Sunday, 7 August 2016

بیئر روحا

ایس اے ساگر

کیا آپ نے کبھی بیئر روحا کا نام سنا ہے؟ عربی میں بیئر کا مطلب ہے کنواں. مدینہ منورہ سے 80 کلومیٹر دور بیئر روحا اس کا پانی بہت بیماریوں کا علاج ہے 70 انبیائے کرام علیہم السلام نے یہاں پانی پیا، حج کے راستے پر ہے، یہ کنواں مدینہ سے نکل کر ینبع روڈ پہ 80کلو میٹر بعد دئیں ہاتھ پہ آتا ہے. العربیہ میں نوائے وقت کے حوالہ سے پتہ چلتا ہے کہ بدر کا مقام مدینہ سے مکہ جانیوالے پرانے راستے پر آج بھی  تقریباً نصف مسافت پر ہے۔ مدینہ سے کچھ ہی دور سفر کریں تو طویل پہاڑی سلسلہ شروع ہو تا ہے۔ اس پہاڑی راستے میں بھی ایک جدید دو رویہ شاہراہ بنائی گئی ہے جبکہ صدیوں پرانے قافلوں کے راستے پر بھی پختہ سنگل روڈ تعمیر کردیا گیا ہے۔ یہ دونوں سٹرکیں ساتھ ساتھ ہیں۔ بد ر کے راستے کے پہاڑ پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے کسی حد تک مشابہت رکھتے ہیں۔ ان بنجر اور چٹیل پہاڑوں کے درمیان کہیں کہیں سر سبز وادیاں اور نخلستان ہیں۔ ان بستیوں میں جنگلی کیکر کے درخت اور اونٹ نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔

تازہ صورتحال :

آج کے سعودی عرب کا ایک جدید چھوٹا شہر کا نام بدر ہے جو زندگی کی ہر سہولت سے آراستہ ہے۔ یہاں غیر ملکی آباد ہیں جن کا تعلق ڈیرہ غاری خان ڈویژن سے ہے۔ مدینہ سے تقریباً 80 کلو میٹر سفر کے بعد پرانی سٹرک کے دائیں جانب بئیرالروحاء یعنی روحاء کا کنواں ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لشکر نبوی نے پڑائو ڈالا تھا۔ اس کنویں کے حوالے سے تاریخی کتابوں میں کئی روایات ہیں۔ ایک روایت میں ہے کہ لشکر نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں شامل ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو گردے میں شدید درد ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بئیر روحا کے کنویں کا پانی پلایا تو انھیں آرام ملا۔ مقامی لوگ اس پانی کوآب شفاء کہتے ہیں۔ اس کنویں سے پانی نکالنے کیلئے رسی کے ساتھ روایتی بوگی اور ڈبہ باندھ کر پانی نکالا جاتا ہے۔کنویں کی دیکھ بھال ایک ملازم کرتا ہے جس کا نام محمد امجد ہے۔ اس نے بتایا کہ کنویں میں سطح زمین سے 127 فٹ نیچے پانی موجود ہے اور یہ پانی نا قابل علاج امراض کیلئے شفاء کا باعث ہے۔

محل وقوع پر ایک نظر :

کنویں کے پاس ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے روایت ہے کہ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا خیمہ نصب تھا۔ کنواں روحاء اس پہاڑی وادی کے بالکل درمیان میں ہے۔ اس کے پاس کھڑے ہو کر اگر آپ چاروں طرف نظر دوڑائیں تو طویل القامت پہاڑوں نے وادی کوگھیرا ہوا ہے۔ اور یہ جگہ ایک گول پیالے کی طرح ہے۔ کنویں کے چاروں طرف یہ وادی تقریباً دو دو کلو میٹر تک پھیلی ہوئی ہے۔ وادی میں کہیں کہیں کیکر کے خشک درخت اور کھجور کے جھنڈ نظر آتے ہیں۔ بئیر روحا وادی کا منظر دیدنی ہے۔بئیر روحاء سے بدر کی جانب سفر شروع کریں تو چند ہی کلو میٹر بعد پہاڑی وادیوں میں سرسبز و شاداب اور پرکشش چھوٹے چھوٹے قصبے ہیں جہاں تمام روزمرہ اشیاء باآسانی میسر ہیں۔ بدر شاہراہ کے دونوں اطراف راستے میں کئی جگہوں پر اب بھی صدیوں پرانے پتھروں کے بنے بے آباد گھروں کی شکستہ دیواریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ سیلابی گزرگاہوں کیساتھ ان پہاڑیوں پر قدیم درجنوں گھر اب بھی تاریخ اسلام کی پہلی جنگ ’غزوہ بدر‘ میں حصہ لینے والے قافلے کی گزرگاہ کے شاہد ہیں۔ ان گھروں کو اگر آج بھی محفوظ کر لیا جائے تو یہ عظیم تاریخی ورثہ آئندہ آنے والی نسلوں کو تحقیق کا بہت سا مواد فراہم کر سکتی ہے۔ کچھ اور آگے چلیں تو الخیف کا قصبہ آتا ہے۔ پھر الوسطہ اور الفارا کا پڑاو اور پھر الجدید کا قصبہ ہے۔ اس سے کچھ آگے بدر کی منفرد وادی نظر آتی ہے۔ اس وادی میں داخل ہوتے ہی آپکی پہلی نظر اسی سفیدی ملے ریتلے پہاڑ پر پڑتی کہ جس کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ اسی ریتلے پہاڑ کے درے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کے بعد ا للہ کی مدد سے فرشتوں کی صورت میں قافلہ اسلام میں شامل ہوئی اور کفار کو شکست فاش ہوئی۔ آپ کی دوسری نظر مسجد العریش کے میناروں پر پڑتی ہے یہ وہ جگہ ہے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا خیمہ تھا۔ مقام بدر دو پہاڑیوں کے درمیان ہے۔

