Saturday, 13 August 2016

رحماء بینھم

اللہ رب العزت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی نفوس قدسیہ کی جماعت عطا فرمائی کہ ان کے مومن اور سچے پکے کامل مومن ہو نے کی گواہی اللہ رب العزت نے اپنی لاریب کتاب قرآن مجید میں یوں ارشاد فرمائی
أُولَئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا
اور ان کی فلاح دنیوی واخروی کو یوں بیان فرمایا،
أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
اور ان کو اپنی رضاعت کے تمغہ سے نوازتے ہوئے فرمایا ’رضی اللہ عنہ‘ اللہ ان سے راضی ہو گیا اگر ہم صرف رضاعت کے اعلان کو بھی نظر انصاف سے دیکھیں تو ان کی زندگیاں ہمارے سامنے نکھر کر سامنے آجاتی ہیں وہ اس طرح کی رب کریم کی ذات کا علم غیر محیط ہے آنے والے حالات کا علم بھی خالق ارض وسما سے مخفی نہیں ہے جب کہ انسان ناقص علم والا ہے آج اگر کسی سے راضی اور اعلان کرتا ہے کہ میں فلاں آدمی سے راضی ہوں اب کل اگر اس آدمی سے ناراض ہو جا ئے تو یہ اس کے لیے کوئی عیب کی بات نہیں کیونکہ انسان کل کے بارے میں نہیں جانتا لہذا آدمی کی رضاعت اس وقت تک محدود ہے کیونکہ اس کا علم محدود ہے اور خالق کے علم میں قیامت تک اور بعد از قیامت کے احوال بھی ہیں تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے مومن فلاح یافتہ اور رضاعت کا اعلان فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی اپنی وفات تک مومن بھی تھے صادق اور عادل بھی تھے اس حال میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ رب کی رضا ان کے شامل حال تھی۔

مثالی پیار و محبت :

دنیا میں پیار ومحبت ان کی جو دنیا میں تھی اس کی مثال تاریخ میں ملنا مشکل ہے ان کی محبت کا تذکرہ قرآن نے یوں بیان فرمایا
رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ
کہ صحابہ آپس میں شیر وشکر تھے اس پر فتن دور کے اندر بعض ناعاقبت اندیش لوگ مشاجرات صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کو آڑ بنا کر لوگوں کے عقائد ونظریات پر ڈاکہ زنی کرنے کی نامعقول کوشش میں مصروف ہیں ۔ان حضرات کے دلائل تاریخ کی پھٹی پرانی روایات ہیں یہ جو ں ہی تاریخ میں ایسی روایت دیکھتے ہیں جو بظاہر رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کے مخالف ہے اس کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں ۔ اس کار نار میں وافر حصہ روافض اور خوارج کا شامل ہے.
قارئین کرام، ہم سب سے پہلے کی خدمت میں چار اصول پیش کرتے ہیں جو تاریخی روایت کی جانچ پڑتال میں مدد دے سکیں اگر ان کو سامنے رکھا جائے تو اس خالق سے پوری امید ہے کہ جس نے ہدایت کو اپنے ہاتھ میں رکھا کہ کوئی آدمی صراط مستقیم سے ہٹ نہیں سکتا بشرطیکہ وہ نظر انصاف سے دیکھے
تاریخی روایات اگر عام معلومات پر مبنی ہوں تو ان کو بلا چوں چراں کے مانا جا سکتا ہے لیکن اگر انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق ہوں تو پھر ان کو بلا چوں چرا نہیں مانا جائے گا ورنہ اس کی زد برائے راست نصوص قرآنی، ختم نبوت اور دیگر ضروریات دین پر پڑے گی صحابہ کرام کی زندگی دین حق کا متن ہے ،سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی کھلی کتاب ہے لہذا ان کے بارے میں تاریخی روایات میں صرف وہ روایت قابل قبول ہو گی جو درایت کے ان چار اصولوں پر پوری اترے گی ۔
کوئی روایت قرآن کی نص کے مخالف نہ ہو ۔
کوئی روایت صحیح حدیث کے مخالف نہ ہو ۔
وہ روایت عقل سلیم کے مخالف نہ ہو ۔
کوئی روایت متعلقہ صحابی کی معروف سیرت کے مخالف نہ ہو ۔
(اصحاب محمد کا مدبرانہ دفاع صفحہ 39)
اب ہم قارئین کی خدمت میں آسانی کے لئے ہر ایک اصول پر ایک ایک مثال پیش کرتے ہیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو ۔

