آج کل بعض لوگ اس کا انکار کرتے ہیں
عند الاحناف اس کے کیا دلائل ہیں؟
مفصل ومدلل بحث فرمائیں
الجواب وبا اللہ التوفیق
اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری کی قربانی کتاب و سنت سے ثابت ہے اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ
بھینس گائے کی ایک قسم ہے، اس پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے
امام ابن المنذر فرماتے ہیں:
’’ واجمعوا علی ان حکم الجوامیس حکم البقر‘‘
اور اس بات پر اجماع ہےکہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے۔
(الاجماع کتاب الزکاۃ ص۴۳حوالہ:۹۱)
ابنِ قدامہ لکھتے ہیں:
’’ لا خلاف فی ھذا نعلمہ‘‘
اس مسئلے میں ہمارے علم کے مطابق کوئی اختلاف نہیں۔(المغنی ج۲ص۲۴۰مسئلہ:۱۷۱۱)
احناف کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں
جانوروں کی نسل کا اعتبار ہو گا، علاقائی ناموں کا نہیں
انہی چار جانوروں کی قربانی پوری امت ِمسلمہ کے نزدیک اجماعی و اتفاقی طور پر مشروع ہے۔ ان جانوروں کی خواہ کوئی بھی نسل ہو اور اسے لوگ خواہ کوئی بھی نام دیتے ہوں، اس کی قربانی جائز ہے۔ مثلاً بھیڑ کی نسل میں سے دنبہ ہے۔ اس کی شکل اور نام اگرچہ بھیڑ سے کچھ مختلف بھی ہے، لیکن چونکہ وہ بھیڑ کی نسل اور قسم میں شامل ہے، لہٰذا اس کی قربانی مشروع ہے۔ اسی طرح مختلف ملکوں اور علاقوں میں بھیڑ کی اور بھی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیں جو دوسرے علاقوں والوں کے لئے اجنبی ہیں اور وہ انہیں مختلف نام بھی دیتے ہیں۔اس کے باوجود ان سب کی قربانی بھیڑ کی نسل و قسم ہونے کی بنا پر جائز اور مشروع ہے۔اسی طرح اونٹوں وغیرہ کا معاملہ ہے۔
قربانی کے جانوروں میں سے ایک ''بقر'' (گائے) بھی ہے۔ اس کی قربانی کے لئے کوئی نسل قرآن و سنت نے خاص نہیں فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی زبانی ان کی قوم کو ''بقر'' ذبح کرنے کا حکم دیا، لیکن قومِ موسیٰ نے اس کی ہیئت و کیفیت کے بارے میں سوال پر سوال شروع کر دیے جس کی بنا پر انہیں سختی کا سامنا کرنا پڑا۔سورہئ بقرہ کی کئی آیات اس کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔
انہی آیات کی تفسیر میں امام المفسرین، علامہ ابوجعفر، محمد بن جریر بن یزید بن غالب، طبری رحمہم اللہ (310-224ھ) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و تابعین اور اہل علم رحمہم اللہ کا قول نقل فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :
إِنَّھُمْ کَانُوا فِي مَسْأَلَتِھِمْ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، مُوسٰی ، ذٰلِکَ مُخْطِئِینَ، وَأَنَّھُمْ لَو کَانُوا اسْتَعْرَضُوا أَدْنٰی بَقَرَۃٍ مِّنَ الْبَقَرِ، إِذْ أُمِرُوا بِذَبْحِھَا، ۔۔۔۔۔، فَذَبَحُوھَا، کَانُوا لِلْوَاجِبِ عَلَیْھِمْ، مِنْ أَمْرِ اللّٰہِ فِي ذٰلِکَ، مُؤَدِّینَ، وَلِلْحَقِّ مُطِیعِینَ، إِذْ لَمْ یَکُنِ الْقَوْمُ حُصِرُوا عَلٰی نَوْعٍ مِّنَ الْبَقَرِ دُونَ نَوْعٍ، وَسِنٍّ دُونَ سِنٍّ، ۔۔۔۔۔، وَأَنَّ اللَّازِمَ کَانَ لَھُمْ، فِي الْحَالَۃِ الْـأُولٰی، اسْتِعْمَالُ ظَاھِرِ الْـأَمْرِ، وَذَبْحُ أَيِّ بَھِیمَۃٍ شَاءُ وا، مِمَّا وَقَعَ عَلَیْھَا اسْمُ بَقَرَۃٍ .