قرآن مجید کی شہادت :

اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کے دن کا نام یوم الفرقان رکھا۔ قرآن پاک کی سورۃ انفال میں تفصیل کیساتھ جبکہ دوسری سورتوں میں اجمالاً بار بار اس معرکہ کا ذکر فرمایا اور اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح مبین کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا کہ "اور یقیناً اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کی مدد فرمائی بدر میں جبکہ تم لوگ کمزور اور بے سرو سامان تھے۔ تو تم لوگ اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم لوگ شکر گزار ہو جائو" غزوہ بدر رمضان المبارک کی سترھویں تاریخ جمعہ کے روز ہوا۔ مسلمان دستہ تین سو تیرہ افراد، ستر اونٹ، دو گھوڑوں، چھ زریں بکتر اور آٹھ شمشیروں پر مشتمل تھا جبکہ دوسری طرف ہزاروں کفار، سات سو اونٹ، دو سو گھوڑے، سینکڑوں ڈھالیں، تلواریں اور آلات حرب سے لیس تھے۔ مسلمانوں کی جماعت بظاہر کمزور دکھائی دیتی تھی، مگر دل مطمئن تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ساتھ ہیں۔ حق غالب آئیگا اور وہی ہوا کہ حق نے باطل کو وہ شکست دی جو آج بھی دنیا بھر کیلئے مثال ہے۔ غزوہ بدر میں چودہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شہید ہوئے۔ تیرہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو میدان بدر ہی میں مدفون ہوئے مگر حضرت عبیدہ بن الحارث رضی اللہ عنہ نے بدر سے مدینہ واپسی پر زخمی حالت میں وفات پائی اس لئے انکی قبر ’صفرائ‘ میں ہے۔ (زرقانی ج۱ ص544)

سخت ترین ایام :

بدر کے ان چودہ شہید صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اسمائے گرامی ایک بورڈ پر لکھے ہوئے ہیں۔ آبادی کے پھیلاو کی وجہ سے اب یہ جگہ بستی میں گھر گئی ہے۔ شہداء بدر کی قبریں جس جگہ ہیں وہاں اب کوئی نشان نہیں ہے۔ اب یہاں آدمی کے قدسے بلند چار دیواری بنا دی گئی ہے۔ اب گاڑی میں بیٹھ کر بھی آپ اس چار دیواری کے اندر کا منظر نہیں دیکھ سکتے۔ مسلمانوں کے لشکر نے بدر کے میدان میں جس جگہ پڑائو کیا تھا قرآن پاک نے اسے ’’العدوۃا لدنیا‘‘ کہا ہے۔ بدر کا معرکہ جس جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا خیمہ نصب تھا اسی جگہ مسجد العریش ہے۔ یہاں نوافل ادا کئے جاتے ہیں۔ بدر کی مٹی چمکدار ریت کی مانند ہے۔ بدر کے علاقے میں اب بھی کہیں کہیں پرانے طرز کے مٹی اور گارے کے گھر ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے جب ایک بار پوچھا کہ آپ کی زندگی کے سخت ترین دن کونسے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا،
عائشہ ایک دن طائف کا دوسرا بدر کا۔

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1048842395159237&id=229900547053430

No comments:

Post a Comment