نصوص قرآنی کے مخالف ہو نے کی مثال:

جنگ صفین میں حضرت ابو موسی اشعری اور عمر بن عاص رضی اللہ عنہم دونوں ثالث تھے ان کے بارے میں روایت ہے کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے جب متفق علیہ فیصلہ سنایا تو حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر دوسرا فیصلہ سنا دیا اس پر حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تیری مثال اس کتے کی ہے جو ہر وقت زبان نکال کر ہانپتا ہے حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا تیری مثال گدھے کی ہے جس پر کتابیں لدی ہوں ظاہر ہے کہ یہ انداز گفتگو جو نہایت جاہلانہ ہے یہ ان دونوں حضرات سے ناممکن ہے کیونکہ قرآن پاک میں اللہ رب العزت ان کی مدح میں فرماتے ہیں:
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ
کہ فضول باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے
وَالْحَافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ
اللہ کی حدود کے نگران ہیں
الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ
نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکنے والے ہیں ،یہ اور اس طرح کی دیگر آیات جو صحابہ کرام کی مدح اور ان کے اخلاق کی تعریف میں ہیں تو یہ کیسے تصورر کیا جا سکتا ہے کہ ان حضرات نے ایسی گفتگو فرمائی ہو معلوم ہوا کہ یہ روایت جھوٹی اور خانہ ساز ہے۔

حدیث کے مخالف کی مثال :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا کہ فتنہ اٹھے گا اور اس میں یہ شخص حق پر ہو گا لہذا تم اس کا ساتھ دینا
(البدایہ ج 1ص210)
اور ایک مقام پر فتنوں کا ذکر کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا کہ خلیفہ کا قتل ظلما جسے قتل کیا جائے گا وہ حق کے مطابق (فیصلہ) دے رہا ہو گا اورحضرت عثمان کو وصیت فرمائی کہ اللہ تعالی آپ کو ایک قمیص پہنائیں گے لوگ اسے اتروانا چاہیں گے تم ہرگز نہ اتارنا.
(البدایہ ج 7ص207)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتنے کے بارے میں حضرت عثمان کی مکمل اور غیر مشروط حمایت فرمارہے ہیں اور صحابہ کرام کو ان کی حمایت کا تاکیدی حکم فرما رہے ہیں اس کے ساتھ حضرت عثمان کے حق پر ہو نے کا اعلان فرما رہے ہیں اور فتنہ پروروں کو باطل ،جھوٹا، ظالم، قاتل قرار دے رہے ہیں اگر حضرت عثمان کی کمزور پالیسی یا کسی عمل کی کمزوری کا اس میں کوئی دخل ہو تا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نشاندہی نہ فرماتے اور حضرت عثمان کو اس سے باز رہنے کی تاکید نہ فرماتے ۔
لہذا معلوم ہوا وہ تمام روایات جو یہ بتاتی ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے اقربا پروری کی ،کمزوری دکھائی اور نااہل عاملین کی کمزوری نے فتنہ کھڑا کر دیا یا دیگر اس طرح کی روایات جو صحیح حدیث کے خلاف ہیں جھوٹی اور من گھڑت ہیں ۔

عقل سلیم کے خلاف ہو نے کی مثال:

تاریخ یہ بتاتی ہیں کہ فتنہ پروروں نے مختلف صحابہ کرام مثلا حضرت علی ، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، امہات المومنین رضوان اللہ علیھم اجمعین اور بعض دیگر صحابہ کرام کے نام پر خط گھڑے گئے تھے اس بات کو تاریخ نے تسلیم بحی کیا ہے کہ یہ خط فرضی من گھڑت تھے اور کھلا فراڈ تھے جب کہ اس سلسلہ کا ایک خط جب فتنہ پروروں نے حضرت عثمان کے نام پر گھڑا تو اس مسلمہ حقیقت کو نظر انداز کر دیا گیا اور یہ قرار دے دیا گیا کہ یہ مروان نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نام پر لکھا ہے صرف مقصد خلیفۃ النبی کی پاک سیرت پر ایک خائن شخص کو ذمہ داری سونپنے کا دھبہ لگا نا تھا ۔ اگر بالفرض حضرت عثمان کی طرف سے مروان نے خط لکھا تھا ہم مان بھی لیں تو بقیہ حضرات حضرت علی ، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، امہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین اور بعض دیگر صحابہ کرام کے ناموں سے لکھے جانے والے خطوط کس کس مروان نے لکھے تھے؟ اگر یہ فتنہ بازوں نے لکھے تھے تو کیا وجہ ہے کہ وہ ایک اور فرضی خط نہیں لکھ سکتے تھے کہ مروان پر اس کی تہمت لگا نے کی ضرورت پیش آئے؟لہذا معلوم ہوا کہ مروان کی طرف اس فرضی خط کی نسبت عقل سلیم کی رو سے نرا جھوٹ اور کھلا بہتان ہے.

صحابی کی معروف سیرت کے مخالف ہو نے کی مثال:

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی معروف سیرت یہ ہے کہ وہ کفر کے مقابلہ میں بہت سخت ہیں جیسا کہ بدر کے قیدیوں کے بارے میں ان کی رائے کہ سب کو قتل کر دیا جائے ۔
لیکن تاریخ میں ایک روایت ملتی ہے کہ مالک بن نویرہ ایک تمیمی سردار مرتد ہو گیا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس لا یا گیا حضرت خالد نے اسے پیار سے سمجھایا کہ زکوٰۃ بھی نماز کی طرح فرض ہے وہ جواب میں کہنے لگا تمہارے ساتھی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی خیال ہے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا میرے ساتھی ہیں تو آپ کے نہیں ہیں ضرار اس کی گردن اتار دو ،گردن اتار دی گئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس پر ناراض ہوئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول کر دیا جائے حضرت صدیق اکر نہیں مانے تو حضرت عمر نے اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلا کام یہ کیا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو منصب سے معزول کر دیا کیونکہ انہوں نے مالک بن نویرہ کا قتل کیا تھا۔ جبکہ یہ حضرت فاروق اعظم پر کھلا جھوٹ ہے ،حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو معزول ضرور کیا تھا مگر اس کی وجہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے خود ارشاد فرمائی کہ لوگوں کا اعتماد فتوحات کے سلسلے میں اللہ کی بجائے خالد پر نہ ہو جائے، اس سے مالک بن نویرہ کے قتل کا کوئی تعلق نہیں یہ روایت حضرت فاروق اعظم مشہور سیرت سے مطابق نہیں رکھتی لہذا یہ روایت جھوٹی ہے جو حضرت عمر فاروق اور حضرت خالد بن ولید کو بدنام کرنے کے لیے گھڑی گئی ہے ۔
(اصحاب محمد کا مدبرانہ دفاع صفحہ 43)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقام ومرتبہ اور تاریخی روایت کے قبول کرنے کے اصولوں کے بعد قارئین یہ ذہن نشین فر مالیں کہ حضرت امیر معاویہ ہو یا حضرت علی یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھم یہ سب کے سب مجتہد تھے اگر ہم ان کی آراء کو اس نظریہ سے دیکھیں گے تب بھی روافض کی بخیہ دری کا پردہ چاک ہوتا نظر آئے گا کیونکہ بخاری شریف میں رویت موجود ہے جس کاحاصل یہ ہے کہ مجتہد سے خطا بھی ہوتی ہے اور وہ درستگی کو بھی پہنچتا ہے اور جس مجتہد سے خطا ہوئی اللہ اس کو بھی ایک اجر عطا فرماتے ہیں اور جس کے رائے درست ہوئی اللہ تعالی اس کو دو اجر عطا فرماتے ہیں گویا اجر سے محروم کوئی بھی نہیں ہوتا حضرت علی حضرت امیر معاویہ حضرت عائشہ صدیقہ رضوان اللہ علیہھم اجمعین کیونکہ یہ سب حضرات مجتہدین میں سے تھے دونوں کی رائے اپنی اپنی جگہ پر صحیح تھی اپنی اپنی جگہ پرحق تھی ان میں سے ایک کا اجتہاد درستگی کو پہنچا اور ایک کا اجتہاد اس درجہ کا ہوا کہ اللہ پھر بھی ایک اجر عطا فرمائیں گے ۔
مجتہد کے بارے میں ان معلومات کے بعد اب دیکھیں کہ ان حضرات کی آراء اپنے موقف پر کیا تھیں اور یاد رہے کہ دونوں کا موقف آپس میں لڑنا جھگڑنا مقصود ہی نہیں تھا کیونکہ جب دونوں حضرات سے سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم اصلاح کی غرض سے جمع ہوئے ہیں نہ کہ لڑائی کی غرض سے ۔
چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کے نام خط میں واضح فرما دیا
فالاصلاح نرید وننوی لتعود ھذہ الامۃ اخوانا
ہم صرف اصلاح چاہتے ہیں تاکہ یہ امت دوبارہ رشتہ اخوت میں منسلک ہو جائے ۔
اور حضرت قعقاع بن عمر رضی اللہ عنہ نے جب بصرہ میں ام المومنین رضی اللہ عنھا یہ پوچھا کہ آپ کس مقصد کے لیے تشریف لائیں تو فرمایا اے بیٹے لوگوں کے درمیان اصلاح کے لیے ۔
(البدائیہ جلد 7 صفحہ 225 )
اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جب سوال کیا گیا تو فرمایا اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ علی مجھ سے افضل ہیں اور وہی خلافت کے حقدار ہیں لیکن کیا تم جانتے ہو کہ عثمان کو ظلما قتل کیا گیا وہ میرے چچا ذاد تھے میں تو صرف ان کے خون کا مطالبہ کرتا ہوں تم علی کے پاس جاؤ اور اس سے کہہ دو کہ قاتلین عثمان کو ہمارے حوالے کرے اور میں اس کا فرماں بردار بن جاؤں گا ۔
(البدائیہ جلد 7 صفحہ321)
ان روایات سے ان حضرات کا موقف بالکل واضح ہو گیا کہ ہر ایک کا ارادہ اصلاح کا تھا نہ کہ جنگ کا اور مسئلہ بھی متعین ہو ا وہ ہے خون عثمان رضی اللہ عنہ ۔