''قومِ موسیٰ،گائے کے بارے میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے سوالات کرنے میں غلطی پر تھی۔ جب انہیں گائے ذبح کرنے کا حکم دیا گیاتھا، اس وقت وہ گائے کی کوئی ادنیٰ قسم بھی ذبح کر دیتے تو حکم الٰہی کی تعمیل ہو جاتی اور ان کا فرض ادا ہو جاتا، کیونکہ ان کے لئے گائے کی کسی خاص قسم یا کسی خاص عمرکا تعین نہیں کیا گیا تھا۔۔۔ ان کے لئے ضروری تھا کہ پہلی ہی دفعہ ظاہری حکم پر عمل کرتے ہوئے کوئی بھی ایسا جانور ذبح کر دیتے، جس پر 'بقر' کا لفظ بولا جاتا تھا۔''
(جامع البیان عن تأویل آي القرآن [تفسیر الطبري] : 100/2)
معلوم ہوا کہ جب اللہ تعالیٰ گائے ذبح کرنے کا حکم فرمائے تو گائے کی کوئی بھی قسم یا نسل ذبح کرنے سے حکم الٰہی پر عمل ہو جاتا ہے اور یہ بات لغت ِعرب میں اور اہل علم کے ہاں طَے ہے کہ جس طرح بختی، اِبِل(اونٹ) کی ایک نسل ہے، اسی طرح بھینس، بقر (گائے) کی ایک نسل و قسم ہے ۔
اس سلسلے میں ہم ہر دور کے چیدہ چیدہ علمائے لغت ِعرب کے اقوال پیش کرتے ہیں:
1 لیث بن ابوسلیم تابعی(اختلط في آخر عمرہٖ)(م : 138/148ھ)کا قول ہے :
اَلْجَامُوسُ وَالْبُخْتِيُّ مِنَ الْـأَزْوَاجِ الثَّمَانِیَۃِ .
''بھینس(گائے کی ایک قسم) اور بختی (اونٹ کی ایک قسم) ان آٹھ جوڑوں میں سے ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے۔''
(تفسیر ابن أبي حاتم : 1403/5، وسندہ، حسنٌ)
2 لغت و ادب ِعربی کے امام، ابومنصور، محمدبن احمد، ازہری، ہروی رحمہم اللہ (370-282ھ) فرماتے ہیں :
وَأَجْنَاسُ الْبَقَرِ، مِنْھَا الْجَوَامِیسُ، وَاحِدُھَا جَامُوسٌ، وَھِيَ مِنْ أَنْبَلِھَا، وَأَکْرَمِھَا، وَأَکْثَرِھَا أَلْبَانًا، وَأَعْظَمِھَا أَجْسَامًا .
''گائے کی نسلوں میں سے جوامیس(بھینسیں) ہیں۔اس کی واحد جاموس ہے۔ یہ گائے کی بہترین اورعمدہ ترین قسم ہے۔ یہ گائے کی سب اقسام میں سے زیادہ دودھ دینے والی اور جسمانی اعتبار سے بڑی ہوتی ہے۔''
(الزاھر في غریب ألفاظ الشافعي، ص : 101)
3 امامِ لغت ،علامہ، ابوالحسن،علی بن اسماعیل، المعروف بہ ابن سیدہٖ(458-398ھ) لکھتے ہیں :
وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
''بھینس، گائے کی ایک نسل ہے۔''
(المحکم والمحیط الأعظم : 283/7)
4 عربی زبان کے ادیب اور لغوی ،ابوالفتح، ناصربن عبد السید، معتزلی، مطرزی (610-538ھ) لکھتے ہیں :
وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
''بھینس، گائے ہی کی نسل سے ہے۔''
(المغرب في ترتیب المعرب، ص : 89)
5 مشہور فقیہ ومحدث ،علامہ عبد اللہ بن احمدبن محمد، المعروف بہ ابن قدامہ، مقدسی رحمہم اللہ (620-541ھ) فرماتے ہیں :
وَالْجَوَامِیسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَالْبَخَاتِي نَوْعٌ مِّنَ الْإِبِلِ .
