس اپنی مرضی چلائی بلکہ باقاعدہ ٹھونسی جاتی ہے…
🔸آہستہ آہستہ والدین اور بچوں کے درمیان ایک ایسی اجنبیت کی دیوار کھڑی ہونے لگتی ہے کہ پھر بچہ کسی جذباتی کشمکش کا شکار ہو جائے، اس کے ساتھ کچھ غلط ہونے لگے تو وہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بات والدین سے نہیں کہہ پاتا…
اور یوں یہ صورت حال کبھی خدانخواستہ ناقابل تلافی نقصان کا باعث بن جاتی ہے۔
یاد رکھئے …
🔸انگلی پکڑ کر چلانے والے ہاتھ جب ہاتھ چھوڑ دیں تو پھر جانے کون کون انگلیاں پکڑتا ہے اور کس کس سمت لے جاتا ہے۔
🔸اپنے احساسات کو جھنجھوڑئیے اپنی غفلت کو دور کیجیے۔
🔶مستقبل کے ان ہونہار نونہالوں کو اپنے سے قریب کیجیے، ان سے مشورے کیجیے، انہیں اہمیت کا احساس دلائیے، گاہے ان کے ساتھ تبادلۂ خیال کیا کیجیے اور ان کے دل جیت لیجیے…
🔶قبل اس کے کہ آپ انہیں ہمیشہ کے لئے کھو دیں…!
کون کرے گا قبول؟
عبدالصمد فاروق نے عربی سے ترجمہ ایک تحریر میں واضح کیا ہے کہ دلوں كی وه اقسام جن كا قرآن مجيد ميں ذكر هے اور غور فرمائیے كے ميرے پاس ان ميں سے كون سا دل پے.
1. القلب السليم:
یہ وه خالص دل ہے جو كفر، نفاق اور گندگی سے پاک پوتا ہے....
{ إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ }
سورة الشعراء، الآية 89
2. القلب المنيب:
يہ وه دل ہے جو اللہ سے توبہ كرنے اور اس کی اطاعت ميں لگا رہتا ہے.
{ مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَن بِالْغَيْبِ وَجَاء بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ }
سورة ق، الآية 33
3. القلب المخبت:
یہ وه دل ہے جو جهكا ہوا مطمئن اور پر سكون ہوتا ہے.
{ فتُخْبِتَ لَهُ قُلُوبُهُمْ }
سورة الحج، الآية 54
4. القلب الوجل:
یہ وه دل ہے جو نيكی کرنے كے بعد بھی ڈرتا رہتا ہے کہ پتہ نہیں اللہ قبول كرے گا يا نہيں اور اپنے رب كے عذاب سے ہروقت ڈرتا رہتا ہے
{ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ }
سورة المؤمنون، الآية 60
5. القلب التقي:
یہ وه دل ہے جو اللہ كے شعائر كي تعظيم كرتا ہے
{ ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ }
سورة الحج، الآية 32
6. القلب المهدي:
یہ وه دل ہے جو اللہ كے فيصلوں پر بھی راضی رہتا ہے اور اپنے رب كے احکامات كو بهي بخوشی قبول كرليتا ہے.
{ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ }
سورة التغابن، الآية 11
7. القلب المطمئن:
یہ وه دل ہے جس كو اللہ کی توحيد اور اس كے ذكر سے ہی سكون ملتا ہے
{ وتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللّه }
سورة الرعد، الآية 28
8. القلب الحي:
یہ وه دل ہے جو اللہ کی نافرمان قوموں كا انجام سن كر ان سے عبرت اور نصحيت حاصل كرتا ہے
{ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَذِكْرَى لِمَن كَانَ لَهُ قَلْبٌ }
سورة ق، الآية 38
اللّہ سبحان و تعالی امت کو عقل سلیم عطا فرمائے اور اچھے والدین بننے کی توفیق عطا فرمائے.
No comments:
Post a Comment