اب دیکھیں کہ ان حضرات کی آرا ء کیا تھیں چنانچہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اجتہاد یہ تھا بیعت پہلے اور قصاص بعد میں یہی امت مسلمہ اور نظام اسلامی کے بہترین مفاد میں سے ہے ۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اجتہاد یہ تھا قصاص پہلے بیعت بعد میں یہی امت مسلمہ اور نظام اسلامی کے بہترین مفاد میں سے ہے۔ یہ تھا دونوں حضرات کا موقف اور اہل حق کا اس بات پر اجماع ہے کہ دونوں فریق مخلص تھے اپنی غرض یا ذاتی مفاد ان دونوں میں سے کسی ایک کے پیش نظر نہیں تھا دونوں کی جدو جہد اور اقدام اسلام کے مفاد میں اور شریعت کے دائرہ میں تھے دونوں طرف کبائر صحابہ موجود تھے نہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور نہ ہی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی رائے میں تنہاء تھے جنگ کرنے کی غرض کسی ایک کی بھی نہیں تھی یہ فتنہ پروروں کی سازش کی وجہ سے ہوئی جس کا ذکر کرنا یہاں مقصود نہیں ۔ اب ان حضرات کے اجتہاد اور آراء پر اہل السنت کا موقف کیا ہے چنانچہ اس کے لیے ایک حوالہ پیش خدمت ہے حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب عقائد اسلام میں فرماتے ہیں :
ان کی صلح بھی حق کے لئے تھی ان کی لڑائی بھی حق کے لئے تھی ہر ایک گروہ نے اجتہاد کے مواقف عمل کیا پس جو مصیب ہے اس کے لئے دو اجر ہیں اور جو مخطی ہے اس کے لئے ایک اجر بہر حال مصیب ہو یا کخطی ملامت سے ہر طرح دور ہیں درجات ثواب اور اجر میں فرق ہے ۔ علماء نے فرمایا ہے کہ ان لڑائیوں میں حق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی جانب ہے اور ان کا مخالف خطا پر تھے لیکن یہ خطا خطا ء اجتہادی تھی جس پر طعن وملامت ہرگز جائز نہیں چہ جائے کہ کفر وفسق کو ان کی طرف منسوب کیا جائے حضرت علی کا ارشاد ہے کہ یہ ہمارے بھائی ہیں انہوں نے ہم پر بغاوت کی ہے یہ نہ کافر ہیں نہ فاسق ہیں اس معاملہ میں حضرت معاویہ بھی تنہاء نہیں تھے بلکہ کم وبیش نصف صحابہ کرام ان کے ساتھ تھے اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ لڑئی کرنے والے کافر یا فاسق ہو تو نصف دین سے اعتماد اٹھ جائے گا ۔
مزید فرماتے ہیں جنگ جمل ہو یا صفین یہ تمام جھگڑا حضرت عثمان کے قاتلوں کے قصاص کے بارے میں تھا خلافت کے بارے میں نہ تھا حضرت علی کی افضلیت اور استحقاق خلافت سب کو مسلم تھا چنانچہ علامہ تفتازانی کے حوالے سے نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان جو لڑائی جھگڑے جو پیش آئے وہ خلافت کے بارے میں نہ تھے بلکہ اجتہادی خطا کے سبب میں تھے
(عقائد اسلام صفحہ 111 )
لہذا اس ساری عبارت سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ یہ دونوں حضرات مجتہد تھے مسلمان بھی تھے ان کا جھگڑا اصلاح کے لیے تھا نہ کہ خلافت کے لییاس کی تائید اس حدیث میں موجود ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی شان میں فرمائی کہ یہ میرا بیٹا مسلمانوں کے دو گروں میں صلح کروائے گا.
(ترمذی )
اس سے بھی واضح ہوا کہ یہ دونوں گروہ پکے سچے اور کامل مسلمان تھے اب ان دونوں مقدس گروہوں میں سے کسی ایک کے خلاف بھی لب کشائی کرنا گویا اسلام کو ایمان کو خیر آباد کہنا ہے دونوں طرف کے شہداء جنتی بھی ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیب بن نجبہ فرماتے ہیں صفین والے دن حضرت علی میرا ہاتھ پکڑے ہوئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت کے مقتولین پر جا کھڑے ہوئے اور کہنے لگے ’یرحمکم اللہ‘ اللہ تم پر رحم فرمائے پھر اپنی جماعت کے مقتولین کی طرف پلٹ گئے اور ان پر بھی رحم کی دعا کی جس طرح حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کے لئے کی تھی.
(کنز الالعمال جلد 11صفحہ 351)
اور ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یوں ارشاد فرمایا ہمارے اور انکے یعنی اہل شام کے مقتولین جنتی ہیں اور خارجیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنمی قرار دیا ہے اور حضرت ابو امامہ نے انہیں’’ کلاب جہنم ‘‘ جہنم کے کتے کہا ہے
(مدبرانہ دفاع صفحہ 152)
لہذا ہر دونوں حضرات ایک دوسرے کی عزت وعظمت کے قائل بھی جنتی بھی مانتے تھے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا صلح فر ما لینا ان حضرات کے عمل پر مہر کی حیثیت ہے کہ دونوں حضرات آپس میں رحماء بینھم کا مصداق تھے ہم میں سے کسی ایک آدمی کے لیے بھی یہ کو ئی گنجائش نہیں کہ کسی ایک کے بارے میں بدزبانی کر کے ایمان سے محروم ہونے کا سبب بنیں ہمیں دونوں کا احترام کرنا چاہیے حضرت علی ہو یا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہم ہمارے سروں کے تاج ہیں حضرت امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا ہمارے ماں ہیں اور کسی حلالی بیٹے کو یہ زیبا نہیں دیتا کہ وہ ماں یا ماں کے بیٹے علی یا مومنین کے ماموں حضرت امیر معاویہ رضوان اللہ علیہ اجمعین پر زبان درازی کریں اللہ تعالی ہمیں صراط مستقیم پر گامزن فرمائے اور مسلک اہل السنت والجماعت کے ساتھ رکھے صحابہ کرام کی محبت ہمارے دلوں میں موجزن فرمائے ۔
(آمین)
مولانا محمد بلال جھنگوی

No comments:

Post a Comment