''بھینسیں، گائے کی نوع (نسل) سے ہیں اور بختی، اونٹوں کی نوع (نسل) سے۔''
(الکافي في فقہ الإمام أحمد : 390/1)
6 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے جد امجد، محدث و مفسر، ابوالبرکات، عبد السلام بن عبد اللہ،حرانی رحمہم اللہ (652-590ھ) فرماتے ہیں:
وَالْجَوَامِسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
''بھینسیں، گائے کی ایک نوع (نسل) ہیں۔''
(المحرّر في الفقہ علٰی مذہب الإمام احمد بن حنبل : 215/1)
7 شارحِ صحیح مسلم، معروف لغوی، حافظ ابوزکریا، یحییٰ بن شرف، نووی رحمہم اللہ (676-631ھ)، ابواسحاق شیرازی(474-393ھ) کی کتاب التنبیہ في الفقہ الشافعي کی تشریح و تعلیق میں فرماتے ہیں :
وَیُنْکَرُ عَلَی الْمُصَنِّفِ کَوْنُہ، قَالَ : وَالْجَوَامِسُ وَالْبَقَرُ، فَجَعَلَہُمَا نَوْعَیْنِ لِلبَقَرِ، وَکَیْفَ یَکُونُ الْبَقَرُ أَحَدَ نَوْعَيِ الْبَقَرِ
وَیُنْکَرُ عَلَی الْمُصَنِّفِ کَوْنُہ، قَالَ : وَالْجَوَامِسُ وَالْبَقَرُ، فَجَعَلَہُمَا نَوْعَیْنِ لِلبَقَرِ، وَکَیْفَ یَکُونُ الْبَقَرُ أَحَدَ نَوْعَيِ الْبَقَرِ ۔۔۔۔۔، قَالَ الْـأَزْھَرِيُّ : أَنْوَاعُ الْبَقَر، مِنْھَا الجَوَامِیسُ، وَھِيَ أَنْبَلُ الْبَقَرِ .
''مصنف کا [وَالْجَوَامِیسُ وَالْبَقَرُ] کہنا قابل اعتراض ہے، انہوں نے گائے اور بھینس کو گائے کی نسلیں قرار دیا ہے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ گائے ہی گائے کی دو نسلوں(بھینس اور گائے میں سے)ایک نسل ہو؟۔۔۔ازہری کہتے ہیں کہ بھینس، گائے کی ایک نوع ہے اور یہ گائے کی تمام نسلوں سے عمدہ ترین نسل ہے۔ ''
(تحریر ألفاظ التنبیہ، : 106)
8 لغت ِعرب میں امام وحجت کا درجہ رکھنے والے علامہ، ابوالفضل، محمدبن مکرم، انصاری، المعروف بہ ابن منظور افریقی (711-630ھ) فرماتے ہیں :
وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
''بھینس، گائے کی ایک نسل ہے۔''
(لسان العرب : 43/6)
9 معروف لغوی، علامہ ابوالعباس، احمد بن محمد بن علی، حموی (م:770ھ) لکھتے ہیں :
وَالْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
''بھینس، گائے کی ایک نسل ہے۔''
(المصباح المنیر في غریب الشرح الکبیر : 108/1)
0 لغت ِعرب کی معروف و مشہور کتاب ''تاج العروس'' میں مرقوم ہے :
اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ .
''بھینس، گائے کی نسل سے ہے۔''
(تاج العروس من جواھر القاموس لأبي الفیض الزبیدي : 513/15)
! لغت ِعرب کی معروف کتاب ''المعجم الوسیط'' میں ہے :
اَلْجَامُوسُ حَیَوَانٌ أَھْلِيٌّ، مِنْ جِنْسِ الْبَقَرِ .
''بھینس، گائے کی نسل سے ایک گھریلو جانور ہے۔'' (المعجم الوسیط : 134/1)
نیز اسی کتاب میں لکھا ہے :
اَلْبَقَرُ : جِنْسٌ مِّنْ فَصِیلَۃِ الْبَقَرِیَّاتِ، یَشْمَلُ الثَّوْرَ وَالْجَامُوسَ .
''بَقَر، گائے کے خاندان سے ایک جنس ہے جو کہ بَیل (گائے) اور بھینس پر مشتمل ہے۔'' (المعجم الوسیط : 65/1
نیز اسی کتاب میں لکھا ہے :
اَلْبَقَرُ : جِنْسٌ مِّنْ فَصِیلَۃِ الْبَقَرِیَّاتِ، یَشْمَلُ الثَّوْرَ وَالْجَامُوسَ .
''بَقَر، گائے کے خاندان سے ایک جنس ہے جو کہ بَیل (گائے) اور بھینس پر مشتمل ہے۔'' (المعجم الوسیط : 65/1
بعض لوگ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ گائے اور بھینس کے نام ہی میں فرق ہے۔ اگر بھینس ،گائے کی نسل سے ہوتی تو اس کا نام گائے ہوتا، نہ کہ کچھ اور۔ جب عرف میں اسے کوئی گائے کہتا اور سمجھتا ہی نہیں تو یہ گائے ہے ہی نہیں۔ ان کے لئے عرض ہے کہ بھینس کے لئے عربی میں لفظ ِ''جاموس'' استعمال ہوتا ہے جو کہ فارسی سے منتقل ہو کر عربی میں گیاہے۔ فارسی میں یہ نام ''گاؤمیش'' تھا۔ عربی زبان کی اپنی خاص ہیئت کی بنا پر اس کا تلفظ تھوڑا سا بدل گیا اور یہ ''جاموس'' ہو گیا۔ اس بات کی صراحت لغت ِعرب کی قریباً تمام امہات الکتب میں لفظ ''جاموس'' کے تحت موجود ہے۔اس فارسی نام میں واضح طور پر لفظ ''گاؤ'' (گائے) موجود ہے۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بھینس اصل میں گائے ہی کی ایک نسل ہے۔ چونکہ گائے کی یہ نسل (بھینس) عربی علاقوں میں موجود نہیں تھی، بلکہ عجمی علاقوں میں ہوتی تھی، عربوں کے ہاں معروف نہ تھی، اسی لئے اس کا نام فارسی سے عربی میں لانا پڑا۔
اس کی وضاحت کے لئے ہم معروف عرب عالم ومفتی، شیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ (1421-1347ھ) کا قول نقل کرتے ہیں۔ ان سے بھینس کی قربانی کے بارے میں سوال ہوا اور پوچھا گیا کہ جب بھیڑ اور بکری دونوں کا ذکر قرآنِ کریم نے کیا ہے (حالانکہ یہ ایک ہی نسل [غنم] سے ہیں) تو بھینس اور گائے دونوں کا ذکر کیوں نہیں کیا (اگر یہ بھی ایک ہی نسل ہیں)؟
تو انھوں نے فرمایا :
اَلْجَامُوسُ نَوْعٌ مِّنَ الْبَقَرِ، وَاللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ ذَکَرَ، فِي الْقُرْآنِ، الْمَعْرُوفَ عِنْدَ الْعَرَبِ الَّذِینَ یُحَرِّمُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَیُبِیحُونَ مَا یُرِیدُونَ، وَالْجَامُوسُ لَیْسَ مَعْرُوفًا عِنْدَ الْعَرَبِ .
''بھینس، گائے ہی کی نسل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں صرف ان جانوروں کا ذکر کیا ہے، جو عربوں کے ہاں معروف تھے۔ (دور جاہلیت میں) عرب اپنے پسندیدہ جانوروں کو حلال اور اپنے نا پسندیدہ جانوروں کو حرام قرار دےتے تھے۔ بھینس تو عربوں کے ہاں معروف ہی نہ تھی (اور مقصد حلت و حرمت بتانا تھا، نہ کہ نسلیں)۔''
(مجموع فتاوی ورسائل فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین :
اخیر میں علمائے اہل حدیث کے فتاوے اور تحقیق ملاحظہ ہو
قربانی کے جانور:
قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ: ثَمٰنِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِّنَ الضَّأْنِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِاثْنَیْنِ … الایۃ۔وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ …الایۃ
(سورۃ الانعام:143)
ترجمہ: آٹھ نر مادہ ہیں دو بھیڑوں میں سے، دوبکریوں میں سے، دو اونٹوں میں سے اور دو گایوں میں سے۔
نوٹ: بھینس گائے کے حکم میں ہے اور بھینس کی قربانی جائز ہے۔
بھینس کی قربانی جائز ہے:
وَاجْمَعُوْا عَلٰی اَنَّ حُکْمَ الْجَوَامِیْسَ حُکْمُ الْبَقَرَۃِ ۔
(کتاب الاجماع امام ابن منذر ص37)
ترجمہ: أئمہ حضرات کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔ (یعنی دونوں کا حکم ایک ہے) .
قاضی محمد عبداللہ ایم اے ایل ایل بی (خانپوری ) کا فتویٰ:
تمام علماء کا اس مسئلہ میں اجماع ہے کہ سب بہیمۃ الانعام (چرنے چگنے والے چوپایوں) کی قربانی جائز ہے کم از کم بھینس کی قربانی میں کوئی شک نہیں ہے۔
( ہفت روزہ الاعتصام لاہور ج20 شمارہ42 ،43 ص9)
بھینس کی قربانی غیرمقلدین علماء کی نظر میں:
مولوی ثناء اللہ امرتسری کا فتویٰ:
جہاں حرام چیزوں کی فہرست دی ہے وہاں یہ الفاظ مرقوم ہیں
قُلْ لَّا اَجِدُ فِیْمَا اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا‘‘
(سورۃ الانعام:145)
ان چیزوں کے سواء جس چیز کی حرمت ثابت نہ ہو وہ حلال ہے. بھینس ان میں نہیں اس کے علاوہ عرب لوگ بھینس کو بقرہ (گائے ) میں داخل سمجھتے ہیں۔
تشریح:
ہاں، اگر اس (بھینس ) کو جنس بقر (گائے کی جنس) سے مانا جائے یا عموم بہیمۃ الانعام پر نظر ڈالی جائے تو حکم جواز قربانی کے لئے یہ علت کافی ہے۔
(فتاویٰ ثنائیہ ج1 ص807اخباراہل حدیث ص11 دہلی)
حافظ محمد گوندلوی کا فتوی:
بھینس بھی بقر میں شامل ہے اس کی قربانی جائز ہے۔
(ہفت روزہ الاعتصام ج20 شمارہ9،10،ص 29 )
بدالقادر حصاروی ساہیوال کا فتویٰ:
خلاصہ بحث یہ ہے کہ بکری گائے کی (قربانی ) مسنون ہے اور بھینس بھینسا کی قربانی جائز اور مشروع ہے اور ناجائز لکھنے والے کا مسلک واضح نہیں ہے۔
(اخبار الاعتصام ج26 شمارہ150 بحوالہ فتوی علمائے حدیث ج13 ص71 ) 6.
ابوعمر عبدالعزیز نورستانی کافتویٰ:
مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر میری رائے میں ان علماء کا مؤقف درست اور صحیح ہے جو (بھینس کی قربانی کے) قائل ہیں۔
(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ، از حافظ نعیم الحق ملتانی ص154) 7.
حافظ عبدالقہار نائب مفتی جماعت غرباء اہلحدیث کراچی کا فتویٰ:
واضح ہو کہ شرعاً بھینس چوپایہ جانوروں میں سے ہے اور اس کی قربانی کرنا درست ہے۔ کیونکہ گائے کی جنس سے ہے گائے کی قربانی جائز ہے اس لیے بھینس کی قربانی جائز و درست ہے اس دلیل کو اگر نہ مانا جائے تو گائے کے ہم جنس بھینس کے دودھ اور اس کے گوشت کے حلال ہونے کی بھی دلیل مشکوک ہو جائے گی۔
(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص156) 8.
حافظ احمداللہ فیصل آبادی کا فتویٰ:
میری کئی سال کی تحقیق ہے کہ بھینسے کی قربانی جائز ہے لہٰذا میں آپ کے ساتھ بھینسے کی قربانی کرنے میں متفق ہوں۔
(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص159) 9.
پروفیسر سعد مجتبیٰ السعیدی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
آخر میں لکھتے ہیں کہ لہٰذا گائے کی مانند بھینس کی قربانی بلا تردد جائز ہے.
(بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائزہ ص18 ) 10.
مولوی محمد رفیق الاثری پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
یہ مسئلہ کہ قربانی میں بھینس ذبح کی جاسکتی ہے یا نہیں ۔سلف صالحین میں متنازعہ مسائل میں شمار نہیں ہوا چند سال سے یہ مسئلہ اہل حدیث عوام میں قابل بحث بنا ہوا ہے ۔جبکہ ایسے مسئلہ میں شدت پیدا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے.
احناف کی آخری دلیل کتاب المسائل میں ہے
وتجوز بالجاموس لانہ نوع من البقر
(البحر الرائق ۹/۳۲۴، تاتارخانیہ ۱۷/۴۳۴، شامی ۹/۴۶۶، المحیط البرھانی ۸/۴۶۸، فتاوی محمودیہ ڈابھیل ۱۷/۳۴۹)
(از کتاب المسائل ۲/۲۳۱)
No comments:
Post a Comment